سمیع اللہ ملک ، لندن
واشنگٹن اوراسلام آبادکے انتہائی باخبر حلقے اس بات کا اعتراف کررہے ہیں کہ کابل کے مستقبل کے سیاسی نقشے کے حوالے سے دونوں ملکوں کے تعلقات میں غیرمعمولی حدتک باہمی اعتمادکا بحران پیداہوگیا ہے۔ایک امریکی جریدے ”فارن پالیسی“نے اس ضمن میں اپنے تجزیئے میں لکھاہے کہ”پاکستان اورامریکاکے مابین تعلقات اس وقت بدترین سطح پرپہنچ چکے ہیں مگراس صورتحال کو تعلقات کا خاتمہ قرارنہیں دیاجاسکتا“۔ کیاوجہ ہے کہ امریکاجواس خطے میں جاری دہشتگردی میں پاکستان کواپناسب سے بڑااتحادی کہتاہے اور پاکستان کی قربانیوں کاہرپلیٹ فارم پراعتراف بھی کرتاہے لیکن اب اچانک حالات نے کیاپلٹاکھایاکہ امریکی انتظامیہ میں پاکستان مخالف لابی دباوٴ ڈالنے کیلئے امریکی پریس میں مسلسل شرانگیزی پر مشتمل آرٹیکل شائع کروارہی ہے اورایک آرٹیکل میں تویہاں تک انکشاف کیاگیاہے کہ ریمینڈڈیوس کیس کے دوران صدراوبامہ کی صدارت میں ہونے والی ایک میٹنگ میں پاکستان سے بدلہ لینے کیلئے القاعدہ اوردوسرے گروپوں کے پاکستانی سرزمین پرواقع ۱۵۰/اہداف کومیزائلوں سے اڑانے کے ایک منصوبے کو پیش کیاگیاتھااوراس پر غوروفکرکے بعدموٴخرکردیاگیاتاہم ڈرون حملوں کوبڑھانے کافیصلہ طے پایاجس پراب تیزی سے عملدرآمدکیاجارہاہے۔ پاکستان میں پالیسی سازوں کا خیا ل تھاکہ ریمینڈکی رہائی میں مدددینے پرقصرسفیدنرم رویہ اختیارکرے گالیکن اس کی رہائی کے اگلے دن ہی ڈرون حملے میں ۴۱قبائلی افراد کی شہادت نے تمام اندازے تہس نہس کردیئے جس کی بناء پرپاکستان کے دفاعی حکمت کاراورپالیسی سازوں نے فوری طورپرفیصلہ کیاکہ امریکاسے تعلقات بگاڑے بغیراپنے مفادات کادفاع کیاجائے اوردباوٴکامحفوظ اورنتیجہ خیزحکمت عملی کے ساتھ مقابلہ کیاجائے۔ پاکستان نے فوری طورپرآئی ایس آئی کے چیف جنرل شجاع پاشاکو واشنگٹن روانہ کیاجہاں سی اے کے چیف کواس نئی صورتحال سے نمٹنے کیلئے ایک واضح پیغام سے مطلع کیاگیاکہ ڈرون حملوں کو فوری بندکرناہوگاجس میں معصوم اوربیگناہ شہریوں کی ہلاکت سے نہ صرف اشتعال عروج پرپہنچ گیاہے بلکہ دہشت گردی کی جنگ کو بھی شدیدنقصان پہنچ رہاہے ۔اس کے ساتھ ہی سی آئی اے کواپنے نہ صرف تمام خفیہ آپریشن بندکرنے ہونگے بلکہ اپنے تمام ایجنٹوں کی فہرست سے آگاہ کرناہوگا اوربلوچستان میں افغان سرحد کے قریب گزشتہ چھ برس سے سی آئی اے کے زیراستعمال شمسی ایئربیس کاکنٹرول بھی واپس مانگ لیاہے جبکہ جیکب آبادکے قریب شہبازائیربیس اورمنگلا ڈیم کے قریب فوجی علاقے میں مشرف دورمیں دئیے گئے دو بیس پہلے ہی خالی کروالئے گئے ہیں ۔دفاعی حکام نے یہاں سے ڈرون حملوں کیلئے ہرقسم کی سپورٹ بندکرنے کے اصولی فیصلے سے آگاہ کرتے ہوئے جہاں ۵۰۰ سے زائدامریکیوں کوملک سے نکالنے کامطالبہ کیا گیاوہاں ریمینڈ نیٹ ورک کے ۱۵۰مشتبہ امریکیوں کو فوری بیدخل کرنے سے بھی آگاہ کردیاگیا،اگرباقی ایجنٹوں کومقررہ وقت میں نہ نکالاگیاتوآئی ایس آئی یہ فریضہ خودانجام دے گی۔وزارتِ خارجہ اوردفاعی حکام نے تلخی مزیدبڑھنے کے پیش نظر۷امریکیوں کو ناپسندیدہ قراردینے کے فیصلے کو فی الحال موٴخرکردیاہے۔ یہی وجہ ہے کہ آرمی چیف جنرل اشفاق پرویز کیانی اورجوائنٹ چیف آف سٹاف کمیٹی کے چیئرمین جنرل خالدشمیم وائیں نے امریکی عسکری قیادت پردوٹوک اندازمیں واضح کردیا کہ اب پاکستان کی مشکلات میں مزید اضافہ نہ کیاجائے ۔اس ملاقات کے فوری بعدپہلی مرتبہ ایڈمرل مائیک مولن پاکستانی میڈیامیں آئی ایس آئی پربرس پڑے اوراپنے مزید پانچ مطالبوں کے ساتھ اپنے الزامات کودہرانے لگے کہ آئی ایس آئی کو حقانی نیٹ ورک سے اپنے تعلقات ختم کرنے ہونگے،پاکستان امریکاکے خلاف لڑنے والے تمام گروپوں کے خلاف بلاتفریق کاروائی کرے،شمالی وزیرستان میں فوری آپریشن شروع کیاجائے،امریکی ٹرینرزکی تعدادمیں کمی نہیں کی جائے گی ،امریکی ایجنٹوں کی معلومات پاکستان کونہیں دی جائے گی اورڈرون حملوں کوبھی بندنہیں کیاجائے گااورپہلی مرتبہ لشکر طیبہ کوعالمی امن کیلئے خطرہ قراردینے کی دھمکی بھی دی گئی ۔شنیدہے کہ پاکستان نے مولن پرواضح کردیاہے کہ پاکستان اپنے مطالبات منوائے بغیر تعاون نہیں کرے گالہنداامریکامستقبل میں پاکستان کے تعاون کاخواہاں ہے تواس کیلئے لازم ہے کہ پاکستان کے تمام تحفظات دورکئے جائیں بصورت دیگرپاکستان ایک آزادملک ہے اوراپنی آزادی برقراررکھنے کی خاطرہر ممکنہ قدم اٹھانے میں حق بجانب ہے گویانائن الیون کے بعد پہلی مرتبہ ”ڈومور“کے جواب میں ”نومور“پرقائم رہنے کافیصلہ کیاگیاہے۔ اب پالیسی سازوں نے فیصلہ کرلیاہے کہ ملکی سلامتی کے پیش نظرپاکستان میں امریکاکے خفیہ آپریشن کوناکام بنانے کیلئے ایک واضح پالیسی تشکیل دی جائے اسی لئے پاک افغان کمیشن کے قیام کی تشکیل دیتے ہوئے دواہم فیصلے کئے گئے ہیں کہ کابل میں کسی گروپ کی حمائت یا مخالفت نہیں کی جائے گی اورکابل نے بھی فیصلہ کیاہے کہ طالبان کے ساتھ مذاکرات کے عمل میں پاکستان کوہرسطح پرباقاعدہ شریک رکھاجائے گا۔پہلی مرتبہ آرمی چیف اورڈی جی آئی ایس آئی ان فیصلوں کے ضامن بنے ہیں۔اس خطے کے دواہم ملکوں نے ان فیصلوں کے بعدگیندامریکاکی کورٹ میں پھینک دی ہے کہ وہ اب فیصلہ کرے کہ کب اس خطے سے باہرنکلے گا۔ امریکی تھنک ٹینکس کے ماہرین ،دانشوراورمختلف شعبہٴ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے بیشترزعماء کی اکثریت جودونوں ملکوں کے تعلقات پر گہری نظررکھتے ہیں اورایک لمبے عرصے تک پاکستان میں بھی اہم اورذمہ دارعہدوں پر
کام کرچکے ہیں کی حتمی رائے یہ ہے کہ ”امریکی حکمران جان لیں کہ اب پاکستان سمجھ گیاہے کہ اسے امریکی امدادکی ضرورت نہیں رہی“۔ حالیہ افغانستان کے دورے میں پاکستان کے اعلیٰ سطحی وفد کی شمولیت سے دورے کے نتائج سے واضح اشارہ ملتاہے کہ افغان بحران کوختم کرنے کیلئے پاک امریکا کے مطلوبہ اتحاد،خلوص نیت اوراعتمادکوبدترین دھچکالگاہے بلکہ امریکی تجزیہ نگاریہ سمجھتے ہیں کہ اب پاکستان امریکاکے مکمل اثرورسوخ سے الگ تھلگ ہونے کا فیصلہ بھی کرسکتاہے۔”نیویارک ٹائمز“نے امریکااورپاکستان کے حکام کے حوالے سے لکھاہے کہ امریکی چاہتے ہیں کہ افغانستان میں ایک مضبوط اورمستحکم مرکزکی حامل حکومت ہوجواپنی بڑی فوج کی کمان سنبھالے اورایسی فوج جوافغانستان کی سرزمین کے دفاع کی اہل ہو،امریکاکی رخصتی کے بعدبھارت ایک اہم کرداراداکرے جبکہ پاکستان افغانستان میں طالبان گروپوں کے ذریعے اپنااثرورسوخ برقراررکھناچاہتا ہے اور امریکی فوج کے انخلاء کے بعدافغانستان میں اہم اوربنیادی کردار اپنے قبضہ قدرت میں رکھنے کاخواہشمندہے ۔امریکاکے ایک دوسرے اہم اخبار”دی ٹائمز“کے مطابق ”پاکستان نے سی آئی اے کاکردارمحدودکرنے اورکرزئی سے معاونت بہتربنانے کاتاثر دیکراپناعزم واضح کردیاہے“۔ امریکی جریدہ”فارن پالیسی“ لکھتاہے کہ ”امریکادونوں ملکوں (افغانستان وپاکستان)کومفاہمت ومصالحت کی بات چیت کی ترغیب تودیتارہاہے مگرامریکاخودکومکمل طورپرالگ تھلگ رکھے جانے کے حق میں نہیں تھااس لئے پاکستان میں امریکی سفارتی نمائندوں نے یہ تاثردیاہے کہ انہیں پاکستان اورافغانستان کی اس تازہ کاوش کاکوئی علم نہیں۔امریکی تھنک ٹینکس کامجموعی تاثریہ ہے کہ پاکستان کی تازہ ترین کوشش امریکاکو”ایک طرف رکھنے“کی آئینہ دارہے۔افغانستان میں امریکی افواج کے کمانڈرجنرل ڈیوڈپیٹریاس طالبان کو مکمل طورپرکچلنے کاارادہ رکھتے تھے جبکہ پاکستان شروع دن سے اس رائے سے اختلاف رکھتاتھاجو کہ وقت اورتجربہ نے صحیح ثابت کیااوراب امریکی محکمہ دفاع کے تمام عہدیداراپنی اس غلطی کااعتراف کرتے ہوئے افغانستان سے جلدازجلدانخلاء چاہتے ہیں۔اب یہ اطلاع بھی سننے میں آرہی ہے کہ جولائی ۲۰۱۱ء میں افغانستان سے امریکی فوجی دستوں کی واپسی شروع ہوجائے گی اس لئے یہ سال افغانستان کے مستقبل اورپاکستان کے اس خطے میں کردارکے حوالے سے نہائت اہم ہے۔ امریکی فوجوں کے انخلاکے بارے میں صدراوبامہ،ہلیری کلنٹن،پینٹاگون اورپاکستان میں امریکی سفیرکیمرون منٹرکے بیانات میں کھلاتضادپایاجارہاہے، جہاں امریکی حکمران افغانستان سے جلدازجلدچھٹکارہ حاصل کرنے کے خواہاں ہیں وہاں امریکی سفیرنے چنددن پہلے اسلام آبادمیں یہ بیان دیاہے کہ”ہم اس خطے میں ہیں اوررہیں گے ، یہاں سے جانے کاکبھی نہیں سوچا“۔کیاپالیسی سازاداروں کویہ پیغام دیاگیاہے کہ نائن الیون کے بعدجس طرح ہم نے ہاتھ پاوٴں باندھ کراپنے مطالبے منوائے تھے اب بھی حالات اس سے کچھ مختلف نہیں لیکن کیازمینی حقائق ایک بڑی تبدیلی کی نویدسنارہے ہیں؟ امریکی استعمارکے تمام ”پوڈلز(Poodles)میں برطانیہ سرِ فہرست ہے مگربرطانوی عوام ہمیشہ سے جارحیت کے خلاف رہے ہیں۔برطانیہ کے ایک مشہورزمانہ اخبار”سنڈے ٹیلیگراف“نے ایک فوجی کانام ظاہرنہ کرتے ہوئے ایک مضمون ”شیروں کی قیادت میں گدھے “شائع کیاہے جوکہ زمینی حقائق کو سمجھنے کیلئے کافی ہے۔مضمون نگارلکھتاہے کہ”برطانوی فوج افغان جنگ میں واضح طورپرشکست سے دوچارہے کیونکہ اعلیٰ کمانڈرطالبان کوشکست دینے کی بجائے اپنے فوجیوں کی جان بچانے کی فکرمیں مبتلا رہتے ہیں“۔برطانوی فوج کی پالیسی پرمزیدتنقیدکرتے ہوئے افغانستان کے ایک صوبے ہلمندکاذکرکرتے ہوئے لکھتا ہے کہ”برطانوی فوجی صرف۱۱۰پاوٴنڈوزن اٹھاکرگشت کرنے والے گدھے ہیں جواس ”باربرداری“ کے باعث عملاً جنگ میں حصہ لینے سے معذورہیں۔چارگھنٹے مارچ کرنے کے بعدتھک جاتے ہیں․․․․․․․امریکی اوراتحادی کمانڈرشیراوران کے زیرِ قیادت لڑنے والے برطانوی فوجی گدھے اورہیڈکوارٹرمیں ڈیوٹی دینے والے کاہل ہیں“۔ ایک اورامریکی میگزین کے تازہ ترین سروے کے مطابق افغانستان میں ہرامریکی فوجی پر۲۷۰۰ڈالراورنیٹواہلکارپر۵۰۰ڈالریومیہ خرچ ہورہے ہیں۔اب امریکی عوام اپنے سیاسی اور فوجی لیڈروں سے ایسی لاحاصل مشق پراٹھنے والے بارہ کھرب ڈالراوراپنے ہزاروں فوجیوں کی اموات کاحساب مانگ رہے ہیں جہاں نہ صرف اتحادی افواج کااعتمادختم ہوچکاہے ،پاکستان اورافغانستان جیسے” معتمدین“کنارہ کش ہورہے ہیں بلکہ امریکاکے اندربھی اعتمادمفقودہوچکاہے۔جب انسدادِ دہشتگری کاعلم بلندرکھنے والے عالمی کردار سرپھٹول میں مصروف ہیں تو اندازہ لگایاجاسکتاہے کہ اس جنگ میں فتح کس کی ہوئی اورشکست کس کامقدر۔