ڈاکٹر خواجہ اکرام
سچ کا چہرہ کبھی نہ کبھی دبیز تعصبات کے پردے سے بھی باہر آہی جاتاہے ۔آج ممبئی کی عدالت کے ایک اقدام سے یہ بات سامنے آہی گئی ۔بات پانچ سال قبل کی ہے کہ مالیگاؤں کی حمیدیہ مسجد کے قریب نماز کے بعد ایک زبردست بم دھماکہ ہوا تھا جس کے نتیجے میں سینتنس افراد ہلاک اور سو سے زیادہ زخمی ہوئے تھے۔ اس دھماکے کے فوراً بعد میڈیا میں اس حملے کے لیے مسلم دہشت گرد تنظیموں کو ذمہ دار ٹھہرایا گیا اور آناً فانا ً مالیگاوں سے نو لوگوں کو گرفتار کر کے جیل کی سلاخوں کے پیچھے ڈال دیا گیا۔ لیکن مقام شکر ہے کہ یہ افراد خوش قسمت نکلے کہ ان کی بے گناہی کے ثبوت سامنے آنے لگے اور انھیں ابھی کورٹ سے ضمانت مل گئی ہے حالانکہ ابھی حتمی فیصلہ آنا باقی ہے ۔ لیکن امید یہی کی جارہی ہے کہ جس طرح ابھی ضمانت دی گئی ہے اسی انداز میں اور انھیں شواہد کی بنا پر انھیں کورٹ سے با عزت بری بھی کیا جائے گا۔ لیکن اس کے بر عکس ہندستان میں کئی ایسے واقعات ہوئے ہیں جن میں مسلمان کسی طرح بھی شامل نہیں تھے لیکن انھیں گرفتار کیا گیا ہے اور وہ اپنی بے گناہی کی سز اکاٹ رہے ہیں۔ اس طرح کی گرفتاریوں میں حیدر آباد کی مکہ مسجداور اجمیر کے بم دھماکوں میں مسلمانوں کو گرفتار کیا گیا ہے ۔ حالانکہ مکہ مسجد کے حملے کے سلسلےمیں بھی پہلے مسلمانوں کو ہی گرفتار کیا تھا جنہیں لمبی قانونی کارروائی کے بعد بے گناہ پایا گیا۔اور جب سوامی اسیمانند کے ا قبالیہ بیان کے بعد یہ بات سامنے آئی کہ مالیگاوں کے دھماکے میں بھی ہندو تنظیموں کا ہاتھ تھا تو نیشنل تفتیشی ایجنسی نے اپنی تحقیق کا رخ بدلا جس کے نتیجے میں مالیگاوں کے دھماکے میں مالیگاوں کے گرفتار نوجوانوں کو آج ضمانت ملی حالانکہ اس معاملے میں نو مسلمانوں کو گرفتار کیا گیاتھا لیکن ان میں سے ابھی صرف سات ہی جیل سے باہر آسکے ہیں ۔ اور یہ بات بھی قابل غور ہے کہ پانچ نومبر کو ہی ان کو ضمانت مل گئی تھی لیکن انھیں جیل سے باہر آنے میں مزید گیارہ دن لگ گئے ۔
تفتیشی ایجنسیوں کے رویے پر اس حوالے سے ایک بڑ اسوالیہ نشان لگ گیا ہے کہ انھوں نے محض شک اور تعصب کی بنیاد پر مسلم نوجوان کی زندگی کے قیمتی پانچ سال بر باد کر دئے ۔ یہ انشا اللہ کورٹ سے بھی بری ہوجائیں گے جس طرح مکہ مسجد کے مسلمان ملزمین کو کورٹ نے بری کیا ۔ یہ یقینا ً یہ اچھی بات ہے کہ انھیں بری کیا گیا لیکن کیا حکومت اور تفتیشی ایجنسی اور متعلقہ محکمات ان لوگوں کی برباد ہوئی زندگی کا کوئی معاوضہ دے سکیں گے م ان کی فیملی اور خود ان کی ذہنی اور جسمانی تکلیفوں کے ازالے کی بھی کوئی سورت نکلہ سکتی ہے ؟ جو لوگ بری ہوئے ہیں اور وہ جن آفیسران کے غلط رویوں کے سبب اس بربادی کے شکار ہوئے ہیں ۔ کیا حکومت ان آفیسران کے خلاف بھی کوئی کاروائی کرے گی ؟ کیا ان آفسیران کو بھی ایسی ہی سخت جیل کی قید نہیں ملنی چاہیے ؟ تاکہ دوسرے آفیسران اس عبرت لیں اور آئیندہ مسلمان کے نام مسلم نوجونوں کی زندگیوں سے کھیلواڑ نہ کریں ۔
میرا خیال ہے کہ ایسے آفیسران کے خلاف بھی سخت کاروائی کا مطالبہ کیا جانا چاہیے تاکہ مستقبل ٕ میں ایسی غلطیاں دہرائی نہ جاسکیں ۔اور پولیس اور تفتیشی محکمے میں ہمینت کرکرے جیسے ایماندار اور غیر متعصب آفیسران کو سامنے آنا چاہیے جن کے لیے پورے ملک میں عزت و احترام کا جذبہ ہے اور ساتھ ہی جب ہندستان میں دہشت گردی پر میڈیا باتیں کرے تو مسلم دہشت گردی کے ساتھ ساتھ ہندو دہشت گردی کے حوالے سے بھی بات کرے کیونکہ دہشت گردی اب صرف مسلمانوں تک ہی محدود نہیں ہے بلکہ کئی ہندو تنظیمیں بھی اس میں ملوث ہیں ۔ اس لیے تعصبات سے بالاتر ہوکر اس مسئلے کو دیکھنے کی ضروت ہے تاکہ مالیگاوں کے مسلمانوں کے ان نوجوانوں کی طرح ہندستان کے مزید مسلم نوجوان ا س کے شکار نہ ہوں۔
*****
میرے خیال مین اگر مسلمانان ہند اس کام کیلئے ایک کمیٹی بنائے یا وکلاء کی ایک چھوٹی سی جماعت اسی سلسلے کیلئے بنائی جائے تو ہوسکتا ہے کہ ان واقعات کا کچھ سد باب ہوسکے۔
Bahut khoob sir, pahla mauqa hai ki isqadar walwal angez mazmoon parhne ko mila ae kash pareeshan muslim samaj apni samaji parishani ko inferadi taur par mahsoos karti aur in mazkura baton ko amli surat ata karti.