سمیع اللہ ملک
ہاں بھول جائیں گے ہم بہت جلد … سب کچھ بھول جائیں گے… لیکن اس بارمجھے آواز آتی تھی، نہیں اسے نہیں بھولیں گے۔ بھول ہی نہیں سکتے۔ ناممکن ہے۔ لیکن پھر وہی ہوا۔ بھول گئے ہم سب کتنی آسانی سے بھول گئے۔ دل کا زخم بھی کوئی بھولتا ہے بھلا۔کیسے بھول جاتے ہیں۔
اگست کے آغازسے ہی ٹی وی چینل پرجشن آزادی شروع ہوچکاہے۔رمضان المبارک کامہینہ بھی ہے․․․․․ہاں اسی مہینے میں تودنیاکے نقشے پرایک نیاملک معرض وجودمیں آیاتھا․․․․․۲۷رمضان المبارک کی قیمتی شب تھی جب یہ نیا ملک آزادہواتھا۔ہم نے اپنے رب سے یہ وعدہ کیاتھاکہ اس ملک میں تیرے نام اورپیغام کی حکومت ہوگی۔بندوں کوبندوں کی غلامی سے نکال کراللہ کی غلامی میں داخل کیاجائے گاجہاں وہ آزادی کے ساتھ تیری عبادت کریں گے،اپنی زندگی کے شب وروزامن وآشتی سے گزاریں گے۔ میں نے ٹی وی کھولا اور ریموٹ سے چینلز کھنگالنے لگا۔ ہر جگہ رقص و موسیقی ، قہقے اور ہلا گلا۔ مسرت و شادمانی، خوشی و سرشاری کا سر چڑھا جادو، شہنائی اور طبلہ، ہار مونیم اور گٹار، اور اس پر رقص سے جھومتے جھامتے بے خود لوگ ، سرمستی اور رعنائی اترتی ہوئی۔
ٹھیک ہے۔ خوشی کا دن ہے ۔ کوئی توخوش ہوناں… اور پھر ایک چینل پر بڑا عجیب سا منظر تھا۔سوہنی دھرتی اللہ رکھے قدم قدم آباد تجھے۔تیرا ہر ایک ذرہ ہم کو اپنی جان سے پیارا۔ تیرے دم سے شان ہماری۔ تجھ سے نام ہمارا۔ جب تک ہے یہ دنیا باقی ۔ ہم دیکھیں آزاد تجھے۔ سوہنی دھرتی اللہ رکھے قدم قدم آباد تجھے۔میں نے اشک بار ہوکر آمین کہا۔ لیکن اس دل کی پھانس کو کیسے نکالیں۔ یہ قومی گیت شہناز بیگم نے گایا تھا اور کیا ڈوب کے گایاتھا، کون شہناز بیگم، جی جناب وہ ایک بنگالن ہے۔ میرے سامنے مشرقی پاکستان آکھڑا ہوا۔ خوشی کا لمحہ اور دکھ کا سمندر… کیسے بھول جائیں۔ نہیں بھولتا ناں۔ میں اپنے جسم کے ایک کٹے ہوئے بازو کو بھول جاؤں۔ ممکن ہے یہ ؟ یہ۱۶دسمبر۱۹۷۱ء تھا۔ آزادی کا جشن منائیں تو کیسے؟ مجھے معاف کر دیجئے نجانے کیوں آپ کو یاد دلاتا رہتا ہوں۔
جشن آزادی کیسے منائیں ؟ ابھی کل ہی تو لال مسجد اور جامعہ حفصہ لہورنگ ہوئی ہے۔ ابھی تو ان معصوموں کی قبروں کی مٹی بھی خشک نہیں ہوئی، خون تو کبھی مٹتا نہیں ، تازہ رہنے والا لہو۔ بہتا ہوا تازہ لہو۔ آزادی کا جشن منائیں۔ اس مملکت خداداد پاکستان کے دارالخلافہ اسلام آباد کی لال مسجد کے مینار خاموش اور صفیں اُداس ہیں آپ کو اس کے آنسو نظر نہیںآ تے؟ میرے رب کی کبریائی بیان کرنے والے میرے رب کی عظمت اور بڑائی کا آوازہ بلند کرنے والے اُداس مینار خاموش ہیں۔ اور ہمیں حیرت سے تکتے ہیں۔ گولیوں سے چھلنی اور آگ و خون میں نہلائی ہوئی لال مسجد تڑپ رہی ہے اورگواہ ہے جہاں سجدوں میں جھکے یتیم بچے اوربچیاں فاسفورس بموں سے بھسم کردیئے گئے۔ اور ہم ہیں․․․․۔․․․ کیا بات کروں چلئے جشن مناتے ہیں۔
یہ ملک میرے رب نے ہمیں عطا کیا۔ عطائے رب جلیل ہے یہ۔ ٹی وی پرایک ملی نغمہ بھی گونج رہاہے، ہمارا پرچم، یہ پیارا پرچم، یہ پرچموں میں عظیم پرچم، عطائے رب کریم پرچم، میرے رب نے اپنی رحمت سے یہ ملک ہمیں دیا۔ آجکل کے کسی سیاسی لیڈر نے کوئی جنگ نہیں لڑی اسے حاصل کرنے کے لئے ۔ لاکھوں لوگوں نے ہجرت کا تلخ جام پیا اور ہزاروں نے شہادت کا۔ ان بچیو ں کو آپ بھول جاتے ہیں۔ جو اپنی عصمت کی قربانی اور اپنی جان کا نذرانہ اس وطن عزیز کے لئے پیش کرکے خاک اوڑھ کر سو گئیں اور وہ بھی تو تھیں جووہاں جبراً روک لی گئیں۔ کہیں شانتی اور کہیں بلونت کور بن کر، اور اپنی شناخت قربان کر گئیں، اس وطن ِ عزیز پر۔ نیزوں، بھالوں، خنجروں اور تلواروں سے معصوموں کو چیر دیا گیا اور پھر وہ بلوائیوں کے خونی رقص میں اپنی جاں اس وطن پروار گئے۔ خون ہی خون، قربانیاں ہی قربانیاں ہیں اس وطن عزیز کی بنیادوں میں۔ رہنے دیجئے۔لمبی ہو جائے گی بات۔ داستاں درداستان لکھے بھی کون۔ آپ کا بھاشن اپنی جگہ۔
بس ذرا سا ٹھہر جائیے۔ صرف اتنا بتائیے، اس وطن عزیز کو آپ نے کیا دیا؟بیرونی آقاوٴں کے ترتیب دیئے ہوئے این آراوکے سہارے ایوان اقتدارتک پہنچ گئے یہی ناں کبھی کسی ادارے کو پنپنے کا موقع ہی نہیں دیا۔ ملک کے تمام اداروں میں کھلم کھلاکرپشن کاآغازکرکے ایک نیاعالمی ریکارڈقائم کردیا،عدالت عالیہ نے ملکی دولت لوٹنے والوں کے خلاف تحقیقات کاآغازکیاتوعدلیہ کواختیارات میں مداخلت کاپیغام دیکر چیلنج کردیا ۔ وہ ایٹم بم جسے ہم نے اپنی حفاظت کے لئے بنایا تھا۔ اب ہم اسے چھپاتے پھرتے ہیں۔ نجانے کیا تاریخ ہے ہماری آزادی کا جشن منائیں تو کیسے ؟جی جناب آپ منائیے آزادی کا جشن۔ آپ ہیں آزاد،ہر طرح سے آزاد،جب چاہیں، جو چاہیں کر سکتے ہیں آپ۔ ضرور منائیے جشن ،ناچئے، گائیے مزے اڑائیے مادر پدر آزادجوٹھہرے آپ۔یہ وطن عزیز میرے رب کی عطا ہے۔ قائم رہے گا۔ میرے رب نے پہلے بھی لاج رکھی ہے۔ پھر بھی رکھے گا۔ اس وطن عزیز کے خلاف جس نے بھی سوچا تھا پہلے بھی رسوا ہوا ہے ۔ اور آئندہ بھی رسوا ہوتا رہے گا۔
ذرا سادم لیجئے۔ میں تو بہتا چلا جا رہا ہوں۔ میں آپ سے مخاطب ہوں۔ جی جناب آپ سے۔ یہ ہم نے او ر آپ نے اس وطن پاک کو کیا دیا ہے؟ کبھی یہ لمحہ بھر کے لئے سوچا بھی ہے کہ ہم اپنے وطن عزیز کو بچانے کے لئے کیا کریں؟ میرے گھر میں آگ لگ جائے اور چین سے سوتا رہوں، نہیں ناں یہ ممکن ، تو اب آپ مزے سے کیسے سو جاتے ہیں؟ پورے ملک میں آگ لگی ہوئی ہے،کراچی جل رہاہے۔رمضان المبارک کی حرمت کابھی کوئی احساس نہیں؟اپنے سیاسی مقاصد کی تکمیل کیلئے ،اپنے قبضے کومضبوط کرنے کیلئے غریب دیہاڑی داروں،ٹھیلہ لگانے والوں کوگولیوں کی تڑتڑاہت کاشکارکررہے ہیں۔ سیاسی مقاصدکیلئے جونہی کسی آرڈیننس کااجراء ہواتوایک دوسرے کے ساتھ گلے ملناشروع ہوگئے اورمیڈیاکوعیدکے بعدحکومت میں شامل ہونے کی نویدسنادی۔ان ہزاروں بیگناہوں کاکیاہواجوآپ کی سیاسی رسہ کشی کاشکارہوگئے؟
استادمحترم نے پچھلے دنوں ای میل میں کسی کالم کی کاپی ارسال فرمائی جس کوپڑھ کردل پرقابونہ رہا۔آپ بھی اس کاایک حصہ پڑھ لیں۔
․․․․․․․مجھے آج بھی وہ گرم سہ پہریاد ہے جب میں ہمدرددواخانہ راولپنڈی میں حکیم صاحب کے کمرے میں بیٹھاتھا،مرحوم حلاف معمول تھکے تھکے سے معلوم ہورہے تھے۔میں نے ادب سے طبیعت کے اس بوجھل پن کی وجہ دریافت کی تودل گرفتہ لہجے میں بولے”ہم نے اس دکھ سے بھارت چھوڑاتھاکہ ہمیں وہاں مذہبی آزادی حاصل نہیں تھی،ہم نمازپڑھنے جاتے تھے توہندہ مسجدوں میں سوٴرچھوڑدیتے تھے ،خانہ خداکے دروازے پرڈھول پیٹتے تھے،بول وبرازکی تھیلیاں ہمارے اوپرپھینکتے تھے ،ہندوشرپسند پچھی صفوں میں کھڑے نمازیوں کو چھرے گھونپ کربھاگ جاتے تھے۔ہم نے سوچاچلوپاکستان چلتے ہیں وہاں کم ازکم ہمارے سجدے توآزادہونگے۔ہماری مسجدیں،ہمارے درگاہیں تومحفوظ ہونگی لیکن افسوس آج مسلح گارڈزکے پہرے کے بغیرپاکستان کی کسی مسجدمیں نمازپڑھنے کاتصورتک نہیں۔مجھے میرے بڑے بھائی حکیم عبدالحمیددہلی سے لکھتے ہیں ”سعیدواپس آجاوٴ،پاکستان کے حالات ٹھیک نہیں،یہاں،ادھرکم ازکم مسجدیں تومحفوظ ہیں․․․․․․لیکن میں․․․․“ان کی آوازاکھڑگئی۔
”پاکستان آنے پرکبھی پچھتاواہوا؟“میں نے نرمی سے پوچھا”انہوں نے اچکن کے بٹن سہلائے”نہیں ہرگزنہیں،یہ سوداہم نے خودکیاتھا،حمیدبھائی میرے اس فیصلے سے خوش نہیں تھے۔ان کی خواہش تھی کہ میں دہلی میں ان کاہاتھ بٹاوٴں لیکن مجھے لفظ پاکستان سے عشق تھا،لہنداادھرچلاآیا۔اللہ تعالیٰ نے کرم کیااوروہ ادارہ جس کی بنیادمیں نے بارہ روپے سے رکھی تھی آج پاکستان کے چندبڑے اداروں میں شمارہوتاہے،یہ سب پاکستان سے عشق کاکمال ہے“۔ان کی آوزمیں بدستورملال تھا۔”لیکن پاکستان کے حالات سے دکھ توہوتا ہو گا ؟“میں نے اپنے سوال پراصرارکیا۔”ہاں بہت ہوتاہے،اخبارپڑھتاہوں،سیاستدانوں کے حالات دیکھتاہوں،عوام کی دگرگوں صورتحال پرنظرپڑتی ہے توبہت دکھ ہوتاہے، جب ادھرسے دہلی سے کوئی عزیزرشتہ دارپاکستان آکرکہتاہے’کیوں پھر‘تودل پرچھری سی چل جاتی ہے،لیکن کیاکریں ،گھرجیسابھی ہے ،ہے تواپنا،ہم اسے چھوڑتونہیں سکتے ،لہندالگے ہوئے ہیں ،لگے رہیں گے آخری سانس تک“۔
”کوئی ایسی خواہش جس کاآپ نے آج تک کسی کے سامنے اظہار نہ کیاہو؟“انہوں نے کچھ دیرسوچا”ہاں کبھی کبھی جی چاہتاہے کہ میری موت حمیدبھائی سے پہلے ہو،وہ میرے جنازے پرآئیں،میرے چہرے سے چادرسرکا کردیکھیں اورپھرآہستہ سے مسکراکرکہیں،ہاں سعیدتمہارافیصلہ درست تھا“۔
وہ گرم دوپہرڈھل گئی تواس کے بطن سے آج کی خنک اورغمناک صبح طلوع ہوئی،میرے سامنے میزپرآج کے اخباربکھرے پڑے تھے۔ہراخبارکی پیشانی کے ساتھ آج کے سب سے بڑے انسان کی تصویرچھپی ہے۔خون میں نہائی اورحسرت میں ڈوبی ہوئی تصویرجوہرنظرسے چیخ چیخ کرایک ہی سوال کررہی ہے۔”میراجرم کیاتھا،مجھے کیوں ماراگیا،میں توزخموں پرمرہم رکھنے والاشخص تھاپھرمیرے جسم کوزخم کیوں بنادیاگیا؟؟؟میرادماغ سلگی لکڑیوں کی طرح چٹخنے لگا،میں نے سوچا،یہ تصویرآج دہلی کے کسی اخبارمیں چھپی ہوگی،وہ اخبارہمدردنگرکے ایک چھوٹے سے غریبانہ کمرے میں بھی پہنچاہوگا،چٹائی پر بیٹھے بیاسی(۸۲)برس کے ایک بوڑھے نے بھی اسے اٹھایاہوگا،اس کی آنکھیں بھی ہزاروں لاکھوں لوگوں کی طرح چھلک پڑی ہونگی۔اس نے بھی شدت جذبات سے اخبارپرے پھینک دیاہوگا،اس نے بھی بازوپردانت جماکرچیخ ماری ہوگی،اس نے بھی اپنی چھاتی پرہاتھ ماراہوگا،اس نے بھی چلاچلاکرکہاہوگا”سعید!تمہارافیصلہ غلط تھا،مجھے دیکھو،بیاسی برس کے اس بوڑھے کودیکھو،یہ بغیرمحافظ کے مسجدمیں جاتاہے،پیدل مطب پہنچتاہے،روزصبح وشام کافروں کے درمیان چہل قدمی کرتاہے لیکن اس پرکبھی کوئی گولی نہیں چلی۔اس کاکبھی کسی نے راستہ نہیں روکا۔
ہاں اس بیاسی برس کے کمزوربوڑھے نے چلاچلاکرکہاہوگا،”سعید میں کربلامیں زندہ رہاتم مدینے میں مارے گئے“۔
اب آپ ہی بتائیں کہ ان حالات میں ایسے حکمرانوں کے ساتھ ملک کاجشن آزادی کیسے منائیں؟آئیے پہلے اپنے ملک کودوبارہ آزادکروائیں،وہ پاکستان جس کاراستہ مکے سے نکلے اورمدینے لیجائے اورپھرکبھی کوئی یہ نہ کہہ سکے کہ وہ کربلامیں توزندہ رہالیکن مدینے میں ماراگیا۔
دل بھی کیسی شے ہے، دیکھو پھر بھی خالی کا خالی
گرچہ اس میں ڈالے میں نے، آنکھیں بھر بھر خواب