پاکستان میں ہر طرف بد امنی پھیل رہی ہے حکومت سے لوگ بے زار ہو رہے ہیں ۔ایک طرف ڈرون سے حملے ہورہے ہیں تو دورسری جانب امریکہ اس پر بھی مطمئن نہیں ہے اور یہ کہہ رہا ہے کہ پاکستان کی دہشت گردی سے دنیا کو جتناخطرہ ہے اتنا کسی اور ملک سے نہیں ہے یہاں تک کہ افغانستا ن سے بھی اتناخطرہ نہیں ہے اس لیے ضروت اس کی ہے کہ پاکستان سے ملحق مماک آپس میں بیٹھ کر یہ طے کریں کہ ان خطرات سے کیسے نپٹا جا سکاتا ہے۔اس کے لیے باضابطہ یہ تجویز رکھی گئی کہ ہند اسرائیل آپس میں بیٹھ کر اس مسئلے پر سنجیدگی سے سوچیں کیونکہ پاکستان کے اندرونی انتشار سے پڑوسی ممالک کو بھی خطرات لاحق ہیں اس لیے ضروری ہے کہ ان پر نکیل کسی جائے۔یہ تجویز صرف پاکستان کے لیے ہی تشویش کا باعث نہیں بلکہ ہندستان کے لیے بھی تشویش کا باعث ہے کیونکہ آج تک ہندستان نے پاکستان اور افغانستان میں دہشت گردی سے نپٹنے کے لیے کوئی فوجی مدد نہیں کی ہے ۔اب اگر ایسا کرنے پر ہندستان کو امریکہ مجبور کرنا چاہے تب بھی نہیں ہو سکتا کیونکہ ہندستانی عوام اور بیشتر سیاسی پارٹیا ں اس کی مخالف ہیں ۔ لیکن یہ تجویز اپنے آپ میں مستقبل کے خطرات سے آگا ہ کر رہی ہے ، جس کے لیے ان دونوں پڑوسی ممالک کو سنجیدگی سے سوچنا ہوگا۔
یہ بات بھی اپنی جگہ درست ہے کہ پاکستان کے اندرورنی حالات دن بہ دن بگڑتے جارہے ہیں ۔دہشت گردوں کے حملے اتنی تیزی سے بڑھ رہے ہیں کہ خود پاکستان کو سمجھ میں نہیں آرہا ہے کہ کیا کرے اور کیسے ان مصیبتوں سے چھٹکارا پائے ۔مناواں میں پولیس چوکی پر حملہ۔ اسلام آباد میں خود کش حملے اور چکوال کی مسجد میں حملے ۔ہر طرف سے حملے ہو رہے ہیں ۔ پہلے تو اس طرح کے حملوں کے الزامات پڑوسی ممالک کے سر ڈال دیئے جاتے تھے اور پاکستانی عوام بھی اسے مان لیا کرتی تھی مگر اب جب خود پاکستان میں موجود طالبان ان حملون کی ذمہ داری لے رہے ہیں اور صرف ذمہ داری ہی نہیں بلکہ یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ وہ اس طرح کے حملے اس وقت تک کرتے رہیں گے جب تک حکومت امریکہ کو یہ باور نہ کرا دے کہ وہ کسی بھی قیمت پر قبائلی علاقوں پر حملے کو برداشت نہیں کریں گے۔لیکن حکومت کا حال یہ ہے کہ امریکہ کے سامنے وہ کچھ بول بھی نہیں سکتا چہ جائے کہ امریکہ کے سامنے احتجاج کرے۔ اس صورت حال سے طالبان اور بھی پریشان ہیں اور انھوں نے یہ ٹھان لی ہے کہ وہ خود امریکہ کو سبق سیکھائیں گے۔ سوال یہ ہے کہ امریکہ کو سبق سیکھانے کے نام پر وہ پاکستان میں جا بجا حملے کر رہے ہیں ا ور اپنے ہی شہریوں کو مار رہے ہیں۔پاکستانی طالبان یہ سمجھتے ہیں کہ اس طرح کی دہشت پھیلا کر حکومت کو زیر کر لیں گے اور حکومت چار و ناچار امریکہ کو اپنی طاقت سے روکنے کی کوشش کرے گی ۔ لیکن یہ دور کی کوڑی ہے جو کسی بھی طرح نہیں ہو سکتا ۔
ادھر آصف زرداری نے جب یہ دیکھا تو ایک اور چال چلنے کی کوشش کی ہے وہ یہ کہتے اور مانتے ہیں کہ پاکستان میں پنپ رہی دہشت گردی سے ملک کے علاوہ عالمی برادری کو بھی خطرہ ہے اس لیے ان دہشت گردوں سے نپٹنا ضروری ہے ۔ پہلے تو انھوں نے صوفی محمد سے ہاتھ ملا کر یہ سمجھا تھا کہ سوات اور مالاکنڈ کے علاقے میں امن قائم ہو جائے گا ۔ مگر طالبانی فیصلوں نے جس طرح پوری دنیا میں پاکستان کو بدنام کیا اس کا جواب کسی بھی طرح پاکستان سے نہیں بن پا رہا ہے اور اس پر جب اعتراضات ہوئے تو طالبان کے ساتھ ہوئے مفاہمت پر ہی خطرے کے بادل منڈالانے لگے ہیں ۔طالبان اور صوفی محمد نے حکومت سے اپنی ناراضگی کا اظہار کیا ہے اور تحریک شریعت نفاذ کے سربراہ مولانا صوفی محمد نے پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے صدر آصف علی زرداری سے مطالبہ کیا ہے کہ فوری طور پر سوات امن معاہدے پر دستخط کر دیں بصورت دیگر شریعت کے نفاذ کے بغیر سوات میں امن کا قیام ممکن نہیں اورآئندہ پیدا ہونے والی صورتحال کی تمام تر ذمہ داری صدر پاکستان پر عائد ہو گی۔ان حالات کودیکھتے ہوئے فوری طور پر اسے قومی اسمبلی سے پاس کرایا گیا اور اس معاہدے پر صدر نے دستخط کر دیا۔ اس کے بعد یہ توقع کی جاسکتی ہے کہ علاقے میں امن رہے گا اور کوئی ایسی بات نہیں ہوگی جو عالمی میڈیا کے لیے دلچسپی کا سبب ہو۔
حالانکہ اس معاہدے سے امریکہ کو اعتراض ہے محکمہ خارجہ کے ترجمان رابرٹ گبز نے کہا کہ انسانی حقوق کی پامالی کے نام پر سیکورٹی فراہم نہیں کی جاسکتی ،سوات کا معاہدہ انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہے ۔اور افغان صدرحامد کرزئی کے ترجمان نے کہا ہے کہ مالاکنڈ ڈویژن میں نظام عدل ریگولیشنزکے نفاذ سے افغانستان کی سکیورٹی خطر ے میں پڑسکتی ہے، نظام عدل کا نفاذ طالبان کی کامیابی ہے جس سے شدت پسندوں کو فائدہ پہنچے گا،پاکستان دونوں ممالک کے تعلقات پر اس کے منفی اثرات پیش نظررکھے جبکہ ایک ایک تھنک ٹینک کی رپورٹ کے مطابق امریکا پاکستان میں ڈرون حملے بڑھاسکتا ہے،سوات امن معاہدے سے سے اسلام آباد اورواشنگٹن میں درمیان تناوٴمیں اضافہ ہواہے اورپاکستان نے جہادیوں کے سامنے گھٹنے ٹیک دیئے ہیں۔
پاکستان کا دوسرا سر درد یہ ہے کہ امریکہ سختی سے پاکستان کے اندر دہشت گردی کو ختم کرنا چاہتا ہے اس لیے وہ سرحدی علاقوں کے ساتھ ساتھ قبائلی علاقوں کو بھی اپنے حملوں کا نشانہ بنا ناچاہتا ہے ، اس نئی حکمت عملی کے سبب عوام میں کافی غم و غصہ ہے ۔ اس کو دیکھتے ہوئے آصف زرداری نے ایک نیا راستہ نکالنے کی کوشش کی ہے یہ نیا راستہ بھی اگرچہ کسی طرح بھی پاکستانیوں کے لیے قابل قبول نہیں ہوگا۔ باوجود اس کے انھیں یہ یقین ہے کہ وہ اس مسئلے کو سلجھا لیں گے لہٰذا صدر آصف علی زرداری نے کہا ہے کہ امریکا پاکستان کو جاسوس طیارے اور میزائل دے، پاکستان دہشت گردی کے خلاف خود کارروائی کرے گا۔ برطانوی اخبار کو انٹرویو میں صدر زرداری نے کہا کہ دوست ہوں یا اتحادی، کسی کو اپنی سرحدوں کی خلاف ورزی کی اجازت نہیں دے سکتے، صدر اوباما کہہ چکے ہیں امریکا صرف اس وقت کارروائی کریگا جب پاکستان اسکے لئے تیار نہیں ہوگا۔انہوں نے کہا کہ ہم یقیناً کارروائی کیلئے تیار ہیں اورعالمی حمایت سے ہم زیادہ باصلاحیت ہو سکتے ہیں، حکومت کی ایک سالہ کارکردگی کے حوالے سے انھوں نے کہا کہ طویل آمریت کے بعد لوگوں کی توقعات بہت زیادہ تھیں لیکن عالمی مالی بحران اور دہشت گردوں کی کارروائیوں سے پیشرفت توقعات سے کم ہیں۔ انکاکہنا تھا کہ سوات میں امن معاہدہ عوامی مطالبے پر کیا گیا،اسے غلط کہنا قبل ازقت ہوگا۔ صدر پاکستان کے اس انٹرویو سے ان کا یہ خیال سامنے آتا ہے کہ وہ پاکستان کے تئیں مخلص ہیں لیکن یہ وہ خود سوچتے ہیں عوام اس کے بر خلاف ہے ۔
رہی بات نواز شریف کی تو اب ان کے پاس بھی کوئی ایشو نہیں رہ گیا ہے ۔اس لیے اپنی زندگی کا ثبوت دینے کے لیے وہ امریکہ کے حملوں کے خلاف بول رہے ہیں ۔ حالانکہ وہ بھی اندر سے یہ چاہتے ہیں کہ یہ تمام مسائل اور بھی سنگین ہوجائیں تو ان کے لیے سیاست کے راستے اور بھی آسان ہوجائیں گے اسی لیے وہ دبی زبان سے امریکہ کے مخالفت کررہے ہیں اور یہ کہا ہے کہ امریکا پاکستانی علاقوں پر ڈرون حملے فوری طور پر بند کرے اورخطے میں استحکام کیلئے بات چیت کاراستہ اپنایا جائے۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان نے سب سے زیادہ قیمت چکائی ہے۔ رائے ونڈ میں امریکی کانگریس کے چھ رکنی وفد نے میاں نواز شریف سے ملاقات کی۔امریکی وفدمیں جان کلین، کرسٹوفر پی،کارنے،جین ہرمین،جان کیل اورجیف سیشن شامل تھے۔ ملاقات میں میاں نواز شریف کا کہنا تھا کہ ہماری سرزمین خود دہشت گردی کا شکار ہے،پاکستان نے اس لڑائی میں سب سے زیادہ قیمت چکائی ہے۔انہوں نے کہا کہ دہشت گردی کے خلاف فوجی اتحاد نہیں ہر سطح پر تعاون کی ضرورت ہے۔نواز شریف کا کہنا تھا کہ پاکستانی عوام دہشت گردی کی اس نئی لہر سے پریشان ہے۔ مسلم لیگ نواز کے قائد کا کہنا تھا کہ دہشت گردی کا مسئلہ حل کرنے کیلئے شورش زدہ علاقوں کی پسماندگی دور کی جائے اورمسئلہ کا بہترین حل معیشت میں بہتر ی اور تعلیم کا فروغ ہے۔ان کا کہنا تھا کہ امریکا کا ساتھ دینا چاہتے ہیں لیکن قومی مفاد مقدم ہے۔ امریکا دہشتگردوں کیخلاف کارروائی کیلئے پاکستان کی مشکلات کو سمجھے۔انھوں نے زور دیا کہ دہشت گردی کیخلاف جنگ میں طریقہ کارکو تبدیل کرنے کی ضرورت ہے ۔
لیکن اس کے بر خلاف امریکہ کا رویہ سخت سے سخت تر ہوتا جا رہا ہے اور وہ کسی بھی طرح اپنے عزائم سے پیچھے نہیں ہٹنا چاہتا ۔ اس کی وجہ یہ بھی کہ جو بھی امریکی وفد پاکستان اک دورہ کر رہا ہے وہ پاکستان کی دہشت گردی کے خلاف بلند آواز میں بات کرتا ہے ۔ابھی امریکی صدر باراک اوباما کے مشیر بروس رائیڈل نے کہا ہے کہ طالبان کا پنجاب میں مستحکم ہونا پاکستان کے لیے خطرناک ہے۔ القاعدہ پاکستان کو ناکام ریاست بنانا چاہتی ہے۔جرمن اخبار کو انٹرویو میں امریکی صدر کے مشیر برائے مشرق وسطیٰ اورجنوبی ایشیا سے رائیڈل نے کہا کہ طالبان پر دباوٴ ڈالنے کے لیے امریکا پاکستان کے ساتھ مل کر کام کررہا ہے۔ بہت سے جنگجو سخت گیر نہیں ہیں لیکن وہ پیسوں کی خاطر طالبا ن کے ساتھ کام کرتے ہیں۔ ایسے لوگوں کی سوچ تبدیل کرکے صورتحال کو بڑی حدتک بہترکیا جاسکتا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ القاعدہ پاکستان کو عدم استحکام کاشکار کرکے ناکام ریاست بنانا چاہتی ہے۔ پاکستان کے پاس جوہری ہتھیار ہیں اس لیے یہ عالمی برادری کی مفاد میں ہے کہ طالبان کو ان کے عزائم میں کامیاب ہونے سے روکاجائے انہوں نے کہا کہ طالبان کی قیادت اور القاعدہ کی خفیہ پناہ گاہیں پاکستانی حدود کے اندر ہیں اس لیے اس مسئلے کو سنجیدگی سے لیاجاناچاہیے۔ ان کے مقابلے کے لیے پاک فوج کومزید تربیت کی ضرورت ہے ،امریکا اس سلسلے میں پاکستان کی مدد کرناچاہتا ہے۔
جی ہاں امریکہ مدد کے بہانے پاکستان کو نیست نابود کرنا چاہتا ہے یہ سب جانتے ہیں لیکن سوال یہ ہے کہ یہ موقع آخر کس نے دیا ۔ اگر پاکستان خو د ملک کے اندر اس طرح کے عناصر کو شروع سے روکتا اور ان پر سخت کاروائی کرتا تو کوئی وجہ نہیں تھی کہ آج اس کو یہ دن دیکھنا پڑتا ۔لیکن جائے افسوس یہ ہے کہ ابھی تک پاکستان کی سیاسی پارٹیا ں بھی اس معاملے میں موجودہ حکومت کو سپورٹ نہیں کر رہی ہیں ۔ ایسے میں اس ملک کا مستقبل کیا ہوگا یہ ہم جان سکتے ہیں ۔اور پاکستانی عوام کے سامنے مسئلہ یہ ہے کہ وہ کس کس مسئلے پہ روئیں ۔ہر مسئلہ ان کی زندگی اور بقا سے جڑ اہواہے۔
###