پاکستان اور امریکہ بڑے زور شور سے واشنگٹن میں ہونے والے اسٹریٹیجک مذاکرات کی تیاریوں میں مصروف نظر آئے، جس کا آغاز 24 مارچ کو ہوا۔ دونوں ممالک کے درمیان وزارتی سطح پر ہونے والی اپنی نوعیت کی یہ پہلی بات چیت ہے جس میں پاکستانی فوج کے سربراہ، اشفاق پرویز کیانی، انٹر سروسز انٹیلی جنس (آئی ایس آئی) کے سربراہ احمد شجاع پاشا اور خود پاکستان کے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی شرکت کررہے ہیں۔ دوسری جانب امریکی وفد کی قیادت وہاں کی وزیر خارجہ ہلیری کلنٹن کر رہی ہیں۔ پاکستان کے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے ان مذاکرات کی فضا ہموار کرنے کے لیے جہاں ایک طرف بڑی شدت سے امریکہ کے گوش گزار کرنے کی کوشش کی تھی کہ اب پاکستان دہشت گردوں کے لیے محفوظ پناہ گاہ نہیں رہ گیا ہے وہیں دوسری جانب اسٹریٹیجک مذاکرات کے بعد امریکی وزیر خارجہ کے ساتھ واشنگٹن میں ہونے والی ایک مشترکہ پریس کانفرنس کے بعد نامہ نگاروں کو پورے وثوق سے یہ بھی بتایا کہ گزرتے ہوئے وقت کے ساتھ اسلام آباد کے تئیں امریکہ کی سوچ میں تبدیلی آئی ہے اور اب اوبامہ انتظامیہ اپنی ہی سرزمین پر انتہاپسندوں کے خلاف پاکستان کی کارروائی کو لے کر کسی مزید شک و شبہ میں مبتلا نہیں ہے، بلکہ امریکہ نے دہشت گردی مخالف جنگ میں پاکستان کے مثبت رول کی پذیرائی بھی کی ہے۔
لیکن ان مذاکرات کو لے کر پاکستان کی سب سے زیادہ امید یہ تھی کہ وہ واشنگٹن کو اس بات کے لیے راضی کرنے میں ضرور کامیاب ہوگا کہ وہ پاکستان کے ساتھ بھی ویسا ہی سول نیوکلےئر معاہدہ کرے جیسا کہ اس نے کچھ سال پہلے ہندوستان کے ساتھ کیا تھا۔ پاکستان کے تمام قائدین نے اس کے لیے اپنی پوری قوت جھونک دی، لیکن نتیجہ ناکامی کی شکل میں سامنے آیا۔ امریکی وزیر خارجہ ہلیری کلنٹن نے شروع میں تو اس بات کا اشارہ ضرور دیا تھا کہ ان کا ملک پاکستان کے جوہری ڈیل سے متعلق مطالبہ پر غور کرے گا، لیکن بعد میں انھوں نے پاکستان کے نیوکلےئر ڈیل کے مطالبہ کو نظر انداز کردیا اور اس کے بدلے پاکستان کو پاور سیکٹر کی تعمیر و ترقی کے لیے 125 ملین ڈالر کی پیش کش کا اعلان کردیا تاکہ پاکستان اپنے ملک میں بجلی کے شدید بحران پر قابو پا سکے۔
جوہری ٹکنالوجی کے استعمال کو لے کر پاکستان کا رول اب بھی مشکوک ہے اور خود پاکستان کے جوہری سائنس داں عبدالقدیر خان پر یہ الزام ہے کہ انھوں نے غیر قانونی طریقے سے اس سلسلے میں چند اہم معلومات کئی ممالک کو فراہم کیے تھے۔ ایسے میں بھلا پاکستان پر یہ کیسے یقین کر لیا جائے کہ وہ امریکہ سے حاصل ہونے والی جوہری ٹکنالوجی کا استعمال دہشت گردانہ کارروائیوں میں، اور خاص کر ہندوستان کے خلاف استعمال نہیں کرے گا۔ یہی وجہ ہے کہ ہندوستان نے پاکستان کے ساتھ اس قسم کے کسی بھی نیوکلےئر ڈیل کی ہمیشہ مخالفت کی ہے۔ خود امریکہ بھی بار بار اپنے اس شک کو دہرا تا رہا ہے کہ پاکستان کے جوہری اسلحے دہشت گردوں کے ہاتھ لگ سکتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ اس محاذ پر پاکستان کو موجودہ مذاکرات میں ناکامی ملنی ہی تھی۔ چین کے ایک تجزیہ نگار نے بھی حال ہی میں ممکنہ پاک – امریکہ نیوکلےئر ڈیل پر اپنے شکوک و شبہات کا اظہار کیا تھا۔ چائنا انسٹی ٹیوٹس آف کنٹیمپوریری انٹرنیشنل رلیشنز کے ساوٴتھ ایشیا اسٹڈیز کے ایک اسکالر، ہو شیشنگ کے مطابق، اگر امریکہ پاکستان کے ساتھ نیوکلےئر ڈیل کرنے کے لیے تیار ہو جاتا ہے تو اس سے جنوبی ایشیا کی سیکورٹی مزید پیچیدہ ہو جائے گی۔ انھوں نے 24 مارچ کو پاک – امریکہ اسٹریٹیجک مذاکرات شروع ہونے سے پہلے ہی چین کے ایک مشہور انگریزی اخبار ’چائنا ڈیلی‘ میں اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے لکھا تھا کہ دونوں فریقین کے درمیان نیوکلےئر ڈیل کو لے کر کوئی اہم پیش رفت ہونے کی امید نہیں ہے۔ اس ڈیل سے امریکہ اور ہندوستان کے درمیان رشتے تلخ ہو جائیں گے، جس کے نتیجے میں ہندوستان روس سے مزید تعاون حاصل کرنے کے لیے مجبور ہو جائے گا۔
پاکستان کے لیے دوسری اہم ناکامی یہ رہی کہ اس نے ایک بار پھر امریکہ سے کشمیر مسئلہ کو لے کر ہند – پاک مذاکرات میں ثالثی کا کردار ادا کرنے کی اپیل کی تھی جسے واشنگٹن نے سرے سے انکار کر دیا۔ امریکی وزیر خارجہ ہلیری کلنٹن نے دو ٹوک الفاظ میں کہا کہ ”ہم پاکستان کی خارجہ پالیسی یا ہندوستان کی خارجہ پالیسی کے لیے فرمان جاری نہیں کرسکتے، البتہ ہم دونوں ممالک کے درمیان ہونے والی بات چیت کی حوصلہ افزائی کر سکتے ہیں۔“
یہ بڑی عجیب سی بات ہے کہ گذشتہ ماہ جب ہندوستان کے وزیر مملکت برائے امورِ خارجہ ڈاکٹر ششی تھرور نے وزیر اعظم ڈاکٹر منموہن سنگھ کے ساتھ اپنے سعودی عرب کے دورے کے دوران سعودی حکام سے گزارش تھی کہ وہ پاکستان کے ساتھ اپنی قریبی اور دوستانہ تعلقات کا استعمال کرتے ہوئے پاکستان کو اس بات کے لیے آمادہ کرسکتے ہیں کہ وہ ہند مخالف اپنی دہشت گردانہ کارروائیاں بند کردیں، تو اس پر تبصرہ کرتے ہوئے پاکستانی میڈیا نے اسے ہندوستان کی شکست سے تعبیر کیا تھا اور کہا تھا کہ ڈاکٹر منموہن سنگھ کا سعودی دورہ پوری طرح ناکام رہا ہے، وہ بھی صرف اس لیے کہ شاہ عبداللہ نے ہند – پاک مذاکرات میں ثالثی کا کردار ادا کرنے کی ہندوستان کی اپیل کو ٹھکرا دیا تھا۔ جب کہ حقیقت یہ ہے کہ ہندوستان کی خارجہ پالیسی کا ہمیشہ سے یہ موقف رہا ہے کہ ہند – پاک باہمی بات چیت میں کسی تیسرے فریق کو شامل نہیں کیا جاسکتا۔ تاریخ یہ بھی بتاتی ہے کہ پاکستان نے روس، چین، برطانیہ اور امریکہ جیسے بڑے ممالک کو ہمیشہ ہند – پاک باہمی مذاکرات میں ثالث بنانے کی کوشش کی ہے، لیکن نہ تو یہ کبھی ہندوستان کے لیے قابل قبول رہا اور نہ ہی ان ممالک نے پاکستان کی اس اپیل کو کوئی خاص توجہ دی ہے۔
جہاں تک افغانستان کا تعلق ہے تو گذشتہ چند سالوں سے پاکستان بار بار ہندوستان پر الزام لگاتا رہا ہے کہ وہ افغانستان میں موجود اپنے قونصل خانوں کے ذریعے پاکستان میں دہشت گردانہ حملے کر روا رہا ہے اور خاص کر بلوچستان میں شرپسندی کو ہوا دے رہا ہے۔ پاکستان امریکہ کے ساتھ ہونے والی اس اسٹریٹیجک بات چیت کے دوران بھی اس معاملے کو اٹھانے سے باز نہیں آیا۔ 25 مارچ کو پاکستان کے وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی نے قومی اسمبلی سے ایک خطاب کے دوران کہا کہ اسلام آباد نے افغانستان میں ہندوستان کی ’درندازی‘ کے ایشو کو امریکہ کے سامنے اٹھایا ہے۔ گیلانی نے یہ بھی کہا کہ افغانستان میں ہندوستان کی بڑھتی ہوئی موجودگی پر انھوں نے امریکہ کے قومی سلامتی صلاح کار جنرل جیمس جونز کے ساتھ ایک تفصیلی گفتگو کی تھی۔
واضح رہے کہ پاکستانی ایجنسیاں بھی یہ الزام لگاتی رہی ہیں کہ ہندوستان کا ریسرچ اینڈ اینالیسس وِنگ (را) افغانستان میں واقع ہندوستانی قونصل خانوں کے ذریعے پورے ملک میں دہشت گردانہ حملے کر وا رہا ہے۔ حال ہی میں پاکستانی انٹیلی جنس کے اہل کاروں نے دعویٰ کیا تھا کہ انھوں نے لاہور سیریل دھماکوں کے ماسٹر مائنڈ کو گرفتار کر لیا ہے، جس نے بعد میں بقول ان کے پوچھ گچھ کے دوران بتایا تھا کہ ان حملوں کی سازش دو ماہ پہلے افغانستان میں واقع ایک ہندوستانی قونصل خانہ میں کی گئی تھی۔ پاکستانی ایجنسیوں نے یہ بھی دعویٰ کیا تھا کہ ہندوستان کے ایک اعلیٰ عہدیدار نے دسمبر میں کابل کا دورہ کیا تھا اور مزمل سے ملاقات کی تھی، جو 2009 میں راولپنڈی میں جنرل ہیڈکوارٹرس (جی ایچ کیو) پر حملہ کرنے کے بعد بلوچستان ہوتے ہوئے افغانستان بھاگ گیا تھا۔
یہ دراصل پاکستان کی وہ سازش ہے جس کے تحت وہ ہمیشہ بین الاقوامی برادری کو گمراہ کرنے کی کوشش کرتا رہا ہے۔ ابھی حال ہی میں افغانستان میں اقوام متحدہ کے سابق ایلچی، کائی ایدی کا یہ چونکا دینے والا بیان آیا ہے کہ پاکستان نے افغان طالبان کے چند سرکردہ لیڈروں کو گرفتار کرکے درحقیقت اقوام متحدہ اور طالبان کے چند اعلیٰ لیڈروں کے ساتھ ہونے والی خفیہ بات چیت کے سلسلے کو روک دیا ہے۔ ملا عمر کے بعد افغان طالبان کے دوسرے سرکردہ لیڈر سمجھے جانے والے، ملا عبدالغنی بردار کی گرفتاری کا مقصد، بقول کائی ایدی، پاکستان کے ذریعے افغان طالبان کے ساتھ مصالحت کی تمام کوششوں کو ناکام بنا نا ہے۔ بی بی سی کو دیے گئے ایک انٹرویو میں کائی ایدی نے یہ تسلیم کیا تھا کہ اقوام متحدہ خطہ میں استحکام پیدا کرنے کے لیے طالبان لیڈروں کے ساتھ دو بدو بات چیت میں مصروف تھا۔ خفیہ بات چیت کا سلسلہ گذشتہ ایک سال سے جاری تھا اور حال میں بات چیت کے کئی دور ہوئے تھے۔لیکن پاکستان کے ذریعے افغان طالبان کے ان لیڈروں کی گرفتاری ہمارے مصالحتی عمل پر منفی اثر ڈال رہی ہے جسے ہم نے ضروری سمجھا تھا۔ پاکستانیوں نے وہ رول ادا نہیں کیا جو انھیں کرنا چاہیے تھا۔ ظاہری طور پر تو یہی لگتا ہے کہ پاکستان ان طالبان کمانڈروں کو اس لیے اپنی حراست میں رکھ رہا ہے تاکہ ان کے ذریعے بعد میں وہ افغانستان میں اپنے خفیہ منصوبوں کی تکمیل کر سکے۔ پاکستان یہ ہرگز نہیں چاہتا ہے کہ طالبان کے یہ لیڈر تشدد کا راستہ ترک کردیں اور افغانستان کی حکومت کی خواہش کے مطابق امن کے راستے پر گامزن ہوں۔ ایسے میں افغانستان کے حوالے سے پاکستان کا ہندوستان پر لگایا جانے والا سارا الزام جھوٹ پر مبنی ہے اور پاکستان کو اس سے گریز کرنا چاہیے۔ ابھی حال ہی میں افغانستان کے صدر حامد کرزئی کے حالیہ اسلام آباد دورے سے متعلق ایک رپورٹ آئی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ ’کیانی نے کرزئی سے کہا تھا کہ اگر کابل طالبان کے ساتھ امن چاہتا ہے تو وہ ہندوستان کے اثرو رسوخ کو ختم کرے‘ ۔ دی ٹائم میگزین نے افغانستان کے ایک سفارت کار کے حوالے سے، جو حامد کرزئی کے ساتھ اسلام آباد گئے تھے، کہا ہے کہ پاکستانی آرمی چیف اشفاق پرویز کیانی کے ساتھ کرزئی کی میٹنگ کے دوران انھیں (کرزئی کو) کو بتایا گیا تھا کہ اسلام آباد ”طالبان کو مستقبل کی امن بات چیت میں تبھی شامل کرے گا جب افغانی صدر ہندوستان کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ کو ختم کرنا شروع کریں گے۔“ یہ بیان ملک کے اندر چھپے ہوئے انتہاپسند کمانڈروں کے خلاف پاکستان کی کارروائی کے پیچھے چھپے اصل مقصد کو ظاہر کرتا ہے۔