Home / Socio-political / پاکستان کی پا بہ زنجیر جمہوریت

پاکستان کی پا بہ زنجیر جمہوریت

ڈاکٹر خواجہ اکرام

پاکستان میں جمہوریت پر ابھی خطرات کے منڈلاتے بادل  نہ جانے جمہوریت کو کس طرح یر غمال بنائیں گے لیکن اتنی بات تو سب جانتے ہیں کہ پاکستان میں جمہوریت پر ایسی آفتیں کوئی نئی بات نہیں ہے  ۔  پاکستان کی تاریخ یہ بتاتی ہے کہ پاکستان میں کسی نظام کو کبھی بھی استحکام حاصل نہیں رہا ۔خواہ فوجی نظام کی بات کریں یا جمہوری نظام کی ہر نظام  نے پاکستان کو غیر مستحکم کیا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ دنیا کے نئے آزاد ممالک میں ترقی کا گراف یہاں سب سے  نیچے ہے ۔ ابھی پاکستان میں جو کچھ ہو رہا ہے اس کی آہٹ پہلے سے سنائی دے رہی تھی ۔خاص طور پر اس وقت جب امریکہ نے اسامہ بن لادن کے ٹھکانے پر حملہ کیا تھا اور کسی کو کانوں کان خبر نہیں ہو سکی کہ ایسا کیسے ہوا اور کسکی اجازت سے ہوا؟ حالانکہ یہ اب تک ایک معمہ بنا ہے کہ آیا پاکستان کی فوج اور حکومت عوام سے بچنے کے لیے اس  بے خبری  کے راستے کو اپنایا ؟ یا واقعی ایسا تھا ؟ لیکن دونوں صورتوں میں حکومت اور فو ج کو ہی اس کا خمیا زہ بھگتنا پڑا۔ بات یہیں سے شروع ہوتی ہے اور اس کو ہوا دینے میں میمو گیٹ اسکینڈل نے تیل میں گھے کا کام کیا ۔ابھی تک اس حوالے سے بھی کوئی مستند اور با وثوق خبر سامنے نہیں آسکی ہے کہ  اصل میں بات کیا تھی ؟ کیا زرداری صاحب کی حکومت کو بچانے کے لیے حسین حقانی کو تختہٴ دار پر چڑھا گیا ؟ یا اس کے پیچھے اور بھی ئی ہاتھ تھے ؟ اسی طرح ابھی امریکہ کے ایک اخبار نے اس بات کو اور بھی ہوا دی ہے جس میں یہ کہا گیا ہے وزیر اعظم سید یوسف رضاگیلانی نے برطانوی ہائی کمشنر ایڈم تھامسن کو فون کرکے فوجی بغاوت کا خطرہ ظاہر کیا تاہم وزیراعظم ہاؤس کے ترجمان نے خبر کی تردید کردی ہے ۔ میمو سکینڈل کے بعد حکومت اور فوج کے درمیان تناؤ بڑھتا ہوا نظر آیا تھا جس کے بعد اب یہ بات سامنے آئی ہے کہ وزیراعظم سید یوسف رضاگیلانی نے امریکی نیوز ایجنسی کے مطابق ایک ہفتہ قبل برطانوی ہائی کمشنر ایڈم تھامسن کو فون کیا اور انہیں کہا کہ ملک میں فوجی بغاوت کا خطرہ ہے برطانیہ ان حالات میں ہماری مدد کرے اور فوجی بغاوت کا راستہ روکے۔ اس  بات کے سامنے آنے سے بھی وہاں موجودہ بر سر اقتدار جمہوری حکومت کے حکمران پریشان ہیں کہ کس طرح وہ اپنی حکومت کو بچائیں ۔ ایک طرف پاکستانی عوام جمہوریت کی غلامی کے لیے پریشان ہیں تو موجودہ حکومت اپنے اقتدار کے لیے ۔  کہا یہ جارہا ہے کہ پاکستان میں اس دور حکومت میں تمام معاملات پٹری سے اترے ہوئے ہیں۔ خود حکومت کو معلوم نہیں کہ ملک پاکستان کدھر جا رہا ہے ؟ ایسے میں اس ملک کے عوام کا حال کیا ہوگا یہقابل غور اور قابل تشویش بھی ہے ۔

جس ملک کے صدر پر اتنے الزامات ہوں کہ  ملک کی عدالت عالیہ کو یہ کہنا پڑے کہ وزیر اعظم اس حوالے سے کوئی قدم اٹھائے / یہ کیسے ممکن ہے کہ اسی پارٹی کے صدر اور ملک کے صدر جن کی مہربانی سے یہ وزرات عظمیٰ کی  کرسی پر بیٹھے ہیں ، وہ انھیں ان کی کرسی سے ہٹائیں ۔ ظاہر ہے اس  صورت میں انھیں عدالت کے فیصلے سے انحراف کرنا ہی تھا ۔نتیجتاًٍ سپریم کورٹ نے گیلانی صاحب کو بر خوست کرنے کی دھمکی دی ، دوسری جانب مہینوں سے  فوج کے ساتھ چلی آرہی تو تو میں میں نے بھی ایک دوسرے کو آمنے سامنے لا کھڑ اکیا ۔بات یہاں تک پہنچی کہ شاید اب یا تب فوج اقتدار پر قابض ہو جائے گی۔ اسی لیے آناً فانا ً حکومت کو فوج سے بچانے کے لیے ایمرجینسی اجلاس بلانا پڑا ۔ اس اجلاس کے نتیجے ابھی آنے باقی ہیں ۔ لیکن اجلاس میں تما م پارٹیوں کے اپنے اپنے مفادات بھی ہیں اسلیے وہ کھل کر ابھی کچھ نہیں بول رہے ہیں ۔ لیکن گیلانی صاحب نے جو کچھ پارلیمنٹ میں کہا اس سے ان کی بو کھلاہٹ ظاہر ہوتی ہے ۔پاکستانی اخبارات کے حوالے سے ان کی تقریر کا ایک حصہ ملاحظہ فرمائیں ‘‘گیلانی کا کہنا تھا کہ یہ ہماری قوم کا مزاج ہے لہذا بھٹو جیسے لیڈر کی اہمیت کا احساس اب ہو رہا ہے جب کہ وہ زندہ تھے تو ان کو پھانسی چڑھایا گیا۔گیلانی نے کہا کہ ہم ایسا قانون اور آئین بنائیں جس میں کوئی ابہام نہ ہو اور ہمیں تشریح کے لیے کسی اور کے پاس نہ جانا پڑے۔ ان کا اشارہ سپریم کورٹ کی طرف تھا جو ہر کیس کو یہ کہہ کر ٹیک اپ کر لیتی ہے کہ تشریح کا اختیار اس کے پاس ہے۔ سپریم کورٹ کی اس نکتہ پر کہ حکومت عوام کے پاس جائے، گیلانی کا کہنا تھا کہ ہمیں کوئی تیسرا ادارہ یہ بات کیوں کرے کہ ہم عوام کے پاس جائیں۔ اگر جانا ہے تو پھر ہم ترمیم کر لیتے ہیں اور خود فیصلہ کر لیتے ہیں کیونکہ پارلیمنٹ جو چاہے کر سکتی ہے۔گیلانی نے سپریم کورٹ پر اپنے حملے جاری رکھے اور کہا کہ سپریم کورٹ میں بھٹو کا کیس ری اوپن کرنے کے لیے ریفرنس بھیجا اور انہوں نے جوابا کہا کہ ہم غدار ہیں حالانکہ ایک جج نے خود اپنی کتاب میں لکھا تھا کہ ہم نے بھٹو کا عدالتی قتل کیا تھا۔ عدالت فیصلہ تو دے چاہے ہمارے خلاف ہی کیوں نہ ہو،  گیلانی نے نواز لیگ کو خبردار کیا کہ اگر ان کی حکومت کو نکالا گیا تو پھر یاد رکھیں کہ یہ میلہ ان کو اقتدار میں لانے کے لیے بھی نہیں رچایا جارہا۔ گیلانی نے کہا کہ وہ ہرگز کوئی قرارداد فوج یا عدالت کے خلاف نہیں لانا چاہ رہے۔ انہوں اس موقع پر جوش میں آتے ہوئے کہا کہ اگر زیادہ عذاب آیا بھی تو وہ عوام کے پاس چلے جائیں گے، لیکن نواز لیگ، فوج یا عدلیہ سے بھیک نہیں مانگیں گے !’’

لیکن بات اس سے  نہیں بننے والی ہے کیونکہ انھیں بھی اچھی طرح معلوم ہے کہ اگر اس وقت حکومت ہاتھ سے گئی تو پھر ہاتھ آنے والی نہیں ہے ۔اسی لیے ایک طرف وہ سیاسی جوڑ توڑ میں لگے ہوئے تو دوسری جانب سپریم کو رٹ کو بھی دھمکی دینے سے باز نہیں آرہے ہیں ۔ لیکن معاملہ اتنا  سنگین ہو گیا ہے کہ پاکستان میں کبھی بھی کچھ ہوسکتا  ہے کہ حالانکہ تمام سیاسی پارٹیاں بھی جمہوریت کے حق میں ہیں لیکن وہ موجودہ حکومت سے بھی مطمئین نہیں ہیں ۔ اسی لیے عمران خان اور نواز شریف بھی شاید  جمہوریت کے حق میں ہی بات کریں گے ۔ حتیٰ کہ سابق فوجی ڈیکٹیٹر جنرل مشرف نے بھی فوجی بغاوت کے خلاف بات کی ہے ۔انھوں نے ملتان پریس کلب میں صحافیوں سے ٹیلی فونک خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ملک کی موجودہ صورتحال کو ٹھیک کرنے کیلئے مارشل لاء لگانا ٹھیک نہیں بلکہ اس کا سیاسی حل ڈھونڈنا ہوگا ۔وہ ابھی آل پاکستان مسلم لیگ کے سربراہ ہیں۔ موجودہ صورتحال میں مارشل لاء نہیں لگے گا اور دنیا میں کہیں بھی مارشل لاء کا ماحول نہیں ہے اس مسئلے کا حل جمہوری اداروں کے ذریعے ہوگا ۔ انہوں نے کہا کہ اگر پاکستان کے عوام نے آئندہ انتخابات میں صحیح لیڈر شپ کو منتخب کیا تو وہی ملک کو موجودہ صورتحال اور بحرانوں سے نکال سکیں گے۔ کہا جا رہا ہے کہ ابھی پاکستان میں عمران خان کی بڑھتی ہوئی مقبولیت ان  کے لیے انتخاب کے لیے  بہتر وقت ہو سکتا ہے اور جنرل مشرف صاحب نے بھی عمران خان سے سیاسی طور پر ہاتھ ملا لیاہے ۔ شاید اسی لیے ان کےبیان سے یہ ظاہر ہورہا ہے کہ ملک میں کسی نگراں حکومت کے تحت عام انتخابات کرائے جائیں ۔حالانکہ نواز شریف کو ابھی اگر الیکشن ہوتا ہے تو شاید بہت زیادہ فائدہ نہ ۔ اسی لیےپارلیمنٹ کے اجلاس کو سیاسی وجہوں سے ملتو ی کیا گیا ہے۔ اب یہ دیکھنا ہے کہ اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے ۔ لیکن حالات واقعی دیگر گوں ہیں اور یہ صرف  پاکستان کے لیے ہی نہیں بلکہ اس سے جنوبی ایشیا سمیت پوری دنیا کے لیے تشویش کا باعث ہے۔

****

About admin

Check Also

یہ دن دورنہیں

امریکہ نے پاکستان کی سرزمین پر پہلاڈرون حملہ ۱۸جون ۲۰۰۴ء کوکیا۔ یہ حملے قصر سفیدکے …

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *