کراچی پاکستان کا سب سے بڑا شہر ہے ۔ اسے کسی وقت روشنیوں کے شہر کہا جاتا تھا۔ اسے پاکستانی ماں کی طرح سمجھتے تھے جو ہر حال میں اپنی اولاد کو کھانا پینا مہیا کرتی ہے۔ کراچی شہر میں کوئی بھوکا نہیں سو سکتا تھا اور نہ ہی کوئی بے روزگار ہوتا تھا۔ لوگ ہر شہر سے یہاں مزدوری کیلئے آتے اور اپنا اور اپنے اعیال کا پیٹ بھرنے کاسامان کرتے تھے۔ یہ محبتوںکے شہر سے نفرتوں کی آماجگاہ کیسے بن گیا۔جی ہاں سیاسی مفادات نے اسے محبتوں کی گود سے نفرتوں کے الائو میں تبدیل کر دیا۔ کراچی کے رہنے والوں کو یہ باور کرایا گیا تھا کہ اگر یونہی لوگ یہاں آ کر بستے رہے تو پھر یہ ہمارا روزگار کم کر دیں گے۔ یہ شہر پر قبضہ کر کے ہمیں یہاں سے نکال دیں گے ۔ مہاجربھائیوں کو اس بے بنیاد ترغیب پر بھڑکایا گیا او ران کے حقوق کے نام پر کھیل شروع ہوا۔ لازمی امر ہے کہ کراچی پر صرف مہاجروں کا حق نہیں ہر پاکستانی کا حق ہے ۔ اس پر مہاجروں کی اجارہ داری کو تسلیم نہیں کیا جاسکتا ۔ کراچی میں پہلے پہل ہزارہ ڈویژن اور میانوالی ڈویژن کے لوگ کثرت سے گئے تھے۔ یہ ہوٹلوں پر کام کرتے اور ٹرکوں اور بسوں کے کاروبار سے وابستہ تھے ۔ مزدوری پیشہ بھی کافی لوگ تھے۔ ان کے ساتھ جھگڑے کیے گئے انہیں مارا پیٹا گیا ۔ ان کی املاک کو نقصان پہنچایا گیا۔ یہ لوگ صبر کرتے رہے لیکن مہاجر چاہتے تھے کہ یہ لوگ یہاں سے ہر حال میں اپنا سب کچھ چھوڑ کر چلے جائیں۔ اس کیلئے ایسے قوانین بھی ڈسڑکٹ لیول پر بنائے گئے جس سے غیر سندھی کو غیر ملکی سے تشبیہ دی گئی۔ مہاجر قومیت کو مظلومیت کا نشان بنانے اور ان کے نام پر سیاست کرنے کا آغاز ایم کیو ایم کا جنم دن ہے۔ ایم کیو ایم کراچی میں مہاجروں کی اجارہ داری کیلئے کام کرنے اور ان کی فلاح وبہبود اور تحفظ کو منشور قرار دے کر مہاجروں کی ہمدردی سمیٹنے میں کامیاب ہوئی۔ جماعت اسلامی بھی مہاجروں کے حقوق کیلئے کام کرتی تھی اسے بھی ایم کیو ایم کی مخالفت کا سامنا کرنا پڑا ۔ پہلے پہل ایم کیو ایم جماعت اسلامی کو اپنا حریف قرار دے کر ان کے خلاف محاذ آرائی کرتی رہی۔ وقت کے ساتھ اس میں مزید اضافے ہوتے گئے۔ پختون ہزارہ اتحاد ، پنجابی ہزارہ اتحاد جماعت اسلامی نے بہت کوشش کی لیکن ایم کیو ایم کا عفریت ان کے قابو سے باہر ہوتا گیا۔ ضیاء الحق کے مارشل لا کے دور میں ایم کیو ایم کو فری ہینڈ دیا گیا جس سے پیپلز پارٹی مسلم لیگ جیسی قومی جماعتیں بھی اس کے سامنے جھکنے پر مجبور ہوگئیں۔ایم کیو ایم کراچی میں اجارہ داری کیلئے کوشاں تھی کہ اسے جناح پور کا خواب بھی نظر آیا۔ اس پر آرمی نے اس کی برین واشنگ کر کے اسے اپنی اوقات میں لایا تھا۔ ایم کیو ایم نے سیاسی مخالفین اور جماعت کے سامنے آنے والی ہر رکاوٹ کو روندڈالنے کی روایت جاری رکھتے ہوئے اپنے ہی آفاق احمد کو بھی روندنے کی کوشش کی ۔ وہ جان بچانے کیلئے جیل کی سلاخوں کے پیچھے پناہ گزیں ہوا۔ الطاف حسین نے ہر بولنے والی آواز کو چپ کرانے کی ٹھان لی اور اپنے ہی قریبی ساتھیوں کو شک کی بنیاد پر بھی ٹھوک دینے کے آرڈر جاری کیے۔ سیاست خدمت یا فلاح کا عنصر اس جماعت نے بھلا کر سیاسی مخالفین کو تہ تیغ کرنے کو ہی مہاجروں کا حق قرار دے کر باقی منشور پر فوقیت دے دی۔ اب اس جماعت کا یہی منشور ہے کہ سیاسی مخالفین کو بزور طاقت خاموش کر دیا جائے ۔ نہ رہے بانس نہ باجے بانسری کے مصدق نہ مخالف ہو گا نہ ہی بولے گا۔ ایم کیو ایم اب الطاف حسین مافیا بن چکی ہے۔ اسے مہاجروں کی جماعت کہنے کی بجائے الطاف حسین کے کارندوں کا گروہ قرار دیا جانا چاہیے۔ اس جماعت نے جس قدر قتل وغارت اور دہشت گردی کی ہے اس پر اسے سیاسی سماجی فلاحی جماعت کی بجائے دہشت گرد تنظیم قرار دے کر بین کرنا چاہیے۔
الطاف حسین کو بھی ملک کے خلاف بیانات دینے اور توڑنے کی بات کرنے پر غداری کا مقدمہ قائم کر کے حکومت برطانیہ سے اس کی حوالگی کا مطالبہ کرنا چاہیے۔ الطاف حسین نے اس سے پہلے بھی بھارت میں کھڑے ہو کر پاکستان کے خلاف بیان دیا تھا۔ اس کی وڈیو موجود ہے ۔ موجودہ بیان بھی فیس بک سمیت کئی سماجی ویب سائیٹس پر ثبوت کے طور موجود ہے۔ اس سے پہلے بھی انہی صفحات کے توسط سے حکومت کو وارننگ دی تھی کہ ایم کیو ایم کو الطاف حسین کی یرغمالی سے آزاد کرایا جائے۔ الطاف حسین کے خلاف کئی طرح کے مقدمات زیر سماعت تھے جو این آر آو کے تحت معاف کیے گئے۔ اس کے علاوہ جب الطاف حسین نے برطانیہ کی شہریت اختیار کر لی ہے تو پھر وہ پاکستان کی کسی سیاسی تنظیم کا چیئرمین کیونکر ہے۔ ایک غیر ملکی شہری کو یہ کیسے استحقاق حاصل ہوا کہ وہ پاکستان کے سیاسی معاملات میں مداخلت کرے اور کسی سیاسی تنظیم کی راہنمائی کا فریضہ کرے ۔ڈاکٹر طاہر القادری کے کیس میں یہ فیصلہ ہو ا کہ ڈیول نیشنل کو یہ حق حاصل نہیں ۔ الطاف حسین کی ملک سے وفاداری بھی مشکو ک ہے پھر بھی اسے تنظیم چلانے کی اجازت دینا پاکستان کے دشمن کو موقع دینے کے مترادف ہوگا کہ وہ جب اور جیسے چاہیے پاکستان کی سا لمیت اور یکجہتی پر وار کرے ۔ الطاف حسین کے موجود ہ طرز بیان پر حکومتی اور سیاسی جماعتوں کے اکابرین کے طرز عمل کو دیکھتے ہوئے یہ کہا جا سکتا ہے کہ انہیں پاکستان سے کوئی سروکار نہیں ۔ انہیں اپنی دستار بلند چاہیے خواہ اس کیلئے انہیں انڈین ٹینکوں پر ہی کیوں نہ بیٹھنا پڑے ۔ نیا پاکستان بنانے والے پرانے پاکستان کو کیا کباڑیے کے پاس بیچنا چاہتے ہیں۔ الطاف حسین جیسے کئی کمیشن ایجنٹ یہ سودا کرانے کیلئے بیتاب بیٹھے ہیں۔ کوشش کی جائے کہ پرانے پاکستان پر ہی گذارا ہو جائے ۔ پرانے پاکستان نے کسی کا کچھ نہیں بگاڑا ۔ اگر کسی نے بگاڑا ہے تو وہ یہ ایجنٹ ہیں جنہیں اپنے کمیشن کیلئے ماں قرار دی جانے والی دھرتی کا سودا کرنے پڑے تو وہ اس سے بھی نہیں چوکتے ۔ذاتی مفادات کو یہ عوامی ایشو بنا کر پیش کر کے اسے عوامی ہمدردی حاصل کرنے کیلئے استعمال کرکے خود کو عوامی سیاسی نمائیندہ قرار دیتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ سیاست میں الطاف حسین جیسے افراد کیلئے جگہ بن جاتی ہے۔ جس برطانیہ نے انہیں سیاسی پناہ دی ہے کیا وہ سکاٹ لینڈ کے کسی لیڈر کو یہ اجازت دے سکتے ہیں کہ وہ برطانیہ کے خلاف ایسی ہی ہزرہ سرائی کر سکے ۔برطانیہ یورپ اور امریکہ نے تو یہ ٹھیکہ اٹھایا ہوا ہے کہ ہر ایسے فرد کو پناہ دی جائے جو مسلم قومیت میں نفاق کا بیج بونے میں کوئی کردار ادا کرنے کی اہلیت رکھتا ہو۔ کراچی کے مہاجر بھی اب تو ایم کیوایم اور الطاف حسین کے اس روپ اطوارسے تنگ ہیں ۔ وہ بھی اب گلو خلاصی چاہتے ہیں لیکن اب کمبل انہیں چھوڑنے کو تیار نہیں ۔ اگر ایم کیوایم والے بھتہ اور قبضہ مافیہ اور گولی سرکار سے ہاتھ کھینچ لیں تو پھر وہ کھائیں گے کہاں سے اور پیر صاحب کا نذرانہ لندن کیسے ارسال ہو پائے گا ۔ کراچی اب مافیائوں کے نرغے میں آچکا ہے ۔ اسے ایم کیو ایم کے علاوہ بھی سیاسی بھیس میں کئی اور شکاری شکار کرنے کا موقع دیکھ رہے ہیں۔ یہ ان شکاریوں کی آپس کی جنگ ہے۔ مافیائوں کی اس جنگ میں عام عوام بھی گیہوں کے ساتھ گہن کی طرح پس رہے ہیں۔ اس کا حل صرف طاقت ہے ۔ طاقت کے غیر جانبدارانہ استعمال کے بغیر کراچی کی روشنیوں کی واپسی کا خواب کبھی تعبیر نہیں پائے گا۔ میاں صاحب اور عمران خان کو چاہیے کہ وہ نفاق کی بجائے اتحاد اور اپوزیشن کی بجائے کولیشن کو ترجیح دیں۔ اس طرح وہ ملا اور ملاکھڑے دونوں کی بلیک میلنگ سے بچ کر شاید عوام کیلئے کچھ کر نے کی پوزیشن میں آ جائیں۔ ایک ایک اور دو گیارہ ہوتے ہیں۔ شاید آ جائے تیری سمجھ میں میری بات ۔