Home / Articles / کس قانون کے تحت مستثنیٰ ہیں؟

کس قانون کے تحت مستثنیٰ ہیں؟

ہونی ہو کر رہتی ہے۔جو پیشانی میں ہے، اسے پیش آنا ہے۔جوکاتب تقدیر نے لکھا ہے اسے پورا ہونا ہے۔خیر یاشر۔برا یا بھلا۔جو کچھ بھی آنے والے ایک پل کے پردے میں چھپا ہے۔پل گزرتے ہی سامنے آجانا ہے۔اگلے پل کے پیچھے کیا چھپا ہے،کیا سامنے آئے گا ۔پچھلے پل کا تسلسل یا اس کے بالکل برعکس ۔کون جانے،کس کو معلوم؟

انسان کے بس میں کب کچھ ہے۔جو کچھ ہے سلطان کے بس میں ہے۔جو رحمان و رحیم بھی ہے ،قہار و جبار بھی۔ لیکن کیا واقعی ایسا ہے۔ کیا کوئی کاٹھی نہیں،جو وقت کے بے لگام گھوڑے پر ڈالی جاسکے۔ کوئی لگام نہیں جو اس گھوڑے کا منہ موڑ دے۔کیا کوئی چابک نہیں جو اس اڑیل کو صحیح سمت میں رواں رکھ سکے۔کیا کوئی رکاب نہیں جو سوار کو سواری کی پیٹھ سے چپکا سکے۔اسے اوندھے منہ گرنے سے بچا سکے۔

نہیں ایسا نہیں ہے۔رب رحمان نے انسان کو سمجھایا کہ ہونی ہو کر رہتی ہے۔جو پیشانی میں ہے اسے پیش آنا ہے۔ کاتب تقدیر نے لکھا ہے اسے پورا ہونا ہے۔لیکن ہونی کیا ہے۔پیش کیا آنا ہے۔کاتب تقدیر نے کیا لکھا ہے۔سوائے اس کے کہ ”بما کسبت ایدیھم“۔جو کچھ تم نے اپنے ہاتھوں سے کمایا ہے۔اس نے راستے دکھائے ہیں۔”ھدینہ النجدین“۔بھلائی اور برائی کے راستے۔اس نے تو سمجھایا ہے ۔”فالھمھا فجورھا وتقواھا“۔ہم نے الہام کیا ہے،برائی کا بھی،بھلائی کا بھی۔اس نے تو بار بار یاد دلایا ہے۔ ”قد افلح من زکھا وقد خاب من دسھا“اس نے تو وعدہ کیا ہے۔”لا یضیع عمل عامل منکم“(وہ کسی عمل کرنے والے کا عمل ضائع نہیں کرتا)۔اور پھر اس نے کہا ہے تول لیا جائے گا تمہارا ہر عمل اچھا یا برا،چھوٹایا بڑا۔ اور فیصلہ کردیا جائے گا تمہارے فلاح یا خسارے کا۔اس نے انسان کو متنبہ کیا ہے۔”وقت کی قسم تمام انسان خسارے میں ہیں۔“‘اور یہ بھی بتایا ہے کہ اس خسارے سے کیسے بچا جائے۔اس نے وقت کا منہ زور گھوڑا ہی تخلیق نہیں کیا۔اس نے کاٹھی بھی دی ہے،لگام بھی۔چابک بھی دی ہے،رکاب بھی۔ایمان کی کاٹھی۔عمل صالح کی لگام۔تواصی حق کی چابک اور تواصی صبر کی رکاب۔تاریخ سے پوچھ کر دیکھئے۔کون ہے جس نے وقت کے بے لگام گھوڑے کو قابو کرنے کے لیے ان اجزاء کو استعمال کیا ہو،اور ناکام رہا ہو۔کون ہے جس نے ان اجزاء سے دامن چھڑایا ہو اور کامیاب ہوا ہو۔

 حضرت عمر نے عدلیہ کو انتظامیہ سے الگ کر کے ایسی روایت قائم کی جس کی بعد کے ادوار میں بھی عدالت کی آزادی برقرار رہی اور بادشاہوں، گورنروں اور دوسرے حکمرانوں کو عدالت کے سامنے عام شہریوں کی طرح پیش ہونا پڑا۔ یہاں ہم اسلام کے ابتدائی دور سے صرف ایک مثال پیش کریں گے۔ کوفہ میں عدالت کا اجلاس ہو رہا تھا اور قاضی شریک بن عبداللہ مقامات کی سماعت فرما رہے تھے ۔ ایک بڑھیا قاضی کے سامنے پیش ہوئی اور اس نے بھرائی ہوئی آواز میں بتایا کہ دریائے فرات کے کنارے میرا کھجوروں کاباغ تھا جو مجھے ورثے میں ملا تھا۔ میں نے اپنے حصے کو اپنے بھائیوں کے باغ سے علیحدہ کرنے کے لئے دیوار بنالی۔ کچھ عرصہ بعد گورنر موسیٰ نے میرے بھائیوں کے حصے کا باغ خرید لیا اور میرے حصے پر حریفانہ نظریں گاڑ دیں۔ چنانچہ اس نے مجھے برملا باغ فروخت کرنے کا کہہ دیا۔لیکن میں نے اس کو فروخت کرنے سے انکار کردیا۔ایک دن گورنر موسیٰ چند نوجوانوں کو ساتھ لے کر آیا اور اس نے دیوار کو گرانے کا حکم دیا جو میں نے تعمیر کی تھی۔بزرگ خاتون نے کہا کہ ” اے قاضی! میں اب تیرے پاس اپنا حق لینے آئی ہوں اور یہ اعلان عدالت کے کٹہرے میں کھڑے ہو کر کرتی ہوں کہ اپنا باغ گورنر موسیٰ کے ہاتھ ہرگز ہر گزفروخت نہیں کروں گی۔“

قاضی شریک نے ایک سمن پر مہر لگا کر عدالت کے غلام کو دی اور کہا کہ گورنر موسیٰ کو اپنے ساتھ لے کر آؤ۔ غلام جب یہ سمن لے کر گورنر کے پاس حاضر ہوا اور اسے اپنے ساتھ چلنے کوکہا تو وہ یہ فقرہ سن کر لال پیلا ہوگیا اور غصے کی وجہ سے اس کی آنکھوں سے چنگاریاں جھڑنے لگیں۔اس نے اسی وقت اپنے باڈی گارڈ افسر کو قاضی کے پاس بھیجا اور یہ پیغام دیا کہ ایک معمولی عورت کے جھوٹے دعوے کو تسلیم کر کے تم مجھے عدالت بلا رہے ہو۔ تمہیں میرے منصب کا کچھ تو لحاظ ہونا چاہئے۔قاضی نے گورنرکے باڈی گارڈ افسر کو جیل میں ڈال دیا۔گورنر کو جب پتہ چلا تو وہ سیخ پا ہوگیا اور اس نے اپنے سیکرٹری کو قاضی کے پاس احتجاج اور گارڈ افسر کی رہائی کے لئے بھیجا۔قاضی نے اسے بھی گارڈ افسر کے ساتھ جیل میں بند کردیا۔شام کو گورنر نے اعلیٰ افسران اور قاضی کے دوستوں کی ایک ٹیم کو قاضی کے پاس روانہ کیا اوریہ پیغام بھیجا کہ قاضی نے گورنر کی توہین کی ہے ۔یہ معززین شریک قاضی کے پاس پہنچے اور گورنر کا پیغام پہنچایا توقاضی نے گورنرکے پیغام کو ٹھکرادیا اور معززین سے مخاطب ہوکرکہا کہ تم مجھے ایسی بات کہنے آئے ہو جس کا تمہیں کوئی حق نہیں۔پھر اس نے غلام کو آواز دی اور کہا انصاف کے راستے میں رکاوٹ بننے کی پاداش میں ان لوگوں کو جیل میں ڈال دو۔ گورنر موسیٰ کو جب قاضی شریک کی اس بات کا پتہ چلاتو وہ غصے سے لال بھبو کا ہوگیا۔فوراً اپنا گھڑ سوار دستہ لے کرجیل خانے گیا اور داروغہ جیل سے اُن تمام قیدیوں کو رہا کروا دیا۔ اگلے روز صبح قاضی عدالت لگائے بیٹھا تھا کہ داروغہ جیل حاضر ہوا اور گزشتہ روز کی ساری روئیداد سنائی۔

قاضی صاحب نے جونہی یہ سنا تو فوراً کھڑے ہوگئے اور یہ تاریخی الفاظ کہے ”بخدا! ہم نے یہ منصب امیر المومنین سے مانگا نہیں تھا بلکہ انہوں نے خودزبردستی یہ کام ہمارے سپرد اس شرط پر کیا تھا کہ وہ یا اُن کا کوئی اہلکار عدالت کے کام میں مداخلت نہیں کرے گا۔ آج یہ مداخلت ہوئی ہے۔لہٰذا یہ منصب ابھی اور اسی وقت واپس جاکر امیرالمومنین کو لوٹا دوں گا۔جب گورنر کو معلوم ہوا کہ قاضی شریک امیر المومنین مہدی کے پاس بغداد واپس جارہے ہیں تو اس نے قاضی صاحب کو راستے میں جالیا اور لگا منت سماجت کرنے اور اُن سے کہا کہ آپ اپنے فرائض پہلے کی طرح ادا کرتے رہیں۔قاضی نے کہا کہ جب تک وہ سارے افراد جیل نہ پہنچا دئیے جائیں جو تم نے گزشتہ شب زبردستی جیل سے رہا کروائے تھے اس وقت تک میں واپس نہیں جاؤں گا۔ گورنر نے اسی وقت اُن سب لوگوں کو جیل میں پہنچانے کے احکامات جاری کئے۔

 قاضی نے غلام کو حکم دیا کہ گورنر کے گھوڑے کی لگام پکڑو اور انہیں میرے پاس میری عدالت میں حاضر کرو۔ جب دوبارہ عدالت لگی تو قاضی نے گورنر سے پوچھا کہ خاتون نے جودعویٰ دائر کیا ہے اس کے بارے میںآ پ کیا کہتے ہیں۔ گورنر نے جواب دیا۔ یہ بالکل درست کہتی ہے۔قاضی نے حکم دیا کہ آپ نے جو دیوار گرائی ہے ویسی ہی نئی دیوار بنوا دیجئے اورآئندہ اس خاتون کو بالکل تنگ نہ کیجئے۔ بڑھیا یہ فیصلہ سن کر قاضی کو دعائیں دیتی چلی گئی۔اسلامی تاریخ عدل و انصاف کے اس واقعے میں سب سے اہم بات یہ ہے کہ منصب کتا بڑا ہی کیوں نہ ہو، وہ عدالت کے سامنے جوابدہ ہے۔ نیز انتظامیہ کو عدالتی معاملات میں مداخلت کا ہر گز کوئی حق نہیں۔نیز انتظامیہ کو عدالتی معاملات میں مداخلت کا ہر گز کوئی حق نہیں۔ عدلیہ کوانتظامیہ سے الگ کرنے کا جو عظیم کارنامہ خلیفہٴ ثانی حضرت عمربن خطاب نے انجام دیا تھا اسے انسانی حقوق اور قانون کی حکمرانی کے موضوع پر لکھی جانے والی کتابوں میں سنہری حروف سے لکھا جاتا ہے اور مغرب میں بھی اُن کے اس عظیم کارنامے کااعتراف کیا جاتا ہے۔

لیکن ہمارا معاملہ عجیب ہے۔ہمارا حال یہ ہے کہ ”تمنا برق کی رکھتا ہوں اور افسوس حاصل کا“۔ سمجھانے والے سمجھاتے رہ جائیں۔راہ دکھانے والے راہ دکھاتے رہ جائیں۔ہم کسی کی کب سنتے ہیں۔ہم کہ عقل کل ٹھہرے،کب کسی کی مانتے ہیں۔ہم اللہ کو مانتے ہیں لیکن نہ اس کے دین کو مانتے ہیں نہ یوم الدین سے ڈرتے ہیں۔ہم قرآن کی تلاوت کرتے ہیں،لیکن اس سے ہدایت نہیں لیتے۔ہم نبی کریمﷺ سے محبت کرتے ہیں، لیکن ان کی اطاعت نہیں کرتے۔ہم اپنے آپ کو اعتدال پسند،روشن خیال اور جمہوریت کے شیدائی کہتے نہیں تھکتے،لیکن اپنے رویوں میں انتہا پسندی، تاریک خیالی،اور آمریت کا مظاہرہ کرتے ہیں۔پارلیمنٹ کوسپریم ادارہ کہتے ہوئے اپنی اکثریت کے بل بوتے پر خودکوہرعدالت سے ا ستثنیٰ قراردیتے ہیں۔یادرکھیں یہ ملک اللہ تعالیٰ کے نام پربناہے اورہمارے آئین میں بھی اللہ کوسپریم طاقت ماناگیاہے اوراللہ کے ہاں توکسی کوبھی استثنیٰ حاصل نہیں توآپ کس قانون کے تحت مستثنیٰ ہیں؟

About admin

Check Also

تفہیم میر کی  چند  جہتیں

نوٹ : ترجیحات میں شائع شدہ اداریہ اور مضمون قارئین کے لیے یہاں پیش کررہا …

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *