تقسیم ہندو پاک کے وقت وہ لوگ جو ہندوستان کو خیر باد کہہ کر پاکستان گئے ، خاص کر وہ جن کا تعلق پنجاب سے نہیں تھا ، ان میں زیادہ تر لوگوں نے کراچی کو اپنا مسکن بنایا۔ ان لوگوں میں بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح بھی تھے۔ ساحل سمندر پر بسا یہ شہر پاکستان کا معاشی شہہ رگ کہا جاتا ہے اور یہی شہر اسلام آباد سے پہلے پاکستان کی دار الحکومت بھی تھا۔ اور یہی وہ شہر ہے جہاں مزار قائد واقع ہے۔
رفتہ رفتہ وہی کراچی شہر ڈرگ مافیا، لینڈ مافیا اور نہ جانے کن کن مافیاؤں کی محفوظ پناہ گاہ بن گیا ہے جہاں صرف اپنی طاقت دکھانے کے لئے ٹارگٹ کلنگ Target Killing میں ہر روز کئی گھروں کے چراغ گل ہو جاتے ہیں۔ اسی شہر کے ایک حصے لیاری میں حکومت نے شر پسندوں کے خلاف ایک آپریشن 27 اپریل 2012 ء کو شروع کیا تاکہ شہر کراچی کو شر پسندوں سے پاک کرایا جا سکے لیکن انجام کار وہی ڈھاک کے تین پات۔ پورے آٹھ دنوں بعد 4 مئی کو لیاری میں جاری آپریشن بند کر دیا گیا جس سے لیاری کے مکینوں نے تو چین کی سانس لی لیکن پولس کے لوگوں میں مایوسی کی لہر صاف محسوس کی جا سکتی تھی۔ اس مایوسی کی دو وجوہات تھیں، ایک تو یہ کہ ان شر پسندوں کی تمام مذموم کارروائیوں کو پولس کی ناکامی قرار دیا جاتا ہے لہذا یہ پولس کے لئے ایک اچھا موقع تھا کہ وہ اپنے اوپر لگے تمام داغ دھو لے۔ دوسری وجہ یہ تھی کہ اس آپریشن میں اس کے پانچ ساتھی شہید ہو ئے تھے اور اب پولیس ایک فیصلہ کن کارروائی کرنا چاہتی تھی۔ آئی ۔ جی سندھ مشتاق شاہ کے بیان پر اگر یقین کریں تو یہ فیصلہ وزیر اعلی سندھ قائم علی شاہ اور وفاقی وزیر داخلہ رحمان ملک کے حکم پر لیا گیا ۔ میڈیا رپورٹ کے مطابق یہ فیصلہ لیاری کے عوام کی مشکلات کو نظر میں رکھ کر لیا گیاہے۔ پاکستان میں یہ نیک فال ہے کہ اب فیصلے عوامی مفادات کو نظر میں رکھتے ہوئے کئے جانے لگے ہیں۔ لیکن کراچی کی صورت حال کو دیکھتے ہوئے عوامی مفادات پر کیا گیا یہ فیصلہ بھی ابہام سے خالی نہیں ہے۔ اسی کراچی شہر میں ایک مدت سے کشت و خون کا ایک خونچکاں سلسلہ چل رہا ہے جس میں عوام شدیدتشنج کے عالم میں جی رہی ہے۔ کراچی جو پاکستان کا معاشی دارالسلطنت ہے ایک معمولی دکاندار تک کو تحفظ فراہم نہیں کر سکتا اور سارا کارو بار بھتہ خوروں کے رحم و کرم پر چل رہا ہے۔ اسی جگہ کے بارے میں اس ملک کا وزیر داخلہ بیان دیتا ہے کہ یہاں تحریک طالبان اور لشکر جھنگوی جیسی کالعدم تنظیموں کے لوگوں کی پناہ گاہیں ہیں اور وہ یہاں سے اپنے گروہوں کا انتظام و انصرام دیکھتے ہیں۔ رحمان ملک کی بات تو خیر ہم جانے بھی دیں کیونکہ وہ اس تواتر سے بیان بدلتے ہیں کہ انسان سمجھنے سے قاصر ہوتا ہے کہ کس پر یقین کرے اور کس پر نہیں۔ لیکن کراچی کے اس آپریشن کو کیسے نظر انداز کیا جائے جس نے پولس والوں کو ناکوں چنے چبانے پر مجبور کر دیا۔ جس میں شر پسندوں نے ایسے ایسے اسلحے استعمال کئے کہ پولس حیران و ششدر رہ گئی۔ آخر کتنا اسلحہ ان کے پاس تھا کہ آٹھ روز تک مسلسل گولیاں چلتی رہیں اور راکٹ لانچروں سے بم برسائے جاتے رہے۔ یہ لمحہ فکریہ ہے کہ آخر ان عام شہریوں کے پاس جدید ترین اسلحہ جات کا یہ زخیرہ آیا کہاں سے؟ یہ بات بھی سوچنے کی ہے کہ جرائم کے یہ پودے خودرو ہیں یا یہ حکومتی سرپرستی میں پروان چڑھے ہیں۔
کراچی کے حالات پر زیادہ تر ماہرین کی رائے یہ ہے کہ شہر میں متحرک تمام گروہوں کو کسی نہ کسی سیاسی جماعت کی سر پرستی حاصل ہے۔ یہ بات بھی غور کرنے کی ہے کہ آخر ان شر پسند تنظیموں سے سیاسی جماعتوں کو کیا فائدہ پہونچتا ہے۔ بات در اصل یہ ہے کہ یہ تمام گروہ اپنے اپنے علاقے کی غریب آبادی میں رابن ہڈ کی طرح اپنی اندھی کمائی کا کچھ حصہ خرچ کرتے ہیں۔ اس غریب آبادی سے ان کا رشتہ لسانی یا علاقائی تعصبات کی بنیادوں پر قائم ہوتا ہے اور یہ تعصبات انہیں شہر میں اپنی برتری قائم رکھنے کے لئے اپنی بندوقوں کو متحرک رکھنے کی ترغیب دیتے ہیں۔ اس طرح وہ غریب آبادی جس سے یہ جڑے ہوتے ہیں ان شر پسند وں کے اشارے پر ایک ووٹ بینک میں بدل جاتا ہے ۔ سیاسی جماعتوں کو ان سے دوسرا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ ان کے ذریعے نچلی سطح پر ان جماعتوں کے خلاف اٹھنے والی آوازوں کو خاموش کیا جا سکتا ہے۔
کراچی کا علاقہ لیاری اب تک پیپلز پارٹی کا حامی سمجھا جاتا رہا ہے لیکن کچھ دنوں سے اس علاقے میں ان کے خلاف نعرے بلند ہونے لگے ہیں۔ صدر پاکستان نے اسے علاقے کے کچھ لوگوں کی نادانی کہتے ہیں ۔ حیرانی کی بات یہ ہے کہ اس بیان کے کچھ ہی روز بعد وہاں آپریشن شروع ہوتا ہے اور عذیر جان بلوچ اور دیگر لوگوں کے سروں کی قیمتیں بھی مقرر کر دی جاتی ہیں۔واقعات کی یہ ترتیب کہانی کو دلچسپ اور سنگین بنا دیتی ہے اور یہ سوچنے پر بھی مجبور کرتی ہے کہ آخر اس آپریشن کا مقصد کیا تھا۔
ماہرین کے مطابق کراچی کو جرائم سے پاک کرنے کے لئے یہ ضروری ہے کہ ان غریب آبادیوں میں بڑے پیمانے پر فلاحی کام کئے جائیں اور ان کی زندگی کو بہتر بنانے کی سعی کی جائے تاکہ غریب لوگ پیٹ کے بدلے اپنے ضمیر کا سودا نہ کریں۔ شر پسندوں سے بھی Carrot and Stick کے اصولوں پر بات کی جائے اور انہیں انجام سے آگاہ کیا جائے۔ سیاسی جماعتیں بھی اپنا دست شفقت ان کے سروں سے ہٹائیں اور شفاف بنیادوں پر سیاست کریں۔ اگر ان نکات پر کام کیا جائے تو ممکن ہے کہ رفتہ رفتہ اس شہر قائد میں قانون کی حکمرانی قائم ہو اور معاشی شہہ رگ سے ہو کر پاکستان میں خوشحالی کا خون پھر سے دوڑنے لگے۔