Home / Socio-political / پاکستان انتشارات کی زد میں

پاکستان انتشارات کی زد میں

ڈاکٹر خواجہ اکرام

پاکستان  ان دنوں طرح طرح کے  انتشارات کی ضد میں ہے ۔ ایک طرف پاکستانی اندرونی سیاست  میں الجھا ہوا ہے تو دوسری جانب پاکستان میں فوجی بغاوت کا خطرہ سامنے آیا جو کسی طرح ابھی ٹل گیا ہے ۔خدا کرے ایسا نہ ہو کیونکہ فوج کے اقتدار میں آنےکا مطلب یہ ہے کہ ایک بار پاکستان پھر غیر مستحکم ہو جائے گا کیونکہ حکومت  نئے سرے  سےپھر تمام  معاملات میں دخیل ہوگی ۔جمہوری حکومت  کے تمام اقدامات اور فیصلوں کو کالعدم کرنے کی کوشش کی جائے گی۔ظہار ہے ایسے میں ملک پھر کئی سال پیچھے چلا  جائے گا اور عوام ایک بار پھر بے بسی کی حقیقت سے رو برو ہوں گے ۔لیکن ابھی تو ایسا لگتا ہے کہ خطر ات کے بادل ٹل گئے ہیں لیکن حکومت  کے ایوان میں ایک زلزلہ ضرو ر ہے  کیونکہ ابھی پاکستان کے وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی  کی کورٹ میں پیشی تو ضرور ہوئی لیکن اس حوالے سے فیصلہ آنا باقی ہے ۔ کہا  یہ جارہا تھا کہ  یوسف رضا گیلانی صاحب کو حکومت سے جانا ہوگاکیونکہ انھوں نے کورٹ کی ہدایت کے مطابق صدر پاکستان کے حوالےسے جو خاموشی اختیار کی ہے وہ کورٹ کو منظور نہیں تھا اسی بنا پر انھیں برخواست کرنے کی بات کی جارہی تھی ۔اگر ایسا  کوئی اقدام ہوتا ہے تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ ویزر اعظم کے ساتھ صدر  آصف زرداری صاحب کو بھی اس حوالے پریشانی آنے کا امکان تو تھا ہی اور پاکستا ن کی اپوزیشن پارٹیاں اسی موقعے کا انتظار کر رہی ہیں ۔شاید آنے والے ہفتے میں اس تعلق سے نئے پہلو سامنے آئیں ۔

دوسری جانب امریکہ کی بے چینی بڑھتی جارہی ہے وہ جلد از جلد  پاکستان کے ساتھ  نیٹو کی رسد کے حوالےسے بات چیت کر کے اس رکاوٹ کو ختم کرنا چاہتا ہے۔امريکی محکمہ خارجہ کی ترجمان  وکٹوريہ نولينڈ نے کہا کہ امريکہ پاکستان کو مناسب وقت دينا چاہتا ہے تاکہ پاکستان اپنے اندرونی معاملات حل کرلے اور پاکستان کي پارليمانی کميٹي پاک امريکہ تعلقات کا جائزہ لے رہي ہے اور ہم پاکستان کو مناسب وقت دينا چاہتا ہے تاکہ اس سے معاملات پر بہتر طور پر بات چيت ہو سکے. نے کہا کہ ہمارے سفارتخانے اور سفارتکار پاکستان کے ساتھ رابطے ميں ہيں اور امريکا پاکستان کي سويلين امداد جاري رکھے ہوئے ہے۔ادھر پاکستان اور افغانستان کیلئے امریکا کے خصوصی ایلچی مارک گراسمین  کے دورہ پاک کے سلسلے میں کئی متضاد خبریں اور بیانات بھی آرہے ہیں کہ پاکستان نے ان کو آنے سے منع کیا ،کچھ خبریں یہ بھی ہیں کہ ابھی حالات اچھے نہیں ہیں اس لیے امریکہ کی جانب سے اس دورے کو منسوخ  کیا گیا۔خود گراسمین نے یہ کہا ہے کہ ہمیں پاکستان کیساتھ تعلقات پر نظرثانی کیلئے پاکستان کی حکومت اور پارلیمنٹ کی کمیٹی کے فیصلوں کا انتظار ہے ،پاکستان میں سیاسی بحران کی موجودگی میں امریکہ سویلین حکومت اور جمہوریت کا حامی ہے ۔ انہوں نے کہا کہ پاکستانی حکومت نے تعلقات پر نظرثانی کیلئے وقت مانگا ہے ،جب پاکستان بات چیت کا عمل دوبارہ شروع کرنے کیلئے تیار ہوجائے توہم تیار ہیں۔ لیکن پاکستان کی وزیر خارجہ کا بیان چونکانے والا اس لیے ہے کہ ان کے لہجے کی تلخی میں کیا راز پوشیدہ ہے یہ ابھی واضح نہیں ہوا ہے ۔وزیر خارجہ حنا ربانی کھر نے کہا ہے کہ سلالہ چیک پوسٹ پر حملے کے بعد پاکستان اور امریکہ کے تعلقات تعطل کا شکار ہیں، مارک گراس مین کو پاکستان آنے سے نہیں روکا۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان اور افغانستان کے لئے امریکہ کے خصوصی نمائندے کو آنے سے نہیں روکا گیا، انہوں نے یہ بھی کہا کہ امریکہ پاکستان پر دباؤڈالنابندکرے۔ ان کے اس بیان سے ظاہر ہے کہ ابھی تک امریکہ اور پاکستان کے تعلقات میں تلخی ہے ۔

اس کے علاوہ بھی ایک طوفان پاکستان کے سامنے کھڑا ہے وہ ہے منصور اعجاز کا پاکستان آنا۔ خبروں کے مطابق انھیں پاکستان کا ویزا مل چکا ہے اور انھوں نے یہ کہا کہ ان کے پاس بہت سے شواہد ہیں جو پاکستان کی سیاسی شخصیات کے لیے لزرہ خیز بھی ہوسکتے ہیں ۔یہ تمام احوال و کوئف ایسے ہیں جو پاکستان کو سیاسی اعتبار سے منتشر کر رہے ہیں جو در اصل پاکستانکو غیر مستحکم کرنے کی جانب ہی ایک قدم ہے ۔

About admin

Check Also

یہ دن دورنہیں

امریکہ نے پاکستان کی سرزمین پر پہلاڈرون حملہ ۱۸جون ۲۰۰۴ء کوکیا۔ یہ حملے قصر سفیدکے …

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *