ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کی ۲۰۱۲ کی رپورٹ شائع ہو چکی ہے اور پاکستان کے حوالے سے رپورٹ میں جو بات کہی گئی ہے وہ عجیب بھی ہے اور شرمناک بھی۔ عجیب اس طرح کہ بقول قمر زمان کائرہ کرپشن کی جو رقم رپورٹ میں بتائی گئی ہے وہ پاکستان کے پانچ سال کے بجٹ سے تجاوز کرتی ہے جبکہ یہ بات اپنے آپ میں شرمناک ہے کہ ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل جیسے ادارے نے پاکستان کوکرپشن میں مبتلا ایک ایسا ملک قرار دیا ہے جس میں پچھلے پانچ برسوں میں ۱۲۶۰۰ ارب روپے کا کرپشن ہوا ہے۔ ریٹنگ کے حوالے سے بات کریں تو پاکستان کی ریٹنگ پہلے ۴۲ تھی جبکہ اب اس کی ریٹنگ ۳۳ ہو گئی ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا پاکستان میں واقعی کچھ ایسا ہو رہا ہے جس سے اس ملک میں کرپشن کو مزید بڑھا وا مل رہا ہے؟ جواب قیام پاکستان سے آج تک کے پاکستان کے تجزیے سے خود بہ خود سامنے آ جاتا ہے۔ قیام پاکستان کے حوالے سے ممکن ہے قائد اعظم مخلص رہے ہوں تاہم ان کے حواریین کے حوالے سے یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ وہ جاگیرداروں کا ایک ٹولہ تھا جو نہیں چاہتا تھا کہ اس کے ہاتھ سے جاگیرداری جائے اور وہ جمہوری ہندوستان میں خود کو بے دست و پا محسوس کرے۔ اقبال نے کیا خوب کہا ہے جو شاخ نازک پہ آشیانہ بنےگا نا پائیدار ہوگا۔ شاید اس کا ادراک قائد اعظم کو بھی تھا یہی وجہ ہے کہ انہوں نے اپنے اس خطبے میں جسے بعد کے قائدین نے اگلی نسلوں تک پہونچانا مناسب نہ سمجھا اور اس کی جی بھر کر کاٹ چھانٹ کی جس میں مختلف مسائل کے ساتھ ساتھ کرپشن پر بھی قائد اعظم نے اپنا نقطئہ نظر واضح کیا تھا۔ آج پاکستان اپنی تاریخ کے جس موڑ پر کھڑا ہے وہاں وہ نہ تو کھلے طور پر اپنے وجود کو کسی غلطی کا نتیجہ قرار دے سکتا ہے نہ ہی وہ یہ کہہ سکتا ہے کہ وہ جس سمت میں سفر کر رہا ہے وہ درست ہے۔ عجیب بے بسی ہے جو پاکستان کے چہرے پر دکھائی دیتی ہے۔ اب آپ کہیں گے پاکستان کا چہرہ ؟ کون سا چہرہ؟ غور سے دیکھیں ، لوڈ شیڈنگ کے خلاف احتجاج کرتا ہوا اور سڑکوں پر ٹائر جلاتا ہوا چہرہ۔ وڈیہروں کے کتوں کے پنجوں سے نچا ہوا چہرہ۔ مختاراں مائی اور ملالہ یوسف زئی کا چہرہ۔ یہ تمام چہرے بے بسی کے وہ چہرے ہیں جو چیخ چیخ کر کہتے ہیں کہ پاکستان میں سب کچھ ٹھیک نہیں ہے۔ ایک ملک جسے ملک خداداد کہہ کر پکارا جاتا ہے کیسے کہا جائے کہ اس کے مسائل بھی خداداد ہیں اور یقیناً نہیں ہیں۔ قائد اعظم نے اگر پاکستان کو مذہبی بنیادوں پر بنا ہوا ملک ماننے سے انکار کر دیا تھا تو اس کی وجہ یہ تھی کہ وہ اس بات کو کیسے نظر انداز کرتے کہ مسلمانوں کی اکثریت نے بھارت چھوڑنے سے انکار کر دیا تھا اور پاکستان بننے کے خلاف تھی۔ اگر مسلمانوں کے لئے ان کے دل میں اتنی محبت تھی تو بھارت میں مسلمانوں کو کس کے سہارے چھوڑا تھا یہ ایک بڑا سوال تھا اور اسی سوال نے محمد علی جناح کو یہ کہنے پر مجبور کیا کہ پاکستان مذہبی بنیادوں پر نہیں بلکہ معاشی بنیادوں پر بنایا ہوا ملک ہے اور اس ملک میں ہر مذہب کو ماننے والوں کو مساوی حق دیا جائے گا۔ قائد اعظم کے اندر اتنی جراءت تھی کہ وہ اپنا موقف بیان کر سکیں لیکن بعد کے قائدین اس جراءت رندانہ سے عاری رہے۔ جب تک پاکستان کی سیاسی اور فوجی قیادت مسائل سے آنکھیں چرا کر اسے مذہبی لبادے سے ڈھکتی رہے گی پاکستان کے حالات جوں کے توں رہیں گے بلکہ قوی امکان ہے کہ مزید خراب ہونگے۔ بہتریہ ہے کہ پاکستان کے حقیقی مسائل کی جانب توجہ دی جائے اور ان کے دیر پا حل کی تلاش کی جائے تاکہ ایک مشکل کا حل ہزار مسائل کا سبب نہ بنے۔
پاکستان کا مسئلہ کیا۔۔۔
پاکستان کا مسئلہ کیا۔۔۔