Home / Socio-political / پرانے چہرے نیا روپ

پرانے چہرے نیا روپ

عباس ملک

ہاتھ میں کاسئہ گدائی لیے ہوئے حکومت کے اعلی عہداران نے کبھی یہ کیوں نہیں سوچا کہ ہم خود انحصاری اور خوداری کا دامن تھام لیں ۔اگر ڈونرز کانفرنس کا نعقاد گھنٹوں میں ہو سکتا ہے تو ان ظالموں سے کون پوچھے کہ مفاد عامہ اور رفاعہ عامہ کیلئے منصوبہ بندی کرنے میں اتنا تامل کیوں ؟ایک ٹی وی شو میں ایک سیاستدان کو یہ بات بہت بھائی کہ عوام کو لیڈر حضرات کے پروٹوکول پر جی کڑانے کی بجائے ان کی حفاظت کے نقطہ کو ملحوظ خاطر رکھنا چاہیے ۔یہ ملک و قوم کے مسیحا ہونے ناتے اس پروٹوکول کے اصل حقدار ہیں ۔صاحب گفتگو بڑے تجربہ کار فنکار اور شاید خود بھی مصنف ہیں لیکن ان کا لگایا مکھن سیاستدان کو تو ہضم ہو سکتا ہے لیکن عوام کیلئے بہت ثقلیل ہے ۔یہی مسیحا جب حکومت میں ہوتے ہیں تو بہت قیمتی ہوجاتے ہیں لیکن جب عوام انہیں اس لائق نہیں جانتی تو پھر گلیوں میں دھکے کھا رہے ہوتے ہیں ۔اس کی مثال ہمارے کئی صاحب پروٹوکول آج بھی ہمارے ہاں نظر آتے ہیں ۔اگر ان کا مقصود صرف اپنی حفاظت ہی ہے تو پھر عوام کی مسیحائی کا دعوی باطل ہو جاتا ہے ۔حفاظت کیلئے سائنسی بنیادوں پر منصوبہ بندی کیوں نہیں کر لی جاتی تا کہ پروٹوکول کے ان قافلوں کی ضرورت ہی باقی نہ رہے ۔جو مانگ کر لاتے ہیں وہ اپنے پروٹوکول اور دفاتر کی تزہین و آرائش پر لگا دینے سے عوامی فلاح و بہبود کیلئے صرف طفل تسلیاں باقی رہ جاتی ہیں ۔ عوام نعروں اور سبز باغوں کی سیاست کی سیاحت کرتے کرتے بجلی ،گیس ،پانی ،صحت ،تعلیم اور امن وجان سے محروم ہو چکے ہیں ۔ڈرون حملے ہوں یا ڈراؤنے بیانات ان کا تعلق پاکستان اور پاکستانیوں کی سلامتی پر سوالیہ نشان تولگاتا ہے لیکن یہ خود محفوظ رہتے ہیں ۔عوام سے سب کچھ چھین لینے کے بعد بھی عوام کے یہ مسیحا ڈومور کے تقاضے سے دست بردار ہونے کو تیار نہیں ۔مزید ٹیکس نہ عائد کرنے کے دعوی کے ساتھ ہی ٹیکس نہ دینے کی پاداش میں عام کو کسی نہ کسی محرومی سے دوچار کر دیا جاتا ہے ۔ضروری نہیں کہ کسی کو جان سے مار دیا جائے بلکہ اگر اس کو کسی محرومی سے دوچار کر دیا جائے تو دشمنی کا زیادہ مزہ آتا ہے ۔عوام کو محرومیوں سے دوچار کرنے والے حکام بالا کی زندگیوں میں کوئی محرومی کا شائبہ بھی نظر نہیں آتا ۔پھر عوام کو ان کا حق نہ دینا جرم نہیں ؟اس جرم کو اختیارات کے ناجائز استعمال کرنے والے افسران پر کون لاگو کرے گا ۔تحقیق کرنے اور اس پر عمل درآمد کرانے والے سب ہی اختیارات کے ناجائز استعمال کی ڈور میں ایک ساتھ بندھے ہوں تو چھاج چھلنی کا کیا طعنہ دے سکتاہے ۔ایک دوسرے کے عیوب و نقائص سے واقف ایک دوسرے کو کس طرح برا کہہ سکتے ہیں ۔یہ احتسابی اداروں کاختیارات سے ناجائز تجاوز ہی توہے کہ وہ غریب کے اختیار پر تو نظر رکھتے ہیں لیکن اکابرین سے صرف نظر کرتے ہیں ۔غریب کو دیکھ کر ان کا غصہ عروج پر ہوتا ہے اور امیر کو دیکھ کر انہیں پیار آجاتاہے ۔غریب کی غلطی یا کوتاہی اور جرم ملک و قوم اور ملت کیلئے زہر قاتل اور امیر کا قصور اس کی اعلی صلاحیتوں کا عکاس بن جاتاہے ۔ایسے میں معاشرے سے کرپشن کے خاتمے کا خواب کس طرح شرمندہ تعبیر ہونا ممکن ہو ۔اختیار بھی بکتا ہے اور مختار بھی بکتا ہے ۔اصولوں کی بات کرنے والا اور شرم کرنے اور جھجکنے والا ان کے درمیان پس رہا ہے ۔موجودہ حکمران بھی کرپٹ ہیں اور اپوزیشن بھی گناہگارہے تو عوام سوچتی ہے کہ ان کا مسیحا کون ہے ۔اس سے یہ بھی مقصود ہے کہ عوام کے مفادات کے نگہبان حکمران اور اپوزیشن دونوں ہی کرپشن کے الزامات کی دبیز تہہ تلے دبے ہوئے ہیں تو وہ کس کو اپنا مسیحا گردانیں ۔دونوں جماعتوں سے ہٹ کر وہ تیسری کی جانب دیکھیں تو وہاں پر انہیں انہی جماعتوں کے مسترد کردہ اور سکینڈ لائن لیڈروں کے چہرے نظر آتے ہیں ۔عوام کس کو منتخب کریں ۔بھٹو کے وارث اپنے دشمنوں کو سب سے محترم قوم کا درجہ دینے پر تلے ہوئے ہیں ۔بی بی کے جانشین وفاق کی مضبوطی کے بجائے وفاق کی اکائیوں تقسیم کرکے اپنا ووٹ بینک محفوظ کرنے کی خواہش کی تکمیل اور آئیندہ عوام پر اپنی گرفت رکھنے کی پالیسی پر عمل پیرا نظر آتے ہیں ۔اپوزیشن اور حکمران اپنے اپنے بچاؤ کی جنگ لڑنے میں ہاتھیوں کے مثل عوام کو کچلتے جارہے ہیں ۔عوم اگر تحریک انصاف کے جلسے میں شریک ہوتی ہے تو اسے اس کا خمیازہ بھی کسی ٹیکس کی ادائیگی یا پھر کسی نئے ٹیکس کی نوید کی صورت میں بھگتنا پڑتا ہے ۔

تجزیہ کہتا ہے کہ عوام آئیندہ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن کو ووٹ دینے میں تامل کریں گے ۔ان کے سکہ بند راہنما تو شاید سیٹ بچانے میں کامیاب ہو جائیں لیکن دیگر کے اپنا آپ بچانا انتہائی دشوار ہو گا ۔اگر کنگ میکرز نے جھرلو نہ پھیرا تو یقینا کوئی بیسری قوت بازی لے جائے گی ۔ایسے میں اسلامی قوتوں کا عروج امریکہ اور سیکولر اور لبرل سب کیلئے خطرہ ہے ۔ایسا ناممکن ہی ہے کہ اسلامی قوتوں کے ہاتھ میں بازی دے دی جائے ۔مسلم لیگ ن کو بھی قیادت دینا طالبان کے ہاتھ مضبوط کرنے کے مترادف امریکہ کے نقطہ نظر سے گردانا جاتا ہے ۔ایسے میں امریکہ مسلم لیگ ن کے آئیندہ کامیابی کی راہ میں رکاوٹ بنے گا ۔تحریک کے جلسے ابھی سے اس کی آئیندہ صورت حال کی عکاسی کرنے اور کامیابی کی ضمانت قرار نہیں دئیے جا سکتے ۔ایم کیو ایم اور تحریک انصاف کیا اگلا انتخابی معرکہ جیتنے میں کامیاب ہو سکتی ہیں ۔باخبر ذرائع کہتے ہیں کہ متحدہ اور تحریک کے گھٹ جوڑ سے ایک نیا سیٹ اپ لانے کی کوشش کی جائے گی ۔اس سے ان خداؤں سے خلاصی کی صورت پیدا کر نے اور انہیں پیچھے دھکیلنے کی کوشش کی جائے گی ۔البتہ میرے خیال میں متحدہ اور تحریک کے پاس مئوثر منشور تو موجود ہے لیکن ان کے پاس الیکشن لڑنے کیلئے معتبر چہرے موجود نہیں ۔ایسے میں اگر وہ انہی سیاسی چہروں کو اپنا پلیٹ فارم مہیا کرتے ہیں تو ان کیلئے منشور پر عمل کرانا ناممکن ہو جائے گا ۔ایسے میں وہ عوام عتاب کا بہت جلد شکار ہو کر اپنا وجود کھو دینے کی پوزیشن میں آ سکتی ہیں ۔عوام کو اب یہ فیصلہ کرنا ہے کہ وہ کیا انہی حکمرانوں یا اپوزیشن کے راہ راست پر آنے کا انتظار کریں یا پھر نئے سہانے سپونوں اور سیاسی پلیٹ فارم سے آکر ان کے نئے طریقہ واردات کا شکار ہونے کیلئے خود کو پیش کریں ۔عوام اگر جمہوری طرز عمل کا مظاہرہ کریں تو وہ قائدین کے انتخاب میں متوسط طبقہ سے قیادت کاانتخاب کریں اور جاگیردار طبقے کو مسترد کریں ۔متوسط طبقے کا نمائیندہ ان کا حقیقی نمائیندہ ہے ۔اب بازی عوام کے ہاتھ میں ہے کہ وہ کس کے ہاتھوں میں اپنے مقدر ونصیب کی ڈور دیتے ہیں ۔

About admin

Check Also

یہ دن دورنہیں

امریکہ نے پاکستان کی سرزمین پر پہلاڈرون حملہ ۱۸جون ۲۰۰۴ء کوکیا۔ یہ حملے قصر سفیدکے …

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *