ڈاکٹر خواجہ اکرام
یہ آج کی بات نہیں ہے بلکہ اکثر یہی ہواہے کہ پاکستان کے حوالے سے دنیا بھر کےممالک طرح طرح کے خدشات میں مبتلا ہیں ۔دنیا بھر میں یہ تاثر ہے کہ پاکستان جانا کسی بھی طرح سے محفوظ نہیں ہے ۔یہ ایسا تاثر ہے جو ملک کی ترقیات میں رکاوٹیں ڈالتا ہے۔خواہ وہ اقتصاد کا معاملہ ہو یا تجارت کا یا ثقافتی لین دین کا ہر معاملے میں ایسے ملک کو خسارہ ہوتا ۔ دنیا کے اور کئی ممالک کی طرح پاکستان بھی رفتفہ رفتہ اسی طرح کے ممالک کی فہرست میں شامل ہورہا ہے۔ آج کے ممالک اقتصاد کے ساتھ ساتھ کھیل کے تعلقات سے بھی قریب آرہے ہیں۔ لیکن بد قسمتی سے پاکستان دیگر ممالک سے اب بھی کھیل کے تعلقات بحال نہیں کرسکا ہے۔ ابھی بنگلہ دیش کے دورے سے یہ امید جاگی تھی لیکن بالآخر وہی ہوا جس کا ڈر تھا۔ ایک عرصے کے بعد پاکستان اپنے ملک میں بین الاقوامی کرکٹ کی واپسی کی تیاریاں زور و شور سے کر رہا تھا کہ اچانک خبر آئی کے بنگلہ دیش کی ٹیم کا دورہ وہاں کی عدالت میں چیلنج کر دیا گیا ہے۔ ذکا اشرف سمیت تمام لوگوں کی پیشانیوں پر لکیریں گہری ہو گئیں، لیکن انہوں نے امید کا دامن پھر بھی نہیں چھوڑا کہ ابھی تو بات عدالت میں ہے اور ہو سکتا ہے کہ عدالت دورہ پاکستان کے حق میں فیصلہ دے دے۔ لیکن رہی سہی کسر عدالت کے فیصلے نے نکال دی کہ بنگلہ دیش کی ٹیم کم از کم چار ہفتوں تک پاکستان کے دورے پر نہیں جا سکتی۔ ہر چند کہ بنگلہ دیش کرکٹ بورڈ کے لوگوں نے کافی افسوس کا اظہار کیا اور پاکستان کرکٹ بورڈ کو ہر بات سے باخبر رکھا لیکن پاکستان کے لئے یہ کڑوا گھونٹ پینا بہت مشکل تھا اور یہ کڑواہٹ کئی لوگوں کے بیان میں دکھائی دی۔
ایک طبقے کا ماننا ہے کہ چونکہ بنگلہ دیش کرکٹ بورڈ کے چئر مین مصطفے کمال کو آئی۔سی۔ سی کا وائس پریزیڈنٹ بننے کے لئے پاکستان کے بھی ووٹ کی ضرورت تھی اس لئے انہوں نے اس دورے کا وعدہ کیا تھا۔ ہو سکتا ہے ایسا بھی ہو۔ لیکن غور کریں کہ اگر ذکا اشرف کسی ملک سے وعدہ کر لیں تو چاہے جس مقصد کے تحت کیا وعدہ تو وفا ہوگا۔ مصطفے کمال کی بھی یہی خواہش رہی ہوگی لیکن اگر عدالت میں بات چلی جائے تو کوئی کیا کرے۔
تمام باتوں کے علاوہ یہ بھی دیکھنا ہوگا کہ آخر ایسا ہو ا کیوں؟ یہ بھی دیکھنا ہوگا کہ۳ مارچ ۲۰۰۹ کو سری لنکا کی ٹیم پر حملے کے بعد کیا پاکستان میں حالات تبدیل ہوئے ہیں۔ کیا وہاں امن و امان کی صورت حال ایسی ہے کہ لوگ خود کو محفوظ تصور کریں۔ شدت پسندی کے وہ واقعات ہیں مارچ ۲۰۰۹ سے اب تک کیا کمہ آئی ہے یا اس میں اضافہ ہوا ہے؟ یہ سب جانتے ہیں کہ اس سے وقت سے اب تک کوئی کمی نہیں آئی ہے بلکہ کئی سطحوں پر اس کا اضافہ ہی ہوا ہے۔ایسے ملک کی کیا ضمانت دی جا سکتی ہے جہاں جی۔ ایچ۔ کیو جیسی حساس جگہ پر لوگوں کو یرغمال بنایا جا سکتا ہے۔ ایسے ملک میں کون خود کو محفوظ تصور کرے گا جہاں جیل سے۲۰۰ سے زیادہ انتہائی خطرناک دہشت گرد فرار کرا لئے جاتے ہیں۔ کون مانے گا کہ بنوں میں جیل توڑنے کا واقعہ اتفاقی تھا۔ بنو کوئی چھوٹا سا گاوں یا قصبہ نہیں ہے ، بنوں ایک شہر ہے اور ایسا شہر جس میں کافی دنوں سے امن و امان کی ناقص صورت حال کا شکار ہے۔ ایسا شہر جس میں جگہ جگہ چیک پوسٹ نصب ہیں۔ ایسا شہر جس میں فوجی اور نیم فوجی دستے ہر وقت آپریشن کے لئے تیار رہتے ہیں۔ ایسے شہر میں ۲۵ سے زیادہ گاڑیوں پر دندناتے ہوئے آئے اور دہشت گردوں کو نہ صرف چھڑا کر لے گئے بلکہ اس جیل میں اچھے خاصے وقت تک ٹھہرے بھی۔ اگر مان بھی لیا جائے کہ یہ کارروائی اچانک ہوئی تو بھی اس کے لئے بھی کیا ہم کسی دوسرے ملک یا دوسری طاقت کو ذمہ دار ٹھہرائیں گے؟ کیا ہم اسے بھی بھارت، امریکہ یا اسرائیل کے سر پر ڈالیں گے؟ بالکل ایسا نہیں ہے ، بات یہ ہے کہ پاکستان کی موجودہ حکومت امن و امان کی بحالی کے حوالے سے کافی غیر معتبر ہے ۔ کسی بھی فرنٹ پر اس حکومت نے کوئی نمایاں کار کردگی نہیں کی ہے کہ کہا جائے کہ پاکستان میں امن و امان کی صورت حال بہتر ہے ۔ اب تو معاملہ یہ ہے کہ آئے دن نئی نئی جماعتیں اور گروپ سامنے آرہے ہیں ۔ پاکستان میں جس قدر مسائل ہیں اسی قدر جماعتیں ہیں اور پچھلے چند مہینوں سے یہ بات سامنے آرہی ہےکہ الگ الگ مسائل کے ساتھ نئی نئی شدت پسند جامعتیں سامنے آرہی ہیں ، ان جامعتوں میں زیادہ تر ایسے ہیں جن کا نہ تو پاکستان سے کچھ لینا دینا ہے اور نہ ہی ان کو پاکستان کی سلامتی سے کچھ لینا دینا ہے ، نہ ہی انھیں کسی اسلام اور دین مذہب سے کوئی واسطہ ہے ۔ بس انھیں صرف اپنے مقاصد دے پیار ہے اور وہ یہ سمجھتے ہیں کہ موجودہ کمزور حکومت کو اپنی طاقت کے بل پر جھکایا جاسکتا ہے یا دہشت کے بل پر کوئی بھی کا م کیا جاسکتا ہے ۔ اسی لیے آئے دن جو واقعات ہورہے ہیں ان میں زیادہ تر ایسی ہی جامعتیں ہیں جو شدت پسندی کو اپنےمقاصد کےلیےہوا دے رہی ہیں اور حکومت ان کے انسداد سے قاصر ہے۔
ہو سکتا ہے بنگلہ دیش کے پاکستانی دورہ رد کر نے کے پیچھے کوئی شازش ہو لیکن اس سازش کے لئے ماحول کون فراہم کر رہا ہے۔ کسے فکر ہے کہ پاکستان کی دنیا میں کیسی تصویر ہے۔ حقیقی خطرات کی بجائے کون اپنی اپنی گردنیں بچانے میں لگا ہوا ہے۔ اگر ملک میں امن و امان قائم ہوتا ہے تو ایک بنگلہ دیش منع کرے گی دس ملک کرکٹ کھیلنے آئیں گے لیکن اگر ملک کا ماحول یہی رہا تو پھر خدا جانے اور کیا ہوگا۔ اس لیے ان تمام حالات کے ہیش نظر یہی بہتر ہے کہ حکومت نہ صرف کر کٹ کے حوالے سے بلکہ اور بھی کئی ایسے مواقع نکالنے کی کوشش کرے تاکہ دنیا بھر کے لوگ اس میں شریک ہونے پاکستان آئیں اور خاص کر ہمسایہ ممالک اس سلسلے میں زیادہ اہم ہیں ۔اگر ہمسایہ ممالک کے درمیان پاکستان اپنا اعتماد بحال کر سکے تو یہ اس ملک کے حق میں اور بھی بہتر ہوگا۔