Home / Socio-political / پاکستان کی عدالت عظمیٰ کا تاریخی فیصلہ

پاکستان کی عدالت عظمیٰ کا تاریخی فیصلہ

pakistan-supreme-court[1]        پاکستان کی عدالت عالیہ اپنے ایک تاریخی فیصلے میں این آر او   کو کالعدم قرار دیتے ہوئے  ملک کی تاریخ میںٕ ایک نیا باب رقم کر دیاہے ۔ اس فیصلے کے آتے ہی ملک کے سیاسی گلیاروں میں ایک طوفان اٹھ کھڑ اہوا ہے ۔’ این آر او یعنی قومی مفاہمت آرڈینیس کے  قانون کی بنیاد سابق جنرل پرویز مشرف نے 5 اکتوبر 2005 میں رکھی تھی ۔ اس قانون کے تحت یکم جنوری 1986 سے 12 اکتوبر 1999 تک اگر کوئی سیاستداں ، سیاسی ورکرزیا  بیروکریٹس کسی دہشت گردی ،  کرپشن ، منی لانڈرنگ یا قتل کے الزامات میں ملوث ہیں تو انہیں معافی نامہ سرکار کی طرف سے عطا ہو جائے گا اور  وہ ہر جرم سے بری ہو جائیں گے  اور انہیں اس ضمن میں کسی بھی مقدمات کا کسی عدالت میں سامنا نہیں کرناپڑے گا ۔اس قانون کی سب سے زیاددہ مخالفت حالیہ بحال ہونے والے  چیف جسٹس افتخار محمد چوھدری نے کی ۔ اور اس قانون کی پرزور مخالفت کرتے ہوئے  12 اکتوبر 2007 کو نافذ کرنے سے انکار کر دیا ۔ جس کی وجہ سے جنرل مشرف نے انہیں 3 نومبر 2007 کو ان کے عہدے سے برطرف کر دیا اور عبدلحمید ڈوگر کو نیاچیف جسٹس آف پاکستان مقرر کر دیا ۔  حمید ڈوگر نے آتے ہی 27 فروری 2008 کو این آر او کو دوبارہ  بحال کر دیا ۔
این آر او کے قانون کو موخر کرنے کے لیئے نواز شریف اور عمران خان نے مشترکہ کوششیں کیں اور پاکستانی عوام بھی اس تحریک کا خاموش حصہ بنے ۔ اور  بلاآخر 21 نومبر 2009 کو وزیر اعظم گیلانی کی زیر نگرانی وزیر مملکت برائے قانون افضل سندھو نے این آر او سے فائدہ اٹھانے والوں کی لسٹ جاری کر دی جن کی تعداد  8041 ہے  اور لسٹ میں 34 سیاستدانوں کے نام   بھی شامل ہیں ۔ سیاستدانوں کی فہرست میں سر فہرست ایم کیو ایم کے جناب الطاف حسین ہیں جن پر 71 مقدمات ہیں جن میں سے 31  قتل کے مقدمے اور11 اقدام قتل کی نیت کے مقدمات ہیں ۔۔ کرپٹ سیاستدانوں کی فہرست میں صدر پاکستان آصف علی زرداری کا نمبر دوسرا ہے ۔‘
        این آر او در اصل  اس فیصلے کے بعد وہ قانونی مجرم جو سیاست کی پناہ گاہ میں تھے اب انھیں بھی عدالتوں کے سامنے اپنے جرم کا حساب دینا ہوگا ۔ لہذا   وہ سیاسی شخصیات جو کل تک عوام کے درمیان اپنی وطن دوستی اور ملک کے لیے جاں نثاری کے جذبے کو ثابت کرنے کے لیے بڑی بڑی بولیاں بول رہے تھے وہ سب کے سب اب دُبک کر بیٹھ گئے ہیں ۔جی ہاں ان بڑی شخصیات میں وزیر داخلہ رحمان ملک بھی شامل ہیں ۔ یہ وہی وزیر ہیں جو گلا پھاڑ پھا ڑ کر ہندستان کے خلاف باتیں کیا کرتے تھے ۔ایسا لگتا ہے کہ  رحمان ملک نے اپنا جرم چھپانے کے لیے اور عوام میں اپنی ساکھ بحال کرنے کے لیے ہی یہ پینترا اپنایا تھا کہ زیادہ سے زیادہ ہندستان کے خلاف باتیں کرو تاکہ عوام میٕں مقبولیت بڑھے ، وہ جانتے تھے کہ پاکستانی عوام ان باتوں سے خوش ہوں گے اور  وہ ملک میں ہیرو بنے رہیں گے ۔ لیکن عدلیہ کے اس فیصلے سے سب بڑی مصیبت انھیں کی ہونے والی ہے ۔اب غور کریں کریں کی جس ملک کا وزیر داخلہ کے اتنے جرم ہوں تو ان کی کس بات پر یقین کیا جا سکتاہے ۔ ابھی گذشتہ کئی ہفتوں سے وہ ہندستان پر طرح طرح کے بے بنیاد الزاما ت عائد کررہے تھے ، اب اس کی وجہ سمجھ میں آرہی ہے کہ ایسا کیوں تھا؟ در اصل انھیں اپنے اعمال کا پتہ تھا او ر وہ اچھی طرح جانتے تھےکہ میرے ساتھ کیا ہونے والا ہے اسی لیے عوام کی نفسیات کو سہارا لے کر  ہندستان کو نشانہ بناتے رہے۔

        اس فہرست میں بڑے بڑے لوگ بھی موجود ہیں لیکن صدر پاکستان کے بے شمار جرائم کے باوجود ان پر ابھی کوئی کاروائی نہیں ہوسکتی کیونکہ وہاں کا آئین صدر کو جب تک وہ اس عہدے پر متمکن ہیں ، انھیں تحفظ فراہم کرتا ہے۔لیکن کہاوت مشہور ہے کہ بکرے کی ماں کب تک خیر منائے گی؟ ابھی نواز شریف اور عمران خان جیسے  سیاست داں جو اس قانون کو کاالعدم قرار دلوانے میں پیش پیش تھے ، ان کی کوششیں شاید یہاں بھی رنگ لے آئیں ۔ اس اعتبار سے دیکھیں تو پتی چلتا ہے پاکستان میں اوپر سے نیچے تک تمام مجرم پیشہ ہی حکومت پر قابض ہیں اور جب ایسے لوگ حکومت میں رہیں گے تو اس طرح کی حکومت ملک کے لیے کی اکر سکتی ہے ، یہ قارئین خود انداز ہ لگا سکتے ہیں ۔

                عدالت عالیہ کے موجودہ فیصلے کے مطابق   این آر او کے تحت تمام مقدمات 5 اکتوبر 2007 کی پوزیشن پر بحال ہو گئے ہیں ۔ سپریم کورٹ نے این آر او کے تمام مقدمات دوبارہ شروع کر نے کا حکم دیا ہے ۔ سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں کہا ہے کہ نیب کے موجودہ پراسیکیوٹر جنرل اور ڈپٹی پراسیکیوٹر جنرل کو تبدیل کر کے نئی تقرریاں کی جائیں۔ سپریم کورٹ نے کہا ہے کہ این آر او کے تحت مخصوص طبقے کو فائدہ دیا گیا ہے جو عام آدمی کے ساتھ ظلم ہے اور این آر او کے تمام مقدمات وہیں سے شروع ہو ں جہاں سے وہ 5 اکتوبر 2007 کو تھے فیصلے میں کہا گیا ہے کہ وہ مقدمات جن کو این ار او کے تحت تحفظ دیا گیا وہ دوبارہ شروع ہو گئے ہیں ۔ سپریم کورٹ نے وفاقی حکومت کو ہدایت کی ہے کہ سوئس عدالتوں سے واپس لئے گئے مقدمات کو فوری طور پر بحال کر نے کے لئے اقدامات کئے جائیں اور ان عدالتوں میں استدعا کی جائے۔ فیصلے میں حکومت سے یہ بھی کہا گیا ہے کہ سوئس کیسز ختم کر انے پر ملک قیوم کے خلاف کاروائی عمل میں لائی جائے ۔ عدالت نے سیکشن 2 کے تحت ختم کئے گئے فوجداری مقدامات کی مانیٹرنگ کے لئے تمام چاروں ہائی کورٹس میں چیف جسٹسز کو سر براہ بنا کر مانیٹرنگ سیل قائم کر دیا ہے جو ان مقدمات کی فوری سماعت کے لئے اقدامات کرے گا ۔ اس فیصلے میں ۱۷ جج کی بینچ تھی جس میں تمام ججز نے اپنے اپنے خیالات کا اظہار کیا ۔ ان میں چند ججز کے ریمارکس کو یہاں نقل کر رہا ہوں تاکہ اندازہ ہو سکے کہ کس سنجیدگی سے ججز نے اس  قانون کو لیا او ر اس کے خلاف فیصلہ صادر کیا ۔جسٹس جاوید اقبال نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ وہ وقت گزر گیا جب حقائق چھپائے جاتے تھے اب بہت سے ذرائع ہیں جن سے حقائق کا پتہ چل سکتا ہے جس پر شاہ خاور کا کہنا تھا کہ وہ حقائق نہیں چھپا رہے جس دن ایسی نوبت آئی وہ استعفی دے دیں گے جسٹس جاوید اقبا ل کا کہنا تھا کہ یہ مغلیہ دور نہیں کہ شاہی اختیارات استعمال کئے جائیں جمہوری حکومت میں یہ ممکن نہیں کہ حکومت کی مشاورت کے بغیر سوئس عدالتوں کو خط لکھا گیا عدالت کی معاونت کر تے ہوئے سابق چیف جسٹس آف پنجاب میاں اللہ نواز نے موقف اختیار کیا کہ ملکی تاریخ میں مختلف اوقات میں اقربا پروری، رشوت اور کرپشن کو تحفظ دینے کے لئے آرڈیننس جاری کئے گئے ہیں این آر او نہ صرف ایک گندا قانون ہے بلکہ غیر آئینی بھی ہے یہ چوروں کی طرف سے چوروں کے لئے رعایت ہے اس کے ذریعے ایک ایسا شخص جو اپنے اقتدار کو طول دینا چاہتا تھا اور ایسے افراد جو فائدہ لینا چاہتے تھے اکٹھے ہو گئے تھے جنہوں نے یہ کارنامہ سر انجام دیا۔ جسٹس رمدے کا کہنا تھا کہ این آر او کے تحت 8 ہزار لوگوں کو ریلیف دیا گیا چوروں ،قاتلوں اور ڈکیتوں کو ایک فرد کے حکم پر چھوڑ دیا گیا قتل ہو نے والے افراد کے لواحقین سے کسی نے نہیں پوچھا ان کا مداوہ کون کرے گا۔

        ججز کے ان ریمارسک سے پتی چلتا ہے کہ واقعی پاکستان کی حکومتیں اپنی سہولت اور اپنے گناہوں چھپانے کے لیے کیاکیا ۔کہنے کو این آر او ایک جمہوری حکومت کی دین ہے ۔ لیکن پرویز مشرف کے دور میں جمہوریت بھی کیا تھی یہ سب جانتے ہیں اور یہ اسی جمہوریت کی دین تھی ۔اب عدالت عظمیٰ کے فیصلے کے بعد یہ تو واضح ہوگیا کہ اس ملک میں سیاست کے نام پر بہت کچھ ہوتا ہے ۔عوام کا دل جیتنے کے لیے ان سیاست دانوں نے سوائے عوام کو بھڑکانے کے اور کوئی کام نہیں کیا اور عوام کو بھڑکانے کے لیے ہند مخالف نعروں سے زیادہ ان کے پاس اور کچھ نہیں تھا ۔

 

About admin

Check Also

یہ دن دورنہیں

امریکہ نے پاکستان کی سرزمین پر پہلاڈرون حملہ ۱۸جون ۲۰۰۴ء کوکیا۔ یہ حملے قصر سفیدکے …

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *