Home / Socio-political / ڈوبتے سورج کی زمین؟

ڈوبتے سورج کی زمین؟

ڈوبتے سورج کی زمین؟

سمیع اللہ ملک لندن

وہ۵۲۹۱ءمیں پیدا ہوا، چھ سال کی عمر میں ولی عہد بنا اور ۲۲سال کی عمر میں ایران کا بادشاہ بن گیا، وہ محمد رضا شاہ پہلوی تھا لیکن پوری دنیا اسے شاہ ایران کے نام سے جانتی تھی۔ وہ ایشیا میں امریکہ کا سب سے بڑا دوست تھا، یورپی پریس اسے ”امریکن گورنر“کہتا تھا،وہ امریکی وفاداری میں بہت آگے چلا گیا،امریکہ نے اسے روشن خیالی اور اعتدال پسندی کا حکم دیا اور اس نے ایران میں داڑھی اور پردہ پر پابندی لگا دی۔ اس کے دور میں کوئی باپردہ عورت گھر سے نکلتی تھی تو پولیس سرے عام اس کا برقع پھاڑ دیتی تھی، شاہ ایران نے تمام زنانہ سکولوں، کالجوں اور یونیورسٹیوں میں سکرٹ کو یونیفارم بنا دیا،شراب نوشی، رقص اور زنا فیش بن گیا۔ شاہ کے دور میں ایران دنیا کا واحد ملک تھا جس میں کالجوں میں شراب کی دکانیں تھیں،یونیورسٹیوں میں خواتین کی سودے بازی ہوتی تھی۔

اس مکروہ کاروبار کو قانونی حیثیت حاصل تھی، شاہ کے زمانے میں دو جرنیلوں کے ہم جنس پرست بیٹوں نے آپس میں شادی کی،سرکاری سطح پر نہ صرف ان کی دعوت ولیمہ ہوئی بلکہ شاہ اور اس کی کابینہ نے خصوصی طور پر اس تقریب میں شرکت کی۔ شاہ نے امریکہ کی محبت میں ایران میں موجود ۲۴ہزار امریکیوں کو سفارتی حیثیت دے دی، امریکہ نے شاہ ایران کے دفتر میں ”گرین فون“لگا رکھا تھا اوراسے امریکہ سے جو ہدایت ملتی تھیں، وہ ان پر فوری عمل درآمد کراتا تھا لیکن پھر شاہ کی امریکہ نواز پالیسیوں پر بغاوت ہوئی،یہ بغاوت تین سال تک چلتی رہی، شاہ نے۲۱شہروں میں مارشل لاءلگا دیا،عوام نے اسے تسلیم کرنے سے انکارکردیا،شاہ نے حکومت شاہ پور بختیار کے حوالے کی اور ملک سے فرار ہوگیا،اس کا خیال تھا امریکہ اب اس کی وفاداریوں کا بدلہ دے گا لیکن جو ںہی شاہ ایران کا طیارہ ایران کی حدود سے نکلا، امریکہ نے آنکھیں پھیر لیں،شاہ پہلے مصر گیا، پھر مراکش، پھر بہاماس اور پھر میکسیکو، وہ اس دوران امریکہ سے مسلسل مدد مانگتا رہا لیکن وائٹ ہاﺅس اس کا ٹیلی فون تک نہیں سنتا تھا۔شاہ ایران سوا سال تک مارا مارا پھرتا رہا لیکن کسی نے اس کی مدد نہ کی،امریکہ نے اس کے اکاﺅنٹس تک ”منجمد“کردئیے، آخر میں انور السادات کام آیا اوراس نے اسے پناہ دے دی۔ جولائی ۰۸۹۱ءمیں قاہرہ میں اس کا انتقال ہوا، انتقال کے وقت اس کے پاس اس کی تیسری بیوی کے سوا کوئی نہ تھا،لوگ اس کا جنازہ تک پڑھنے نہ آئے چنانچہ اسے اس کے بیڈ روم ہی میں امانت ًدفن کردیا گیا۔

یہ صرف رضا شاہ پہلوی کی کہانی نہیں، امریکہ کا ہر دوست حکمران اسی انجام کا شکار ہوا، آپ ”اناس تاسیوسو“کی مثال لیجئے، وہ نکارا گوا میں امریکی ایجنٹ تھا، نکارا گوا میں کمیونزم کی تحریک شروع ہوئی تو امریکہ نے اناس تاسیوسو کو ڈالر اور اسلحہ دے کر کمیونزم کے خلاف کھڑا کردیا۔تاسیوسو امریکہ کی جنگ کو اپنی جنگ سمجھ کر لڑتا رہا،۹۷۹۱ءمیں نکاراگوا میں اسکے لئے حالات مشکل ہوگئے،وہ ملک سے فرار ہوا لیکن جوں ہی اس نے نکارا گوا سے باہر قدم رکھا،امریکا نے اسے پہچاننے سے انکار کردیا،اس نے امریکہ آنے کی کوشش کی لیکن امریکی حکومت نے اجازت نہ دی، یوں اناس تاسیوسو جنگلوں اورغاروں میں چھپ کر زندگی گزارنے لگا، وہ۰۸۹۱ ءمیں اسی پریشانی کے عالم میں انتقال کر گیا اور اس کے چند قریبی دوستوں نے پیرا گوائے کے شہر اس نشن میں دفن کردیا ،آج لوگ اس کے نام تک سے واقف نہیں ہیں۔

چلی کے آمر”جنرل اگارتے اگستو پنو شے“نے۳۷۹۱ءمیں سی آئی اے کی مدد سے جنرل ایلینڈو کی منتخب حکومت پر شب خون مارا تھا،پنو شے نے اقتدار میں آتے ہی چلی کی عوام کے خلاف آپریش شروع کردیا۔پنو شے ۰۹۹۱ءتک چلی پر حکمران رہا، ان ۷۱برسوں میں پنو شے نے امریکہ کے کہنے پر ہزاروں شہری قتل کرائے،امریکہ کی ناپسندیدہ تنظیموں پر پابندیاں لگائیں اور امریکہ کی خواہش پر اپنے شہریوں کے انسانی حقوق غصب کئے،عوام۰۹۹۱ ءمیں پنو شے کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے، وہ مارچ۰۹۹۱ءمیں لندن فرار ہوگیا،اس کا خیال تھا برطانیہ اور امریکہ اس کی وفاداریوں کی قدر کریں گے لیکن لندن آتے ہی برطانوی پولیس نے اسے گرفتار کیا اور اسے اس کے گھر میں نظر بند کردیا،اس نے اس ناروا سلوک پر امریکہ سے احتجاج کیا لیکن امریکی حکومت نے اسے جواب تک دینے کی زحمت نہ کی،برطانوی حکومت نے اسے ۰۰۰۲ءمیں چلی کے حوالے کردیا،اس کے خلاف مقدمہ چلا ، ۳دسمبر۶۰۰۲ءکو اسے ہارٹ اٹیک ہوا اور وہ دم توڑ گیا،اس کی موت پر پورے ملک میں خوشیاں منائی گئیں جبکہ امریکی حکومت نے ایک سطر کا تعزیتی پیغام تک جاری نہ کیا۔ا

نگولا کا باغی سردار ”جوناس سیومنی“بھی امریکہ نواز لیڈر تھا، وہ برسہا برس انگولا میں امریکی مفادات کی جنگ لڑتا رہا، نومبر ۲۹۹۱ءمیں امریکہ نے اسے کیمونسٹوں کے ساتھ امن معاہدے کا حکم دیا،اس نے معاہدے پر دستخط کردئیے جس کے نتیجے میں جوناس سیومنی بے دست و پاہوگیا، معاہدے پر دستخطوں کے دو ماہ بعد کمیونسٹوں نے ”ہامبو“میں اس کے ہیڈکوارٹر پر حملہ کردیا، وہ فرار ہوگیا، آج اس واقعہ کو اٹھارہ سال گزر چکے ہیں ، جو ناس سیومنی جان بچانے کے لئے چھپتا پھر رہا ہے لیکن امریکی حکومت اس کا ٹیلی فون تک نہیں سنتی۔“

جنرل نوریگا“ پانامہ میں امریکہ کا آلہ کار تھا، اسے بھی امریکیوں نے کمیونسٹوں کے خلاف استعمال کیا۔ وہ۰۹۹۱ءتک امریکی مفادات کی جنگ لڑتا رہا لیکن امریکہ کی تسلی نہ ہوئی لہٰذا امریکہ نے پانامہ پر حملہ کردیا،صدر نوریگا گرفتار ہواامریکی ایما پر عدالت نے اسے۰۴سال قید با مشقت کی سزا سنا دی اور نوریگا گزشتہ چودہ برس سے جیل میں امریکی دوستی کا خمیازہ بھگت رہا ہے۔

 ”فرنینڈ مارکورس“۲۲برس تک فلپائن میں امریکی مفادات کی جنگ لڑتا رہا۔اس نے فلپائن سے کمیونسٹوں کو چن چن کرختم کردیا لیکن ۶۸۹۱ءمیں امریکہ ہی نے اس کی حکومت ختم کرادی، مارکوس امریکہ آگیا، امریکہ نے اسے پناہ تو دے دی لیکن اسے وہ عزت اور وہ توقیر نہ دی جس کا وہ حق دار تھا،مارکوس نے باقی زندگی ہو نولولو کے ایک چھوٹے سے مکان میں گزاری اور اسے ایک عام پناہ گزین کے برابر وظیفہ ملتا تھا ۔مارکوس۹۹۹۱ءمیں اسی بے بسی کے عالم میں آنجہانی ہوگیا۔

۹۷۹۱ءہی میں امریکہ نے رہوڈیشیا میں بشپ ایبل منروریوا کو موغا بے اور نکومو کے مقابلے میں کھڑا کیا،بشپ امریکیوں کے لئے لڑتا رہا لیکن جب وہ لڑتے لڑتے کمزور ہوگیا تو امریکہ نے اس کی امداد سے ہاتھ کھینچ لیا اور صدر صدام حسین کی کہانی تو پوری دنیا جانتی ہے۔انقلاب ایران کے بعد امریکہ نے صدام حسین کو استعمال کرنے کا فیصلہ کیا، صدام حسین نے امریکہ کی ایماءپر۲۲ستمبر ۰۸۹۱ءکو ایران پرحملہ کردیا، یہ جنگ۰۲اگست ۸۸۹۱ءتک ۸سال جاری رہی اور اس میں دس لاکھ افراد ہلاک اور۰۲لاکھ زخمی ہوئے۔ صدام حسین۰۹۹۱ءتک امریکہ کا دوست رہا لیکن پھر امریکہ نے تیل کے لالچ میں عراق پر حملہ کردیا،اس جنگ میں۶۸ہزار عراقی شہری شہید ہوئے ،۳۰۰۲ءمیں امریکہ نے ایک بار پھر عراق پر حملہ کیا، صدام حسین گرفتار ہوا اور امریکی ہدایات پر اسے ۰۳دسمبر۶۰۰۲ءکو بغداد میں پھانسی دے دی گئی۔

شاہ ایران سے لے کرصدام حسین تک امریکی تاریخ دوست کشی کی ہزاروں مثالوں سے بھری پڑی ہے۔ امریکی اپنی خارجہ پالیسی کو ”ڈسپوزل ڈپلومیسی“کہتے ہیں ، ان کافلسفہ ہے خرید و، استعمال کرو اور پھینک دو، امریکی قوم بلیڈ کند ہونے سے پہلے بیوی بدل لیتے ہیں چنانچہ یہ لوگ اپنے دوستوں کو کاغذ کے گلاس، پلیٹ، ٹشو اور گندی جراب سے زیادہ اہمیت نہیں دیتے۔ یہ لوگ ہمیشہ کیس ٹوکیس اور پراجیکٹ ٹوپراجیکٹ چلتے ہیں چنانچہ ان کے دوست جنرل اگستو پنو شے ہوں، جنرل رضا شاہ پہلوی ہوں یا جنرل صدام حسین یہ لوگ اس وقت انہیں دوست سمجھتے ہیں جب تک وہ ان کے لئے خدمات سرانجام دے سکتے ہیں اور جس دن انہیں محسوس ہوتا ہے یہ شخص ان کی ”ذمہ داری “بنتا جارہا ہے،یہ اس کے ساتھ ذوالفقار علی بھٹو اور جنرل ضیاءالحق جیسا سلوک کرتے ہیں اور اس کے بعد یہ ان کی قبروں تک پر ”سابق“ کی مہر لگا دیتے ہیں۔

یہ ہے امریکی دوستی اور اس کاانجام اور امریکہ پچھلے ۴۳۲ برس سے ”دوستی“ کے اسی فلسفے پر کاربند ہے اور اس نے آج تک کسی شخص کے لئے اپنی یہ پالیسی نہیں بدلی لیکن دلی سرکار کے مہربان یہ سمجھ رہے ہیں۷۰۰۲ءتک پہنچ کر امریکہ نے اپنا سارا فلسفہ بدل لیا ہے اور وہ اب بحیرہ عرب کے آخری ساحل اور بحر او قیانوس کی آخری لہر تک دلی سرکارکاساتھ دے گا، ہمارے یہ دوست بھول گئے ہیں وہ امریکی جو اپنی ماں، اپنے باپ کو بھول جاتے ہیں ‘ان کی دوستی محض اپنے مفادات کی خاطر ہوتی ہے۔امریکا کواس خطے کی ابھرتی ہوئی سپرطاقت چین کامحاصرہ درکارہے جس کےلئے پاکستان قطعی موزوں نہیں کہ پاک چینی دوستی اس راستے کاسب سے بڑاپتھر ہے۔یہی وجہ ہے کہ دلی میں کھڑے ہوکراوبامہ نے بھارت کی مستقل نشست کی حمائت توکردی لیکن چنددنوں کے بعد امریکاہی کے ایک اعلیٰ عہدیدارنے اس کوانتہائی مشکل قراردیدیا۔

امریکہ ڈوبتے سورجوں کی زمین ہے اور ڈوبتے سورجوں کے بیٹے ہمیشہ چڑھتے سورجوں کے دوست ہوتے ہیں ،امریکہ کی وفاداری ہمیشہ اپنے مفادات سے وابستہ رہی ہے اورآئندہ بھی اس میں کوئی تبدیلی کاامکان نہیں ۔بس ایک دو برس کی بات ہے ‘اگردلی سرکارامریکی ایماءپرچین کے خلاف ان کی امیدوں پرپورے نہ اترے تو اس کے بعد نیا کپ ، نئی پلیٹ اور نیا گلاس ہوگا اور کوئی نیااوبامہ ہوگا۔

 

About admin

Check Also

یہ دن دورنہیں

امریکہ نے پاکستان کی سرزمین پر پہلاڈرون حملہ ۱۸جون ۲۰۰۴ء کوکیا۔ یہ حملے قصر سفیدکے …

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *