Home / Socio-political / پاکستان میں ہندو اقلیت آج بھی سوالوں کے گھیرے میں

پاکستان میں ہندو اقلیت آج بھی سوالوں کے گھیرے میں

پاکستان میں ہندو اقلیت آج بھی سوالوں کے گھیرے میں

پاکستان میں قائد اعظم کے نام کی تشہیر جس پیمانے پر کی جاتی ہے اس دیکھ کر عام لوگوں کو یہی اندازہ ہوتا ہوگا کہ اس ملک کے تمام امور قائد اعظم کے نظریات کے مطابق انجام پاتے ہیں۔ بظاہر حکمران طبقہ اور فوجی قیادت بھی یہی ظاہر کرتی ہے لیکن یہ پاکستان کا وہ چہرہ ہے جس سے پاکستانی سیاسی، مذہبی اور فوجی قیادت نفرت کرتی ہے اور صرف مصلحت پسندی کے تحت استعمال کرتی ہے۔ قائد اعظم سے جب بھی پوچھا گیا کہ ان کا ملک کیسا ہوگا تو ان کا جواب یہ ہوتا تھا کہ جہاں ہر انسان کو اپنے مذہب کو ماننے کی آزادی ہو اور جس میں مذہبی فرقہ پرستی نہ ہو۔ دراصل پاکستان کے بننے کے جو بھی محرکات رہے ہوں وہ اپنی جگہ لیکن قائد اعظم نے ساری زندگی پاکستان کو ایک ایسی مملکت کے روپ میں دیکھنا چاہا جہاں فرقہ پرستی اور علاقائی عصبیت کی کوئی جگہ نہ ہو۔ حیف کہ ان کا یہ خواب نہ تو ان کی زندگی میں شرمندہ تعبیر ہو سکا اور نہ ہی ان کی موت کے بعد۔ آج حالات یہاں تک پہونچ چکے ہیں کہ پاکستان کی ہندو آبادی  آدھی صدی سے زیادہ پاکستان میں گزار دینے کے با وجود بھی خود کو اس ملک میں اجنبی محسوس کرتی ہے۔ یہ بات کوئی اور نہیں بلکہ پاکستان میں انسانی حقوق کے ادارے چیخ چیخ کر کہہ رہے ہیں اور عجیب بات یہ ہے کہ حکومت بجائے اس کے کہ ان کی حالت بدلنے کی سعی کرتی ان کے پاکستان چھوڑنے پر این۔ او۔سی کی شرط عائد کرتی ہے۔ دس اگست ہندوپاک سرحد پر ایسا ہی ایک واقعہ پیش آیا جس میں ہندو یاتریوں کا ایک جتھا جو تقریباً سوا دو سو افراد پر مشتمل تھا بھارت جانے سے روک دیا گیا۔ یہ لوگ سند اور بلوچستان کے باشندے تھے اور مختلف تیرتھوں کی زیارت کے لئے بھارت جا رہے تھے۔ سرحد پر موجود اہلکاروں نے ان کے بھارت جانے کے لئے جو شرط سامنے رکھی وہ یہ تھی کہ ان میں سے ہر ایک کے پاس وزارت داخلہ کا این۔ او۔سی ہونا لازمی ہے ورنہ یہ لوگ بھارت نہیں جا سکیں گے۔ یہ بات ان یاتریوں پر اتنی شاق گزری کہ ان میں سے زیادہ تر لوگوں کی آنکھوں سے آنسو نکل آئے اور بعض نے یہ تک کہہ دیا کہ یہ ہمیں ہندو ہونے کی سزا دی جا رہی ہے۔  بات در اصل یہ ہے کہ کچھ دنوں سے سندھ اور بلوچستان کے کچھ علاقوں سے جبراً مذہب کی تبدیلی اور اقلیتوں کے ساتھ ناروا سلوک کی خبریں آ رہی ہیں لیکن حکومت نے ان واقعات کا کوئی نوٹس نہیں لیا اور حالات جو کے توں رہے۔ حد اس وقت ہو گئی جب اقلیت سے تعلق رکھنے والے نوجوان کو ٹیلی ویژن پر مذہب تبدیل کرتے ہوئے دکھایا گیا اور ساری دنیا میں اس فعل کی مذمت کی گئی۔  اب وزارت داخلہ کو یہ اطلاع ملی ہے کہ سندھ اور بلوچستان سے ہندؤں کا ایک گروپ مستقل طور پر بھارت جانا چاہتا ہے۔ یہ بھی عجیب بات ہے کہ وزارت داخلہ بجائے اس کے کہ ان کے مسائل کو حل کرتی اس پروپیگنڈہ میں مشغول ہو گئی کو ہندوؤ ں کا بھارت جانے کا پلان پاکستان کو بدنام کر نے کی ایک سازش ہے۔ اسی حوالے سے وزارت داخلہ نے آناً فاناً یہ حکم بھی جاری کر دیا کہ پاکستان سے بھارت جانے والوں کو اب وزارت داخلہ سے ایک خط بھی حاصل کرنا ہوگا کہ انہیں ان کے بھارت جانے پر کوئی اعتراض نہیں ہے۔ آناً فاناً کا یہ فیصلہ ہو سکتا ہے کہ ان یاتریوں تک پہونچا ہی نہ ہو یا پہونچا بھی ہو تو خط حاصل کرنے کا موقع ہی نہ مل سکا ہو۔وجہ جو بھی ہو لیکن یاتریوں کو سرحد پر روکے جانے سے یاتریوں میں نہ صرف یہ کہ شدید غم و غصے کا باعث بنا بلکہ انہیں اس بات کا بھی احساس ہونے لگا کہ یہ ملک ان کا ہو ہی نہیں سکتا۔ہر چند کہ بعد ازاں ہندو یاتریوں کو بھارت جانے کی اجازت مل گئی لیکن اس واقعہ سے ایک ایک بڑا سوال یہ پیدا ہو گیا ہے کہ آخر کب تک اقلیوتوں کو اپنی وفاداری ثابت کرنی ہوگی۔ ایک طرف امریکہ جیسا ملک ہے جو ہر ملک و قوم سے تعلق رکھنے والے لوگوں کو اپنی شہریت دیتا ہے اور کبھی یہ نہیں کہتا کہ اپنی وفاداری ثابت کرو دوسری طرف ہم ہیں جہاں اقلیتیں اپنے وجود کے تحفظ کے لئے کوشاں ہیں اور ان سے ہر بار یہی مطالبہ ہوتا ہے کہ آیا وہ اس ملک کے وفادار ہیں یا نہیں؟ اب وقت آگیا ہے کہ یہی سوال ان سوال کرنے والوں سے کیا جائے کیونکہ ملک کو خطرہ اقلیتوں سے نہیں اس سوچ سے ہے جو آج بھی انہیں شک کے گھیرے میں رکھ کر دیکھتی ہے۔

About admin

Check Also

یہ دن دورنہیں

امریکہ نے پاکستان کی سرزمین پر پہلاڈرون حملہ ۱۸جون ۲۰۰۴ء کوکیا۔ یہ حملے قصر سفیدکے …

3 comments

  1. بہت دنوں کے بعد ایسی بے باک بات کہی گءی ہے۔ پتہ نہیں کیوں مجھے لگتا ہے کہ پاکستان میں اعتدال پسندی اب رہی ہی نہیں۔ کءی معاملوں میں عوام بھی بے حس نظر آتی ہے۔

  2. طلحی رحمٰن

    آپ نے بہت صحیح سوال اٹھایا ہے کہ آخر کب تک اقلیوتوں کو اپنی وفاداری ثابت کرنی ہوگی۔

  3. may aapki bat se muttafiqe nahi hun.

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *