Home / Socio-political / کوئٹہ کا احتجاج : پاکستان میں ظلم کے خلاف ایک پر امن جدو جہد

کوئٹہ کا احتجاج : پاکستان میں ظلم کے خلاف ایک پر امن جدو جہد

کوئٹہ کا احتجاج : پاکستان میں ظلم کے خلاف ایک پر امن جدو جہد

آخر کار بلوچستان میں گورنر راج نافذ کر دیا گیا اور احتجاج کر رہے لوگوں نے لاشوں کی تدفین کی اجا زت دے دی۔ بہ نظر غائر یہ ایک ایسا واقعہ نظر آتا ہے جس میں حکومت نےعوامی مطالبے کے پیش نظر ایک بہتر فیصلہ لیا لیکن اگر اس واقعہ پر غور کریں تو اس کے پیچھے انسانی حقوق کے نظر انداز کیے جانے کا ایک طویل سلسہ نظر آتا ہے۔ کیا یہ کوئی معمولی واقعہ ہے کہ ایک ساتھ ایک ہی مذہبی نظریہ کے حامی نوے ۹۰ سے زائد لوگ ایک ساتھ قتل کر دیے جائیں؟ پاکستان میں ہزارہ برادری جو شیعہ ہے ایک عرصے سے شکایت کرتی رہی ہے کہ انہیں زدو کوب کیا جاتا ہے اور یہاں تک کہ زیارت کے لیے جانے والی ان کی بسوں اور گاڑیوں کو خاص طور پر ہدف بنا کر انہیں قتل تک کیا جاتا ہے لیکن حیرت کی بات یہ ہے کہ آج تک حکومت نے قتل کہ ان منظم منصوبوں کو سنجیدگی سے نہیں لیا۔  پاکستان جو مسلمانوں کے لئے ایک گوشئہ عافیت کے طور پر وجود میں آیا تھا آج اپنے ہی لوگوں کو کبھی فتنہ قادیانیت کی آڑ میں اور کبھی شیعیت کی آڑ میں نگلتا جا رہا ہے۔  حد تو یہ ہے کہ اب مزاروں اور خانقاہوں پر بھی حملے شروع ہو چکے ہیں اور وہ دن دور نہیں جب اہل سنت حضرات کو بھی وہاں اسی طرح قتل کیا جائے گا جس طرح اہل تشیع کو موت کے گھاٹ اتارا جاتا ہے۔  کاکا صاحب کے مزار پر حملہ ، سخی سرور کے مزار پر  حملہ اور اسی طرح کے دیگر مزارات حملے اس بات کی وضاحت کرنے کے لئے کافی ہیں کہ اب پاکستان میں اہل سنت  دہشت گردوں کا اگلا نشانہ ہونگے۔

                یہ بات پاکستان کے لوگوں کو نہ ان کے قائدوں نے بتائی اور نہ ہی ان کی اپنی بصیرت ہی ایسی تھی کہ وہ اپنے اتحاد کا تحفظ کر سکتے۔  اور وہ بصیرت آتی کس طرح جبکہ حکومت  خود ہی عوام کو ان مسائل میں الجھائے رکھنا چاہتی تھی۔ تاریخ شاہد ہے کہ حکومت  نے کسی بھی مسئلہ کا دیر پا حل ڈھونڈھنے کے بجائے عوام کو ایک ایسے مسئلے میں الجھا دینے میں اپنی عافیت جانی ہے جو مذہب سے سے جڑا ہو۔ یہ تمام حربے کسی مشکل کو وقتی طور پر ٹالنے کے لئے استعمال کی جاتے تھے او ر حاکموں کو پتہ ہوتا تھا کہ اگلی چال فوج چلے گی اور جب دوبارہ عوام کے رو بہ رو ہونگے تو مارشل لا کے سر پر  اپنی نا اہلیوں کا ٹھیکرا بہت آسانی سے پھوڑا جا سکتا ہے۔ بھولی عوام بھی کبھی جیے بھٹو تو کبھی شیر آیا  کے نعرے لگا لگا کر اپنے دکھوں کا مداوا ڈھونڈھتی رہی اور اس میدان کارزار میں شہید ہوتی رہی ۔  عوام آج خود کو ایک ایسے جال میں پھنسا ہوا محسوس کرتے ہیں جس میں ان کی ہر جنبش انہیں مزید پھنساتی اور الجھاتی چلی جاتی ہے۔ وہ آخر کس کے ساتھ جائیں کہ ہر شخص پاکستانی سیاست کا آزمایا ہوا ہے لیکن افسوس کہ پاکستان میں موروثی سیاست نے کی نئے امکان کے لئے کوئی جگہ نہیں چھوڑی اور عوام اسی امید میں ساکت بیٹی ہے کہ کبھی تو یہ جال کمزور پڑے گا، کبھی تو اس کے پھندے ڈھیلے ہونگے  اور تب ان کی قوت ایک انقلاب برپا کرے گی۔  لیکن ان میں کچھ ایسے بھی ہیں جنہیں معلوم ہے کہ انقلاب کبھی بھی آ سکتا ہے اور یہی وقت ہے جب اپنی تمام قوتوں کو مجتمع کر کے اپنے مطالبات رکھے جائیں اور حکومت کو مجبور کیا جائے کہ وہ اپنی بے حسی سے باز آئے ۔ کوئٹہ کا احتجاج ان ہی روشن دماغ لوگوں کی جد و جہد کا نتیجہ ہےتاہم  یہ صرف ابتدا ہے اور اب اس فیصلے کے بعد ممکن ہے کہ دہشت گرد اپنی کارروائیاں مزید تیز کردیں اور انہیں مزید سخت حالات کا سامنا کرنا پڑے لیکن یہ  جدوجہد ہی اس جارحیت سے نجات کا واحد راستہ ہے۔  اس ضمن میں یہ بات بھی ذہن میں ہونی چاہیے کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ یہ جدو جہد پھر ایک فوجی ڈکٹیٹر شپ کی طرف دھکیل دے اور جب جوش میں کمی آئے تو بہت دیر ہو چکی ہو۔

About admin

Check Also

یہ دن دورنہیں

امریکہ نے پاکستان کی سرزمین پر پہلاڈرون حملہ ۱۸جون ۲۰۰۴ء کوکیا۔ یہ حملے قصر سفیدکے …

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *