گذشتہ ایک ماہ سے پاکستان کی سیاست ایک بار پھر جنرل مشرف کے ارد گرد گھومنے لگی ہے ۔پارلیامنٹ ، عدلیہ ، سیاسی پارٹیاں ہر طرف ایک ہی شور ہے کہ جنرل مشرف کو ان کے کیے کی سزا ملنی ہی چاہیئے ۔ عجیب بات یہ ہے کہ پاکستان میں وقفے وقفے سے کوئی نہ کوئی ایسا سوال یامطالبہ سر اٹھاتا ہے جس کی حمایت سب کے سب ایک ایک سُر میں کرنے لگتے ہیں اور یہ بھول جاتے ہیں کہ اس سے کس کو فائدہ یا نقصان ہوگا اور واقعی اس مطالبے سے ملک کو کچھ حاصل بھی ہوگا یا نہیں ؟ صرف نظر اس بات پر ہوتی ہےکہ فلاں پارٹی نے یہ مطالبہ سامنے رکھا ہے لہذا ہمیں بھی اس مطالبے میں اپنا اشتراک اور حسہ داری نبھانی ہے کیونکہ ایسا نہ ہو کہ یہ مطالبہ کسی مخصوص پارٹی کے کہنے پر پورا ہوجائے اور اس کا کریڈیٹ صرف اسی کو ملے ۔ اس لیے اکثر یہ دیکھا گیا ہے کہ پاکستان کی سیاسی پارٹیوں کے مطالبے اکثر بغیر سوچے سمجھے اور کسی خاص منصوبے کے بغیر ہوتے ہیں ۔اسی لیے وہاں یہ بھی ہوتا ہے کہ کوئی مطالبہ خالص مطالبہ نہیں رہ جاتابلکہ وہ سیاسی ہتھکنڈا بن جا تا ہے ۔ ا س کی ایک مثال یہ ہے کہ ابھی پورے ملک میں پرویز مشرف کے خلاف ایک ہوا چل رہی ہے اس میں وہ لوگ بھی شامل ہیں جو مشرف کی آج بھی حمایت کرتے ہیں اور کل تو وہ جان نثاروں میں تھے ۔اس میں وہ عدلیہ کےلوگ بھی شامل ہیں جنھوں نے کل مشرف کو مشرف بنایا تھا اور آج صرف اس لیے مخالفت کر رہے ہیں کہ ملک میں مشرف مخالف ہوا چل رہی ہے۔ابھی بہت دن نہیں ہوئے کہ پاکستان میں ہر طرف چوہدری افتخار کی ہوا تھی ، لوگوں نے چوہدری افتخار کودیکھتے ہی دیکھتے ملک کا ہیرو بنا دیا اور مشرف کو ا مورد الزام ٹھہرایا ۔ لیکن لوگ اُس وقت یہ بھول گئے تھے کہ یہی چوہدری افتخار ہیں جو مشرف کوآئینی تحفظ عطا کرنے میں اہم کردار ادا کرنے والوں میں سے ایک تھے ۔ لیکن کسی پارٹی نے ان کے خلاف ایک بھی آواز نہیں اٹھائی کہ جس فوجی حکومت نے ان کو پر خواست کیا تھا اُ سی فوجی حکومت کو وہ سہارا بھی دے چکے ہیں ۔ لیکن اسے پاکستانی سیاست کا المیہ کہیں یا پاکستانی عوام کا المیہ کہ وہ بہت جلد ماضی کی حقیقتوں کو بھول جاتے ہیں اور بھیڑ چال چلنے لگتے ہیں ۔ جس طرف کی ہوا چلتی ہے لوگ اسی جانب ہوجاتے ہیں ۔
اب میدان میں مشرف ہیں اور ان کے فطری دشمن نواز شریف ہیں اور یہ کیسے ممکن ہے کہ پاکستان میں کوئی سیاسی طوفان آئے اور اس میں امریکہ اور برطانیہ شامل نہ ہو۔اب ہر طرف سے یہ کوشش کی جارہی ہے کہ اسے ملک کا ایک اہم ایشو بنا دیا جائے ۔ سوال یہ ہے کہ پاکستان کی موجودہ صورت حال میں مشرف مخالف تحریک چلانے کےلیے کیا یہ مناسب وقت ہے ۔ کہیں یہ ملک کی دھماکہ خیز صورت حال سے عوام اور عالمی برادری کی توجہ ہٹانے کی کوشش تو نہیں ۔اگر ایسا ہے تو یقینا اس سے دہشت گردی مخالف جو کاروائیاں چل رہی ہیں وہ متاثر ہوں گی اور سارا زور اس پر صرف ہوگا اور لوگ ملک میں غریبی ، تاراجی صورت حال کو بھول کر مشرف مخالف نعروں میں گُم ہوجائیں گے۔ابھی موجودہ صورت حال یہ ہےکہ حکومت اور اپوزیشن خود اس معاملے میں دو خیموں میں بٹے ہوئے ہیں ۔شاید اس کی ایک وجہ یہ ہو کہ حکومت پر غیر ملکی دباو ہے اور دوسری وجہ یہ بھی ہوسکتی ہے کہ قانونی طور پر اس میں الجھن ہے کہ جس عدلیہ کے چیف جسٹس کو مشرف نے بحال کیا تھا جو مخالفین کے مطابق غیر آئینی ہے ، اُسی چیف جسٹس نے موجودہ صدر پاکستان آصف علی زرداری کو حلف دلایا ہے ، تو یہ کیسے ممکن ہے کہ کہ جس غیر آئینی چیف جسٹس کے ذریعے بحال کیے جانے والا صدر بھی آئینی طور پر درست ہے ۔
دوسری بڑی الجھن پاکستان کے وزیر اعظم یوسف رجا گیلانی نے یہ کہا ہے کہ اگر پارلیامنٹ متفقہ طور پر یہ طے کر لے کہ مشرف کے خلاف مواخذہ کیا جائے تو ہم اس کے لیے تیار ہیں ۔ لیکن یہ کیسے ممکن ہے کہ پارلیامنٹ متفقہ طور پر یہ فیصلہ کر لے کیونکہ پارلیامنٹ میں مشرف کے لوگ بھی موجود ہیں لہذا متفقہ طور پر یہ فیصلہ نہیں لیا جا سکتا ۔اس کا ایک واضح مطلب یہ ہوا کہ حکومت راہ فرار اختیار کر رہی ہے ۔اسی لیے نواز شریف کافی غصے میں ہیں اور یہ کہہ رہے ہیں کہ پرویز مشرف کا مواخذہ ہو گا۔میاں صاحب یوں تو پارلیمنٹ کو سب کچھ سمجھتے ہیں ہر کام پارلیمنٹ کے ہاتھوں ہونا چاہیے اگر ایسا نہ ہو تو وہ پارلیمنٹ کوربڑ سٹیمپ کہتے ہیں مگر پرویز مشرف کے معاملے میں وہ پارلیمنٹ کی مداخلت ضروری نہیں سمجھتے بلکہ آپ فرماتے ہیں..کہ پارلیمنٹ کی شرط لگانے کا مطلب پرویز مشرف کا دفاع کرنا ہے۔میاں صاحب مزید فرماتے ہیں کہ پاکستان کے حصے میں آنے والی ساری رسوائیاں آمروں(فوج) کی وجہ سے انھیں کے دور میں ہوئیں۔اور کہتےہیں کہ ہر ڈکٹیٹر نے عدلیہ کو خاص طور پر نشانہ بنایا۔
سابق فوجی حکمران مشرف کے خلاف اسلام آباد سیشن جج کی عدالت کی حکم پر 3 نومبر کی ایمرجنسی کے بعد چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری اور دوسرے ساٹھ کے قریب ججوں کو نظر بند کرنے کے الزام میں پولس نے رپورٹ تو درج کر لی ہے لیکن آئین کو پامال کرنے کے بارے میں ان کے خلاف جو سنگین الزام ہے اس پر غداری کا مقدمہ ابھی تک درج نہیں کیا گیا ہے- سب کے ذہن میں یہ سوال اٹھ رہا ہے کہ واقعی سابق فوجی حکمران مشرف کے خلاف غداری کا مقدمہ درج کیا جائے گا اور کیاحقیقت میں عدالت کے کٹہرے کو پرویز مشرف کا منہ دیکھنا نصیب ہوگا؟پھر یہ سوال ہے کہ جنرل مشرف کے خلاف بغاوت کے مقدمہ کی صورت میں امریکا کا کیا رویہ ہوگا- بظاہر تو پاکستان اور افغانستان کے لئے صدر اوباما کے ایلچی رچرڈ ہالبروک نے کہا ہے کہ جنرل مشرف اب امریکا کے لئے تاریخ بن چکے ہیں اور یہ پاکستان کی عدالت کا استحقاق ہے کہ وہ ان کے بارے میں جو بھی فیصلہ کرے- لیکن یہ بات محض اوپری طور پر کہنے کی ہے اور ظاہر ہے کہ کھلے عام وہ اس کے علاوہ کیا کہہ سکتے تھے- لیکن بلا شبہ امریکا پرویز مشرف کو بچانے کےلئے ہر جتن کرے گا خاص طور پر اس امر کے پیش نظر کہ پرویز مشرف نے عوام کی شدید مخالفت کے باوجود پاکستان کو دھشت گردی کے خلاف امریکا کی جنگ کی تباہ کن آگ میں دھکیل کر امریکا کے ہر حکم کی تعمیل کی ہے- امریکا کو پاکستان کی سر زمین پر ڈرون حملوں کی اجازت دی ہے اور تمام تر سہولت فرام کی ہیں- امریکا کے کہنے پر پاکستان کے قبائیلی علاقوں میں بڑے پیمانہ پر فوجی کاروائی کی ہے اور یوں طالبان کو شہہ دے کر پورے ملک میں شدت پسندی اور دھشت گردی کی آگ بھڑکا دی ہے- ظاہر ہے کہ امریکا اپنے شیدائی کو بچانے کے لئے کیوں اس کی حفاظت اور مدد نہیں کرے گا۔انھیں سوالات کے ارد گرد پاکستان کی سیاست گھوم رہی ہے اور ایک بار پھر پاکستانی عوام کو ورغلانے کے لیے سیاستدانوں نے اپنی بساط بچھانی شروع کر دی ہے۔