سوویت یونین کے ٹوٹنے پرایٹمی ہتھیاروں کودہشتگردوں کے ہاتھوں سے محفوظ رکھنے کیلئے امریکا اور اس کے اتحادیوں نے اربوںڈالرسے ایک پروگرام ’’سی ٹی آر‘‘کے نام سے شروع کیاجو آج کل سینیٹر رچرڈ لوگرکی قیادت میں چل رہاہے ۔روس کو۸۳/ارب ڈالر کی خطیر رقم دیکر اس پر آمادہ کر لیا گیا کہ اس کے ایٹمی ہتھیار اب محفوظ نہیں جس کے بعدروس، یوکرائن ،بیلارس اورقازقستان میں۷۵۰۰/ ایٹمی وار ہیڈ ناکارہ بنا دیئے گئے تھے اوربعدازاںاخراجات ان ملکوں کے وسائل سے وصول کئے گئے۔کچھ حصہ امریکا نے دیا جبکہ باقی ان ممالک کے معدنی وسائل سے پورے ہوئے۔اب کیری لوگرایکٹ میں ’’بجٹ فنکشن ۰۵۰‘‘کے تحت امریکا نے پاکستان کی موجودہ حکومت سے تسلیم کروایا ہے کہ اگر ضرورت پڑی تو’’سی ٹی آر‘‘پروگرام پاکستان میں بھی استعمال کیا جاسکے گا۔اس کے علاوہ امریکا یہ مقصد حاصل کرنے کیلئے مختلف وسائل بھی استعمال کر سکتا ہے۔سی ٹی آرقانون کی ایک معنی خیزشق ’’باہمی افہام و تفہیم سے خطرے کا تدارک‘‘ کے تحت امریکا کو یہ اختیار ہوگاکہ وہ روس والا عمل یہاں بھی دہرا سکے۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ امریکا ہمارے ایٹمی ہتھیاروں کوہمارے لئے خطرہ اور غیر محفوظ بناکرہمیں ان قیمتی ہتھیاروں کو ناکارہ بنانے کا حکم دے سکتا ہے۔مئی ۲۰۰۹ء میں رچڑدڈلوگرکہہ چکا ہے کہ کیری لوگر ایکٹ ’’بجٹ فنکشن ۰۵۰‘‘کے تحت سی ٹی آر کا پاکستان میں اطلا ق ہونا چاہئے۔اس کیلئے (Sting Operation) کئے جا سکتے ہیں۔ اس سے مراد بھیس بدل کرایک خفیہ کاروائی کرنا ہے۔روس میں جو ۳۴۷واقعات ہوئے وہ انہی کاروائیوں کا نتیجہ تھے۔یعنی ایک جعلی مارکیٹ کی تخلیق کرکے ایک پورامنظر نامہ تیار کیا جاتا ہے جسے ’’دام تزویر‘‘میں پھنسانے سے تشبیہ دی جا سکتی ہے۔جوہری دہشتگردی کی عالمی تعریف یہ ہے کہ اس کی استعدادصفر ہوتی ہے اوراگر یہ ہو جائے تو لاکھوں گنا تقصان دہ ہے۔کیری لوگر ایکٹ میں دوسری خطرناک اصطلاح’’کاؤنٹرپرولیفریشن‘‘ کی ہے۔ اس سے امریکیوں کی مراد یہ ہے کہ پھیلاؤ کا تدارک کرنے کیلئے پاکستان اس کا حصہ دار بنے، جوہری عدم پھیلاؤ (نان پرولیفریشن)عالمی قوانین اورقراردادوں کے مطابق ہے لیکن’’کاؤنٹرپرولیفریشن‘‘ امریکی اصطلا ح ہے جوایٹمی نقل و حرکت روکنے کیلئے طا قت استعمال رنے کے بارے میں ہے،اسے اقوام متحدہ کی حمائت حاصل نہیں۔تیسری خطرناک شق کیری لوگر بل میں یہ ہے کہ پاکستان ان تمام لوگوںتک رسائی دے گاجن کا تعلق جوہری حصول سے ہو یعنی پھیلاؤ سے وابستہ لوگ نہیں بلکہ جوہری حصول سے منسلک لوگ،غیرقانونی حصول کی تو بات بھی نہیں کی گئی۔سی ٹی آرپروگرام روس کے خلاف استعمال شدہ شق میںکہا گیا ہے کہ دی جانے والی امداد کی رقم کا مصرف تبدیل نہیں کیا جا سکے گایعنی پاکستان اپنے بجٹ میںسے بھی ایٹمی پروگرام پرکوئی رقم خرچ نہیں کرے گا۔
اوباما انتظامیہ پاکستان کے ایٹمی پروگرام کیلئے ’’فوری چار اقدامات‘‘کی پالیسی پر عمل پیرا ہے(ہالٹ،فریز،ریڈیوس اورایلی مینیٹ)۔پہلے ایٹمی پروگرام کوجہاں ہے اسے وہی پر فوری روک دیا جائے ، اس کے بعد منجمد،پھر کم اورآخر میں اس کا خاتمہ کردیا جائے۔اس شق کے بارے میں جب ہلیری کلنٹن سے سوال کیا گیا کہ وہ کس طرح اس امر کا یقین یا علم حاصل کریں گی کہ پاکستان اپنے وسائل سے بھی اپنے ایٹمی پروگرام پرخرچ نہیں کرے گاتو اس کے جواب میں انہوں نے بغیر لگی لپٹی کے کہا کہ’’ یہ بات حکومت پاکستان بتائے گی‘‘ یعنی اپنا ایٹمی بجٹ بتانا پڑے گا۔’’چند سال پہلے سیمورش ہرش کی ایک رپورٹ میں کہاگیا تھا کہ امریکا کا ایک جوائنٹ اسپیشل آپریشنزکمانڈ یونٹ کسی بھی ایٹمی ایمرجنسی سے نمٹنے کیلئے پاکستان میں موجود ہے۔ ’’ایٹمی ایمرجنسی‘‘ سے مرادایٹمی ہتھیاروں تک دہشتگردوں کی رسائی کا خطرہ ہونا ہے۔کیا واقعتا ایسا ممکن ہے کہ دہشتگرد ہمارے ایٹمی ہتھیاروں تک پہنچ سکیں؟‘‘
امریکا میں ایک ’’نیوکلیئرایمرجنسی سرچ ٹیم‘‘بنائی گئی ہے جو امریکا میں ایٹمی دہشتگردی کوروکنے کیلئے جو ائنٹ اسپیشل آپریشنزکمانڈ یونٹ سے مل کر کام کرتی ہے۔کیری لوگر ایکٹ اور سی ٹی آر پروگرام کے مطابق امریکا اپنے ایٹمی پروگرام کو محفوظ بنانے کیلئے اپنی ٹیمیں دنیا میں کہیں بھی بھیج سکتا ہے۔امریکا نے پاکستان کے ایٹمی ہتھیاروں کومحفوظ بنانے کیلئے جتنی بھی کو ششیں کی ہیں ان کی بنیاد دومختلف استشنائی صورتوں (Exemtions) پر تھی،ایک یہ کہ پاکستان میں ملٹری اسٹیبلشمنٹ ختم ہو جائے ،دوسری یہ کہ پاکستان کے ایٹمی ہتھیاروں کو محفوظ کرنے میں کامیابی کیلئے ضروری ہے کہ امریکی ٹیم پاکستانی افواج کے ساتھ مل کر کام کرے،یہ دونوں متضادباتیں ہیں۔پاکستان کے ایٹمی ہتھیاروںتک دہشتگردوں کی رسائی قطعی ناممکن اور غیر حقیقی بات ہے ۔
ان ہتھیاروں کے گردکئی محفوظ اورسخت ترین حفاظتی حصار ہیں اور یہ متعددحفاظتی دائرے ہمہ گیر نوعیت کے ہیںجو کسی بھی ایٹمی تنصیب سے کوسوں میل پہلے شروع ہو جاتے ہیں۔ان پر پہلے پیرامیٹر پر حملہ ہو جائے تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ پاکستان کی کسی حساس تنصیب پر حملہ ہو گیا ہے۔ان تمام حفاظتی دائروں میں خاصی بڑی افرادی اور مسلح قوت دفاع کیلئے موجود رہتی ہے۔ایٹمی دہشتگردی کی اگر بات کریں توصرف وہ تنصیبات اہم ہیں جہاں قابل انشقاق مواد یاایٹمی مواد موجود ہو،ہر جگہ ایٹمی تنصیبات کاحصہ نہیں ہوتیں۔ پاکستان کی تمام دشمن قوتوں کو اس کااحساس ہو چکا ہے۔کیا یہی وجہ تو نہیں کہ پاکستان کے ازلی دشمنوں نے اپنے عزائم میں ناکامی کی بناء پر ایک مرتبہ پھرپاکستانی افواج کے خلاف زہریلا پروپیگنڈہ کرکے اسے قوم کی نظروںمیں بدنام کرنے کی کوششیںشروع کر دی ہیں جس کیلئے حال ہی سپریم کورٹ کا اصغر خان مقدمے کا سہارا لیا جارہاہے؟
فاسق کمانڈوپرویز مشرف نے جس طرح اپنے آقاؤں کو خوش کرنے کیلئے ایک غلط الزام میںڈاکٹر عبدالقدیرکوٹی وی پر بلا کر رسوا کیا ،اس کوپاکستانی تاریخ میں سیاہ لفظوں سے ہمیشہ یاد رکھا جائے گا ۔ایٹمی پھیلاؤ کے حوالے سے بڑی حدتک مبالغہ آرائی سے کام لیا گیاہے۔ دنیا میں جوہری پھیلاؤکی قانونی حیثیت جوہری عدم پھیلاؤ کے معاہدے ’’این پی ٹی‘‘ سے منسلک ہے جس پر ۱۹۶۹ء میں دستخط کئے گئے تھے۔اس معاہدے کے مطابق دنیا کو ایٹمی اور غیر ایٹمی ریاستوں میں تقسیم کیا گیا۔۱۹۶۷ء سے پہلے جوہری تجربہ کرنے والوں کو ایٹمی طاقت اور اس کے بعد جس ملک نے بھی ایٹمی دہماکہ کیا اسے بین الاقوامی قانون کے تحت غیر جوہری ملک سمجھا جاتا ہے۔پاکستان چونکہ این پی ٹی کا رکن نہیں اس لئے جوہری پھیلاؤ کا الزام بھی غلط ثابت ہوتا ہے۔
اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قرارداد کے مطابق اپنے دفاع وتحفظ کی خاطرکسی بھی ملک کو ایٹمی ٹیکنالوجی کے حصول اور استعمال کا حق حاصل ہے۔ اس طرح پاکستان نے ایٹمی صلاحیت اپنے حق کے طور پر استعمال کی۔ڈاکٹر عبدالقدیر کوجس پھیلاؤ کا ذمہ دار قراردیا جا رہا ہے دراصل یہ تو پاکستان کی ایٹمی صلاحیت کو ختم کرنے کی سازش کاپہلا قدم ہے جبکہ اس کی حقیقت یہ ہے کہ ۴۴ملکوں تک پھیلے ہوئے ایک نیٹ ورک نے یہ کام کیا۔اس نیٹ ورک نے بین الاقوامی بلیک مارکیٹ کا استعمال کرتے ہوئے مختلف ممالک میں ایٹمی مواد بھیجااورآج تک یہ ثابت نہیں ہوسکاکہ پاکستان سے باہر کوئی بھی متعلقہ سامان باہر بھیجا گیاہے۔اس بین الاقوامی نیٹ ورک نے بلیک مارکیٹ کے علاوہ بین الاقوامی قوانین میں موجود خامیوں اور کمزوریوں کا فائدہ اٹھایا۔اصل میں یہ کام یورپ، ملائشیا،جنوبی افریقہ ، اسرائیل،امریکا،برطانیہ،سوئٹزرلینڈ کے علاوہ بھارت میں ہوا۔اس سارے عمل میںاب تک پاکستان کے متعلق کوئی ٹھوس ثبوت سامنے نہیں آیابلکہ اس کے برعکس پاکستان نے بحیثیت ذمہ دارریاست وہ تمام اقدامات کئے جوایٹمی عدم پھیلاؤیقینی بنانے کیلئے ضروری ہیں۔ کمانڈاینڈ کنٹرول سسٹم کواس قدر مضبوط بنایا گیا ہے کہ تمام متعلقہ عالمی ادارے اس پر کوئی انگلی نہیں اٹھا سکے۔
جہاں تک ایٹمی ہتھیاروں کے غیر محفوظ ہو نے کا الزام ہے تو اس بارے میں حقائق یہ ہیں کہ امریکا میں ۴ہزار میٹرک ٹن افزودہ یورینیم لا پتہ ہے۔۸۰ء کے عشرے میں دنیا کا سب سے بڑا’’لیول ون‘‘ کا ایٹمی حادثہ’’گرین مائل پاورپلانٹ‘‘ امریکا میں ہوا تھایعنی اس میں تابکاری باہر تک پھیلی۔اس حادثے کے اثرات’’لیول۵‘‘کے تحت پلانٹ کے اندر بھی پڑے۔سوویت یونین کے دور میں’’چرنوبل‘‘کا ایٹمی حادثہ ’’لیول۳‘‘تھا یعنی گرین مائل پلانٹ سے کہیں کم۔سوویت روس میں ایٹمی مواد لاپتہ یا بے قاعدگی کے اب تک۳۴۷ واقعات ہوچکے ہیں۔ان دونوں ملکوں کی آئی اے ای اے میں سیفٹی کنٹرول درجہ بندی بھی بہتر نہیں۔برطانیہ میں ۷۰ء کے عشرے میں ’’سیل فیلڈ پروگرام‘‘کے خلاف گرین پیس کی تحریک زوروں پر تھی کیونکہ تابکاری فضاء میں جاری تھی جس سے عام لوگ متاثر ہوئے ۔عام کی جانے والی دستاویزات کے مطابق وہاں بعض ایٹمی تجربات آبادی والے علاقوں میں بھی کئے گئے۔
بھارت آئی اے ای اے میں حفاظتی اقدامات کے حوالے سے بدترین ریکارڈ کا حامل ہے۔وہاں ۲۰ سے زائدواقعات ایٹمی مراکزمیں حادثات سے متعلق ہیں۔ان حادثات میں تابکاری پھیلنااورجوہری پلانٹ میں آتشزدگی کے واقعات شامل ہیں۔کلپاکم ایٹمی پلانٹ ،ممبئی کے نواح میں واقع ’’بھابھا اٹامک ریسرچ سنٹر‘‘اورکائیگاایٹمی مرکزمیں حادثے ہوئے،بھارت کے ایک ایٹمی پلانٹ نارورا میں حادثہ ہواتو ۵۶لوگوں کو دیر تک ہسپتالوں میں رکھا گیا۔وہاں کوئی آزادریگولیٹری اتھارٹی نہیں اس لئے بہت سے حقائق نظروں سے ابھی تک اوجھل ہیں۔بھارت کے ۲۲میں سے ۱۲/ری ایکٹروں میں حادثات پیش آئے ،چوری کے ۴۸/واقعات پیش آئے جن میں ۴واقعات تو ایسے خطرناک ہیںکہ قابل انشقاق(Fissionable)یورینیم چوری ہو گیاجو آج تک نہیں مل سکاجبکہ اس کے مقابلے میں روس کے ۳۴۷ واقعات میں صرف ایک واقعہ ایسا تھاجس میں اعشاریہ چار[L:4 R:222] یورینیم قابل انشقاق تھا۔بھارت میں ۱۸ماہ تک ۷ سے ۸کلوگرام یورینیم ایک سائنس دان کی تحویل میں رہااور اس کی کسی کو کانوں کان خبر نہ ہوئی جبکہ بم بنانے کیلئے دس سے بارہ کلوگرام یورینیم درکار ہوتا ہے،گویا وہاں انوینٹری کنٹرول کا نظام ہی نہیں کہ مواد کی گمشدگی کا پتہ چلتا۔۲واقعات میں گمشدہ مواد تامل ناڈوسے برآمد کیا گیاجو بھارت کا شورش زدہ ؑصوبہ ہے۔ان کے علاوہ بیشمار واقعات امریکا اور یورپ وغیرہ میں قومی سلامتی کے نام پرچھپا لئے جاتے ہیں۔امریکا میں اس حوالے سے سب سے خطرناک واقعہ ریکارڈ پر موجود ہے کہ ۲ٹریگرتائیوان اورکوریا چلے گئے تھے‘‘۔
دراصل تخفیف اسلحہ کی تمام کوششوں کی سرکردگی وہی ممالک کر رہے ہیں جن کے اسلحہ ساز ادارے دن رات ہتھیاروں کی پیداوار میں مصروف اوران کے اسلحہ تجارت کا حجم خوفناک حدتک بڑھ گیا ہے۔ ان ممالک کی فوجی برآمدات دنیا میں ایک بڑے حجم کے ساتھ اپنی برتری قائم رکھنے کیلئے کچھ بھی کرنے کیلئے ہمہ وقت سازشوں میں مصروف رہتے ہیں۔دنیا میںاس وقت ۲۳/ہزار ایٹمی ہتھیارو میں سے ۲۲/ہزارامریکا اور روس کے پاس ہیں۔ان دونوں ممالک کے پاس دس ہزار جوہری ہتھیار تھے جو اب بڑھ کر۳۵ ہزار تک پہنچ گئے ہیں اوراس پر مستزاد یہ کہ امریکا نے بھارت کے ساتھ جوہری معاہدہ کرکے این پی ٹی کی بنیاد ہی ختم کردی ہے جس کی بناء پر جنوبی ایشیامیں طاقت کا توازن بگاڑنے میں امریکا کا اہم شرمناک اورمنافقانہ کردار ہے۔
پاکستان کوکامیاب ایٹمی صلاحیت کا حامل ملک بنانے میں یقینا ذوالفقار علی بھٹو کا کردارموجود ہے لیکن اس کیلئے ہمارے مایہ ناز سائنسدانوں کی انتھک محنت ، غلام اسحاق خان کی کاوشوں کے ساتھ ساتھ ہماری افواج کاناقابل فراموش کردار شامل ہے جس کو یقینا بے نظیر بھٹو نے اغیار کی سازشوں کے ساتھ مل کرنقصان پہنچانے کی کوشش کرتے ہوئے بی بی سی اورامریکی میڈیاکوایسے بیانات دیئے جس کی وجہ سے پاکستان کی ایٹمی صلاحیت کو نقصان پہنچنے کا شدید خطرہ لاحق ہو گیا تھا اوربالخصوص بے نظیر بھٹو کو جب پاکستانی افوج کے اہم ذمہ داروں کی طرف سے پاکستان کی ایٹمی صلاحیت کے بارے میںبریفنگ کیلئے دعوت دی تو بے نظیر بھٹوامریکی سفیرکو اپنے ہمراہ لیکر وہاںپہنچ گئیں جس کی بناء پر بریفنگ میں فوری تبدیلیوں کا فیصلہ کرتے ہوئے غلام اسحاق کو اس صورتحال سے مطلع کردیا گیا۔ایسی ہی کچھ اوردیگر وجوہات تھیں جس کی بناء پربے نظیر کو سیکورٹی رسک کہا گیا،موجودہ حکومت کیری لوگر بل کے تحت یقینا بے نظیر کے اسی خفیہ ایجنڈے کی تکمیل کیلئے کوشاں ہے ۔امریکا ، بھارت اور اسرائیل اب بھی سمجھتے ہیں کہ جب تک پاکستانی افواج کوبدنام کرکے پاکستانی عوام کے ساتھ ان کا رشتہ کمزور نہیں کردیا جاتا اس وقت تک پاکستان کے ایٹمی صلاحیت کو ختم نہیں کیا جا سکتا۔یہی وجہ ہے کہ بھارت اور اسرائیل کیلئے افغانستان سے امریکی افواج کے ۲۰۱۴ء کے انخلاء سے پہلے پہلے پاکستان کی ایٹمی صلاحیت پرکاری وار کرنے کیلئے پاکستانی افواج کے خلاف میڈیا ٹرائل بڑے زوروشور سے جاری ہے۔