Home / Socio-political / پاکستان کا سیاسی انتشار اور ملکی مسائل

پاکستان کا سیاسی انتشار اور ملکی مسائل

پاکستان  میں بیک وقت کئی مسائل ایک ساتھ سر اٹھائے ہوئے ہیں ۔ ایک طرف  بر سر اقتدار  پارٹی کے ساتھ اشتراک اور حمایت کرنے والی ملک کی دوسری سب سے بڑی پارٹی مسلم لیگ ن کو حکومت سے کئی تحفظات ہیں تو دوسری جانب امریکہ نے  حکومت کے  لیے کئی ایسے  مسائل کھڑے کر دئے ہیں کہ حکومت  سخت اضطراب اور انتشار کاشکار ہے ۔نواز شریف اور ان کی پارٹی کی جانب سے بے اطمینانی کا اظہار کیا جاراہے کہ یہ حکومت ملک کے حق میں نہیں ہے اور اس حکومت نے ملک کو اور عوام دونوں کا دھوکا دیا ہے ۔ اسی لیے نواز شریف کی پارٹی کے کئی اہم ارکان نے اپنی ابے چینی کا اظہار کرتے ہوئے یہ اشارہ بھی دیاہے کہ  اگر معاملات ایسے ہی رہے تو  آصف زرداری کے ساتھ مل کر بہت دور نہیں چلا جکاسکتا۔ نواز شریف نے بھی گذشتہ ہفتے میں کئی باراور کئی مواقع پر   حکومت سے عہد شکنی کا شکوہ کیا ہے دوروز قبل لاہور میں ڈیرہ غازی خان،فاٹا اور خیبر پختونخوا کے پارٹی کارکنوں سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ صدر نے شریف برادران کو ڈوگر عدالتوں کے ذریعے نااہل قرار دے کر پنجاب میں گورنر راج لگایا،حکومت کی نااہلی اور کرپشن نے ملک کو مشکل حالات کے بھنور میں پھنسا دیا ہے مسلم لیگ نواز کے پاس ماہرین کی ٹیم موجود ہے جو ملک کو مشکل حالات سے نکالنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ امداد کی بھیک پا کستا ن کی عزت اور وقار کو ہڑپ کر رہی ہے‘آئیں سب ملکر امداد کی بھیک مانگنے پر پابندی لگا دیں۔ انہوں نے کہا کہ 12 اکتوبر 1999ء کے بعد پارٹی کے وہ لوگ جو دھونس‘ دھاندلی اور جبر کی وجہ سے پارٹی چھوڑ گئے اور اگر وہ اپنے کئے پر شرمندہ ہیں تو ہم انہیں خوش آمدید کہیں گے ،نوازشریف نے کہا ہے کہ آصف زرداری نے کسی وعدے کی پاسداری نہیں کی وہ وعدے اور معاہدے توڑتے رہے جب کہ جمہوریت کی خاطر ہم انہیں سینے سے لگاتے رہے۔ان کی پارٹی نے میثاق جمہوریت  کی پاسداری کے حوالے حکومت کو ایک ہفتےکا وقت دیا تھا ۔ جس کی نزاکت کو دیکھتے ہوئے حکمراں جماعت کے ساتھ کل سے گفت و شنید کا دور چل رہا ہے ۔ ملک کی دونوں بڑی سیاسی جماعتوں کے درمیان معاشی حالت کی بہتری، کرپشن کے خاتمے اور بہتر طرز حکمرانی (گڈگورننس) کے حوالے سے 10 نکاتی ایجنڈے پر حالیہ دنوں میں کافی کشیدگی پیدا ہو گئی تھی۔ ن لیگ نے وفاقی حکومت کو اپنے 10نکاتی ایجنڈے پر عملدرآمد کیلئے 45 دن کی مہلت دی تھی جس مین 48 گھنٹے کا اضافہ کیا گیا اور یہ مہلت ۲۵ فروری کو ختم ہونے کو ہے۔ن لیگ نے پنجاب میں اپنی حلیف پاکستان پیپلزپارٹی کی قیادت پر واضح کر دیا ہے کہ وہ ایجنڈے کی ڈیڈ لائن ختم ہونے کے بعد پنجاب میں پیپلزپارٹی کو ساتھ لے کر نہیں چل سکتی جبکہ پی پی پی کی قیادت بھی واضح کر چکی ہے کہ میثاق جمہوریت کا جنازہ نہیں نکلنا چاہئے اور دونوں بڑی جماعتوں نے چار سال قبل میثاق جمہوریت کی صورت میں جس جمہوری سمجھوتے پر دستخط کئے تھے۔ اس کا احترام اور عملدرآمد پیش نظر رہنا چاہئے۔امید یہ  کی جارہی ہے کہ ملک کی مشکل  گھڑی ہے اس لیے دونوں  پارٹیاں ملک کے مفاد کا خیال رکھتے ہوئے  کوئی مناسب قدم اٹھائیں گے۔

          لیکن ایک بات جو اب تک  سمانے نہیں آسکی ہے وہ یہ کہ ایسے وقت میںجب امریکہ کی جانب سے  موجودہ حکومت پر کافی دباؤ ہے کہ وہ ریمنڈس کو اگر رہائی نہیں دیتا ہے تو تمام امداد بند کردئے جائیں گے ۔  ا س پہلو پر دونوں پارٹیوں کے بیچ کوئی صلاح  و مشورہ نہیں ہوا اور نہ کوئی  مشترکہ لائحہ عمل طے کیا ہے اسی لیے نواز شریف  نے دو روز قبل ہی حکومت پر امریکی امداد کی بھیک  نہ لینے کی بات کی ہے ۔ لیکن یہ اتنا آسان نہیں ہےجتنا کہ نواز شریف نے آسانی سے کہی ہے ۔ کیونکہ حالات اندر سے اتنے خراب ہوچکے ہیں کہ امریکہ اپنی  بات منوانے کے لیے قبائلی علاقوں میں بے محار ڈرون حملے  کر رہا ہے۔امریکہ کی جانب سے کیے گئے تازہ حملوں سے  یہ پیغام  پاکستان کو اچھی طرح پہنچ چکا ہے۔ادھر عوام  کی بے  چینی بھی بڑھ رہی ہے ۔ شاید اسی کو دیکھتے ہوئے امریکہ نے پہلی دفعہ افغانستان میں مقید  پاکستانیوں کو رہا  کیا ہے ۔یہ بھی عجیب بات ہے کہ امریکہ کی قید میں پاکستانی شہریوں کی تعداد اور وجہ کے بارے میں کسی کو معلوم نہیں ہے ۔ بی بی سی کے مطابق ‘‘افغانستان پر امریکہ کے گیارہ ستمبر کے حملوں کے بعد سینکڑوں کی تعداد میں پاکستانی شہری القاعدہ اور طالبان کے ساتھ روابط کے الزام میں گرفتار کیے گئے۔ ان میں سے بڑی تعداد میں گرفتار شہری کئی برسوں کی قید و بند کی صعوبتیں برداشت کرنے کے بعد بےقصور قرار پائے اور رہا کر دیے گئے۔ لیکن بعض ابھی بھی امریکی اور افغان جیلوں میں بغیر کسی عدالتی کارروائی کے رہائی کے منتظر ہیں۔افغانستان میں امریکی فوج نے پہلی مرتبہ پچیس سے زائد پاکستانی قیدیوں کی موجودگی کی تصدیق کی ہے۔ تاہم امریکیوں نے ان کی مدت حراست یا شناخت کے بارے میں کچھ بتانے سے انکار کیا ہے۔ اس سے قبل امریکی قیدیوں کی شہریت یا تعداد بتانے سے گریز کرتے رہے ہیں۔’’ شاید  امریکہ کی یہ پہل ریمنڈس کی رہائی یا کسی خفیہ معاہدے کے تحت ہے ۔ لیکن اس کے باوجود تجزیہ نگاروں کا یہ کہنا ہے کہ ریمنڈ س کی وجہ سے امریکہ اور پاکستان کے خفیہ  اداروں کے تعلقات کشیدہ ہوگئے ہیں ۔عالمی اخبار کے ایک رپورٹ کے مطابق ‘‘ایک امریکی اخبار نے دعویٰ کیا ہے کہ پاکستان کی خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی اور امریکی سی ئی اے کے درمیان دوریاں بڑھ گئی ہیں ۔آئی ایس آئی ،سی آئی اے سے علیحدگی کے لئے تیار ہے اور اس وقت دونوں ایجنسیوں کے درمیان کوئی رابطہ نہیں ہے ۔اخبار کا کہنا ہے کہ آئی ایس آئی نے ریمنڈ ڈیوس کا کیس منظر عام پر آنے کے بعد میڈیا کے لئے ایک بیان تیار کیا تھا ،لیکن یہ بیان جاری نہیں کیا گیا ، اس کی نقل امریکی نیوز ایجنسی نے حاصل کی ہے ۔ بیان میں کہا گیا ہے کہ سی آئی اے ریمنڈ ڈیوس کورہا کرانے کے لئے دباؤ کے حربے استعمال کر رہی ہے اور اس معاملے کے بعد سی آئی اے نے دونوں ایجنسیوں کے درمیان تعلقات پر سوالیہ نشان ڈال دیا ہے ۔ ’’
رپورٹ کے مطابق سی آئی اے نے کئی مرتبہ آئی ایس آئی میں گھسنے اور پاکستان کے ایٹمی پروگرام کے بارے میں زیادہ سے زیادہ جاننے کی کوشش کی ہے۔ آئی ایس آئی کو خدشہ ہے کہ اس وقت پاکستان میں سی آئی اے کے سیکڑوں جاسوس سرگرم ہیں جن سے حکومت پاکستان اور انٹیلی جنس ایجنسی لاعلم ہے ۔ آئی ایس آئی ہزاروں امریکی ملازمین کے ویزوں کی جانچ پڑتال کر رہی ہے ۔ آئی ایس آئی کے اہلکار کا کہناہے کہ ڈیوڈ کی ویزہ درخواست میں جعلی حوالے اور فون نمبر دیئے گئے تھے ۔ انہوں نے کہا کہ حکومت نے واشنگٹن میں پاکستانی سفارت خانے کو ہدایت کی تھی کہ وزارت داخلہ اور آئی ایس آئی کی معمول کی جانچ پڑتال کے بغیرویزے جاری کئے جائیں ، اس ہدایت کے بعد سفارت خانے نے گزشتہ پانچ ماہ کے دوران امریکی سفارت خانے کے ہزاروں ملازمین کو ویزے جاری کئے ۔ اس صورات حال میں پاکستان اور امریکہ کے تعلقات میں جو کشیدگی  پیدا ہوئی ہے اس میں مزید تلخیاں پید ہورہی ہیں۔اس طرح  اگر غور کریں  تو پاکستانی حکومت ایک جانب اپنی حلیف پارٹی  کے دباؤ میں ہے تو دوسری جانب  امریکی دباؤ سے بے حال ہے ۔ اگر وقت رہتے موجودہ حکومت نے کوئی مناسب کاروائی نہیں کی تو پاکستان کے اندرونی حالات خراب ہوسکتے ہیں۔

 

 

 

About admin

Check Also

یہ دن دورنہیں

امریکہ نے پاکستان کی سرزمین پر پہلاڈرون حملہ ۱۸جون ۲۰۰۴ء کوکیا۔ یہ حملے قصر سفیدکے …

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *