Home / Socio-political / پاکستان کیا ہے اور کیسے بنے گا“ ایک تاریخی دستاویز ۔ ۔ ۔ ۔

پاکستان کیا ہے اور کیسے بنے گا“ ایک تاریخی دستاویز ۔ ۔ ۔ ۔

فنافی الپاکستان مولانا عبدالستارخان نیازی

تحریر :۔ محمد احمد ترازی

mahmedtarazi@gmail.com

مجاہد ملت مولانا عبدالستار خان نیازی یکم اکتوبر 1915ءکو ضلع میانوالی کے گاؤں”اٹک پٹیالہ“میں پیدا ہوئے،آپ کے والد ذوالفقارخان ایک نیک سیرت اور پاکباز انسان تھے،دینی گھرانہ ہونے کی وجہ سے مولانا نیازی کو بچپن ہی سے مذہبی ماحول میسر آیا،1933ء میں مولانا عبدالستار خان نیازی نے میٹرک پاس کیا اور حصول تعلیم کیلئے لاہور تشریف لے آئے،لاہور میں آپ نے انجمن حمایت اسلام کے زیر انتظام” اشاعت اسلام کالج“ میں داخلہ لے لیا اور1936ءمیں”ماہر تبلیغ“کی حیثیت سے کالج میں ٹاپ کیا،اسی دوران مولانا عبدالستار خان نیازی کی ملاقات حکیم الامت علامہ اقبال سے ہوئی،اسرار خودی کے مطالعے نے فارسی پڑھنے کے شوق کو اِس قدر ابھارا کہ مولانا نیازی نے چھ ماہ میں منشی فاضل کا امتحان بھی پاس کرلیا،اسی سال آپ نے ایف اے کا امتحان دیا اور اسلامیہ کالج لاہور میں بی اے میں داخلہ لے لیا،یہ وہ زمانہ تھا جب برصغیر پاک وہند میں کانگریس اور مسلم لیگ کا بڑا چرچا تھا،نیشنلسٹ طلباءکی تنظیم”نیشنل اسٹوڈینس فیڈریشن“تعلیمی اداروں میں چھائی ہوئی تھی،چنانچہ1936ءمیں مولانا نیازی،مولانا ابراہیم علی چشتی،میاں محمد شفیع (م،ش)مشہور صحافی حمید نظامی اور عبدالسلام خورشید نے علامہ اقبال کی قیام گاہ پر اُن کے مشورے سے طلباءکی تنظیم ”دی مسلم اسٹوڈینس فیڈریشن “کی بنیاد رکھی،جس کا مقصد مسلم طلباء کو نیشنلسٹوں کے اثر سے بچانا اور سیاسی شعور اجاگر کرکے قیام پاکستان کی راہ ہموار کرنا تھا،مولانا نیازی 1938ءمیں اِس تنظیم کے صدر منتخب ہوئے،صدر منتخب ہونے کے بعد آپ نے ”مسلم اسٹوڈینس فیڈریشن “کے منشور میں پہلی تبدیلی یہ کی کہ ”مسلم اکثریتی علاقوں پر مشتمل ایک الگ خطہ زمین جس میں مسلمانوں کی حکومت ہو“ کو خلافت پاکستان“کا نام دیا،1939میں میں مولانا نیازی نے مسلم اسٹوڈینس فیڈریشن کی جانب سے”خلافت پاکستان اسکیم “نامی پمفلٹ شائع بھی کیا،جس کی ایک کاپی قائداعظم محمد علی جناح کو بھی بھجوائی گئی،جسے قائد اعظم نے مولانا نیازی سے ملاقات میں ایک گرم اسکیم قرار دیا ۔

مولانا عبدالستار خان نیازی نے 1938ءمیں اسلامیہ کالج لاہور میں ایم اے عربی میں داخلہ لے لیا اورایم اے کرنے کے بعد 1942ءمیں اسلامیہ کالج لاہور میں ڈین آف اسلامک اسٹیڈیز کی حیثیت سے خدمات بھی انجام دیں،23مارچ 1940ءکو جب قرار داد لاہور پیش ہوئی،اُس وقت مولانا نیازی ایم اے فائنل ایئر میں زیر تعلیم تھے،اِس اجلاس میں شرکت کرنے والے تمام مقررین کا مدعا اگرچہ پاکستان کا قیام ہی تھا مگرکسی نے اپنی تقریر میں پاکستان کا نام نہیں لیا،یہ اعزاز صرف مولانا عبدالستار خان نیازی کو جاتا ہے کہ آپ نے پہلی بار اِس اجتماع میں”پاکستان زندہ باد“ کا نعرہ لگایا،جو مسلمانوں کے کسی عظیم اجتماع میں پاکستان کیلئے لگایا گیا پہلا نعرہ تھا،مولانا نیازی نے میانوالی ڈسٹرکٹ میں مسلم لیگ کو دوبارہ منظم کرنے کے ساتھ ساتھ مسلم لیگ ضلع میانوالی کے صدر سمیت مسلم لیگ کے کئی اعلیٰ عہدوں پر خدمات انجام دیں،1945ء میں قائد اعظم نے آپ کو ضلع میانوالی سے پرونشل اسمبلی کا ٹکٹ دیا جس پر آپ نے یونینسٹ پارٹی کے امیداوار کو شکست دے کر کامیابی حاصل کی،مولانا نیازی قیام پاکستان کے بعد 1951ءتک مسلم لیگ سے وابستہ رہے،مگر جب مسلم لیگ کو عملاً ایک لمیٹیڈ کمپنی بنادیا گیا تو آپ نے مسلم لیگ سے علیحدگی اختیار کرکے اپنے آپ کو خلافت پاکستان،جس کا مقصد ملکی قوانین کو شریعت کے مطابق بنانا اور اسلامی نظام کا مکمل نفاذ تھا،کیلئے وقف کردیا،مولانا نیازی عمر بھر ایک سربکف مجاہد کا کردار ادا کرتے رہے اور قیام پاکستان کے بعد اپنی وفات 2مئی 2001ءتک اپنے مشن کی تکمیل،مقصد کے حصول اور ریاست کی فوزوفلاح کیلئے کمر بستہ رہے،آپ کی ساری زندگی جبرواستبداد،ظلم واستحصال اور ناانصافی کے خلاف جہاد کرتے ہوئے،غلبہ دین، آزادی جمہوریت اورآمر وقت کے خلاف نعرہ حق بلند کرتے ہوئے گزری،مولانا نیازی اپنی زندگی میں کئی بار قیدوبند کی صعوبتوں سے گزرے،قاتلانہ حملوں کی زد میں آئے،تختہ دار تک پہنچے،مگرکوئی قید،کوئی حملہ،کوئی سزا اور تختہ دار کی اذیتیں مولانا نیازی کے عزم ،حوصلے اور ارادوں کو متزلزل نہ کرسکی۔

تحریک پاکستان میں مولانا عبدالستار خان نیازی کا کردار روز روشن کی طرح عیاں ہے،یہ مولاناہی تھے جنھوں نے پنجاب میں قائداعظم کی تائیدوحمایت میں پہلی اور موثر آواز بلند کی،سر سکندر حیات کی سازشوں کا مردانہ وار مقابلہ کرکے مسلم لیگ کے قیام واستحکام کی راہ ہموار کی اور مسلم لیگ کو اہل پنجاب کے دلوں کی ڈھرکن بنادیا، مولانا پاکستان بنانے والوں میں سے ایک تھے،اُن کا اوڑنا بچھونا سب ہی کچھ پاکستان اور نفاذ اسلام کیلئے تھا،وہ فنافی الپاکستان تھے،وہ پاکستان کو دنیا کے سامنے خلافت راشدہ کی طرز پر ایک جدید فلاحی ریاست کی طورپر دیکھنا چاہتے تھے،مولانا نے اِس مقصد کیلئے متعدد کتابچے اور کتابیں بھی لکھیں جن میں”خلافت پاکستان، مسودہ آئین پاکستان،منشور خلافت،اتحاد بین المسلمین وغیرہ شامل ہیں،زیر نظر کتاب ”پاکستان کیا ہے اور کیسے بنے گا؟“بھی اسی سلسلے کی ایک اہم تاریخی کڑی ہے، جسے1945ءمیں مولانا نیازی نے اپنے تحریکی ساتھی میاں محمد شفیع (م ش) کے ساتھ مل کر مکمل کیا،آج پاکستان کے بارے میں بڑے زوروشور کے ساتھ یہ پروپیگنڈہ کیا جاتا ہے کہ قیام پاکستان کا مقصد کسی مذہبی ریاست کا قیام نہیں تھا،نہ ہی قائد اعظم پاکستان کو ایک اسلامی فلاحی ریاست بنانا چاہتے تھے،سیکولر ذہین لوگ اپنی بات کی تائید میں قائد اعظم کا ایک آدھ بیان بھی سیاق و سباق سے ہٹ کر پیش کرتے ہیں،حالانکہ قائد اعظم محمد علی جناح کے سینکڑوں بیانات ریکارڈ پر موجود ہیں جن میں پاکستان کے اسلامی خدوخال اورقرآن مجید کا بطور دستور نمایاں تذکرہ موجود ہے،قیام پاکستان کا مطالبہ کیوں کیا گیا،اِس کے اسباب و محرکات کیا تھے،کیوں اِس مطالبے کو اِس قدر پزیرائی ملی اور پاکستان میں کونسا نظام نافذ ہوگا۔؟ ہمارا ماننا ہے کہ اِن سوالوں کے صحیح جواباب وہی لوگ دے سکتے ہیں،جنھوں نے پاکستان بنانے کی جدوجہد میں فعال کردار ادا کیا یاجنھوں نے پاکستان بنایا،وہی لوگ بہتر طور پر بتاسکتے ہیں کہ پاکستان کیوں اور کس لیے بنایا گیاتھا،مجاہد ملت کی کتاب”پاکستان کیا ہے اور کیسے بنے گا“آج بھی اِن تمام سوالوں کے اطمینان بخش جوابات فراہم کرتی ہے ۔

قیام پاکستان سے دوسال قبل لکھی گئی اِس کتاب میں مولانا عبدالستار خان نیازی نے برصغیر کی تاریخ،قیام پاکستان کے حالات و عوامل،پاکستان کیسے بنے گا،پاکستان کیا ہوگا اور نئی مملکت کے نظام وقانون سمیت اقتصادیات،علوم و تعلیم اور سلطنت و سیاست پر تفصیلی روشنی ڈالی ہے،مولانا نیازی اِس کتاب میں شریعت فروش مولویوں، نوابوں، برہمنوں، بنیوں،انگریزوں اور پڑھے لکھے طبقے” بابوں“ کو زوال کی علامت اورنفاذ اسلام کی راہ کی سب سے بڑی رکاوٹ قرار دیتے ہیں،شریعت فروش مولویوں کو مارآستین نمبر ایک قرار دیتے ہوئے مولانا نیازی لکھتے ہیں کہ”یہی وہ حضرات ہیں جو کبھی انگلستان کا بادشاہ مرجائے تو اُس کیلئے مسجدوں میں مغفرت کی دعائیں کراتے ہیں،کبھی سود حلال قرار پاتا ہے،کبھی جہادحرام ہوجاتا ہے،کبھی شہدائے کرام حرام موت مرنے والے قرار پاتے،کبھی فاسق و فاجر مسلمانوں کی مذمت کرتے کرتے کافروں کی بیعت کرلیتے ہیں،کبھی دین پر وطن کو غالب قرار دیتے ہیں اور کبھی پرانے اسلام کی جگہ نیا اسلام جاری کرنے کو درس قرآن اور حلقہ تلقین کا ڈھونگ رچایا جاتا ہے،انہی لوگوں کے آباؤاجداد نے جزیہ اور گاؤکشی ہندوستان میں حرام قرار دیئے تھے، یہی ٹیپو سلطان اور افغان مجاہدین کے خلاف سکھوں اور مرہٹوں کے حق میں فتوے دیتے تھے۔“نواب مولانا کے نزدیک ”ہوس و حرص کا غلا م،قوم کا غدار اور دین سے بے پرواہ طبقہ ہے،مولانا لکھتے ہیں کہ ”فرنگی اور مرہٹوں سے اِن نوابوں نے سازش کرکے انہیں ملک میں داخل کیا،میر جعفر سے لے کر میر صادق تک سب نواب ہی تھے،آج سر فضل حسین اور سر سکندر حیات بھی نوابوں ہی کی فہرست میں داخل ہیں،جو ہمارے ہی لٹے ہوئے دسترخوان سے چند ریزے ہمارے سامنے ڈال کر ہمیں یقین دلاتے ہیں کہ دیکھو ہم تمہارے لیے کیا کیا خوان نعمت لائے ہیں۔“وہ برہمنوں کے بارے میں کہتے ہیں کہ ”یہی برہمن مرہٹوں کا پیشوا بن انہیں مسلمانوں کے خلاف لایا،کیونکہ اسلامی مساوات برہمن کے اقتدار کے منافی تھی،یہی تھا جو اُمی چند بن کر سراج الدولہ کی تباہی کا باعث بنا،یہی ٹیپو سلطان کا غدار مشیر مال تھا،اسی نے 1857ءکے انقلاب میں جاٹ مل بن کر جاسوسی کی،اسی نے شیواجی کو گرو بن کر سوراجیہ کا سبق پڑھایا اور یہی مہاتما بن کر عدم تشدد اور چرخے کی آڑ میں اسلامی علیحدگی ختم کرنا چاہتا ہے۔“وہ لکھتے ہیں کہ بنیا مسلمان کے خون کا پیاسا ہے،یہ برہمن جتنا ذہین تو نہیں،لیکن حریص بلا کا ہے،ہیموبقال سے لے کر آج تک اُس کی ہر کوشش اسلامی اقتدار کی تخریب پر ہی مذکور رہی۔“وہ کہتے ہیں کہ فرنگی کا نسخہ حکومت سادہ بھی ہے اور آسان بھی ،پہلے جسم کی طاقت اور دماغ کی چال سے کھانے پینے کا سامان سب چھین لو،پھر بھوک کے ماروں کو بقدر ضرورت وہی سامان دے کر اُن سے جو چاہو کرواتے رہو،اُن کے اخلاق،دین حتیٰکہ فطرت تک بدل ڈالو،نوکری اُن کا مزاج بن جائے، موت کا ڈر اور حاجت کا خوف انہیں جیتے جی مار ڈالے اور سب کچھ ہوتے ہوئے بھی وہ محتاج رہیں۔“بابو کے بارے میں مولانا لکھتے ہیں کہ”کبھی انہیں آزادی کا بخار ہوتا ہے، کبھی جمہوریت کے دورے پڑتے ہیں،کبھی مزدور کی ہمدردی کی قے آنے لگتی ہے، کبھی اصلاح معیشت وتمدن کے دست لگ جاتے ہیں،اِن کے استدلال میں ممالک غیر کی تاریخ سے اکثر مثالیں نقل ہوتی ہیں،گو اپنے جدامجد کا نام بھی یاد نہیں ہوتا۔“

مولانا تعبیر پاکستان کی وضاحت کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ” ہماری تعبیر پاکستان اگر کچھ ہے تو وہ ایک فلسفہ زندگی اور ضابطہ حیات ہے،یہ فلسفہ زندگی اور ضابطہ حیات اپنی تصنیف کے اعتبار سے کچھ نیا نہیں بلکہ وہی اسلام اور شریعت کے تیرہ سو سال پرانے اصول ہیں،ہم نے صرف اِن اصولوں کو موجودہ حالات پر عائد کرکے اِس سے جو نتیجے برآمد ہوئے وہ آپ کے سامنے پیش کیے ہیں۔“مولانا لکھتے ہیں کہ” پاکستان کے معنی ہیں ایک ایسا تمدن،ایک ایسی سلطنت،ایک ایسی اُمت،جس کی بناءمحض توحید و ایمان پر ہو،گویا ہم ہندوستان میں اسلام کا ایک دینی،تمدنی،سیاسی اور جنگی مرکز قائم کرنا چاہتے ہیں،جہاں روحانی، اخلاقی، معاشرتی، اقتصادی، سیاسی، فوجی،نفسیاتی غرض کہ ہر قسم کی قوت نفاذ کے مالک ہم اور صرف ہم ہونگے …. اور ….خلافت پاکستان کی اسلامی حکومت کا قانون دیوانی اور فوجداری معنوں میں شریعت اسلامی پر ہوگا۔“قارئین محترم !یہ تھا وہ تصور پاکستان جس کیلئے ہمارے اسلاف نے بے پناہ قربانیاں دیں اور قیام پاکستان کو ممکن بنایا،ہمارے اسلاف صرف نمازیں پڑھوانے اور روزے رکھوانے کیلئے پاکستان نہیں بنوانا چاہتے تھے بلکہ اُن کے پیش نظر ایک ایسی فلاحی ریاست کا تصور تھا جہاں وسائل رزق سب کیلئے،عدل وانصاف ہر شخص کیلئے،علاج معالجے اور جان ومال،عزت وآبرو کا تحفظ ہر شہری کیلئے ریاست کی ذمہ داری تھی،جہاں وجہ عزت سرمایہ داری وجاگیرداری نہیں بلکہ اعلیٰ اخلاقی اوصاف،دیانت،امانت،تقویٰ اور خداترسی ہوگی ۔

حقیقت یہ ہے کہ اسلامیان ہند نے اسلامی تصور قومیت ہی کی بنیاد پر ہندوؤں سے الگ ہونے کا فیصلہ کیا اور تحریک پاکستان اپنے ارفع مقاصد کے اعتبار سے تحریک احیاءاُمت تھی،مگر افسوس کہ آج تک ہم اُسی جگہ ٹھہرے ہوئے ہیں بلکہ ترقی معکوس کی بدولت آدھا پاکستان گنوا چکے ہیں،قیام پاکستان کے بعد ہمارے غلام حکمرانوں اور ابن الوقت سیاسی لیڈروں نے پاکستان کا جو حشر کیا،وہ سب کے سامنے ہے،اِن لوگوں نے پاکستان کو نہ صرف اُس کی حقیقی منزل سے دور کیا بلکہ خود منزل کو ژولیدہ فکری کے ذریعے خواب پریشاں کرنے میں اب تک مصروف ہیں،چنانچہ اِن حالات میں ضروری معلوم ہوتا ہے کہ نئی نسل کو اِس فکری گمراہی سے بچایا جائے اور انہیں اپنے اسلاف کے سیرت وکردار اور اُن حالات و عوامل سے روشناس کرایا جائے جو قیام پاکستان کی اساس و بنیاد ہیں،”پاکستان کیا ہے اور کیسے بنے گا۔؟“اسی سلسلے کے ایک اہم نادر تاریخی دستاویز ہے،مجاہد ملت مولانا عبدالستار خان نیازی تحریک پاکستان کے روح رواں تھے،زیر نظر کتاب میں مولانا عبدالستار خان نیازی نے قیام پاکستان کے تاریخی حالات و عوامل کے ذکر کے ساتھ مملکت پاکستان کے معرض وجود میں آنے کے بعد اُسے کامیابی وکامرانی سے چلا کر دنیا کے سامنے ایک ماڈل ریاست کے طور پرپیش کرنے کا مکمل لائحہ عمل بھی پیش کیا ہے،صاحب مصنف نے اِس کتاب میں مملکت کے مختلف شعبوں اقتصادیات،دفاع،خارجہ پالیسی،قانون،تعلیم وغیرہ پر بھی اسلامی نکتہ نظر سے سیر حاصل گفتگو کی ہے،کتاب کی ابتداءمیں صاحب بصیرت حضرت بابا بلند کوہی زابلستانی کے وہ فکر انگیز ایمانی ملفوظ بھی شامل کئے گئے ہیں،جو16اور 17مئی 1945ءکوروزنامہ نوائے وقت کی زینت بنے تھے،اِن ملفوظ کے مطالعہ سے واضح ہوتا ہے کہ قیام پاکستان اَمر الٰہی اور مشیعت ایزدی تھا،ہمارا ماننا ہے کہ زیر نظر کتاب مطالعہ پاکستان،تاریخ اور سیاسیات کے طلباء کیلئے بہت سود مند ثابت ہوسکتی ہے کیونکہ کتاب کا مطالعہ نئی نسل کو ماضی کا آئینہ ہی نہیں دکھاتا بلکہ مستقبل کے خطوط بھی متعین کرتا ہے،ہمیں امید ہے کہ تحریک پاکستان کے نامور قائد اور مجاہد مولانا عبدالستارخان نیازی کی تحریر کردہ اِس نادر قیمتی اثاثے کی 66 سال بعددوبارہ اشاعت قیام پاکستان کی وجوہات پر پڑنے والی گرد کو صاف کرنے میں اہم کردار ادا کرے گی،ہم اِس کامیاب کوشش وکاوش پر ماہر نیازیات جناب صادق قصوری اور مجاہد ملت فاونڈیشن کے جملہ رفقاءکو مبارکباد پیش کرتے ہیں،کتاب مجاہد ملت فاونڈیشن،برج کلاں ضلع قصور (پاکستان)پوسٹ کوڈ 55051 سے چالیس روپے کے ڈاک ٹکٹ بھیج کر حاصل کی جاسکتی ہے ۔

About admin

Check Also

یہ دن دورنہیں

امریکہ نے پاکستان کی سرزمین پر پہلاڈرون حملہ ۱۸جون ۲۰۰۴ء کوکیا۔ یہ حملے قصر سفیدکے …

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *