ابھی بہت دن نہیں گزرے ہیں کہ پاکستان پر آفتوں کا سیاہ بادل چھایا ہوا تھاہر طرف سے یہی آواز آرہی تھی کہ بس چند ہی دنوں میں پاکستان کا صفایا ہونے والا ہے ۔ا سکی وجہ یہ تھی کہ پاکستان کی آرمی کسی اور راہ پر تھی اور پاکستان کی حکومت احتجاج کرنے والوں کے رحم و کرم پر تھی۔کسی بھی وقت ملک میں کوئی ناخوشگوار واقعہ ہو سکتا تھاکیونکہ صدر مملکت آصف زرداری اپنی ضد پر اڑے ہوئے تھے اور کسی بھی قیمت پر احتجاج کرنے والوں سے مفاہمت کے موڈ میں نہیں تھے کیونکہ اس مفاہمت سے ان شکست جڑی ہوئی تھی ۔لیکن حالات ایسے بے قابو ہونے لگے کہ انھیں آخر چار و ناچار مفاہمت کرنی ہی پڑی لیکن یہ مفاہمت ابھی تک ان کو راس نہیں آئی ہے کیونکہ یہ مفاہمت اس وقت ہوئی جب عوام کے سامنے خود وہ اور ان کی پالیسی بے نقاب ہوچکی تھی ۔ اس مفاہمت سے انھیں کوئی فائدہ نہیں ہوا ۔البتہ اس کا سارا کریڈیٹ وزیر اعظم پاکستان جناب گیلانی صاحب کو ملا ۔ اب یہ بھی خبریںآ رہی ہیں کہ نواز شریف اور گیلانی صاحب میں قربتیں بڑھ رہی ہیں اسکی وجہ یہ ہے کہ خود گیلانی صاحب یہ جان چکے ہیں کہ آصف زرداری کے نظریات جس طرح پاکستان کو تباہ کر رہے ہیں اسی طرح اب بہت دیر تک آصف زرداری کی باتوں کو بے چون وچرا تسلیم کرنا خود ان کی شخصیت کے لیے بھی نْقصان دہ ہوگا۔ چنانچہ وہ خود بھی ان کی پالیسیوں سے نہ صرف کنارہ کش ہورہے ہیں بلکہ اپنی راہ بھی خود نکالنے کی فکر میں ہیں ۔حالات یہ ہیں کہ ایسے میں آصف زردار ی کچھ کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہیں اسی لیے اپوزیشن کے احباب بھی ان سے دوستیاں بڑھا رہے ہیں تاکہ پاکستان سے زرداری کو نجات دلایا جاسکے۔ اس کے لیے مناسب وقت بھی ہے اور حالات بھی کیونکہ پاکستان میں ہر طرف سے بد امنی پھیل رہی ہے اور حکومت سے لوگ بے زار ہو رہے ہیں ۔ایک طرف ڈرون سے حملے ہورہے ہیں تو دورسری جانب امریکہ اس پر بھی مطمئن نہیں ہے اور یہ کہہ رہا ہے کہ پاکستان کی دہشت گردی سے دنیا کو جتناخطرہ ہے اتنا کسی اور ملک سے نہیں ہے یہاں تک کہ افغانستا ن سے بھی اتناخطرہ نہیں ہے اس لیے ضروت اس کی ہے کہ پاکستان سے ملحق مماک آپس میں بیٹھ کر یہ طے کریں کہ ان خطرات سے کیسے نپٹا جا سکاتا ہے۔
دوسری جانب پاکستان کے اندرورنی حالات دن بہ دن بگڑتے جارہے ہیں ۔دہشت گردوں کے حملے اتنی تیزی سے بڑھ رہے ہیں کہ خود پاکستان کو سمجھ میں نہیں آرہا ہے کہ کیا کرے اور کیسے ان مصیبتوں سے چھٹکارا پائے ۔مناواں میں پولیس چوکی پر حملہ۔ اسلام آباد میں خود کش حملے اور چکوال کی مسجد میں حملے ۔ہر طرف سے حملے ہو رہے ہیں ۔ پہلے تو اس طرح کے حملوں کے الزامات پڑوسی ممالک کے سر ڈال دیئے جاتے تھے اور پاکستانی عوام بھی اسے مان لیا کرتی تھی مگر اب جب خود پاکستان میں موجود طالبان ان حملون کی ذمہ داری لے رہے ہیں اور صرف ذمہ داری ہی نہیں بلکہ یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ وہ اس طرح کے حملے اس وقت تک کرتے رہیں گے جب تک حکومت امریکہ کو یہ باور نہ کرا دے کہ وہ سکی بھی قیمت پر قبائلی علاقوں پر حملے کو برداشت نہیں کریں گے۔لیکن حکومت کا حال یہ ہے کہ امریکہ کے سامنے وہ کچھ بول بھی نہیں سکتا چہ جائے کہ امریکہ کے سامنے احتجاج کرے۔ اس صورت حال سے طالبان اور بھی پریشان ہیں اور انھوں نے یہ ٹھان لی ہے کہ وہ خود امریکہ کو سبق سیکھائیں گے۔ سوال یہ ہے کہ امریکہ کو سبق سیکھانے کے نام پر وہ پاکستان میں جا بجا حملے کر رہے ہیں ا ور اپنے ہی شہریوں کو مار رہے ہیں۔پاکستانی طالبان یہ سمجھتے ہیں کہ اس طرح کی دہشت پھیلا کر حکومت کو زیر کر لیں گے اور حکومت چار و ناچار امریکہ کو اپنی طاقت سے روکنے کی کوشش کرے گی ۔ لیکن یہ دور کی کوڑی ہے جو کسی بھی طرح نہیں ہو سکتا ۔
ادھر آصف زرداری نے جب یہ دیکھا تو ایک اور چال چلنے کی کوشش کی ہے وہ یہ کہتے اور مانتے ہیں کہ پاکستان میں پنپ رہی دہشت گردی سے ملک کے علاوہ عالمی برادری کو بھی خطرہ ہے اس لیے ان دہشت گردوں سے نپٹنا ضروری ہے ۔ پہلے تو انھوں نے صوفی محمد سے ہاتھ ملا کر یہ سمجھا تھا کہ سوات اور مالاکنڈ کے علاقے میں امن قائم ہوجائے گا ۔ مگر طالبانی فیصلوں نے جس طرح پوری دنیا میں پاکستان کو بدنام کیا اس کا جواب کسی بھی طرح پاکستان سے نہیں بن پا رہا ہے اور اس پر جب اعتراضات ہوئے تو طالبان کے ساتھ ہوئے مفاہمت پر ہی خطرے کے بادل منڈالانے لگے ہیں ۔طالبان اور صوفی محمد نے حکومت سے اپنی ناراضگی کا اظہار کیا ہے اور تحریک شریعت نفاذ کے سربراہ مولانا صوفی محمد نے سوات میں امن معاہدے سے دستبردار ہونے کا اعلان کر دیا اور سوات میں امن کیمپ ختم کردیئے۔ سوات میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے صدر آصف علی زرداری سے مطالبہ کیا ہے کہ فوری طور پر سوات امن معاہدے پر دستخط کر دیں بصورت دیگر شریعت کے نفاذ کے بغیر سوات میں امن کا قیام ممکن نہیں اورآئندہ پیدا ہونے والی صورتحال کی تمام تر ذمہ داری صدر پاکستان پر عائد ہو گی۔صوفی محمد نے کہا کہ صوبائی حکومت امن معاہدے کی پاسداری کے لئے مخلص ہے تاہم وفاقی حکومت معاہدہ نہیں چاہتی ، سولہ فروری سے اب تک صدر مملکت نے کوئی مثبت جواب نہیں دیا ہے ، اب صدر آصف علی زرداری کے ہاتھ میں ہے وہ کتنی جلدی معاہدے پر دستخط کرتے ہیں تا کہ سوات میں امن و امان کا قیام ہو۔انہوں نے مزید کہا کہ سوات میں گزشتہ دنوں منظر عام پر آنے والی ویڈیو جس میں سترہ سالہ لڑکی کو کوڑے مارنے کا واقعہ پیش آیا اس سے امن معاہدہ ختم کرنے کا کوئی تعلق نہیں۔لیکن بات یہی ہے کہ تمام اختلافات اسی کے سبب سامنے آئے ہیں ۔طالبان یہ چاہتے تھے کہ حکومت اس واقعے کو کوئی اور رنگ دے کر اس کاداغ طالبان پر نہ لگنے دے مگر یہ کیسے ممکن تھا۔لہٰذا یہ دھمکی طالبان کی جانب سے حکومت کو آگئی ۔اس پیچھے دراصل بات یہ ہے کہ اگر یہ معاہدہ ختم ہوتا ہے تو گویا پھر سوات گھاٹی میں خون خرابہ کا دور شروع ہوجائے گا۔اب دیکھنا یہ ہے کہ اس معاملے سے کس طرح حکومت نپٹی ہے۔
پاکستان کا دوسرا سر درد یہ ہے کہ امریکہ سختی سے پاکستان کے اندر دہشت گردی کو ختم کرنا چاہتا ہے اس لیے وہ سرحدی علاقوں کے ساتھ ساتھ قبائلی علاقوں کو بھی اپنے حملوں کا نشانہ بنا ناچاہتا ہے ، اس نئی حکمت عملی کے سبب عوام میں کافی غم و غصہ ہے ۔ اس کو دیکھتے ہوئے آصف زرداری نے ایک نیا راستہ نکالنے کی کوشش کی ہے یہ نیا راستہ بھی اگرچہ کسی طرح بھی پاکستانیوں کے لیے قابل قبول نہیں ہوگا۔ باوجود اس کے انھیں یہ یقین ہے کہ وہ اس مسئلے کو سلجھا لیں گے لہٰذا صدر آصف علی زرداری نے کہا ہے کہ امریکا پاکستان کو جاسوس طیارے اور میزائل دے، پاکستان دہشت گردی کے خلاف خود کارروائی کرے گا۔ برطانوی اخبار کو انٹرویو میں صدر زرداری نے کہا کہ دوست ہوں یا اتحادی، کسی کو اپنی سرحدوں کی خلاف ورزی کی اجازت نہیں دے سکتے، صدر اوباما کہہ چکے ہیں امریکا صرف اس وقت کارروائی کریگا جب پاکستان اسکے لئے تیار نہیں ہوگا۔انہوں نے کہا کہ ہم یقیناً کارروائی کیلئے تیار ہیں اورعالمی حمایت سے ہم زیادہ باصلاحیت ہو سکتے ہیں، حکومت کی ایک سالہ کارکردگی کے حوالے سے انھوں نے کہا کہ طویل آمریت کے بعد لوگوں کی توقعات بہت زیادہ تھیں لیکن عالمی مالی بحران اور دہشت گردوں کی کارروائیوں سے پیشرفت توقعات سے کم ہیں۔نواز شریف کے ساتھ اختلافات کے بارے میں انھوں نے کہا کہ سیاست میں اتار چڑھاوٴ آتے رہتے ہیں لیکن جہموری عمل جاری ہے جسے لوگ سراہتے ہیں۔ ممبئی حملوں کے بارے میں انھوں نے کہا کہ ممبئی حملوں کی تحقیقات کررہے ہیں، کچھ حملہ آور پاکستانی ہوسکتے ہیں لیکن حملے میں بھارت کے اندر سے حمایت موجود تھی۔انکاکہنا تھا کہ سوات میں امن معاہدہ عوامی مطالبے پر کیا گیا،اسے غلط کہنا قبل ازقت ہوگا۔ صدر پاکستان کے اس انٹرویو سے ان کا یہ خیال سامنے آتا ہے کہ وہ پاکستان کے تئیں مخلص ہیں لیکن یہ وہ خود سوچتے ہیں عوام اس کے بر خلاف ہے ۔
رہی بات نواز شریف کی تو اب ان کے پاس بھی کوئی ایشو نہیں رہ گیا ہے ۔اس لیے اپنی زندگی کا ثبوت دینے کے لیے وہ امریکہ کے حملوں کے خلاف بول رہے ہیں ۔ حالانکہ وہ بھی اندر سے یہ چاہتے ہیں کہ یہ تمام مسائل اور بھی سنگین ہوجائیں تو ان کے لیے سیاست کے راستے اور بھی آسان ہوجائیں گے اسی لیے وہ دبی زبان سے امریکہ کے مخالفت کررہے ہیں اور یہ کہا ہے کہ امریکا پاکستانی علاقوں پر ڈرون حملے فوری طور پر بند کرے اورخطے میں استحکام کیلئے بات چیت کاراستہ اپنایا جائے۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان نے سب سے زیادہ قیمت چکائی ہے۔ رائے ونڈ میں امریکی کانگریس کے چھ رکنی وفد نے میاں نواز شریف سے ملاقات کی۔امریکی وفدمیں جان کلین،کرسٹوفر پی،کارنے،جین ہرمین،جان کیل اورجیف سیشن شامل تھے۔ ملاقات میں میاں نواز شریف کا کہنا تھا کہ ہماری سرزمین خود دہشت گردی کا شکار ہے،پاکستان نے اس لڑائی میں سب سے زیادہ قیمت چکائی ہے۔انہوں نے کہا کہ دہشت گردی کے خلاف فوجی اتحاد نہیں ہر سطح پر تعاون کی ضرورت ہے۔نواز شریف کا کہنا تھا کہ پاکستانی عوام دہشت گردی کی اس نئی لہر سے پریشان ہے۔ مسلم لیگ نواز کے قائد کا کہنا تھا کہ دہشت گردی کا مسئلہ حل کرنے کیلئے شورش زدہ علاقوں کی پسماندگی دور کی جائے اورمسئلہ کا بہترین حل معیشت میں بہتر ی اور تعلیم کا فروغ ہے۔ان کا کہنا تھا کہ امریکا کا ساتھ دینا چاہتے ہیں لیکن قومی مفاد مقدم ہے۔ امریکا دہشتگردوں کیخلاف کارروائی کیلئے پاکستان کی مشکلات کو سمجھے۔انھوں نے زور دیا کہ دہشت گردی کیخلاف جنگ میں طریقہ کارکو تبدیل کرنے کی ضرورت ہے ۔
لیکن اس کے بر خلاف امریکہ کا رویہ سخت سے سخت تر ہوتا جا رہا ہے اور وہ کسی بھی طرح اپنے عزائم سے پیچھے نہیں ہٹنا چاہتا ۔ اس کی وجہ یہ بھی کہ جو بھی امریکی وفد پاکستان اک دورہ کر رہا ہے وہ پاکستان کی دہشت گردی کے خلاف بلند آواز میں بات کرتا ہے ۔ابھی امریکی صدر باراک اوباما کے مشیر بروس رائیڈل نے کہا ہے کہ طالبان کا پنجاب میں مستحکم ہونا پاکستان کے لیے خطرناک ہے۔ القاعدہ پاکستان کو ناکام ریاست بنانا چاہتی ہے۔جرمن اخبار کو انٹرویو میں امریکی صدر کے مشیر برائے مشرق وسطیٰ اورجنوبی ایشیا سے رائیڈل نے کہا کہ طالبان پر دباوٴ ڈالنے کے لیے امریکا پاکستان کے ساتھ مل کر کام کررہا ہے۔ بہت سے جنگجو سخت گیر نہیں ہیں لیکن وہ پیسوں کی خاطر طالبا ن کے ساتھ کام کرتے ہیں۔ ایسے لوگوں کی سوچ تبدیل کرکے صورتحال کو بڑی حدتک بہترکیا جاسکتا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ القاعدہ پاکستان کو عدم استحکام کاشکار کرکے ناکام ریاست بنانا چاہتی ہے۔ پاکستان کے پاس جوہری ہتھیار ہیں اس لیے یہ عالمی برادری کی مفاد میں ہے کہ طالبان کو ان کے عزائم میں کامیاب ہونے سے روکاجائے انہوں نے کہا کہ طالبان کی قیادت اور القاعدہ کی خفیہ پناہ گاہیں پاکستانی حدود کے اندر ہیں اس لیے اس مسئلے کو سنجیدگی سے لیاجاناچاہیے۔ ان کے مقابلے کے لیے پاک فوج کومزید تربیت کی ضرورت ہے ،امریکا اس سلسلے میں پاکستان کی مدد کرناچاہتا ہے۔
جی ہاں امریکہ مدد کے بہانے پاکستان کو نیست نابود کرنا چاہتا ہے یہ سب جانتے ہیں لیکن سوال یہ ہے کہ یہ موقع آخر کس نے دیا ۔ اگر پاکستان خو د ملک کے اندر اس طرح کے عناصر کو شروع سے روکتا اور ان پر سخت کاروائی کرتا تو کوئی وجہ نہیں تھی کہ آج اس کو یہ دن دیکھنا پڑتا ۔لیکن جائے افسوس یہ ہے کہ ابھی تک پاکستان کی سیاسی پارٹیا ں بھی اس معاملے میں موجودہ حکومت کو سپورٹ نہیں کر رہی ہیں ۔ ایسے میں اس ملک کا مستقبل کیا ہوگا یہ ہم جان سکتے ہیں ۔اور پاکستانی عوام کے سامنے مسئلہ یہ ہے کہ وہ کس کس مسئلے پہ روئیں ۔ہر مسئلہ ان کی زندگی اور بقا سے جڑ اہواہے۔