’’تم پاکستان تو نہیں جارہے؟تم نے امریکی سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کی پاکستان سفرکرنے کی وہ تنبیہ ضرورپڑھ لی ہوگی کہ وہاں امریکاکے خلاف کس قدرنفرت کی لہرچل رہی ہے‘‘۔ یہ وہ سوالات ہیںجومیرے دوست احباب اوررشتہ دارمجھ سے پوچھ رہے تھے جب ان کوپتہ چلاکہ میں عمران خان کی دعوت پرانسانی ہمدردی کی بناء پرایک وفدکے ساتھ ڈرون حملوں کے خلاف ایک احتجاجی جلوس میں شرکت کیلئے پاکستان کے سب سے خطرناک علاقے وزیرستان جارہی ہوںجہاں امریکی ڈرون حملوں کی تباہی نے ایک قیامت مچارکھی ہے۔ لیکن پاکستانی قوم توان امریکی خدشات کے برعکس مجھ سے سوالات پوچھتے ہیں کہ آخر امریکی عوام ان بزدلانہ اور ظالمانہ ڈرون حملوں کی کیوں تائیدکرتے ہیں؟کیاوہ یہ پسندکریں گے کہ کوئی غیرملکی ڈرون طیارہ غیرقانونی طورپرامریکی حدودمیں گھس کران کے بے گناہ معصوم بچوں،مردوزن کو اندھادھنداندھے میزائل حملوں سے ان کے پرخچے اڑا دیں ؟ کیا امریکی عوام کواس بات کااحساس ہے کہ ان ڈرون حملوں میں مارے جانے والے بے گناہ افراد کے لواحقین کے بدلے اورانتقام کی آگ میںبھڑکتے جذبات سے دہشتگردوں کے ہاتھ اورمضبوط ہورہے ہیں‘‘؟؟ انسانی ہمدردی اورامن کے قیام کیلئے کام کرنے والی ایک امریکی این جی او’’کوڈپنک‘‘(CODEPINK)کی سربراہ بینجمن(Medea Benjamin)نے اپنے ایک کالم میں بڑی دلسوزی کے ساتھ ان خیالات کااظہارکیاہے۔
سابق سفارتکار ریٹائرڈامریکی کرنل این رائٹ(Colonel Ann Wright)نے امریکی ڈرون حملوں کی مذمت کرتے ہوئے کہاکہ میں امن مارچ میں شریک ہوکران ہزاروں امریکیوں کی طرف سے پاکستانیوں کویہ پیغام دیناچاہتاہوں کہ بطورسفارتکاراورہرمکتبہ فکرکے امریکی شہریوںکی جانب سے ان ظالمانہ ڈرون حملوں کی بھرپورمذمت کرتے ہوئے اس بات کامطالبہ کرتے ہیں کہ امریکی حکومت نہ صرف فی الفوران ڈرون حملوںکوختم کرے بلکہ ان حملوں میںہلاک ہونے والے بے گناہ ومعصوم پاکستانیوںکے لواحقین کواس کامکمل ہرجانہ بھی اداکرے۔ ادھر واشنگٹن کی نیشنل ڈیفنس یونیورسٹی میں صدر اوباما نے قومی سلامتی کے موضوع پر خطاب کرتے ہوئے کہا کہ یہ یقینی بنانے کی ضرورت ہے کہ ڈرون حملوں میں عام شہری ہلاک نہ ہوںجبکہ امریکی صدر نے ڈرون حملوں میں چار امریکی شہریوں کی ہلاکت کا بھی دفاع کیا۔صدر اوباما نے اپنی تقریر کے دوران جب امریکی جیل گوانتاناموبے کو بند کرنے کے حوالے سے کی جانے والی کوششوں کے بارے میں بتانا شروع کیا تو اس وقت ہال میں بیٹھی ایک خاتون نے جیل میں قیدیوں کی بھوک ہڑتال پر احتجاج کرنا شروع کر دیاجس کی وجہ سے اوبامہ کوبارباراپنااپناخطاب روکناپڑا، بالآخر اس خاتون کوپولیس نے زبردستی اس ہال سے باہر نکال دیا اور ٹھیک دودن کے بعدوزیرستان میںایک اورڈرون حملہ کرکے اپنی ہی تقریرکے پرخچے اڑادیئے۔
قصرِ سفید کے فرعون کے حکم پر طاغوتی استعمار کومسلمانوں کے خون کی ایسی چاٹ لگ گئی ہے کہ اللہ کی اس دھرتی پرآئے دن ڈرون حملوں سے بے گناہ اور معصوم انسانوں کے پرخچے اڑائے جا رہے ہیں ۔اس منحوس و مکروہ حملوں کا آغاز فاسق کمانڈو پرویز مشرف کے دور سے ایسا ہوا کہ ابھی تک تھمنے کا نام نہیں لے رہا۔امریکا اپنے عوام سے لیکر اقوام متحدہ تک کوبھی خاطر میں نہیں لا رہا۔برطانیہ ٹونی بلیر کے زمانے سے لیکر اب تک امریکا کے ایک ا نتہائی تابعدار اور فرمانبردار برخوردار کا کردار ادا کررہاہے۔اب یہاں کی ایک مقامی عدالت میں اس خونخواری کے خلاف ایک مقدمہ دائر ہو چکاہے اور لگتا ہے کہ برطانوی عدالت میں زیرِ سماعت مقدمے سے نہ صرف امریکا کے ساتھ بلکہ پاکستان کے ساتھ بھی برطانوی تعلقات میں نیا موڑ آسکتا ہے جس کے دوررس اثرات مرتب ہونے کی قوی امید ہے۔
ہفت روزہ گارجین میںمعروف برطانوی صحافی آئن کو بین اپنی تجزیاتی رپورٹ میں لکھتاہے:ایک پاکستانی نژادبرطانوی شہری ،جس کے والد ایک امریکی ڈرون حملے میں جاں بحق ہو گئے تھے،برطانیہ کی ایک اعلیٰ عدالت میں حکومت برطانیہ کے طرف سے امریکی ڈرون حملوں کی حمائت اور اس کیلئے امریکاکے ساتھ خفیہ معلومات کے تبادلے کے خلاف قانونی چارہ جوئی کیلئے مقدمہ دائر کیا ہے۔پاکستانی نژاد برطانوی شہری نور خان کے وکیل چیمبرلین نے برطانوی ہائی کورٹ میں یہ مؤقف اختیار کیا ہے کہ حکومت برطانیہ کی طرف سے پاکستان میں امریکی ڈرون آپریشن کی توثیق کا مطلب یہ ہے کہ مدعی کے والد کے قتل میں حکومت برطانیہ نے اعانت کی ہے ۔علاوہ ازیں انہوں نے یہ بھی قرار دیا کہ اس حمائت کو جنگی جرائم تصور کیا جائے۔
کسی برطانوی عدالت میںیہ اپنی نوعیت کا پہلا مقدمہ ہے ۔بادی النظر میں اس کا مقصد ڈرون حملوں کیلئے برطانیہ کی طرف سے امریکا کے ساتھ خفیہ معلومات کے تبادلے کو غیر قانونی قراردلوانا ہے۔مدعی نور خان نے کہا ہے کہ ہروقت اس بات کا دھڑکا لگا رہتا ہے کہ گزشتہ برس مارچ کی طرح کسی بھی وقت کوئی ڈرون حملہ ہو سکتا ہے اورمذکورہ وقوعے کی طرح جس میں کسی جھگڑے کے تصفیے کی غرض سے جرگے میں بیٹھے درجنوں افراد مارے جا سکتے ہیں۔عدالت میں بتایا گیا کہ حکومت برطانیہ واضح طور پرنہیںبتاتی کہ اس کی سگنلز انٹیلی جنس ایجنسی پاکستان پر امریکی ڈرون حملوں کیلئے مدد فراہم کرتی ہے یانہیں،البتہ ذرائع ابلاغ کی خبروں میں اس انٹیلی جنس تبادلے کی تصدیق کی گئی ہے۔یہ مقدمہ ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب رائل ایئر فورس نے افغانستان میں اپنے جنگی و فضائی نگرانی کیلئے استعمال ہونے والے ڈرون طیاروں کی تعداد کو دوگنا کرنے کا فیصلہ کیا ہے جہاں مزید پانچ ڈرون طیاروں کواڑانے کا کنٹرول امریکا برطانیہ کو منتقل کردے گا۔افغانستان کے صوبے ہلمندمیں مشتبہ شدت پسندوں کوہدف بنانے والے برطانیہ کے یہ ریپرڈرون پہلے امریکی ریاست نوادا میں واقع ایک فضائی اڈے سے کنٹرول کئے جاتے تھے کیونکہ آر اے ایف کے پاس برطانیہ سے ان ڈرون طیاروں کو اڑانے کی سہولیات نہیں تھیں۔
نور خان کے وکیل مارٹن چیمبرلین نے ۲۰۱۰ء کے ایک اخبارکے مضمون کا حوالہ دیتے ہوئے کہاکہ برطانیہ کا فوجی سگنلز ادارہ’’ جی سی ایچ کیو‘‘افغانستان اورپاکستان میں مشتبہ شدت پسندوںکے مقامات کے بارے میں امریکا کو معلومات فراہم کرنے کی غرض سے ٹیلیفون پر کی جانے والی گفتگوکی جاسوسی کرتا رہاہے اورسگنلز کا برطانوی ادارہ اس کارکردگی پر بہت نازاںہے اور اسے قانونی قرار دیتا ہے تاہم نور خان کے وکیل کے مطابق یہ جاننے کے باوجودکہ انہیں ڈرون حملوں کیلئے استعمال کیا جائے گا،جی سی ایچ کیوکے عہدیداروں نے امریکی سی آئی اے کو یہ خفیہ معلومات فراہم کرکے سنگین جرم کیا ہے۔انہی خفیہ معلومات کی فراہمی کی وجہ سے امریکی ڈرون حملوں کی معاونت سے اقدام قتل جیسے خوفناک جرائم کی حوصلہ افزائی ہوئی ہے اوران کے بقول یہ کاروائی جنگی جرائم یاانسانیت کے خلاف جرائم کے زمرے میں آتی ہے۔مارٹن نے مؤقف اختیار کیا ہے کہ برطانوی سگنلزکے ادارے جی سی ایچ کیوکا کوئی عہدیداران الزامات سے جنگی استثناکی بنیاد پربرالذمہ قرار نہیںدیا جا سکتا۔۔۔۔۔۔بیوریو آف انویسٹی گیٹیو جرنلزم کی تحقیق کے مطابق۲۰۰۴ء سے اس سال مئی تک پاکستان میں کئے گئے۳۶۶ ڈرون حملوں میں مرنے والوں کی تعداد ۳۵۸۱تک پہنچ گئی ہے جن میں سے عام شہریوں کی تعدادتین ہزار تک ہے اوران میں ۹۹۷بچے بھی شامل ہیں ۔ یاد رہے کہ بش انتظامیہ کے دورمیں۵۲ جبکہ اوبامہ کے دور حکومت میں۳۱۴ڈرون حملے ہوچکے ہیںاورابھی تک اس کاسلسلہ بندنہیں ہوا۔اوبامہ کے حکم پرصرف ۲۰۱۰ء میں۱۲۲/ڈرون حملوںمیں ۱۰۲۸/افرادنشانہ بنے جن میں۷۵%بے گناہ بچے ،عورتیں اوربوڑھے افرادتھے۔
لندن میں دوروزہ تک جاری رہنے والی سماعت کے دوران نور خان کے وکلاء نے عدالت سے یہ استدعا بھی کی کہ برطانیہ کی طرف سے امریکی ڈرون حملوں کی حمائت کے قانونی جوازکا عدالتی سطح پرباقاعدہ جائزہ لینا چاہئے۔اس دوران وزیر خارجہ ولیم ہیگ کے وکیل کا کہناتھاکہ اس قسم کی خفیہ معلومات کی نہ تو تصدیق کر سکتے ہیں نہ ہی تردید،ان واقعات کے قانونی جوازپر کوئی رائے دینابھی ان کے خیال میں قبل از وقت ہے اوراس حوالے سے عدالت کو مطمئن کیا جانا ابھی باقی ہے کہ پاکستان میں بین الاقوامی قوتیںآپس میں لڑائی نہیں کررہیں اوریہ کہ ڈرون حملوںکی کاروائی میں شامل افرادکو فوجداری قانون سے استثناحاصل نہیں ہے۔مزید یہ کہ ان حملوں کیلئے حکومت پاکستان نے اجازت دے رکھی تھی یانہیں۔ حکومت کا البتہ یہ ماننا ہے کہ نورخان کیس کی وجہ سے ڈرون ایسے حساس ، متنازع اور اہم موضوع پر برطانیہ کے امریکا اور پاکستان کے معاملات پرخاطر خواہ اثر پڑے گا۔
ہفت روزہ گارجین کے ہی ایک اور شمارے میںدانشور صحافی اون بوکاٹ نے لکھا ہے :ڈرون حملوں میں عام شہریوں کی ہلاکت کے واقعات کی تفتیش کیلئے اقوام متحدہ اس سال کے وسط میں جنیوامیں ایک مخصوص ادارہ قائم کرنے کا منصوبہ بنا رہی ہے۔اقوامِ متحدہ کے خصوصی نمائندے بین ایمرسن نے حال ہی میں امریکا کے ہارورڈ لاء اسکول میںایک خطاب کے دوران اس کی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ ڈرون اور واٹر بورڈنگ کو بین الاقوامی قانون کے تحت جرم قرار دیا گیاہے۔یوں لگ رہاہے کہ آئندہ آنے وقت میں ڈرون حملوں میں ملوث تمام ملکی اورغیر ملکی کرداروں کے نام طشت ازبام ہو نے والے ہیں اورپاکستانی قوم کو بھی ان منافقین کا پتہ چل جائے گا۔ نئے منتخب وزیراعظم میاں محمد نواز شریف نے امریکی ناظم الامور رچرڈ ہاگلینڈکوحالیہ امریکی ڈرون طیارے کے حملے پر شدید تحفظات اورمایوسی کا اظہارکرتے ہوئے اسے پاکستانی خود مختاری ، سرحدی حدود کی خلاف ورزی اور بین الاقوامی قوانین اور اقوام متحدہ کے چارٹر کے بھی منافی قراردیاہے جبکہ عمران خان تو برملا ڈرون حملوں کوبندکروانے کیلئے قوم سے وعدہ کرچکے ہیںلیکن صرف تقریروںسے ڈرون حملے بند نہیں ہونگے جب تک ہم امریکی اورعالمی عدالتوں میںامریکاکے خلاف باقاعدہ مقدمات دائرنہیں کرتے کہ جس طرح امریکااوربرطانیہ نے لاکربی کے معاملے پرلیبیاسے اپنے شہریوںکااربوںڈالرمعاوضہ وصول کیاتھا۔
اس وقت مغرب اورامریکامیں ایسے کئی محب وطن موجودہیںجوان مقدمات کے ابتدائی اخراجات کابوجھ اٹھانے کیلئے تیارہیں لیکن اس کیلئے ضروری ہے کہ حکومتی سطح پرفوری اقدامات اٹھائے جائیں ۔اس کیلئے ساری قوم جناب نوازشریف اورکپتان عمران خان کے مشترکہ اقدامات کی منتظر ہے کہ ڈومہ ڈولہ میںشہید ہونے والے ان معصوم اوربے گناہوں کے علاوہ دیگر ہزاروںشہداء کے خون کا بدلہ کیسے لیا جائے گا؟
اوبامہ کے پہلی مرتبہ ڈرون حملوں میں ۴/امریکیوںکی ہلاکت کے بعد’’ ناصرالاولاکی‘‘ کی امریکی میڈیاسے گفتگوکوبھی ملاحظہ فرمالیں:
http://www.informationclearinghouse.info/article35201.htm
جمعتہ المبارک۵شعبان المعظم ۱۴۳۴ھ۱۴جون ۲۰۱۳ء
لندن