ڈبل سواری پر پابندی کیوں…چند حقائق
صدر پاسبا ن پاکستان آپ نے یہ محاورہ کئی بار سنا ہوگا …’’فلاں کا نزلہ فلاں پر گر گیا‘‘باالکل اسی محاورہ کے مصداق جب بھی کراچی شہر میں دہشت گردی کی لہر آتی ہے ، محرم الحرم کی آمد ہوتی ہے ، یہ شہر میں کوئی اہم واقعہ ، مہم یا انتظامی سرگرمی ہونے والی ہوتی ہے تو وزارت داخلہ سندھ اورقانون نافذ کرنے والے ادارے اداروں کا ’’نزلہ‘‘ لاکھوں مظلوم موٹر سائیکل سواروں پر آن گرتا ہے جس کے نتیجے میں غریب ، متوسط اور کسی حدتک پوش عوام کی محبوب موٹر سائیکل کی ڈبل سواری پر پابندی عائد کردی جاتی ہے۔ ہماری بیورو کریسی کی ہمیشہ سے یہ ریت بھی رہی ہے کہ وہ اکثر یہ پابندی لگا کر ’’بھول‘‘ جاتی ہے۔ بعض اوقات دہشت گردی کے بڑے بڑے واقعات رونما ہونے پر بھی پابندی نہیں لگائی جاتی اور بعض اوقات معمولی سی واردات کے بعد بھی ڈبل سواری پر پابندی لگا دی جاتی ہے ۔ اس بار بھی ایسا ہی ہوا ہے ۔ عباس ٹائون سانحہ کے بعد اور 11مئی کے عام انتخابات سے چند دن قبل ڈبل سواری پر پابندی عائد کردی گئی جو تاحال جاری ہے دہشت گردی کے واقعات میں 4وہیل گاڑیاں بھی ملوث ہوتی ہیں ۔ دہشت گردی کے بعض واقعات میں کالے شیشے والی پجارو جیسی لگژری گاڑیاں بھی استعمال ہوئی ہیںلیکن اُن پر پابندی نہیں لگتی بلکہ نزلہ موٹر سائیکل سواروں پر ہی آن گرتا ہے ۔
ڈبل سواری پر پابندی کا جواز دفعہ 144سے مہیا کیا جاتا ہے۔ یہ انگریز دور کا وہ کالا قانون ہے جو اُس دور سے ہی بنیادی انسانی حقوق کا گلا گھنوٹنے کا باعث بن رہا ہے۔ انگریز کو تو اپنے خلاف جدوجہد آزادی کو کچلنے کے لئے ایسے ہی کالے قوانین کی ضرورت تھی لیکن سوچنے کی بات یہ ہے کہ ہمارے جمہوریت پسند ارکان اسمبلی اور قانون ساز اداروں نے انگریز دور کے اس کالے قانون کو کیوں اب تک برداشت کیا ہوا ہے ۔ یہاں یہ بھی سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا ہم انگریز کے پروردہ سسٹم کو تبدیل کرنے پر تیار نہیں ہیں کیونکہ جب بھی کوئی معاملہ ہاتھ سے نکل رہا ہو دہشت گردوں کو پکڑنے میں ناکامی ہو تو دفعہ 144کا سہارہ لے لیا جائے اور اپنی کرسی کو گرنے سے بچایا جائے اور عوام کے بنیادی انسانی حقوق کو کچل دیا جائے۔
ڈبل سواری پر پابندی کی تاریخ بہت طویل ہے گو کہ 1990کے بعد سے درجنوں بار یہ پابندی لگائی جاچکی ہے۔ کبھی سندھ ہائی کورٹ کے نوٹس لینے پر اور کبھی عوامی دبائو پر یہ پابندی چند دن کے لئے ہٹائی بھی گئی ہے۔ سندھ ہائی کورٹ میں بھی اس پابندی کے خاتمے کا سہرہ اور عدالتی چارہ جوئی کا کریڈٹ پاسبان کے سر جاتا ہے کہ جب 2سال کی طویل قانونی جدوجہد کے بعد بالآخر پاسبان کا موقف درست تسلیم کیا گیا اور ڈبل سواری پر پابندی کا حکم نامہ منسوخ کرکے حکومت کوہدایت کی گئی کہ 3یوم یا زیادہ سے زیادہ 15یوم تک کی پابندی لگا سکتی ہے لیکن حکومت گزشتہ 6ماہ سے یہ پابندی لگا کر عدالتی احکامات کا کھلا مذاق اڑا رہی ہے ۔ ڈبل سواری پر پابندی ایک بار اُس وقت ہٹائی گئی جب پاسبان کی جدوجہد کے نتیجے میں عوامی دبائو اتنا بڑھا کہ 1996میں شون چورنگی پر پاسبان کے دیو ہیکل 50فٹ طویل کرکٹ بیٹ کی رونمائی اُس وقت کے وزیر اعلیٰ سندھ مرحوم عبداللہ شاہ افتتاح کے لئے اسٹیج پر آئے ۔ 1996کے حالات میں جب سڑکیں سرشام ویران ہوجاتی تھیں اور روزانہ 50سے زائد جنازے اٹھائے جاتے تھے ۔ کراچی کی کوئی آبادی اور محلہ فائرنگ کے واقعات سے محفوظ نہیں تھا۔ پاسبان کے عجوبہ کرکٹ بیٹ نے کراچی میں امن کی راہ ہموار کردی جب وزیر اعلیٰ سندھ نے ہزاروں نوجوانوں کے مجمے سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اب یہ پابندی ہمیشہ کے لئے ختم کردی گئی ہے …’’نوجوانوں …موٹر سائیکل پر دو بٹھائو ، تین بٹھائو مگر کسی دہشت گرد کو مت بٹھائو…‘‘اور پھر واقعی کراچی کا کھویا ہوا امن لوٹ آیا تھااگرآج کی حکومت کو عوام کا کھویا ہوا یہ امن لوٹانا ہے تو ڈبل سواری پر پابندی اور دہشت گردوں کے خلاف کاروائی میرٹ پر کرنا ہوگی چاہے وہ حکومت کے ایوانوں میں بیٹھے ہوں یہ دیگر سرکاری محکموں میں یا پھر نو گو ایریا بنا کر ۔
(صفحہ نمبر 2…ڈبل سواری پر پابندی کیوں…چند حقائق)
ڈبل سواری پر پابندی کا سب سے المناک پہلو یہ ہے کہ اس پابندی کی طوالت کے پس پردہ ایک ’’منافع بخش سازش‘‘ موجود ہے وہ یہ ہے کہ کراچی 2کروڑ سے زائد آبادی کا شہر ہے اور حکمرانوں ، منتخب عوامی نمائندوں کی عوامی مسائل سے عدم دلچسپی اور بیورو کریسی کی نا اہلی کی وجہ سے یہاں ٹرانسپورٹ کا مسئلہ ہمیشہ سے رہا ہے اور اب بھی یہی معاملہ درپیش ہے ۔ تقریباََ ایک کروڑ شہری روزانہ منی بسوں کی چھتوں اور دھواں چھوڑی پرانی کھٹارہ بسوں میں تکلیف دہ حالت میں کھڑے رہ کر یا پائیدانوں پر لٹک کر سفر کرنے پر مجبور ہیں ۔ جب ڈبل سواری پر پابندی لگتی ہے تو یہ رش بڑھ جانے کی وجہ سے ٹرانسپورٹرز کی ’’چاندی‘‘ ہوجاتی ہے ۔ ایک محتاط جائزے کے مطابق کراچی میں 20لاکھ شہری اس پابندی کے باعث شدید متاثر ہوتے ہیں، جو تعلیمی اداروں ، کارخانوں ، بازاروں ، مارکیٹوں اور دفاتر میں اپنے کسی بھائی ، والد یا عزیز کے ساتھ موٹر سائیکل پر سفر کرتے ہیں اور مہنگائی کے دور میں اپنی بچت کرتے ہیں ۔ انہیں منی بس ، کوچ ، بس ، چنگی یا رکشہ ٹیکسی سے سفر کرنا پڑتا ہے ۔ ایک جانب یہ رش ٹرانسپورٹ کے پہلے سے بوسیدہ سسٹم پر بار بنتا۔ دوسری جانب موٹر سائیل سوار متاثرہ ہر شہری کی جیب سے تقریباََ 100اضافی طور پر نکل کر ٹرانسپورٹرز کے ہاتھ میں چلے جاتے ہیں یعنی فی شہری 100ضرب 20لاکھ موٹر سائیکل سوار متاثرہ شہری 20=کروڑ روپے روزانہ ۔ یہ رقم ٹرانسپورٹر ز اور پابندی لگانے والے دونوں کے لئے منافع کا باعث ہے ۔
ان حقائق کے نتیجے میں یہ واضح ہورہا ہے کہ پابندی کی طوالت کے پس پردہ دہشت گردی کے خوف سے اور بودے جواز سے زیادہ ٹرانسپورٹرز کا مفاد ہے ۔ پاسبان نے وزارت ٹرانسپورٹ ، وزارت داخلہ ، پولیس و ٹریفک پولیس کی ملی بھگت کو بارہا بے نقاب کیا ہے کہ درحقیقت ڈبل سواری پر پابندی کے پس پردہ نوٹوں سے بھرے ہوئے وہ ’’بریف کیس‘‘ ہیں جو یہ پابندی اٹھانے میں تاخیر کا باعث بنتے ہیں ۔ شاید ہمارے عوامی نمائندے بھی ان ’’بریف کیسوں‘‘کے سامنے یا تو بے بس ہیں یا پھر اس میں سے اپنا حصہ وصول کرکے عوامی مسائل سے چشم پوشی کررہے ہیں۔ڈبل سواری کی آڑ میں پولیس کی رشوت خوری اور عدم رشوت پر مقدمہ درج کرنے کے عمل نے پولیس کے خلاف نفرت میں اضافہ کردیا ہے ۔ ورنہ حقیقت یہ ہے کہ ڈبل سوار کسی دہشت گرد کو پولیس آج تک گرفتار نہیں کرسکی ۔
رمضان المبارک کی آمد اور ڈبل سواری پر پابندی کی 6ماہ پر مبنی طوالت نے شہریوں کی تکالیف میں بے پناہ اضافہ کردیا ہے حکومت سندھ کی جانب سے عوام کی مشکلات کا احساس نہ کرنا شرمناک ہے ۔ اس لئے رمضان المبارک سے قبل پاسبان کراچی کے صدر شیخ محمد شکیل کی اپیل پر شہر کے مختلف علاقوں میں درجنوں موٹر سائیکل ریلیاں نکالی گئی ہیں ۔ پوسٹرز ، ہینڈ بلز اور اسٹیکر چسپاں کرکے حکومت سے پابندی اٹھانے کا مطالبہ کیا گیا ہے ۔ پاسبان نے اس ایشو کے حل کے لئے سلمان نواب اور امید علی قاضی کی سربراہی میں ایک ڈبل سواری ایکشن کمیٹی تشکیل دی ہے جس نے شہر کی تمام سیاسی و سماجی جماعتوں کے رہنمائوں سے ملاقاتیں کی ہیں۔ تمام ہی تنظیموں نے پاسبان کی آواز پر لب بیک کہتے ہوئے ہماری آواز میں آواز ملائی ہے لیکن محسوس یہ ہوتا ہے کہ اس اہم عوامی ایشو ء پر حکومت نے قانون میں روئی ٹھونس لی ہے ۔ پاسبان کی جانب سے 21جولائی بروز اتوار کو 2بجے دن اس سلسلے میں ایک بہت بڑے دھرنے کا اعلان کیا گیا ہے ۔ جو تبت سینٹر سے پریس کلب اور وزیر اعلیٰ ہائوس پر دھرنا دے گا۔ آئینی اور جمہوری جدوجہد کے لئے پاسبان کا یہ اقدام خوش آئند ہے اور انشاء اللہ حکومت کو مجبور کردے گا کہ وہ کراچی کے 20لاکھ موٹر سائیکل سوار متاثرین اور روزہ داروں کو رمضان المبارک میں ڈبل سواری کا حق واپس دلوا دیں۔
الطاف شکور
:صدر پاسبا ن پاکستان آپ نے یہ محاورہ کئی بار سنا ہوگا …’’فلاں کا نزلہ فلاں پر گر گیا‘‘باالکل اسی محاورہ کے مصداق جب بھی کراچی شہر میں دہشت گردی کی لہر آتی ہے ، محرم الحرم کی آمد ہوتی ہے ، یہ شہر میں کوئی اہم واقعہ ، مہم یا انتظامی سرگرمی ہونے والی ہوتی ہے تو وزارت داخلہ سندھ اورقانون نافذ کرنے والے ادارے اداروں کا ’’نزلہ‘‘ لاکھوں مظلوم موٹر سائیکل سواروں پر آن گرتا ہے جس کے نتیجے میں غریب ، متوسط اور کسی حدتک پوش عوام کی محبوب موٹر سائیکل کی ڈبل سواری پر پابندی عائد کردی جاتی ہے۔ ہماری بیورو کریسی کی ہمیشہ سے یہ ریت بھی رہی ہے کہ وہ اکثر یہ پابندی لگا کر ’’بھول‘‘ جاتی ہے۔ بعض اوقات دہشت گردی کے بڑے بڑے واقعات رونما ہونے پر بھی پابندی نہیں لگائی جاتی اور بعض اوقات معمولی سی واردات کے بعد بھی ڈبل سواری پر پابندی لگا دی جاتی ہے ۔ اس بار بھی ایسا ہی ہوا ہے ۔ عباس ٹائون سانحہ کے بعد اور 11مئی کے عام انتخابات سے چند دن قبل ڈبل سواری پر پابندی عائد کردی گئی جو تاحال جاری ہے دہشت گردی کے واقعات میں 4وہیل گاڑیاں بھی ملوث ہوتی ہیں ۔ دہشت گردی کے بعض واقعات میں کالے شیشے والی پجارو جیسی لگژری گاڑیاں بھی استعمال ہوئی ہیںلیکن اُن پر پابندی نہیں لگتی بلکہ نزلہ موٹر سائیکل سواروں پر ہی آن گرتا ہے ۔ ڈبل سواری پر پابندی کا جواز دفعہ 144سے مہیا کیا جاتا ہے۔ یہ انگریز دور کا وہ کالا قانون ہے جو اُس دور سے ہی بنیادی انسانی حقوق کا گلا گھنوٹنے کا باعث بن رہا ہے۔ انگریز کو تو اپنے خلاف جدوجہد آزادی کو کچلنے کے لئے ایسے ہی کالے قوانین کی ضرورت تھی لیکن سوچنے کی بات یہ ہے کہ ہمارے جمہوریت پسند ارکان اسمبلی اور قانون ساز اداروں نے انگریز دور کے اس کالے قانون کو کیوں اب تک برداشت کیا ہوا ہے ۔ یہاں یہ بھی سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا ہم انگریز کے پروردہ سسٹم کو تبدیل کرنے پر تیار نہیں ہیں کیونکہ جب بھی کوئی معاملہ ہاتھ سے نکل رہا ہو دہشت گردوں کو پکڑنے میں ناکامی ہو تو دفعہ 144کا سہارہ لے لیا جائے اور اپنی کرسی کو گرنے سے بچایا جائے اور عوام کے بنیادی انسانی حقوق کو کچل دیا جائے۔ ڈبل سواری پر پابندی کی تاریخ بہت طویل ہے گو کہ 1990کے بعد سے درجنوں بار یہ پابندی لگائی جاچکی ہے۔ کبھی سندھ ہائی کورٹ کے نوٹس لینے پر اور کبھی عوامی دبائو پر یہ پابندی چند دن کے لئے ہٹائی بھی گئی ہے۔ سندھ ہائی کورٹ میں بھی اس پابندی کے خاتمے کا سہرہ اور عدالتی چارہ جوئی کا کریڈٹ پاسبان کے سر جاتا ہے کہ جب 2سال کی طویل قانونی جدوجہد کے بعد بالآخر پاسبان کا موقف درست تسلیم کیا گیا اور ڈبل سواری پر پابندی کا حکم نامہ منسوخ کرکے حکومت کوہدایت کی گئی کہ 3یوم یا زیادہ سے زیادہ 15یوم تک کی پابندی لگا سکتی ہے لیکن حکومت گزشتہ 6ماہ سے یہ پابندی لگا کر عدالتی احکامات کا کھلا مذاق اڑا رہی ہے ۔ ڈبل سواری پر پابندی ایک بار اُس وقت ہٹائی گئی جب پاسبان کی جدوجہد کے نتیجے میں عوامی دبائو اتنا بڑھا کہ 1996میں شون چورنگی پر پاسبان کے دیو ہیکل 50فٹ طویل کرکٹ بیٹ کی رونمائی اُس وقت کے وزیر اعلیٰ سندھ مرحوم عبداللہ شاہ افتتاح کے لئے اسٹیج پر آئے ۔ 1996کے حالات میں جب سڑکیں سرشام ویران ہوجاتی تھیں اور روزانہ 50سے زائد جنازے اٹھائے جاتے تھے ۔ کراچی کی کوئی آبادی اور محلہ فائرنگ کے واقعات سے محفوظ نہیں تھا۔ پاسبان کے عجوبہ کرکٹ بیٹ نے کراچی میں امن کی راہ ہموار کردی جب وزیر اعلیٰ سندھ نے ہزاروں نوجوانوں کے مجمے سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اب یہ پابندی ہمیشہ کے لئے ختم کردی گئی ہے …’’نوجوانوں …موٹر سائیکل پر دو بٹھائو ، تین بٹھائو مگر کسی دہشت گرد کو مت بٹھائو…‘‘اور پھر واقعی کراچی کا کھویا ہوا امن لوٹ آیا تھااگرآج کی حکومت کو عوام کا کھویا ہوا یہ امن لوٹانا ہے تو ڈبل سواری پر پابندی اور دہشت گردوں کے خلاف کاروائی میرٹ پر کرنا ہوگی چاہے وہ حکومت کے ایوانوں میں بیٹھے ہوں یہ دیگر سرکاری محکموں میں یا پھر نو گو ایریا بنا کر ۔ (صفحہ نمبر 2…ڈبل سواری پر پابندی کیوں…چند حقائق) ڈبل سواری پر پابندی کا سب سے المناک پہلو یہ ہے کہ اس پابندی کی طوالت کے پس پردہ ایک ’’منافع بخش سازش‘‘ موجود ہے وہ یہ ہے کہ کراچی 2کروڑ سے زائد آبادی کا شہر ہے اور حکمرانوں ، منتخب عوامی نمائندوں کی عوامی مسائل سے عدم دلچسپی اور بیورو کریسی کی نا اہلی کی وجہ سے یہاں ٹرانسپورٹ کا مسئلہ ہمیشہ سے رہا ہے اور اب بھی یہی معاملہ درپیش ہے ۔ تقریباََ ایک کروڑ شہری روزانہ منی بسوں کی چھتوں اور دھواں چھوڑی پرانی کھٹارہ بسوں میں تکلیف دہ حالت میں کھڑے رہ کر یا پائیدانوں پر لٹک کر سفر کرنے پر مجبور ہیں ۔ جب ڈبل سواری پر پابندی لگتی ہے تو یہ رش بڑھ جانے کی وجہ سے ٹرانسپورٹرز کی ’’چاندی‘‘ ہوجاتی ہے ۔ ایک محتاط جائزے کے مطابق کراچی میں 20لاکھ شہری اس پابندی کے باعث شدید متاثر ہوتے ہیں، جو تعلیمی اداروں ، کارخانوں ، بازاروں ، مارکیٹوں اور دفاتر میں اپنے کسی بھائی ، والد یا عزیز کے ساتھ موٹر سائیکل پر سفر کرتے ہیں اور مہنگائی کے دور میں اپنی بچت کرتے ہیں ۔ انہیں منی بس ، کوچ ، بس ، چنگی یا رکشہ ٹیکسی سے سفر کرنا پڑتا ہے ۔ ایک جانب یہ رش ٹرانسپورٹ کے پہلے سے بوسیدہ سسٹم پر بار بنتا۔ دوسری جانب موٹر سائیل سوار متاثرہ ہر شہری کی جیب سے تقریباََ 100اضافی طور پر نکل کر ٹرانسپورٹرز کے ہاتھ میں چلے جاتے ہیں یعنی فی شہری 100ضرب 20لاکھ موٹر سائیکل سوار متاثرہ شہری 20=کروڑ روپے روزانہ ۔ یہ رقم ٹرانسپورٹر ز اور پابندی لگانے والے دونوں کے لئ
ے منافع کا باعث ہے ۔ ان حقائق کے نتیجے میں یہ واضح ہورہا ہے کہ پابندی کی طوالت کے پس پردہ دہشت گردی کے خوف سے اور بودے جواز سے زیادہ ٹرانسپورٹرز کا مفاد ہے ۔ پاسبان نے وزارت ٹرانسپورٹ ، وزارت داخلہ ، پولیس و ٹریفک پولیس کی ملی بھگت کو بارہا بے نقاب کیا ہے کہ درحقیقت ڈبل سواری پر پابندی کے پس پردہ نوٹوں سے بھرے ہوئے وہ ’’بریف کیس‘‘ ہیں جو یہ پابندی اٹھانے میں تاخیر کا باعث بنتے ہیں ۔ شاید ہمارے عوامی نمائندے بھی ان ’’بریف کیسوں‘‘کے سامنے یا تو بے بس ہیں یا پھر اس میں سے اپنا حصہ وصول کرکے عوامی مسائل سے چشم پوشی کررہے ہیں۔ڈبل سواری کی آڑ میں پولیس کی رشوت خوری اور عدم رشوت پر مقدمہ درج کرنے کے عمل نے پولیس کے خلاف نفرت میں اضافہ کردیا ہے ۔ ورنہ حقیقت یہ ہے کہ ڈبل سوار کسی دہشت گرد کو پولیس آج تک گرفتار نہیں کرسکی ۔ رمضان المبارک کی آمد اور ڈبل سواری پر پابندی کی 6ماہ پر مبنی طوالت نے شہریوں کی تکالیف میں بے پناہ اضافہ کردیا ہے حکومت سندھ کی جانب سے عوام کی مشکلات کا احساس نہ کرنا شرمناک ہے ۔ اس لئے رمضان المبارک سے قبل پاسبان کراچی کے صدر شیخ محمد شکیل کی اپیل پر شہر کے مختلف علاقوں میں درجنوں موٹر سائیکل ریلیاں نکالی گئی ہیں ۔ پوسٹرز ، ہینڈ بلز اور اسٹیکر چسپاں کرکے حکومت سے پابندی اٹھانے کا مطالبہ کیا گیا ہے ۔ پاسبان نے اس ایشو کے حل کے لئے سلمان نواب اور امید علی قاضی کی سربراہی میں ایک ڈبل سواری ایکشن کمیٹی تشکیل دی ہے جس نے شہر کی تمام سیاسی و سماجی جماعتوں کے رہنمائوں سے ملاقاتیں کی ہیں۔ تمام ہی تنظیموں نے پاسبان کی آواز پر لب بیک کہتے ہوئے ہماری آواز میں آواز ملائی ہے لیکن محسوس یہ ہوتا ہے کہ اس اہم عوامی ایشو ء پر حکومت نے قانون میں روئی ٹھونس لی ہے ۔ پاسبان کی جانب سے 21جولائی بروز اتوار کو 2بجے دن اس سلسلے میں ایک بہت بڑے دھرنے کا اعلان کیا گیا ہے ۔ جو تبت سینٹر سے پریس کلب اور وزیر اعلیٰ ہائوس پر دھرنا دے گا۔ آئینی اور جمہوری جدوجہد کے لئے پاسبان کا یہ اقدام خوش آئند ہے اور انشاء اللہ حکومت کو مجبور کردے گا کہ وہ کراچی کے 20لاکھ موٹر سائیکل سوار متاثرین اور روزہ داروں کو رمضان المبارک میں ڈبل سواری کا حق واپس دلوا دیں۔