خزاںہمیشہ بہار کی نوید بن کرآتی ہے۔ معاشرے میں باہمی تضاد نقاق بھی پیدا کرتا ہے لیکن اس کو اگر لیڈرشپ صیح معنوں میں حل کرے تو یہ بھی قوی اتحاد کی بنیاد بن سکتاہے۔طاہر القادری نے حکومت ریاست بچائو سیاست نہیں کے تحت جس لانگ مارچ کا اعلان کیاتھا ۔ میں شروع دن سے ہی یہ بات لکھتا آرہا ہوں کہ اول تو ان کا نعرہ ہی عوام کی سمجھ سے باہر تھا۔ ریاست اور سیاست دونوں لازم وملزوم ہیں تو ایک کو کیسے چھوڑا جا سکتا ہے ۔ ریاستی عمائدین کو سیاست کے کھیل سے باہر کرنے کیلئے انہوں نے صیح نعرہ تخلیق نہیں کیا۔قادری صاحب کی نامناسب پلاننگ یا بعد ازوقت قومی سیاسی معاملات میں مداخلت سے ان کو شخصی طور پر معتوب کیا گیا۔ یہ ایک شخص کی توہین نہیں تھی بلکہ اس سے امت مسلمہ کے ایک اور جید عالم نے متنازعہ امور اختیار کر کے علما ء سے اعتبار اٹھنے کے عمل کو اگے بڑھا دیا۔انہوں نے اپنے بیانات اور خطابات کے دوران جو لب ہ ولہجہ اختیار کیاوہ اس پر عمل کرنے میں قطعی طور پرناکام رہے۔ بیشک طور پر ان کے مقاصد عوام کے انتہائی مفاد میں تھے لیکن وہ عوام کو اپنی طرف متوجہ کرنے میں کیوں ناکام رہے ۔ ان کے قول وفعل میں تضاد کی وجہ سے عوام نے انہیں مسترد کیا۔ یہ حقیقت ہے کہ وہ ایک درآمد شدہ بم پروف کنٹینرسے قیادت کے فرائض سرانجام دے رہے تھے۔ کہا گیا کہ ان کو حکومت نے مجبور کیا اور ان کے حفاظتی اقدامات کے لیے یہ کیا گیا۔ اگر انہوں نے حکومت کی ایڈوائس پر عمل کرنا تھا تو پھر حکومت کے خلاف لانگ مارچ ہی کیوں کیا۔ دوسری بات انہوں نے یزید کہہ کر حکومت کو مخاطب کیا اور اپنے لانگ مارچ کو حسینیت کے لشکر سے تشبیہ دی۔ امام عالی ٰ مقام نے تو کوئی حفاظتی اقدامات نہیں کیے تھے۔ ان کے گرد کوئی گارڈ نہیں تھے۔ انہوں نے اپنے لشکر کے ساتھ کسی خصوصی اہتمام کے بغیر سفر کیاتھااور ان کا قیام بھی کسی بندوبست خاص کے بغیر تھا۔ امام عالیٰ مقام نے مذاکرات کیے تھے لیکن انہوں نے پسپائی اختیار نہیں کی تھی۔ انہوں نے سر جھکایا نہیں کٹایا تھا۔ قادری صاحب نے یہ کہتے سوچا نہیں تھا کہ انہیں آخر کار اسی گورنمنٹ سے مذاکرات کرنے ہونگے۔ انہوں نے انہی کرپٹ اور یزیدیت کے پیروکاروں کے ساتھ مذاکرات کیے ۔ اس سے امام عالیٰ مقام کی تشبیہ کو بھی نقصان پہنچا۔ مذاکرات بالآخر ہونے ہی تھے اور کسی بھی اشتعال وشر انگیزی کے بغیر قادری صاحب کا حکومت کو عوامی مطالبات پہنچانا بہت قابل تعریف بات ہے ۔ کیا ضروری تھا کہ حکومت کے مستعفی ہونے اور صوبائی حکومتوں کو بوریا بستر گول کرنے کی وارننگ دی جاتی۔ اس کی بجائے صرف اصل مقصد الیکشن کمیشن کی اصطلاحات کو ہی محور ومرکز بنایا جاتاتو بہتر نہ ہوتا۔ اس سے نہ تو آپ کو کئی محاذوں پر چومکھی لڑنا پڑتی اور نہ ہی بات میں وزن کی کمی کا تاثر پیدا ہوتا۔ اگر قادری صاحب اپنی آمد سے لیکر مارچ کی ڈیڈ لائن تک صرف الیکشن کمیشن میں اصطلاحات کو ہی بیانات اور پریس کانفرنسوں کا موضوع بناتے تو یقینا اپوزیشن پارٹیوں کیلئے اس کی مخالفت کرنا کافی دشوار ہوتا۔ الیکشن کمیشن کی تحلیل کی بجائے اس کی اصلاح کو مرکزی خیال بنایا جاتا تو اس کے فوائد ساری جمہوریت کے لیے نہایت کارآمد ہوتے۔ قادری صاحب نے بات اتنی سمتوں میں پھیلا دی کہ عام آدمی کیلئے یہ سوچنا اور سمجھنا دشوار ہو گیا کہ وہ کیا کہنا اور کیا کرنا چاہتے ہیں ۔ اس گومگو کی کیفیت سے دوچار عوام کو میڈیا اور سیاسی جماعتوں کے قائدین نے اپنے حق میں استعمال کرکے قادری صاحب کے مطالبات کا ذور توڑ دیا۔ قادری صاحب نے حال ہی میں قائد اعظم پر الزام تراشی کرنے والے الطاف حسین کی جماعت کو لانگ مارچ میں شرکت کی دعوت دے کر اپنے آپ کو متنازعہ بنا لیا۔ ایم کیوایم جو کراچی کے مسائل کی اصل اساس وجڑ ہے کو قومی سیاسی امور میں بلیک میلنگ کے زریعے پر پھیلانے کیلئے موقع کی تلاش رہتی ہے۔ اس نے حسب سابق اس سے فائدہ اٹھایا اور قادری صاحب کوجل دے گئے ۔انہیں امید تھی کہ عمران ان کی مدد کو آئے گا لیکن وہ بھی تو انہی کا اثیر ہے جن کے خلاف قادری صاحب کا قافلہ حسینیت کا علم لے کر نکلا تھا۔ وہ حر نہ بن سکا ۔ طاہر القادری نے روایتی سیاستدانوں کی طرح اپنے اور اپنے تقلید کاروں کے درمیان عدم مساوات کا نمونہ پیش کیا۔ جو کہ ایک مذہبی راہنما کو جو خود کو شیخ الاسلام بھی کہلائے زیب نہیں دیا۔اس کے بعد ان کا الفاظ کا چنائو بھی ان کے علم سے مطابقت نہیں رکھتاتھا۔جس سے ان کے طلبا اور ان کے مقلدین نے تو شاید ان کی ہر بات کو استاد یا شیخ کا حکم جان کر قبول کیا لیکن مخالفین کو نکتہ چینی کیلئے مواد بھی میسر آیا۔ قادری صاحب نے غلطیوں کی بھر مار کر کے اپنے مقصد کو دھندلا دیا ۔ ان کا موقف ا ن کی شخصیت سے دھندلا کر منظر عام سے نظر ہی نہیں آیا۔ اس وجہ سے عوام نے ان کی شخصیت کو مسترد کرتے دیا کیونکہ انہیں کوئی مقصد تو نظر ہی نہیں آ رہا تھا۔ وہ اسے شخصیت پرستی اور خود پرستی کے تناظر میں دیکھ کر اس کی طرف متوجہ ہی نہیں ہوئی۔ قادری صاحب نے ایسے افراد کے ساتھ مذاکرات کو تسلیم کیا جو ان کے مقصود تھے۔ ان ہی کے خلاف تو وہ نعرہ زن تھے اور انہی کے خلاف وہ اصطلاحات و انقلاب کا مشن لے کر آئے تھے۔ انہوں نے اپوزیشن کو اعتماد میں لینے کی بجائے اس سے بھی عناد مول لیا۔ انہوں نے جب ساری سیاسی لیڈر شپ کو للکارا تھا تو پھر انہیں کسی بھی سیاسی جماعت سے حمایت طلب نہیں کرنی چاہیے تھی۔ پہلے انہوں نے ایم کیو ایم اور پھر عمران خان کی جانب دیکھ کر خود کو کمزور کیا۔ انہوں نے عوام پر بھروسہ ہی نہیں کیا اور ن
ہ ہی عوام نے ان پر اعتماد کا اظہار کیا۔ قادری صاحب نے سیاست او ر مذہب کی اخلاقیات دونوں پر پوری توجہ نہیں دی۔ اس کے نتیجے میں انہیں اپنے سے بہت ہی کم مرتبہ علم وعمل میں افراد کے طنز و تزہیک کا نشانہ بننا پڑا۔ ذاتی طور پر مجھے یہ بات بری لگی کیونکہ مذہبی راہنما پہلے ہی عوام کی نظروں میں اپنی کمزوریوں اور خامیوں کے ساتھ غلطیوں اور دنیا داری کی وجہ سے معتوب اور معزز نہیں جانے جاتے تھے۔ ان میں اکثریت علم میں اس مرتبے کی حامل نہیں تھی جس مرتبے پرقادری صاحب تھے۔ اب عوام اس درجے کے علما کو بھی شک کی نظر سے دیکھیں گے اور اس سے اسلام کی ترویج وتدوین کو انتہائی نقصان پہنچنے کا احتمال ہے ۔ان نقصانات کے ساتھ یہ فائدہ ہوا کہ عوام کو کم ازکم یہ معلوم ہوگیاکہ ان کیلئے ایک راہ نجات اور بھی ہے ۔مزید برآں پرآمن احتجاج کا ایک نمونہ پیش ہو گیا۔ اب سیاسی کارکنوں کو احتجاج کا یہ طریقہ متعارف کرا دیا گیا ہے۔ انہیں اس کی پیروی کرنی چاہیے۔اگر اس تحریک کے نتیجے میں الیکشن کمیشن میں اصطلاحات ہو گئیں تو اس کے اثرات یقینا معاشرے پر انتہائی مثبت ہونگے ۔ اچھی قیادت متوقع ہونے سے ممکن ہے کہ حالات اچھائی کی طرف پلٹ آئیں۔ گھٹا جتنی سیاہ ہوتی ہے اس کے نقصانات بھی متوقع ہوتے ہیں اور ا س سے پیاسی زمین کے سیرآب ہونے او رپانی کے ذخائر کی کمی بھی پوری ہوتی ہے۔اس وقت کی سیاسی فضاء میں عوام کے مسائل کی حقیقی نمائیندگی کرنے کی یہ کوشش ناکام تو ہو گئی لیکن اس کے اثرات ضرور آنے والے وقت پر ہونگے۔ اس کے ثمرات سے کون مستفید ہوتا ہے یہ بھی سامنے کی بات ہے ۔ سیاسی جماعتوں کو اور لیڈر شپ کو اب محتاط ہونا پڑے گا کہ ایسا نہ ہو کہ کوئی اور مذہبی عالم اسی طرح کی کوئی تحریر سکوائر کرنے کی کوشش نہ کرے۔ اگر یہ سکوائر پوری ہو گئی توپھر وہ اس میں مقید ہو کر رہ جائیں گے او ر ان کے بھاگنے کی کوئی جگہ نہیں ہوگی۔ جس میں احتساب ایسے ہاتھوں میں ہوتا ہے جن کو سرخی سے پیار ہوتا ہے ۔پائوڈر اور سرخی کا کھیل مہنگا پڑ سکتا ہے ۔