Home / Socio-political / پاکستان اور عدلیہ کا بحران

پاکستان اور عدلیہ کا بحران

پاکستان اور عدلیہ کا بحران

ایسا لگتا ہے کہ پاکستان اور بحران متبادل الفاظ ہیں کہ پاکستان سے بحران اور بحران سے پاکستان کی شناخت مکمل ہوتی ہے۔ پرویز مشرف کے ہی دور سے پاکستان کو جس بڑے بحران کا سامنا ہے وہ ہے عدلیہ کا بحران۔ جو کام پرویز مشرف نے اپنے دور حکومت میں چیف جسٹس افتخار چودھری کو معطل کر کے کیا وہی کام موجودہ حکومت مبینہ جمہوریت میں کرنے کے لئے کوشاں ہے۔ عرفان قادر جو پرویز مشرف کے دور میں پراسیکیوٹر جنرل تھے اور چیف جسٹس سے ایک خاص قسم کی مخاصمت رکھتے تھے موجودہ حکومت میں صدر زرداری اور وزیر اعظم گیلانی کے دست راست کی حیثیت رکھتے ہیں اور اس حکومت سے بھی وہی فعل سرزد کروانا چاہتے ہیں جو مشرف نے کیا لیکن اس بار دام کو اور مضبوط کرنے کی کوشش کی کی گئی ہے اور اس کا دائرہ بھی چیف جسٹس کے علاوہ ان کے اہل خانہ تک پھیلایا گیا ہے۔ اس بار چارہ ملک ریاض ہیں جن کو چیف جسٹس اس لئے اچھے نہیں لگتے کہ جیف جسٹس ملک ریاض کی فائلوں پر خصوصی توجہ نہیں دیتے جن کی ملک ریاض کو عادت پڑ چکی ہے۔  ملک ریا ض نے خود ہی ایک ٹی۔ وی انٹر ویو  میں کہا کہ وہ فائلوں میں پہیہ لگوا دینے کے عادی ہیں اور ظاہر سی بات ہے کہ وہ پہیہ کرنسی نوٹوں سے ہی لگ سکتا ہے۔ ملک ریاض جو بحریہ ٹاؤن پروجیکٹ کے مالک ہیں اور ان کے بقول ان کے بچوں نے  افتخار چوہدری کے بیٹے کو 32 کروڑ روپئے رشوت دئے ان کی کمپنی کی ملکیت صرف 22 کروڑ روپئے ہے اور چیف جسٹس اگر اس بات کا ازخود نوٹس لے لے اور جواب طلب کرے تو یہ بات ملک ریاض کی شان میں کستاخی کے مترادف ہے جس کے لئے وہ چیف جسٹس کے خلاف اسٹنگ آپریشن پلان کرتے ہیں اور جب وہاں دال نہیں گلتی ہے تو ان کے بیٹے پر الزام عائد کیا جاتا ہے۔

                بظاہر یہ کہانی بالکل اسی طرح لگتی ہے جیسے اوپر کہی گئی ہے لیکن پاکستان میں اہل نظر یہ بھی کہتے ہیں کہ آخر اس معاملے کا ابھی منظر عام پر آنا کیا معنی رکھتا ہے؟ کیا ایسا نہیں تھا کہ سپریم کورٹ چونکہ وزیر اعظم کی نا اہلی کے متعلق لارجر بنچ تشکیل دینے والی تھی اور عنقریب اس کیس کا فیصلہ ہونا تھا لہذا حکومت نے بہت ہی منظم طریقے سے ملک ریاض کو اس میدان میں اتارا تاکہ سپریم کورٹ اور عوام دونوں کے ذہن کو موڑ دیا جائے اور چیف جسٹس بھی اپنے سر کی آگ بجھانے میں اتنے منہمک ہو جائیں کہ باقی تمام چیزیں ان کے ذہن سے تلف ہو جائیں۔  یہ مفروضہ اس وقت اپنے لئے شواہد حاصل کرتا ہے جب ملک ریاض کی ایک ٹی۔وی چینل پر انٹر ویو کے وقفے کے دوران عبد القادر گیلانی اور نوید قمر جیسے لوگ فون کر کے یہ کہتے ہیں کہ کن کن شخصیات کو اس جال میں پھانسنا ہے۔ عبد القادر گیلانی سے جو شخص موبائل پر ہدایات حاصل کر تا ہے وہ اور کوئی نہیں بلکہ مشرف دور کا ایک وزیر مبشر لقمان ہے جو آج کل ٹی۔ وی کی صحافت کو اپنا میدان عمل یا سازش کا میدان بنانا چاہتا ہے۔

                ان تمام واقعات سے یہ بات صاف ہو جاتی ہے کہ ایوان اقتدار میں بیٹھے ہوئے لوگ ایماندار اور دیانت دار عدالت نہیں چاہتے اور اس روایت کو کچھ اس طرح ختم کرنا چاہتے ہیں کہ یہ اوروں کے لئے نشان عبرت بن جائے۔ ظاہر ہے اس ضمن میں حزب اختلاف بھی بظاہر نہ سہی بباطن حکومت کے ساتھ ہوگی کیونکہ جمہوریت کی آڑ میں سب کو ڈکٹیٹر شپ چاہئے اور آزاد عدلیہ اس راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ فوج اور آئی۔ ایس۔ آئی بھی عدلیہ کو اس لئے پسند نہیں کرتی کہ اس چیف جسٹس نے ان کی بھی ایک نہیں سنی اور متعدد مقدمات میں ان کی نہ صرف سرزنش کرتے رہے ہیں بلکہ انہیں عدالت میں حاضر ہونے پر بھی مجبور کیا ہے۔  اس لئے آج ایوان سیاست یا فوجی بیرکوں میں کوئی بھی اس چیف جسٹس کو پسند نہیں کرتا۔ پاکستان کو پھر لاقانونیت کی طرف دھکیلا جا رہا ہے اور پھر جب لوگوں کے صبر کا پیمانہ لبریز ہونے کو آئے گا تو پھر کوئی نیٹو ، بلوچستان، کشمیر یا مشرقی سرحد کی جارحیت کی طرف عوام کے ذہن کو موڑ دیا جائے گا اور بھولی عوام یہ تمام پس منظر بھول کہ پھر انہیں کے پیچھے نعرہ تکبیر بلند کرتی ہوئی چل پڑے گی۔

About admin

Check Also

یہ دن دورنہیں

امریکہ نے پاکستان کی سرزمین پر پہلاڈرون حملہ ۱۸جون ۲۰۰۴ء کوکیا۔ یہ حملے قصر سفیدکے …

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *