سمیع اللہ ملک
عالمی طاقتیں ایک مرتبہ پھر کرکٹ ڈپلومیسی کی آڑمیں بھارت کے چہرے پرلگے داغوں کوصاف کرنے میں مصروف ہیں۔دراصل بھارت کو کرکٹ ڈپلومیسی کی آڑمیں مزید رعائتیں دلانے کیلئے یہ بساط بچھائی گئی ہے۔اس خطے میں شہنشاہ ایران رضا شاہ پہلوی کے بعداب تک قصرِ سفید کو اپناکوئی مستقل ٹھکانہ نصیب نہیں ہورہا اس لئے وہ اب پوری امیدیں بھارت کے ساتھ لگائے بیٹھے ہیں اوران دنوں من موہن سنگھ عالمی طاقتوں کے منیم(منشی)کاکردار بخوبی نبھارہے ہیں۔پاکستانی حکمران تو پہلے ہی اپنے حصے کا کرداربخوشی اداکرنے کیلئے ہروقت تیاررہتے ہیں اسی لئے جونہی بھارتی ہم منصب سے کرکٹ دیکھنے کی دعوت ملی یوسف گیلانی فوری طورپراپنے منظورشدہ وفدکوساتھ لیکرموہالی روانہ ہوگئے۔اس بے ثمردورے کاآغازہی پاکستانیوں کی غیرت پرتازیانے برساکریوں کیاگیا کہ وزارتِ داخلہ نے اس دورے کوکامیاب کرنے کروانے کیلئے بڑے فخرکے ساتھ بھارتی جاسوس کی رہائی کی سمری وزیراعظم ہاوٴس کوارسال کی اوراس سمری کو فوری طورپرایوان صدرمنظوری کیلئے روانہ کردیاگیااوراس طرح جھٹ پٹ صدرزرداری صاحب نے اپنے اختیارات استعمال کرتے ہوئے اس خطرناک بھارتی جاسوس کی بقیہ سزامعاف کرکے پاکستان کے ایک اوردشمن کوآزادکردیااوراس طرح محب وطن حلقے انگشت بدنداں ہیں کہ پہلے پاکستانی نوجوانوں کودن دیہاڑے قتل کرنے والے ایک امریکی جاسوس ریمنڈ کو اوراب بھارتی جاسوس کویکے بعد دیگرے رہاکرکے یہ پیغام دیاجارہا ہے کہ پاکستان ایک انسانی شکارگاہ وچراگاہ ہے جہاں جو چاہے اپنی غنڈہ گردی کرکے واپس اپنے ملک چلاجائے ۔
اقتدارکے ایوانوں میں بیٹھے نادانوں کو اس بات کی بھی خبر نہیں کہ ان کے اس مجرمانہ فعل پرجہاں دشمن ایجنسیوں اوراداروں کامورال اوراعتمادبڑھتاہے کہ پاکستان میں کسی بھی کاروائی کی انہیں کھلی چھٹی ہے اورکوئی انہیں ہاتھ نہیں لگاسکتاوہاں ہمارے اپنے قانون نافذکرنے والے اداروں میں سخت بددلی پھیل رہی ہے کہ جن وطن دشمنوں کو وہ اپنی جان پر کھیل کرگرفتارکرتے ہیں وہ بہرحال آزادہوکران کی غیرت کوللکارتے ہوئے سینہ پھلائے ہوئے ان کی آنکھوں کے سامنے رہاکردیئے جاتے ہیں۔آخراس کرکٹ ڈپلومیسی کا کیا ایجنڈہ تھااوراس ڈپلومیسی سے پاکستان کے حصے میں ماسوائے بزدلی اوررسوائی کے اورکیاحاصل ہواہے!وزیرداخلہ عبدالرحمان ملک نہ صرف بھارتی جاسوس کی رہائی کاکریڈٹ لیتے ہوئے بڑا فخرمحسوس کررہے ہیں بلکہ کرکٹ میچ سے تین دن قبل قومی ٹیم کومیچ فکسنگ کے شبہ میں ایک نفسیاتی دباوٴمیں مبتلا کردیتے ہیں اوراس کے ساتھ ہی بھارتی خفیہ ادارے جو ہندو انتہاپسندوں دہشت گردوں کی دھمکیوں سے خوف میں مبتلا تھے ان کی اس طرح مددکردی کہ پاکستان سے کچھ طالبان اس کرکٹ میچ کو سبوتاژ کرنے کیلئے موہالی پہنچنے کی کوشش کررہے ہیں۔
مزیدبرآں بڑے تفاخر سے ایک ایسے فردکودہشت گرد قراردیکر گرفتارکروادیاجس کاتعلق پاکستان سے بھی نہیں تھا۔جواپنے ملک سے کراچی آیااوریہاں سے مالدیپ روانہ ہوگیا۔مالدیپ میں گرفتاری کے چندروزبعدسری لنکن حکام نے اسے بیگناہ قراردیکر رہاکردیا۔خدانخواستہ اگر اس کرکٹ میچ میں ہندوانتہاپسنداپنی کسی کاروائی میں کامیاب ہوجاتے تویقینا بھارت کیلئے پاکستان پرساراالزام لگانابہت آسان ہوجاتاجیسا کہ اس سے پہلے سمجھوتاایکسپریس اوردیگردہشت گردی کے واقعات میں ہوچکاہے۔آخر یہ موصوف کس ملک کے وزیرداخلہ ہیں اوراپنی ان حرکات سے کس ملک کی مدداورخدمت کررہے ہیں۔اب تو یہ بات بھی کھل کرسامنے آگئی ے کہ موصوف مستقبل میں پاکستان کے اقتداراعلیٰ کے حصول کیلئے امریکا کی نظروں میں مقبولیت حاصل کرنے کیلئے ایسے کارنامے سرانجام دے رہے ہیں اوراس سلسلے میں انہوں نے ایک بھارتی مسلمان عالم سے بھی رجوع کیا تھاجوان دنوں امریکی رابطہ کارکاکردارسرانجام دے رہے ہیں۔دراصل ایسے من گھڑت واقعات کو پھیلاکرکرکٹ ڈپلومیسی میں پنہاں اس سازش کو چھپانے کی کوشش کی جارہی ہے جس کیلئے یہ ساراڈرامہ رچایاگیاہے۔
اس حوالے سے وزارتِ داخلہ کے بعض ذمہ دارماہرین نے اس خفیہ ایجنڈے کاانکشاف کیاہے کہ یہ امریکی اوربھارتی خواہش اورمفادات کے حصول کیلئے کرکٹ ڈپلومیسی کی بساط بچھائی گئی تھی۔کیونکہ امریکاجولائی میں افغانستان کے کمبل سے جان چھڑاکر راہِ فراراختیارکررہاہے اور(Indo Zionist Lobby)یہودوہنود گروپ جوقصرسفیدمیں موثراندازمیں کام کررہاہے ،وہ افغانستان میں امریکی شکست کا ذمہ دارپاکستانی افواج کوقراردے رہا ہے اوروہ ہرحال میں پاکستان کوکسی بڑے نقصان سے دوچارکرنے کی سازشوں میں مصروف ہے اورامریکاکے اگلے الیکشن کیلئے اپنی شکست کوچھپانے کیلئے امریکی عوام کے سامنے اپنی خفت مٹانے کیلئے اس کو استعمال کرنے کاارادہ بھی رکھتاہے۔ ان قوتوں کی شدیدخواہش ہے کہ امریکااس خطے میں پھنسارہے اوراگریہاں سے راہِ فراراختیارکرنے کے سواکوئی چارہٴ کارنہیں تو کم ازکم پاکستان کی نیوکلیر طاقت کوہرحال میں ختم کر دیاجائے۔
حالیہ عراق اورافغانستان میں امریکی جارحیت کوبڑی بھاری قیمت اداکرنی پڑی ہے اوراب وہ چاہتاہے کہ افغانستان سے رخصت ہوتے وقت نفرت کی تمام فیکٹریاں بھارت کے سپردکرکے جائے تاکہ اس خطے میں جنگ کے شعلے مسلسل بھڑکتے رہیں اوراس کی اسلحہ ساز کمپنیوں کاکاروبارجاری وساری رہے ۔یہی وجہ ہے کہ پچھلے برس امریکی سیکرٹری خارجہ ہلیری کلنٹن نے بڑی کاوشوں کے بعد بھارت کوافغانستان کیلئے پاکستانی سرزمین سے تجارتی راہداری کاپروانہ جاری کروایاہے اوراس اہم تجارتی راہداری کے حصول کے وقت مسئلہ کشمیر،بلوچستان میں بھارتی دہشت گردی‘بھارت کی آبی دہشت گردی کوبری طرح نظرانداز کیاگیااورحدتویہ ہے کہ سمجھوتاایکسپریس میں ہونے والی دہشت گردی کابھی سرے سے کوئی ذکرنہیں کیاگیا،البتہ ممبئی واقعے کی بازگشت اوردیگرامورو تجاری مفادکواولین ترجیح دی جارہی ہے۔یہی وجہ ہے کہ ممبئی واقعہ کے رونماہونے کے فوری بعدپاکستانی حکومت نے اپنے ہی ملک کی مشہورزمانہخدمتِ خلق کاکام کرنے والی جماعت الدعوعہ اوراس کے سربراہ حافظ سعیدکونہ صرف پابندسالاسل کردیابلکہ اقوام متحدہ سے اس پرپابندی لگوانے کیلئے پاکستان کے دیرینہ مخلص دوست چین کوبھی اس پابندی کے خلاف ویٹوکرنے سے گریزکی باقاعدہ درخواست کی گئی۔یہی وجہ ہے کہ اب بھی کرکٹ ڈپلومیسی پرجانے سے پہلے کابینہ کے اجلاس کے بعدمیڈیاکوبریفنگ دیتے ہوئے وزیراطلاعات فردوس عاشق اعوان نے کہاکہ” ایجنڈے پرکشمیرنہیں ہے“اورہمارے وزیراعظم نے بھی یہ فرمایاکہ ”پاک بھارت مذاکرات میں کسی تیسرے فریق کی ضرورت نہیں“۔سوال یہ ہے کہ اگر اس کرکٹ ڈپلومیسی کے ایجنڈے میں پاکستان کے مفادکاایک بھی مسئلہ نہیں تواس بے نتیجہ مذاکرات کاڈول کیوں ڈالاگیا؟اصل معاملہ یہ ہے کہ کرکٹ ڈپلومیسی کی آڑمیں ایک مرتبہ پھربھارت کومراعات دلونے کاایک جامع منصوبہ امریکی ساتھ لائے ہیں اورپاکستانی وزیراعظم کواس میں استعمال کیاجارہاہے ۔مستقبل میں کشمیرکے مسئلے پرسیدعلی گیلانی کوتنہاکرکے حریت کانفرنس میں بھی دراڑیں ڈالنے کے ایک خطرناک منصوبے پر عملدرآمدمقصود ہے۔
کرکٹ ڈپلومیسی کاآغاز۱۹۷۷ء میں اس وقت ہواتھاجب بھارتی کرکٹ ٹیم ۱۹۷۱ء کی جنگ کے بعدپہلی مرتبہ پاکستان آئی اوراس کے بعد۱۹۸۷ء میں جنرل ضیاء الحق بھارتی فوجوں کی طرف سے پاکستانی سرحدوں پر اجتماع کے موقع پرجے پورمیچ دیکھنے گئے ۔وہاں مبینہ طورپربھارتی وزیراعظم راجیوگاندھی کے کان میں صرف ایک جملہ کہاتھاکہ پاکستان ایٹمی ٹیکنالوجی میں کسی سے پیچھے نہیں اوروقت آنے پراس کواستعمال کرنے سے دریغ نہیں کیاجائے گا۔ضیاء الحق کی وطن واپسی سے قبل ہی بھارتی افواج کی واپسی کاعمل شروع ہوگیاتھا۔ضیاء الحق نے توبھارت کویہ پیغام بھی دیاتھاکہ ”کابل کاراستہ اگردرکار ہے تووہ سرینگرسے ہوکرگزرتاہے اوراگرتم پانی بندکروگے تو ہمیں کھولنابھی آتاہے۔“کیاموجودہ حکومت نے حالیہ کرکٹ ڈپلومیسی میں کوئی ایسا پیغام بھارت کوپہنچایا؟یقینا امریکی دباوٴمیں قائم ہونے والی پاکستانی حکومت ایسا کرنے کی جرأت نہیں کرسکتی ۔پاک بھارت سیکرٹری خارجہ سطح ملاقات میں ان ایشوپرکسی دلچسپی کااظہار نہیں کیاگیا پھربھلاپاک بھارت سربراہ ملاقات میں اس کاتذکرہ کیسے ہوسکتاہے۔اس لئے ضیاء الحق کی کرکٹ ڈپلومیسی سے اس کامقابلہ نہیں کیاجاسکتا۔
اس کرکٹ ڈپلومیسی کے پیچھے دراصل دوسرے عوامل کارفرماتھے۔امریکاکی خواہش ہے کہ بھارت کوکسی بڑا کردارسونپنے سے پہلے اس کودوسری عالمی طاقتوں کی آشیربادبھی حاصل ہوجائے۔اس کیلئے سب سے پہلے بھارت کے پڑوسیوں کی طرف سے (Isolation)کی شکائت کودورکیاجائے۔ذرائع کے مطابق چین کی طرف سے چھتیس گڑھ کی سرحدپر جارحانہ طرز، عمل اوراب نیپال سے دوٹوک تعلقات دراصل بھارت اورامریکاکیلئے ایک اہم پیغام ہے جس کی وجہ سے وہ فوری طورپرپاکستان کو(Engange)مصروف رکھنا چاہتے ہیں مگردوسری طرف امریکی دہشت گردریمنڈ کی رہائی کے باوجودپاکستان کے فوجی اورانٹیلی جنس کی سطح پرامریکاکے تعلقات میں رخنہ پڑگیاہے لہنداقصر سفید اس تاثر کو زائل کرنے کیلئے پاکستان کوخوش کرنے کی خاطر پاک بھارت مذاکرات کوبحال کرواناچاہتا ہے مگرایک سابق سیکرٹری خارجہ کے بقول صورتِ حال اورامریکی دباوٴ کے باوجود بھارت اب بھی کمپوزٹ ڈائیلاگ راہِ فرار حاصل کرنے کی کوشش کررہا ہے جہاں تنازعات حل کے قریب تھے جبکہ اب بھارت مزیدوقت حاصل کرنے کیلئے مذاکرات کودوبارہ صفر سے شروع کرناچاہتاہے لیکن اس کرکٹ ڈپلومیسی کے مذاکرات سے عالمی طاقتوں کویہ پیغام دیناچاہتاہے کہ اس خطے میں بھارت امن کیلئے بہت مخلص ہے ۔
ذرائع کے مطابق دونوں ملکوں کے درمیان ٹریک ٹو ڈپلومیسی ایک عرصے سے چل رہی ہے جس کے تحت دونوں ملکوں کے ریٹائرڈ حضرات بات چیت کوآگے بڑھا رہے ہیں۔اس سلسلے میں بھارتی وفدمیں میجرجنرل دیپانکربینرجی،ائروائس مارشل کپل کاک،بریگیڈئرگورمیت کندل،بریگیڈئرارون سمگل،پی آر چنری،ڈاکٹر ڈیوصوباعرف چندن ،سابق سیکرٹری خارجہ کے سی سنگھ،وریندرسنگھ اورملیکایوسف شامل ہیں جبکہ پاکستانی وفدمیں ریاض کھوکھر،ہمایوں خان،جنرل جہانگیرکرامت،نجم الدین شیخ،ہودبھائی،الہٰی بخش رئیس اورعزیزخان شامل ہیں۔دونوں وفودبنکاک میں جنوری میں مذاکرات کے چھ دورکرچکے ہیں مگرابھی تک کسی ایک معاملے پربھی اتفاق نہیں ہوسکا۔ٹریک ٹومیں یہ ثابت ہوچکاہے کہ بھارت مذاکرات نہیں چاہتامگرعالمی طاقتوں کوخوش رکھنے کیلئے مذاکرات میں مصروف دکھائی دیناچاہتاہے۔لہندااب اس میں کوئی شبہ باقی نہیں رہا کہ کرکٹ ڈپلومیسی محض ایک لاحاصل مشق اور تفریح سے زیادہ کچھ نہیں تھی۔
بروزبدھ۲جمادی الاوّل ۱۴۳۲ھ۶/اپریل۲۰۱۱ء
لندن