Home / Socio-political / پاک مقبوضہ کشمیر کا الیکشن : نتائج اور بد عنوانیاں

پاک مقبوضہ کشمیر کا الیکشن : نتائج اور بد عنوانیاں

ڈاکٹر خواجہ اکرام

پاک مقبوضہ کشمیر میں الیکشن کے نتائج سامنے آگئےہیں اور پہلی دفعہ ایسا ہوا ہے کہ پاکستان پیپلزپار ٹی( پی پی پی ) نے  اکثریت حاصل کی ہے اس الیکشن کے حوالے سےبار بار یہ بات کی جارہی تھی کہ کشمیر الیکشن سے وہاں کے حالات سدھریں گے اور کشمیر کا مستقبل بھی تابناک ہوگا کیونکہ پہلی دفعہ یہ بھی ہوا ہے کہ اس الیکشن میں پاکستان کی سیاسی پارٹیوں نے خوب ادھم مچائی اور بات یہاں تک پہنچی کہ سیاسی پارٹیوں نے اپنی زبانیں تو بگاڑیں ہی ، ساتھ میں صدر مملکت بھی اس میدان میں زور آزمائی کے لیے کود پڑے اور پاکستانی  سیاست کو دنیا کے سامنے شرمسار کیا۔آزاد کشمیر جسے ہندستان میں پاک مقبوضہ کشمیر کہتے ہیں اس کا المیہ یہ ہے کہ پاکستان کی حکومتوں نے ہمیشہ اپنے طور پر اس کا استعمال کیا ہے۔ گزشتہ الیکشن میں بھی اس کی یہی کہانی تھی اور اس بار کے الیکشن میں تو کئی ایسی باتیں سامنے آئیں جو اخلاقی اعتبار سے بھی گری ہوئی ہیں ،اسی کشمیر کے الیکشن کے جلسوں میں پاکستان کی سیاسی پارٹیوں نے ایسی زبان کا استعمال کیا جس نے ملک کی سیاست کو شرمندہ کیا ۔ اور اب الیکشن کے عمل کو اپنی طاقت  اور حکومت کے بل پر جس طرح اپنے حق میں کرنے کی کوشش کی گئی ہے وہ اس بھی زیادہ شرمناک ہے ۔ شاید اسی لیے اس کشمیر میں اب تک بنیادی سہولیات بھی موجود نہیں ہیں ۔ اس الیکشن میں صدر اورملک کی سب سے اہم سیاسی جماعت جو مضبوط اپوزیشن سمجھی جاتی ہے اس میں جس طرح کی بیان بازی ہوئی اس کا ایک نمونہ یہ ہے صدر مملکت کی جانب سے نواز شریف کو ’’مولوی‘‘ کا خطاب دینے کے بعد نواز لیگ نے بھی جوابی حملے کیے ہیں ،جس سے سیاسی فضاء میں تلخی اورکشیدگی شدت اختیار کرگئی ہے۔ صدر مملکت جناب آصف علی زرداری کے اس اقدام سے لگتا ہے کہ وہ مولوی اور ملاؤں کو طعن و تشنیع کا متبادل سمجھتے ہیں ۔گویا انہوں نے اس لفظ کو انتہائی توہین آمیزسمجھ کر حقارت کے ساتھ استعمال کیا۔تو دوسری جانب نواز شریف نے پی پی پی پر ملک کو لوٹنے اور ملک کے لیے کچھ نہ کرنے کا الزام لگایا۔اس بیان بازی کی انتہا یہ ہوئی کہ تقریباً پاکستان کے تمام اخباروں نے اس کی مذمت کی اور ہر جگہ اس موضوع پر کالم شائع ہوئے ۔القمر آن لائن میں صدر کا خطاب….زبان اوربیان اُ ن کا….کے عنوان سے . پروفیسرڈاکٹر شبیر احمد خورشید نے لکھا ہے کہ ‘‘کسی بھی ملک کا سربراہ مملکت اس کی تہذیب و شائستگی کیا آئینہ ہوتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ پوری دنیا اس کے کہے ہوے الفاظ کو اہمیت دیتی ہے۔اگر وہ ہوشمند اور سنجیدہ ہے تو دنیا میں اُس ملک کو عزت و توقیر سے دیکھا جاتا ہے۔جس سے ہر مہذب معاشرے کی ایک پہچان ہوتی ہے،شائستگی اور برد باری جس معاشرے کی اُٹھان میں ہو وہ ہی معاشرے دنیا میں زندہ قوموں کی علامت بنتے ہیں۔معاشرتی پہچان کے بغیر کسی معاشرے کی اقدار کا اندازہ لگانا ہر ایک کے لئے نہایت ہی مشکل امر ہوتا ہے۔ بازار ی معاشروں میں امراء و فقراء پھکڑ پن کا مظاہرہ کر رہے ہوتے ہیں ۔جہاں سے تہذیب و تمدن کا گذر تک نہیںہوا ہوتا ہے۔ایسے معاشروں کو دنیا کے لوگ نفرت و حقارت سے دکھتے اور ان سے تعلق پید کرنا اپنی توہین سمجھتے ہیں۔ہر گھر کی شناخت اُس کے بڑے یا بزرگ ہوا کرتے ہیں۔ اسی طرح ہر ملک کی شناخت اس کے سربراہ مملکت یا وزیر اعظم اور وزرء سے کی جاسکتی ہے۔ان کے رویوں سے ہی مملکتیں ان ممالک سے اپنے تعلقات استور یا ختم کرتی ہیں۔ہم بھی ایک صدر اور ایک وزیر اعظم رکھتے ہیں۔ایک زمانہ ہوا کرتا تھا کہ عوام صدر کی شکل یا خطاب سالوں میں دیکھتے تھے جو نہایت ہی پر وقار ہوتا تھا۔ جس پر فخر کرنے کو دل چاہتا تھا۔جب صدر خطاب فرماتے تھے تو نپے تُلے اور شائسہ الفاظ میں نہایت ہی دھیمے انداز میں ہوتا تھا۔جس کو سن کر لگتا تھا کہ کوئی بڑا اپنے بڑے پن کا اظہار کر رہا ہے….آج ہم روزانہ کی بنیاد پر بھی صدرِ مملکت کے خطابات ملاحظہ کر سکتے ہیں ۔جن میں بڑے پن کے علاوہ سبھی کچھ موجود ہوتا ہے۔کئی لوگ تو اس پر وقار خطاب کو سن کر سر پیٹتے اور اپنی قسمت کو کوستے دکھائی دیتے ہیں۔‘’

اس طرح کے مذمتی بیانات اور کلام سے پاکستان کے اخبار بھرے پڑے ہیں ۔ لیکن اس الیکشن کے جو نتائج سامنے آئے اور اس کے بعد جس طرح کے اختلافات دیکھنے کو ملے وہ حیرت انگیز ہیں خاص طور پر مقبوضہ کشمیر کےحوالے سے لگ بھگ ایک درجن خود مختار کشمیر کی حامی تنظیموں پر مشتمل اتحاد آل پارٹیز نیشنل الائنس کے سیکرٹری جنرل عارف شاہد کا الزام ہے کہ اس خطے کے اصل حکمران وزیر اعظم پاکستان اور پاکستان کی وزارت امور کشمیر ہے۔ پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کو سرکاری طور پر آزاد جموں و کشمیر کہا جاتا ہے اور مقامی حکومت کا سرکاری نام آزاد حکومت ریاست جموں و کشمیر ہے لیکن کئی لوگوں کا کہنا ہے کہ پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کا خطہ محض نام کی حد تک ہی آزاد ہے۔ان کے بقول ’آزاد کشمیر کے صدر، وزیراعظم اور اسمبلی کے اختیار میں کچھ نہیں، اس کو آزاد کشمیر کہنا اس صدی کا سب سے بڑا جھوٹ ہے۔‘ انیس سو چوہتر کے عبوری آئین کے تحت اختیارات کی تقسیم اس طرح سے ہوئی ہے کہ مظفرآباد کی حکومت کے پاس پاکستان کے کسی صوبے سے بھی کم اختیارات ہیں جبکہ اس آئین کے تحت وجود میں آنے والی جموں و کشمیر کونسل زیادہ بااختیار ہے۔ اس آئین کی رو سے ریاست کی اپنی قانون ساز اسمبلی اور سپریم کورٹ ہے اور صدر ریاست کے آئینی سربراہ اور وزیر اعظم چیف ایگزیکٹیو ہوتے ہیں۔ ریاست کا اپنا پرچم اور ترانہ بھی ہے۔پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کی حکومت کا نام آزاد حکومت ریاست جموں و کشمیر رکھنے کے پیچھے یہ سوچ کار فرما تھی کہ یہ حکومت بااختیار ہو اور ریاست جموں کشمیر کے تمام خطوں کی نمائندہ حکومت ہوگی۔لیکن کیا ایسا ہے؟ اس بارے میں اس خطے کے ہائی کورٹ کے سابق چیف جسٹس عبدالمجید ملک کہتے ہیں کہ پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کا علاقہ آئینی طور پر پاکستان کا حصہ بھی نہیں لیکن اس کے باوجود اس پر پاکستان کا مکمل کنٹرول بھی ہے۔سابق چیف جسٹس عبدالمجید ملک کے بقول ’انیس سو چوہتر کے عبوری آئین کے تحت اختیارات کی تقسیم اس طرح سے ہوئی ہے کہ مظفرآباد کی حکومت کے پاس پاکستان کے کسی صوبے سے بھی کم اختیارات ہیں جبکہ اس آئین کے تحت وجود میں آنے والی جموں و کشمیر کونسل زیادہ بااختیار ہے۔’جموں کشمیر کونسل کے چیرمین پاکستان کے وزیر اعظم ہوتے ہیں جبکہ پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کے صدر کونسل کے وائس چیئرمین ہوتے ہیں۔چیئرمین اور وائس چیئرمین کے علاوہ کونسل کے تیرہ ارکان ہوتے ہیں۔ جن میں سے پانچ ارکان پاکستانی پارلیمینٹ سے لیے جاتے ہیں جنھیں وزیر اعظم پاکستان نامزد کرتے ہیں۔پاکستان کے وزیر برائے امور کشمیر بھی عہدے کے لحاظ سے اس کے رکن ہوتے ہیں جبکہ چھ ارکان، کشمیر کی قانون ساز اسمبلی سے شامل کیے جاتے ہیں اس کے علاوہ کشمیر کے وزیر اعظم بھی کونسل کے رکن ہوتے ہیں۔یہ کونسل نہ صرف قانون ساز ادارہ ہے بلکہ اس کے پاس انتظامی اختیارات بھی ہیں اور وہ اختیارات وزیر اعظم پاکستان استعمال کرتے ہیں ۔کشمیر کے اہم ترین قانونی اور انتظامی اختیارات جموں کشمیر کونسل کو سونپ دیے گیے ہیں۔ سابق وزیر اعظم راجہ فاروق حیدر خان نے جموں کشمیر کونسل کو’استعمار کی علامت‘ قرار دیتے ہوئے کہا کہ مقامی قانون ساز اسمبلی اور حکومت کو بااختیار بنانے کے لیےآئین میں ترامیم کر کے اختیارات مظفرآباد کو منتقل کیے جائیں۔انہوں نے کہا کہ کشمیر کونسل، اس خطے کے لوگوں اور حکومت پاکستان کے درمیان ناراضگی کا سبب ہے اس لیے اسے ختم کیا جانا چاہیے۔کشمیر ہاؤس اسلام آباد میں نیوز کانفرنس میں سردار عتیق کا کہنا تھا کہ پاکستان پیپلزپارٹی نے آزادکشمیر کے انتخابات میں دھاندلی کرکے پاکستان میں عام انتخابات کیلئے دھاندلی کا تجربہ کیا۔انہوں نے کہا ہے کہ دھاندلی نے کشمیر کاز کو نقصان پہنچایا ہے، کراچی کی نشستوں پر انتخابات ملتوی کر کے ایم کیو ایم کے ساتھ زیادتی کی گئی ۔سردار عتیق کا کہنا تھا کہ وہ آئندہ لائحہ عمل کے حوالے سے ایم کیو ایم سے مشاورت کریں گے ۔دوسری جانب جموں وکشمیر پیپلز پارٹی کے سربراہ سردار خالد ابراہیم نے آزاد کشمیر کے انتخابی نتائج کو مسترد کرتے ہوئے الزام لگایا ہے کہ آزاد کشمیر کے انتخابات میں دھاندلی کا منصوبہ ایوان صدر اسلام آباد میں بنایا گیا۔اسلام آباد میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے سردار خالد ابراہیم کا کہنا تھا کہ آزاد کشمیر میں ہونے والے انتخابات کی دھاندلی میں وفاقی حکومت کی براہِ راست مداخلت کے خلاف ان کی جماعت چار جولائی کو راولاکوٹ میں ایک احتجاجی جلسہ منعقد کرے گی جس میں وہ اپنی انتخابی اتحادی جماعت مسلم لیگ(ن) کے ساتھ مل کر آئندہ کی حکمت عملی بھی طے کریں گے۔۔( پاکستان کے مختلف اخبارات اور بی بی سی کے حوالے سے)

لیکن اس الیکشن کی خاص بات یہ رہی کہ  اس انتخابی مہم کے دوران مقامی مسائل خاص طور پر زلزلہ زدہ علاقوں کی بحالی اور تعمیر و ترقی کے علاوہ تنازع کشمیر سرفہرست رہے۔حالانکہ اب الیکشن  کے بعد وہ تمام مسائل پس پشت چلے گئے ہیں اور تمام پارٹیاں اپنے حریفوں کو سبق سیکھانے کے در پئے ہیں ۔ ایسے میں پاک زیر انتظام کشمیر کا مستقبل کیا ہوگا یہ خود ابھی سے ظاہر ہے۔

About admin

Check Also

یہ دن دورنہیں

امریکہ نے پاکستان کی سرزمین پر پہلاڈرون حملہ ۱۸جون ۲۰۰۴ء کوکیا۔ یہ حملے قصر سفیدکے …

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *