سمیع اللہ ملک
سیاہ رنگت اور ٹیڑھی ٹانگوں کی و جہ سے مشہور اور ہندوٴمت کے تینوں ویدوں اور منتروں پر عبور رکھنے والا چا لبازی کا ماہر چا نکیہ کو تلیہ اگر آج زندہ ہو تا تو وہ پچھلے ساڑھے تین سال سے کا میاب سیا سی چا لیں چلنے وا لے آصف زرداری سے متأثر ہوئے بغیر نہ رہتا ۔ممکن تھا کہ وہ آصف زرداری کو اپنا مہا گرو مان لیتا۔کہتے ہیں کہ پیدائش کے وقت چا نکیہ کے منہ میں پورے دانت تھے جو اس زما نے میں مستقبل میں با دشاہ بننے کی علا مت سمجھی جا تی تھی۔والدین کو اپنے بیٹے کا بادشاہ بننا منظور نہیں تھا اس لئے انہوں نے اس کے سارے دانت نکلوا دئیے۔ ما ں باپ نے اس کو با دشاہ نہیں بننے دیا تا ہم وہ با دشاہ گر ضرور بن گیا۔
آج سے ساڑھے تین سال پہلے جس چالاکی وہوشیاری سے آصف زرداری کے اپنے آپ کو صدارتی امیدوار نا مزد کروانے کے فیصلے پر مجھے اپنے اس فیصلے سے رجوع کر نا پڑگیا ، میں جوان کو بادشاہ گر سمجھ بیٹھا تھا آصف زرداری نے پچھلے چندبرسوں سے کا میاب سیاسی چا لوں کے بعدخودکو بہت چھوٹا ثابت کر دیا ہے۔بہر حال میری رائے سے اتفاق کر نا کوئی ایسا ضروری بھی نہیں ‘لیکن اس بات سے انکار ممکن نہیں کہ آج پا ٹلی پتر کے نندا خاندان کے با دشا ہوں کے نام شاید کسی کو یاد ہوں مگر ٹیکسلا میں پیدا ہو نے وا لے چا نکیہ کو تلی کو ہر کوئی جا نتا ہے۔ چا نکیہ کو تلی کی شہرہ آفاق تصنیف”ارتھ شاستر“بیسویں صدی کی ہندو ریاست کا سہارا تو بنی ہی‘تقسیم ہند سے لیکر آج تک ہندو حکمرانوں کے اقدامات اورحکمت عملیاں بھی چا نکیہ کو تلی ہی کی سیا سی فکر کی آئینہ دار ہیں۔آج بھی لوگ بھارت کی پا لیسیوں کو چانکیائی پا لیسیاں کہتے ہیں۔بھارت کی سول اور ملٹری بیورو کریسی کیلئے اس کتاب کا پڑہنا لازم ہے۔
قارئین کرام! چا نکیہ کو تلی کا موازنہ مکا ری ‘عیاری اور چالبازی کے ایک اور شاہکار ”بادشاہ“(The Prince)کے مصنف میکا ولی سے کیا جا تا ہے۔بھارتی مفکرین اس کا برا مناتے ہیں ۔ان کا کہنا ہے کہ میکاولی کا کام دراصل ”ارتھ شاستر“ کا چربہ ہے ۔میکا ولی پندرھویں صدی کی پیداوار ہے جبکہ ”ارتھ شاستر“۳۱۱ سے ۳۰۰ قبل مسیح کے درمیان تصنیف کی گئی تھی‘لیکن یہ ۱۹۰۴ء میں دریافت ہوئی ‘۱۹۰۵ء میں کتابی شکل میں مرتب ہوئی اور ۱۹۰۹ء میں انگریزی ترجمے کے ساتھ شائع ہوئی۔میکاولی کو سنسکرت آتی تھی نہ ہی اس زما نے میں کتاب کا انگریزی ترجمہ مو جو د تھا‘اس لئے چربے والی بات سے اتفاق نہیں کیا جا سکتا‘ا لبتہ اس چربے کی بحث سے قطع نظر دونوں نے ریاست چلا نے کیلئے چا لبازیوں‘ مکاریوں ‘دھوکہ با زیوں ‘مجرما نہ ذہنیت اور ظلم و تشدد کو ضروری قرار دیا۔یہ الگ با ت ہے کہ چا نکیہ کو تلی کچھ نہ کچھ اخلاقی ضا بطوں پر یقین رکھتا تھا ۔میکا ولی دشمن کو پوری طرح اور ہر ممکن طریقے سے ختم کر نے کی ہدائت دیتا ہے ‘اس کے بر عکس چا نکیہ کو تلی راست باز اور نیک حکمرانوں پر حملہ نہ کر نے کا مشورہ دیتا ہے ۔مجھے معلوم نہیں کہ آصف زرداری نے ”ارتھ شاستر“ کا مطا لعہ کیا ہے کہ نہیں ‘البتہ انہوں نے میکا ولی کو بھی ”مغربی سیا سی فکر“کے سمجھنے کیلئے ضرور پڑھا ہو گا ۔مجھے نہیں معلوم کہ انہوں نے کیا کچھ پڑھا ہے؟اس سے کیا اخذ کیا ہے ؟لیکن میکا ولی ‘چا نکیہ کو تلی کو پڑھے بغیر کوئی سیاسی چالبازی کا ماہر سیاستدان کیوں نہیں بن سکتا۔سنا ہے کہ میکا ولی کی کتاب بھٹو صاحب کے سرہانے رکھی رہتی تھی۔
آصف علی زرداری نے بی بی سی ٹی وی کو انٹرویو میں کہا تھا کہ”معاہدے قرآن و سنت نہیں ہو تے کہ جن پر عمل کر نا لا زم ہو ‘معاہدے تو ڑے جا سکتے ہیں ۔“سیاسی معاہدوں سے متعلق قرآن و سنت کی تعلیمات کچھ اور ہیں لیکن چا نکیہ کو تلی اور میکاولی نے با دشاہ کے مفاد کیلئے معاہدے توڑنے کی ترغیب دی ہے۔معاہدے ٹوٹتے ہیں تو اتحاد بھی ٹوٹے گا ۔ سیاسی اتحاد کو کسی نے بجا طور پر ”ضرورتوں کی شادی“کہا ہے۔ضرورت پوری ہو نے پر طلاق د ے د ی جا تی ہے۔یہ الگ بات ہے کہ کس فریق کی ضرورت پہلے پوری ہو جا تی ہے ۔ آصف علی زرداری نے اپنے اقتدارکی بساط کچھ ایسے طریقے سے بچھائی کہ ان کے بیرونی آقابھی ششدر رہ گئے۔آصف زرداری نے بڑی چالاکی کے ساتھ مسلم لیگ ن کے سربراہ میاں نوازشریف کودوستی کے رشتے میں پھانس کرمرکزی حکومت میں ان کوشامل کیااورپنجاب میں اپنی جماعت کی حمائت فراہم کرکے ملک کے سب سے بڑے صوبے پنجاب کی حکومت ان کے حوالے کردی۔
صوبہ سندھ میں ایم کیوایم سے تمام اختلافات دورکرنے کیلئے خودان کے پاس کراچی پہنچ گئے اورمرکزکے علاوہ صوبہ سندھ میں ان کوشامل کرلیا ،بلوچستان میں مسلم لیگ ق کی برتری کواپنی پارٹی میں شامل کرکے اپنی حکومت قائم کرتے ہوئے پاکستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ ایسادلچسپ مظاہرہ دیکھنے میں آیاجہاں کوئی اپوزیشن نہیں ہے اوراے این پی کی دلی خواہش کوپوراکرتے ہوئے صوبہ سرحدکوپختونخواہ کانام دیکر وہاں بھی اتحادی حکومت قائم کردی۔ تمام صوبائی اسمبلیوں سے مشرف کے خلاف قراردادپاس کرواکے اس کورخصت ہونے پرمجبورکردیااورخودایوان صدرمیں براجمان ہوکراپنے امریکی نائب صدرکے گلے میں پاکستان کے اعلیٰ اعزازپہناتے ہوئے بیرونی آقاؤں کومطمئن کردیاکہ ان کے احکام کی تعمیل میں کبھی کوئی تاخیرنہ ہوگی۔
میاں نوازشریف نے جب عدلیہ کی بحالی کاوعدہ یاددلاتے ہوئے دباوٴ بڑھایاتوڈوگرحکومت سے نوازشریف سے صوبہ پنجاب کی حکومت کوبرطر ف کروادیاگیاجوبعدازاں لانگ مارچ کی صورت میں عدلیہ کوبحال توکرناپڑالیکن آج تک عدلیہ کی بے توقیری میں کوئی کسرنہیں چھوڑی۔ این آراواورکرپشن کے مقدمات میںآ ج تک عدالتی احکام کونہ صرف نظراندازکیاگیابلکہ خودحکومت کی کرپشن کوروکنے کیلئے عدالت نے جواقدامات اٹھانے کاحکم دیااس کی کھلم کھلاخلاف ورزی کی جارہی ہے۔
ادھرپاکستانی عوام نے پچھلے ڈھائی تین سالوں وزیراعظم گیلانی کایہ بیان کئی مرتبہ سناہے کہ وہ اداروں میں تصادم نہیں چاہتے بلکہ اب تووہ پارلیمنٹ میں اس بات کی تکرارکررہے ہیں کہ ہم عدلیہ کے تمام احکام کی من وعن تعمیل کررہے ہیں ۔اگرایسا ہی ہے توپھر۲۷جولائی کوایوان صدرمیں حکومت نے اپنے اتحادیوں کوبلاکرعدلیہ کویہ پیغام کیوں دیاہے کہ اب بہت ہو گیا ، لیکن اب عدلیہ کوحکومت کے اختیارات میں مداخلت نہیں کرنے دیں گے۔اب توپاکستان میں متعین غیرملکی سفارتکاربھی میڈیاکے ا فرادسے یہ پوچھتے نظرآتے ہیں کہ وزیراعظم گیلانی ملک کی عدالتِ عالیہ سے لڑنے کیلئے کیوں آمادہ نظرآتے ہیں؟ملک کے وزیراعظم حج کرپشن کیس میں عدالت کے احکام پراس لئے عمل نہیں کررہے کہ اس میگاکرپشن میں ان کے بیٹے عبدالقادرکانام ہے؟
لیکن اسلام آبادمیں باخبرحلقے ایک ایسے سنگین بدعنوانی کاذکربھی کررہے ہیں جہاں اگلے چنددنوں میں ایک ایسا کیس منظرعام پر آنے والاہے جس میں براہ راست خودوزیراعظم کانام لیا جارہاہے۔افغان کارپٹ کے حسین خان نے اسلام آبادکی ہائی کورٹ میں اپنی درخواست میں یہ دعویٰ کیاہے کہ وزیراعظم یوسف رضاگیلانی کے ایک مشیر میاں خرم رسول نے چار مختلف مواقع پر۴۳کروڑروپے آئل ایکسپورٹ لائسنس اور ایل پی جی کوٹہ دلوانے کی مدمیں وصول کئے ۔اس سلسلے میں میاں خرم رسول نے حسین خان کی وزیراعظم گیلانی سے باقاعدہ ملاقات بھی کروائی ۔اس کیلئے حسین خان نے متعلقہ محکموں کے سربراہان کے ساتھ” ایم یو“پر دستخط بھی کئے جوبعدازاں تحقیق کے پتہ چلا کہ دستخط کرنے والے سب افراد فرضی تھے اور یہ سب جعلی ڈرامہ تھا۔
جب حسین خان نے کچھ اعلیٰ حکومتی عہدیداروں تک رسائی حاصل کرکے اپنے ساتھ ہونے والی اس دھوکہ دہی واردات کاان سے ذکرکرتے ہوئے وزیراعظم گیلانی سے اپنی لوٹی ہوئی رقوم کامطالبہ کیاتووزیراعظم یوسف رضاگیلانی نے اپنے مشیرخرم رسول کویہ رقم واپس کرنے کاحکم دیا۔خرم رسول نے حسین خان کواس رقم کاکچھ حصہ بذریعہ” بینک چیکس“(Cheques) واپس کیالیکن بعدازاں وہ چیکس بھی مستردکردیئے گئے۔بینک کی اس کاروائی کے بعداس مقدمے کی فوری انکوائری شروع کردی گئی اورایف آئی اے اسلام آبادنے مارچ ۲۰۱۱ء میں وزیراعظم کے مشیرخرم رسول کے خلاف مقدمہ درج توکرلیالیکن مزیدکسی کاروائی سے گریزکیا۔۱۹جولائی ۲۰۱۱ء کوحسین خان نے اسلام آباد ہائی کورٹ میں خرم رسول کے خلاف ایک درخواست دائرکردی جس کے بعدہائی کورٹ نے حکومت پاکستان کو اگلے دوہفتوں کے اندرمیاں خرم رسول سابق مشیربرائے وزیراعظم کو گرفتارکرکے عدالت کے سامنے پیش کرنے کاحکم دیا ہے۔
پرویزحسین کاکہناہے کہ یہ خرم رسول وزیراعظم کے بہت قریبی دوست ہیں اورایف آئی اے ان کوگرفتارنہیں کررہی۔اب ۳اگست کویہ مدت ختم ہوجائے گی ۔حسین خان نے اس بات کابھی دعویٰ کیاہے کہ اگرمجرم کوگرفتارنہیں کیاگیاتووہ بہت سے دیگراہم انکشافات بھی کریں گے۔وزیراعظم گیلانی اس بات سے باخبرہیں کہ اگلے چنددنوں میں ایف آئی اے پرخرم رسول کی گرفتار ی کیلئے عدالتی دباوٴ شدت اختیارکرجائے گااس لئے انہوں نے ابھی سے عدالتی احکام کی مزاحمت شروع کردی ہے تاکہ توہین عدالت کے الزام میں انہیں برطرف کردیاجائے ۔اسلام آبادکی فضاوٴں میں یہ بازگشت بڑے زوروں سے چل رہی ہے اوراسی لئے ایک سفارتکارنے تویہاں تک کہاکہ معلوم ہوتاہے کہ وزیراعظم خودیہ چاہتے ہیں کہ عدالت ان پرتوہین عدالت لگاکران کوعہدے سے برطرف کردے تاکہ وہ سیاسی شہیداورمظلوم بن کر عوام کے سامنے جوابدہی سے بچ سکیں۔
آج پیپلز پا رٹی کی ضرورتیں پوری ہو گئیں ہیں ۔جنرل پرویز مشرف کی رخصتی ،وزیر اعظم‘سپیکر‘ڈپٹی سپیکراور گورنر پنجاب کے علاوہ ملک کے تینوں صوبوں میں زرداری سیاسی قلابازیاں کامیاب ہوچکی ہیں اورکراچی میں اپنے ہی دواتحادیوں کے درمیان جاری خونریزی کوبھی اپنی سیاسی کامیابی کیلئے استعمال کیاجارہاہے ․․․․․․پیپلز پا رٹی کو اور کیا چاہئے ؟ معاہدہ توڑنے سے اگر اتحاد ٹوٹتا ہے تو بھلے ٹوٹے ‘پیپلز پارٹی کو اس پر کوئی افسوس ہوگا اور نہ ہی کوئی پریشانی!مسلم لیگ(ن) اپوزیشن میں جا بیٹھی ہے ۔محترم نواز شریف کو میرا مخلصانہ مشورہ ہے کہ وہ”کیا ہوا تیرا وعدہ‘وہ قسم وہ ارادہ“گنگنانے کی بجائے چا نکیہ کو تلی کی ”ارتھ شاستر“اور میکاولی کی”بادشاہ“پڑھ لیں ۔اس سے نہ صرف وہ مستقبل میں ا چھے حکمران ثابت ہونگے بلکہ ان کو غمگین گا نے بھی نہیں گنگنا نے پڑیں گے۔