ڈاکٹر خواجہ اکرام
ان دنوں پاکستان میں ایک کہرام مچا ہوا ہے اور ہر شخص کی زبان پر ایک ہی سوال ہے کہ کیا واقعی اسامہ بن لادن کی موت کے بعد پاکستان کے صدر آصف زرداری اتنے ڈر گئے تھے کہ انھیں امریکہ سے مدد مانگنی پڑی ۔ اس سوال کےجواب میں زیادہ ترلوگ یہی کہہ رہے ہیں کہ یہ قرین قیاس ہے کیونکہ جس انداز سے امریکی کمانڈوز نے بغیر اجازات کے پاکستان کی سر زمین میں گھس کر کاروائی کی اور اسامہ بن لادن کی ہلاک کر کے ان کی لاش بھی ایسی انجانے جگہ میں دفن کردی ۔ اس سے پوری دنیا میں امریکہ کے خلاف شکوک و شبہات کا ایک ایسا سلسلہ قائم ہو اکہ ابھی تک ختم نہیں ہوا، اب تک دنیا میں بیشتر لوگ اس پر یقین نہیں رکھتے کہ واقعی اسامہ وہاں موجود تھے او ر ان کو انھیں امریکی کمانڈورز نے ہلاک کیا۔ لیکن یہ شکوک و شبہات اپنی جگہ لیکن اتنی تو حقیقت ہے کہ امریکہ کمانڈوز پاکستان کی سر حد میں داخل ہوکر انھوں نے یہ پیغام دے دیا کہ امریکہ کسی بھی وقت پاکستان کی سر زمین میں گھس کر کاروائی کر سکتاہے ۔ اس کاروائی کے بعد پاکستان میں عوامی غم و غصہ سامنے آیا کہ کیسے یہ ممکن ہو کہ امریکی فوج داخل ہوجائے ، کاروائی کر کے چلی جائے اور پاکستان کی فوج اور حساس اداروں کو پتہ نہ چلے۔اس سوال کو لے کر موجودہ حکومت کے خلاف جس طرح کا رد عمل سامنے آیا تھا اس سے اس شک کو بھی جگہ ملی تھی کہ ہوسکتا ہے فوجی بغاوت ہوجائے ۔ اس حوالے سے بھی میڈیا میں میں سر گوشیاں ہوئیں تھیں ۔ شاید اسی لیے یہ عین ممکن ہے کہ زرداری صاحب نے اس طرح کا اقدام حفظ ما تقدم کے طور پر کیا ہو۔
اس انکشاف سے یہ بات بھی سامنے آرہی ہے کہ واقعی پاکستان میں جمہوری نظام کو اب تک استحکام نہیں ملا ہے اسی لیے معمولی واقعات بھی پاکستا ن کی جمہوری حکومت کو ہلا کر رکھ دیتی ہے ۔اس ساتھ ہی ایک اور بات جو سب سے زیادہ اہم ہے وہ یہ کہ پاکستان کا سرمایہ دار طبقہ بھی اتنا پاور فل ہے کہ وہ حکموت سے باہر رہتے ہوئے بھی حکومت کے لیے کام بھی کرتا ہے اور حکومت کے لیے مددگار بھی ہوتا ہے ، امریکہ جیسے ملک سے اگر پاکستان کا سرمایہ دار ثالثی کا کردار ادا کرے تو یہ اپنے آپ میں حیرت کی بات ہے کہ ایک سرمایہ دار کی کتنی آسانی سے پاکستانی حکومت تک رسائی ہے۔منصور اعجاز جو نیو یارک میں رہتے ہیں اور اپنے بزنس میں ٕمصروف ہیں ، انھیں کے حوالے سے یہ خبریں عام ہوئیں ۔ غور طلب پہلو یہ ہے کہ ان کی رسائی امریکی اور پاکستانی حکومت دنوں جگہوں پر ہے ۔ ایک خبر یہ بھی ہے کہ اس معاملے میں تمام تر ذمہ دار منصور اعجاز پر عائد ہوتی ہے ، انھوں نے اپنے منشا سے یہ درخواست پہنچائی تھی ۔ اگر اسے غلط بھی مان لیں تو اتنا تو صحیح ہے کہ ایک عام آدمی جس کا تعلق نہ تو حکومت سے ہے اور نہ انتظامیہ سے وہ حکومت کے معاملات میں محض اپنے اثر ورسوخ سے اثر انداز ہو سکتا ہے ۔ یہ اپنے آپ میں بڑی حیرت کی بات ہے ۔ ایاز میر صاحب روزنامہ جنگ میں اپنے ایک کالم میں اس سلسلے میں لکھتے ہیں کہ ‘‘ہمارا ملک شاید دنیا کا سب سے زیادہ غیر محفوظ علاقہ ہے جس کو طرح طرح کے شکوک و شبہات گھیرے میں لیے ہوئے ہیں۔ ہمارے خیالات کی رو صرف ایک سمت ہی بہتی ہے اور وہ یہ ہے کہ پوری دنیا اس اسلامی جمہوریہ کی آہنی بنیادوں کو کمزور بنانے کے درپے ہے۔حسین حقانی اور منصور اعجاز ایک ہی کورٹ میں کھیل رہے ہیں اور ان کے پاس ایک ہی بال ہے۔ بلیک بیری کے ذریعے پیغامات کی ترسیل اس بات کی گواہی پیش کرتی ہے کہ اس میمو ، جس کے منظر عام پر آنے نے ہماری اسٹبلشمنٹ کے ہوش اُڑا دیے ہیں، کی تیاری میں یہ دونوں صاحبان بیک وقت بیٹنگ کریز پر موجود تھے۔ لیکن فرض کریں کہ ایڈمرل مائیک مولن کو بھیجا جانے والا یہی واحد میمو نہیں تھا بلکہ درجنوں اور بھی تھے ، کیا ان پیغامات کے نتیجے میں امریکی پاکستانی فوج کے پر کاٹنے میں کامیاب ہو گئے ہیں ؟ کیا ہماری فوج پنٹاگان کے کنٹرول میں آ گئی ہے اور ہمارے ایٹمی اثاثوں کے مجاور اب امریکی بن گئے ہیں؟’’ انھوں نے جن پہلووں کی جانب اشارہ کیا ہے وہ موجودہ سیاسی کہرام بھی ہے اور پاکستان میں کس طرح لوگ سیاست کو ذاتی مفاد کے لیے استعمال کرتے ہیں جس سے ملک اور قوم دونوں کو نقصان پہنچتا ہے۔
اسی درمیان ایک اہم خبر یہ ہے کہ گذشتہ شب مہمند ایجنسی کے علاقے بائی زئی میں واقع ایک سرحدی چیک پوسٹ پر نیٹو کے ہیلی کاپٹرز کی بلا اشتعال فائرنگ سے 2افسران سمیت12اہلکار شہید جبکہ متعدد زخمی ہو گئے تھے۔ ذرائع نے بتایا کہ افغان سرحد کے قریب مہمند ایجنسی کی تحصیل بائی زئی میں سیکیورٹی فورسز کی سلالہ چیک پوسٹ پر رات گئے نیٹو کے ہیلی کاپٹر نے بلا اشتعال فائرنگ کی۔ حملے میں دو افسروں سمیت 12 سیکیورٹی اہل کار شہید اور 4 زخمی ہوئے۔ پاکستانی فوج کے مطابق صدر مقام غلنئی سے کوئی پچاس کلومیٹر دور مغرب کی جانب تحصیل بائیزئی کے علاقے سلالا میں ایساف اور نیٹو کے ہیلی کاپٹروں نے دو پاکستانی چیک پوسٹوں کو نشانہ بنایا ہے جس میں کئی اہلکار ہلاک و زخمی ہوئے ہیں۔ نیٹو کے ترجمان نے بتایا کہ اتحادی فوج واقعے سے آگاہ ہے اور اس سلسلے میں مزید معلومات جمع کی جارہی ہیں۔ پاک فوج کے ایک ترجمان نے بھی حملے اور جانی نقصان کی تصدیق کی تاہم تفصیلات نہیں بتائیں۔ واقعے کے بعد سیکیورٹی فورسز نے مہمند ایجنسی کے تمام داخلی و خارجی راستوں پرسخت چیکنگ شروع کردی اوربائی زئی جانے والے سڑک ہر قسم کی ٹریفک کے لئے بند کردی ہے۔اس نیٹو ہیلی کاپٹر کی سرحدی چیک پوسٹ پر بلا اشتعال فائرنگ پر پاکستان نے امریکا سے شدید احتجاج کیا ہے۔ اب بعض یہ لوگ یہ بھی کہہ رہے کہ کہیں امریکہ تو ان حالات کا فائدہ نہیں اٹھا رہے ۔اور فوج پر بھی سوال اٹھ رہا ہےکہ پاکستانی سر حدمیں داخل ہونے والے اس طرح کے حملے پر فوج کاروائی کیوں نہیں کرتی ؟ کیا فوج کو پاکستان کی سرحد کی حفاظت کرنے میں ناکام ہو رہی ہے ۔ عوامی حلقے میں اس سے فوج کی ساکھ کمزرو ہورہی ہے ۔
دوسری جانب حالیہ انکشاف سے ایک بڑ ا نقصان یہ ہورہا ہے کہ یہ اب فوج اور حکومت میں عدم اعتماد کی ایک فضا قائم ہو گئی ہے ، جو کسی بھی طرح ملک کی سلامتی کے حق میں نہیں ہے۔لیکن اس کے ساتھ یہ سوال بھی اٹھتا ہے کہ کیا پاکستان میں جمہوریت اتنی کمزور ہے کہ وہ ایک جھٹکے میں گر جائے اور ملک پر فوج قابض ہوجائے ؟ اگر واقعی زرداری صاحب نے اس خوف سے امریکہ کو خط لکھ کر مدد مانگی ہے تو اس سے بہتر ہے کہ وہ بجائے امریکہ کو خط لکھنے کے خود پاکستان کے اندر سیاسی پارٹیوں سے صلاح و مشورہ کرکے جمہوریت کو مضبوط کرنے کی سمت میں کوشش کرتے ۔ ابھی متضاد خبریں آرہی ہیں اب حقیقت جو بھی ہو لیکن یہ قابل غور پہلو ہے کہ پاکستان میں کس طرح سیاسی قوتوں کو مضبوط کیا جائے ؟