سمیع اللہ ملک
۲۸مئی۱۹۹۸ء سے لے کرتاایں روزہم ایٹم بم بردارطاقت کی حیثیت سے چلے آرہے ہیں۔دنیاہمارے اس اثاثے کوتسلیم کرتی ہے لیکن گزشتہ تیرہ برس کے عرصے میں ہم نے جواپنی درگت بنائی ہے کیا ایٹمی طاقتیں اپنے ساتھ یہی سلوک کیا کرتی ہیں۔آئین توموجودہے لیکن ایوان اقتدارخودکواس سے ماوراسمجھتے ہیں۔جمہوریت کی روح کوباربار پامال کیاجاتاہے۔ قوم نے بڑی قربانیوں کے بعدآزادعدلیہ کوبحال کروایالیکن اب اسی عدلیہ کے احکام کی تضحیک میں کوئی کسرروانہیں چھوڑی گئی۔ملک کو کرہ ارض کے سب سے بڑے سامراج کی آلہ کار ریاست بنادیاگیاہے۔ہماری ایک لاکھ کے قریب فوج ہماری سرحدپرہی جنگ لڑنے کے لئے مامورہے۔ معیشت کھنڈرات میں تبدیل ہوگئی ہے۔نوگیارہ کے فوراً بعدواشنگٹن کے حکمرانوں نے دھمکی دی تھی ہماری شرائط پر عمل نہ کیاتوپتھرکے زمانے میں پہنچادیں گے۔ آج کاپاکستان کیا منظر پیش کررہاہے۔ پتھر کازمانہ اور کس کوکہتے ہیں۔
اس عہدکے لوگ اتنی زیادہ خود کشیاں تونہ کرتے ہوں گے۔ روزانہ کی خوراک اس حدتک توعام آدمی کی دسترس سے باہرنہ ہوگی۔ ان کے گھروں پردوست نمادشمن اس اندازسے حملہ آور تونہ ہوتاہوگا… جس طرح امریکہ کے بغیرپائلٹ والے طیارے ہماری ہی سرزمیں اورسرزمین افغاناں سے اڑان بھرتے ہیں اورہماری سرحدکی کھلم کھلا خلاف ورزی کرکے ہم جوایٹمی طاقت ہیں‘ہمارے شہریوں پراکثرو بیشترسوتے کے عالم میں بے تحاشا بم برساکرچلے جاتے ہیں…درجنوں کے حساب سے لوگ ہلاک ہوجاتے ہیں۔حملہ آور دھمکی دیتے ہیں آئندہ بھی جب مناسب خیال کریں گے ایسا ہی کریں گے۔ وہ کربھی دکھاتے ہیں۔ چندسال پہلے تک ہمارے حکمران جب خالصتاً فوجی تھے تورسمی احتجاج سے بھی گریزاں ہوتے تھے۔ اب جو۱۸فروری کے انتخابات کے بعدایک سویلین اور جمہوری صدراوروزیراعظم کوبھی لابٹھایاگیاہے توحرف شکایت یقینا زبان پرلایاجاتاہے لیکن سرحدوں کی پامالی ہے کہ مسلسل ہورہی ہے۔
خودکش حملوں نے پاکستان کے ہرقابل ذکر شہر اور ہمارے عسکری وحساس اداروں کونشانہ بنارکھاہے۔ عام شہریوں کے علاوہ فوج کے ایک جرنیل اورنامی گرامی جاسوس اداروں کے افسران واہلکار بھی ان کی زد میں آکرجانوں سے ہاتھ دھوبیٹھے ہیں۔ انتخابات کے بعدقوم کوامیدتھی کہ آمریت کی ظلمت شب کے بعدحق وانصاف کی سحرطلوع ہوگی لیکن حالات آپ کے سامنے ہیں۔اگرلچھن یہی رہے تواس مضراب کے تاروں کوپھر چھیڑاجاسکتاہے۔پچھلے سال امریکہ کی ہوم لینڈ سکیورٹی کے سربراہ مائیکل چیرٹاف نے ہمسایہ افعانستان کے بگرام ہوائی اڈے پرکھڑے ہوکر کہاتھا:”اگرحکومت پاکستان نے ہماری مزیداطاعت نہ کی توبے نظیربھٹوجیسا ایک اور حادثہ ہوسکتا ہے“۔ خاکم بدہن اگرایساہوگیاتورحمٰن ملک موجودہیں…نمٹ لیں گے۔کون سا مشکل کام ہے۔ دہشت گردوں کے سرپرالزام جڑدیں گے۔
کیاایٹمی طاقتوں کایہی شیوہ ہوتاہے۔ کیا وہ بم دھماکہ کرکے اپنے آپ کواس حالت زار تک پہنچادیتی ہیں۔ بھارت کودیکھئے اس نے ہم سے کوئی دوہفتے پہلے ۱۱اور۱۳مئی ۱۹۹۸ء کودھماکے کئے تھے۔ باقاعدہ ایٹمی طاقت بن جانے کااعلان کیاتھا۔ تب وہاں آئین اور عوام کی منتخب کردہ حکومت تھی۔ آج بھی ہے۔ جمہوریت کاتسلسل جاری ہے۔ ایٹمی قوت بن جانے کے بعدبھارت کے نازنخروں میں بہت اضافہ ہو گیاہے۔ صدر بش نے مارچ۲۰۰۵ء میں وہاں پہنچ کر ایٹمی سمجھوتہ کرنے کااعلان کیاتھا۔ لیکن پارلیمنٹ میں کانگریسی حکومت کے حامی بائیں بازو کے بلاک نے اس پرعمل نہیں ہونے دیا۔ اعتراض بس یہ تھا اس سے ہماری حاکمیت اعلیٰ اور قومی آزادی پر قدغن سی لگ جائے گی ،ہم واحدسپر طاقت کے ساتھ ایٹمی تعاون کی عیاشی کے بدلے اپنی سب سے قیمتی متاع قومی پرحرف نہیں آنے دیں گے۔
امریکی سفارتکار وں نے اس معاہدے کی کامیابی کیلئے کیاکچھ نہیں کیاتھا۔ ہنری کسنجر نے وہاں کے کیمونسٹ سیاستدانوں کومنانے کولکتہ تک کاسفرکیا،کسی نے ایک نہیں مانی۔ سردار من موہن سنگھ کی کانگریسی حکومت معاہدے کی قائل ہونے کے باوجود اسے روبہ عمل نہیں لاپارہی تھی کیونکہ عوامی اورمنتخب سیاستدانوں کاایک طبقہ شدیدمخالف تھا۔بالآخراس معاہدے میں ضروری ترامیم کرنے کے بعدکافی حدتک بھارت کی بات مان لی گئی لیکن اس کے برعکس ہمارایہ عالم تھاکہ جنرل مشرف اوراین آراوکے تحت درآمدٹولہ اپنے سرپرست امریکیوں سے سرعام اور چار دیواری کے اندر ہونے والی ملاقاتوں میں باربارتقاضاکررہاتھاکہبھارت سے ملتاجلتایاکمتر ایٹمی معاہدہ ہمارے ساتھ بھی کرلیجئے۔ وہاں سے ہربار ٹکاساجواب ملتارہا کہ تم اس لائق نہیں ہو۔
موجودہ حکومت کااقتدارامریکہ کی بیساکھیوں پرقائم ہے۔ جیساکہ ۱۸ فروری کے انتخابی نتائج نے کوئی شبہ نہیں رہنے دیا۔اسے پاکستانی عوام کی حمایت حاصل نہیں رہی۔کراچی کے حالات کے بارے میں ڈی جی رینجرزنے اعلیٰ عدالت میں یہ بیان دیاکہ کراچی کے حالات وزیرستان سے بھی بدترہیں اورآئی ایس آئی نے عدالت سے استدعاکی کہ پولیس اوررینجرزکراچی کے حالات ٹھیک کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں لیکن سیاسی بندشیں راستہ روک کرکھڑی ہیں۔ فاسق کمانڈو اورموجودہ حکومت نے اپنے آقاؤں کی خوشنودی کی خاطرایٹمی طاقت کے معمار ڈاکٹر عبدالقدیر خان کونظربندکئے رکھا جبکہ اعلیٰ عدالت سے ان کورہائی ملی۔۲۰۰۴ء میں انہیں زبردستی ٹیلی ویژن پرلاکرمعافی منگوائی گئی یوں ملک وقوم کے محسن کی توہین کی گئی جبکہ بھارت والوں نے اپنے ملک میں ان کے ہم پایہ سائنس دان ڈاکٹر عبدالکلام کوصدرمملکت کے عہدے پرفائز کیا…امریکی پہلے جنرل مشرف سے کام لیتے رہے اوراب موجودہ حکومت توپہلے سے زیادہ اپنے آقاوٴں کادم بھررہے ہیں۔کیاوہ یہ جانتے نہیں کہ دل سے عزت انہوں نے اپنے آلہ کاروں اورایجنٹوں کی پہلے کبھی کی ہے‘نہ اب کرتے ہیں۔
لیکن آج سیگیارہ سال پہلے۲۸مئی۱۹۹۸ء کوجب ہم نے چاغی میں ایٹمی دھماکہ کیا تھا۔ بھارت کے جواب میں برابرکی جوہری قوت ہونے کااعلان کیاتھا۔ تب پاکستان کی یہ کیفیت نہ تھی۔ ایک منتخب پارلیمنٹ تھی اور جمہوری وزیراعظم تھا۔ملک کے متفق علیہ آئین کی بالادستی تھی۔ تب امریکی صدرکلنٹن نے منت سماجت کی تھی۔۵بلین ڈالر کی امداد قرضے کی پیش کش کی تھی ،نوازشریف اورشہبازشریف کے ذاتی اکاؤنٹ میں ایک سو ملین ڈالرمنتقل کرنے کالالچ دیاتھا،اس کے ساتھ دھمکیاں بھی مل رہی تھیں۔ حقہ پانی بند کردیں گے ، امدادنہیں ملے گی، جوجاری ہے بندکردی جائے گی، قرضوں کوجلد ازجلد واپسی کاتقاضہ شدید ہوجائے گا، آپ لوگ کہیں کے نہیں رہیں گے ،بے بس کرکے رکھ دئیے جائیں گے۔ نوازشریف جان گئے تھے کہ اگرانہوں نے ایٹمی دہماکہ نہ کیا توعوام ان کادہماکہ کردیں گے اس لئیمنتخب وزیراعظم لالچ میں نہ آیا۔ دھمکیاں اور واحدسپرطاقت کاخوف اس کے پائے استقلال میں لغزش نہ پیداکرسکاکہ عوام کی تائیداسے حاصل تھی،اس طرح پاکستان ایٹمی قوت کے لحاظ سے بھارت کے مقابلے کی طاقت بن گیا۔
۱۹۷۱ء سے جوخوف وخطر ہم پرطاری تھادور ہوگیا۔ بھارتی حکومت کے ایوانوں میں بھی اس کے اثرات محسوس کئے گئے۔ نوازشریف نے اٹل بہاری واجپائی کودعوت دی…آؤ…مل کر بیٹھتے ہیں‘مذاکرات کرتے ہیں۔ تنازعہ کشمیر کامنصفانہ حل نکالتے ہیں۔ اس نے فوراً حامی بھرلی ،بس پرسوارہوا، امرتسرسے سیدھا لاہور پہنچا… آتے ہی مینارپاکستان پرگیا۔اپنے الفاظ پاکستان کی حقیقت پرمہرتصدیق ثبت کی۔اس کے بعدمذاکرات کی میزپربیٹھا۔ پھراعلان لاہور ہوا۔ طے کیاگیا …مسئلہ کشمیرکے جلد ازجلدحل کے لئے پس پردہ یاٹریک ٹو عمل کاآغازہوگیا۔ ہرایک کوتوقع تھی جلد کسی فارمولے پراتفاق کرلیاجائے گا جوکشمیری عوام کے لئے بھی قابل قبول ہوگالیکن دوسری طرف عالمی طاقتوں نے سی ٹی بی ٹی کاشوشہ چھوڑکرپاکستان کی ایٹمی صلاحیت کے گرداپنامحاصرہ تنگ کرناشروع کردیا۔
پاکستانی عوام کویہ خطرہ لاحق ہوگیاکہ نوازشریف حکومت اپنی انتہائی مقبولیت کاسہارالیتے ہوئے اس جھانسے میں نہ آجائیں کیونکہ اس سے قبل ان کی پارٹی کے کارکنوں نے جہاں اعلیٰ عدالت کے احترام کوپارہ پارہ کردیاتھاوہاں فوج کے سربراہ جہانگیر کرامت کواستعفیٰ دینے پرمجبورکردیاگیاتھا۔اپنے ہی ساتھیوں کے مشورے کے بعدپرویزمشرف کو فوج کا نیاسربراہ مقررکیاگیالیکن اس کے ساتھ ہی کارگل کی مہم جوئی نے تعلقات کوانتہائی خراب کردیا۔ فاسق کمانڈو کی جوبھی جنگی منصوبہ بندی تھی وہ اس لئے بری طرح ناکامی کاشکار ہوئی کہ اس کی پشت پرسیاسی حمائت نہیں تھی جبکہ عالمی طاقتیں بھارت کے ساتھ کھڑی تھیں۔ پاکستان میں امریکہ کے مستقل ایجنٹوں کوجنہوں نے۱۹۵۳-۵۴ ء سے ملک کوبدقسمتی سے پینٹاگان کی چوکی بنارکھاہے اوربار بار مارشل لاء لگانے کاخوگرہیں وہ ایسے مواقع کوہرگزضائع نہیں کرتے۔انہیں تو یہ ہرگزمنظورنہ تھا کہ اس خطے میں تنازعہ کشمیر حل کی جانب آئے اوران کی اہمیت باقی نہ رہے۔ فاسق کمانڈونے اپنی خجالت کابدلہ ملک کے آئین اور جمہوریت سے لیا، منتخب وزیراعظم کاحکم ماننے کی بجائے اس کوبزورطاقت برطرف کرکے اقتدارپرناجائز قبضہ کرلیا۔
اب صورتحال پہلے سے کہیں زیادہ خراب ہے لیکن اس مرتبہ فوج کسی کوسیاسی شہیدبنانے میں دلچسپی نہیں رکھتی۔موجودہ حکومت پوری کوشش کررہی ہے کہ کسی طرح مارچ میں سینیٹ کے انتخابات میں ان کوبرتری حاصل ہوجائے اوراس کے بعدبیشک عدالت ان کوگھربھیج دے تاکہ وہ اگلے انتخابات میں اپنی سیاسی شہادت کی بناء پردوبارہ اقتدارکے ایوانوں میں پہنچ جائیں لیکن قوم یہ سوچنے پرمجبورہے کہکیاوجہ ہے کہپاکستان ایٹمی طاقت ہونے کے باوجوداب بھی امریکہ کے ہاتھوں کھلونا اورہروقت اس کے عتاب کابھی شکار رہتا ہے ۔ دنیامیں سات اعلان شدہ ایٹمی طاقتیں ہیں۔ امریکہ میں جمہوریت ہے، آئین کی حکمرانی ہے، برطانیہ کی جمہوریت کے بارے میں دورائے نہیں، فرانس میں صدر اور وزیراعظم دونوں عوام کے براہ راست منتخب کردہ ہوتے ہیں، روس سوفیصد جمہوری معیارات پراگرنہ بھی اترتاہو توفوج کووہاں کوئی عمل دخل نہیں۔ چین میں آج بھی کمیونسٹ پارٹی کاسیاسی راج ہے ،جرنیل مداخلت کایارانہیں رکھتے،بھارت اگرچہ ہمارا دشمن اور کشمیرکاغاصب ہے لیکن اندرون ملک آئینی تشکیل اورجمہوری پختگی نے اس مقام پرلاکھڑا کیاہے کہ سلامتی کونسل کامستقل رکن بننے کیلئے عالمی طاقتوں کے دروازے کھٹکھٹا رہاہے۔ ایک ہم ہیں کہ اپنی ہی صورت بگاڑ لی ہے۔ساتویں ایٹمی طاقت ہونے کے باوجود اندرونی طورپرمضبوط ہیں‘نہ بیرونی دنیامیں آزاد ریاست کے شایان شان وقار کے مالک ہیں۔کیایہ درست نہیں کہ امریکی ایجنٹوں کی حکمرانی نے کہیں کانہیں رہنے دیا۔