کشمیر پر ایران کا رویہ
ہندستان اور ایران کا زمانہ قدیم سے دوستانہ رشتہ ہے دونوں ممالک نے اایک دوسرے کے لیے کچھ نہ کچھ کیا ہے اور ایرا ن سے ہندستان کا دوستانہ رشتہ اس لیے بھی رہا ہےکہ ہندستانی تہذیب میں ایرانی تہذیب کے اثرات موجود ہیں او ر ایران پر بھی ہندستان کے اثرات رہے ہیں اور ہیں ۔ ہندستان نے ہر مشکل وقت میں ایران کا ساتھ دیا ہے ۔ یہاں تک کہ جس ایران جوہری توانائی کے لیے ہر جانب سے تشدد لا نشانہ بن رہا تھا تب بھی ہندستان نے دوستی کا فرض ادا کیا تھا ۔ ایران اور ہندستان کے درمیان برسوں سے گہرے دوستانہ تعلقات قائم ہیں اور ماضی میں کئی مواقع پر ہندستان مغربی ممالک کی جانب سے مختلف عالمی فورمز پر ایران کے خلاف پیش کی جانے والی قراردادوں کی مخالفت میں ووٹ ڈالتا آیا ہے۔ ہندستان نے کبھی ایران سے یہ شکایت نہیں کہ کیوں ایران میں سنیوں کو دوسرے درجے کا شہری سمجھا جاتا ہے اور کیوں ایران میں سنیوں کی کوئی مسجد نہیں ہے ۔ حالانکہ ہندستان نے ایران جانے والے سنیوں کی بھی ایک بڑی تعداد ہے لیکن نہ تو کسی سنی نے ایران کے اس رویے سے ناراضگی کا اظہار کیا اور نہ ہی کبھی حکومت کی جانب سے کوئی شکایت درج کرائی گئی ۔ ایران جو ہندستان کا دوست ہے اس کے کسی داخلی معاملات میں کبھی ہندستان نے ساتھ نہیں دیا ۔ البتی ہر مہم اور محاذ پر ہندستان ایران کے ساتھ کھڑا رہا۔ ایران نے بھی کبھی ہندستان کے اندرونی معاملات میں دخل نہیں دیا ، یہاں تک کہ ابھی امریکی صدر براک اوبامہ کے دورے پر جب امریکہ کی جانب سے یہ کہا گیا کہ اگر ہندستان عالمہ سطح پر اپنی موجودگی درج کرنا چاہتا ہے اور یہ چاہتا ہے کہ وہ سیکورٹی کاونسل میں اس کے عالمی کردار کے سبب جگہ ملے تواسے مینمار اور ایران کے بارے میں بھی بولنا ہوگا ۔ لیکن ہندستان نے واضح طور پر یہ کہا کہ وہ دوست ممالک اورپڑوسی ممالک کے ساتھ کیسا رویہ رکھنا ہے اور کیا کرنا ہے یہ ہندستان اپنے طور پر طےکرے گا ۔ امریکہ یا کسی ملک یا کسی لالچ میں وہ اپنی خارجہ پالیسی کو طے نہیں کرے گا۔امریکہ نے ہمیشہ یہ چاہا ہے کہ وہ ایران کے خلاف صف ارا ہو تاکہ اسے ایران کو زیر کرنے میں آسانی ہو مگر ہندستان نے دوستی نبھائی اور کبھی ایسا نہیں کہا ہے ۔ لیکن ابھی ایران کی جانب سے ایک مذہبی رہنما کے بیان سے ہندستان سراسیمہ ہے کہ یہ خلاف توقع بات کیسے ہوئی کی ایران نے کشمیر کے مسئلے کو عراق اور فلسطین سے ملادیا۔اسی لیے ایران کی جانب سے کشمیریوں کی ہندستان سے علیحدگی کی تحریک کی حمایت میں دیے گئے بیان پر نئی دہلی نے شدید ردِ عمل کا اظہار کیا ہے۔اور ہندستانی وزارتِ خارجہ نے جمعہ کے روز نئی دہلی میں ایران کےقائم مقام سفیر رضا علائی کو طلب کرکےایران کی جانب سے دیے گئے بیان پر تشویش کا اظہار کیا۔ وزارتِ خارجہ کی جانب سے جاری ہونےو الے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ ایران کی جانب سے دیے گئے بیان کو ہندستان “داخلی خودمختاری اور اندرونی معاملات میں مداخلت سمجھتا ہے”. یہ در اصل اس واقعے کے بعد ہوا کہ یران کے مذہبی رہنما آیت اللہ علی خامنہ ای نے اپنے ایک خطاب میں مسلمان رہنمائوں سے اپیل کی تھی کہ وہ افغانستان، پاکستان، عراق، فلسطین اور کشمیر میں جاری مسلمانوں کی جدوجہد کی حمایت کریں۔ایران جیسے دوست ملک کے اعلیٰ ترین رہنما کی جانب سے آزاد مسلم ریاستوں کے ساتھ کشمیر کے تذکرے پر ہندستانی رہنمائوں میں خاصی برہمی پائی جاتی ہے ۔اسی کے پاداش میں انسانی حقوق کی پامالی کے حوالے سے اقوامِ متحدہ میں ایک قرارداد کی منظوری کے موقع پر ہندستانی مندوب نے ماضی کے برعکس غیر جانبداری اختیار کی تھی جسے ایرانی رہنما کے حالیہ بیان کے تناظر میں دیکھا جارہا ہے۔حالانکہ اس سے قبل دو ہزار تین سے ہندستان ایران کے خلاف اس طرح کی قرار دادوں کی مخالفت کرتا آیا ہے۔ بی بی سی کی رپورٹ کے مطابق’’ہندستان کی طرف سے یہ احتجاج عازمین حج سے ایران کے روحانی پیشواء آیت اللہ علی خامنہ ای کے خطاب کے پس منظر میں ہوا ہے جس میں انہوں نے دنیا کے مسلمانوں سے کشمیر کی مدد کرنے کے لیے کہا تھا۔انہوں نے اپنے بیان میں کہا تھا کہ اسلامی امت کی آج یہ ذمہ داری ہے کہ وہ فلسطینی قوم اور غزہ کے محصور عوام کی مدد کریں۔ مسلمانوں کو افغانستان، پاکستان، عراق اور کشمیر کے عوام کی مدد کرنی چاہیے جو امریکی جارحیت اور صیہونی حکومتوں کے جبر کی مزاحمت کر رہے ہیں۔اس سے قبل اکتوبر میں وزارت خارجہ نے ایران سے اس وقت شدید احتجاج کیا تھا جب ایران کی وزارت خارجہ نے ہندستان کے زیر انتطام جموں و کشمیر میں احتجاجیوں کے خلاف ہندستان کی سکیورٹی فورسز کی کارروائیوں کی مذمت کی تھی۔تہران نے یہ مذمت اس وقت کی تھی جب امریکہ کے بعض مقامات پر مسلمانوں کی مذہبی کتاب قرآن کو جلانے جانے کی افواہ ایک ایرانی ٹی وی چینل پریس ٹی وی نے دکھا دی۔ تیرہ ستمبر کو احتجاج کے دوران سکیورٹی فورسز نے بیس احتجاجیوں کو ہلاک کیا تھا۔ بعد میں ہندستانی حکومت نے پریس ٹی وی پر پابندی عائد کر دی تھی۔ہندستان اور ایران کے تعلقات ماضی میں کافی اچھے رہے ہیں اور کشمیر کے حوالے سے تہران میں سخت جذبات ہونے کے باوجود ایران نے ہندستان سے اپنے تععلقات میں کشمیر کو کبھی حائل نہیں ہونے دیا۔ لیکن حالیہ برسوں میں امریکہ اور اسرائیل سے ہندستان کے تیزی سے بدلتے ہوئے تعلقات کے ساتھ ایران سے ہندستان کے تعلقات میں سرد مہری آتی جا رہی ہے۔ ہندستان اب توانائی کے معاملے میں بھی ایران کے متبادل کی تلاش میں ہے۔ اس سے قبل وہ ایک بار جو] ]>