ملے اور بچھڑ گئے۔ ریلوے اسٹیشن ہو لاری اڈہ یا ایئرپورٹ ……….یہ ایسی جگہیں ہیں جہاں لوگ ملتے ہیں بچھڑتے ہیں، ہنستے ہیں، روتے ہیں۔ کوئی گھنٹوں انتظار کرتا ہے کہ آنے والا آئے اور انتظار کرنے والا سکون و چین پائے اور کوئی اداس کھڑا ہوں ہاں کرتا رہتا ہے کہ ابھی جو سنگ کھڑا ہے وہ چلا جائے گا اور پھر مقدر نصیب کب ملاقات ہو……….ایسی ہے ناں یہ دنیا، یہ عبرت کی جا ہے تماشہ نہیں ہے۔ لیکن یہ تماشہ بھی ہے بھول بھلیاں ،دھوکا گھر……….یہاں زندگی کا سرکس سجا ہے ،ہر اک آتا ہے اپنا کرتب دکھا کر چلا جاتا ہے، رہے گا کوئی نہیں یہاں………..نادار بھی اور زردار بھی۔ موت کا ہرکارہ ہر دم تیار رہتا ہے، فرشتۂ اجل وقتِ مقررہ پر آئے گا اور پھر یہ جا وہ جا۔ لوگ باتیں کرتے رہ جائیںگے: ہارٹ اٹیک ہوگیا تھا، ٹی بی تھی، کینسر تھا……….یہ تھا……….وہ تھا……….اور نہ جانے کیاکچھ۔ بہت ہی کم سنا ہے کہ یارو وقت پورا ہوا اور چار کے کندھے پہ سوار ہوگیا۔ پھر بھی ہم نہیں سمجھتے……….یہی سمجھتے ہیں ابھی تو میں جوان ہوں……….ہم سا ہے تو سامنے آئے۔
ایسے ہی ایک اورباباجی ہروقت میرے سنگ رہتے ہیں،اپنی قبر خود کھود کر اس میں اکثر لیٹنے والے اور یہ یاد رکھنے والے کہ بس اصل تو وہ ہے، یہ تو نقل ہے دھوکا ہے فریب ہے ،یہ تو جاننے والے بھی ماننے والے بھی ہیں، ہم جانتے ہیں نہ مانتے ہیں بلکہ جانتے ہیں تب بھی نہیں مانتے۔ میرے ٹیلیفون کے تو وہ شدت سے منتظر رہتے ہیں۔ عالمی اخبارات کی مشہور خبریں اورتبصرے پڑھنے کیلئے ارسال کرتے رہتے ہیںاور کچھ خبروں پر تبصرہ کرتے ہوئے مجھے مشوروں سے بھی نوازتے رہتے ہیں۔ میرے کالم غور سے پڑھتے ہیںلیکن بہت کم اس کی تعریف کرتے ہیں لیکن دوسرے دوستوں سے پتہ چل جاتاہے کہ کس قدرتعریف اور توصیف سے انہیں یہ کالم پڑھنے کیلئے کہتے ہیں۔ہاں البتہ چندمرتبہ یہ ضرورکہا کہ اپنا خون مت جلاؤ……….یہ دنیا نہیں سدھرے گا.لیکن تم صبرسے اپناکام جاری رکھو۔
خودساری عمرنظریاتی صحافت میں گزاردی،برسوں ایک نظریاتی جریدے کوخون دل سے پالتے رہے،کسی کی مخالفت کی پرواہ نہیں کی ،ان کی صاف گوئی کی ایک دنیامعترف ہے لیکن اب حالات نے ایسا پلٹا کھایا کہ صحت اوروسائل نے مجبورکردیاکہ اس کوبندکرناپڑالیکن زندگی بھرکی جدوجہدورمشقت کہاں آرام کرنے دیتی ہے۔اب ان کے مطالعے سے مجھ جیسے کئی مستفیذ ہوتے رہتے ہیں گویاچراغ سے چراغ جلانے کاعمل مسلسل جاری وساری ہے۔
اخبار ’’کرسچن سائنس مانیٹر‘‘نے ایک مضمون شائع کیا ہے جس میں امریکی افواج کے انخلا کے بعد ممکنہ طور پر افغانستان کو درپیش مسائل کی نشان دہی کی گئی ہے۔دنیا بھر میں استعمال ہونے والی۹۰فی صد پوست افغانستان میں کاشت ہوتی ہے۔ اخبار نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ امریکی انخلا کے بعد افغانستان میں پوست کی کاشت اور اس کی بیرونِ ملک اسمگلنگ میں بھی اضافہ ہوجائے گا۔اخبار لکھتا ہے کہ نیٹو افواج افغانستان کے بدترین حالات میں حسبِ استطاعت بہتر کردار ادا کرنے کی کوشش کر رہی ہیں۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ نیٹو ممالک افغانستان کی صورتِ حال سے عاجز آچکے ہیں اور جلد از جلد سیکیورٹی کی ذمہ داریاں منتقل کرکے اپنی جان چھڑانا چاہتے ہیں۔
کرسچن سائنس مانیٹرنے اپنے مضمون میں لکھا ہے کہ امریکی اور نیٹو افواج کے ۲۰۱۴ء تک افغانستان سے انخلا کے دیرپا اثرات مرتب ہوں گے۔ اخبار کے مطابق سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ آخر مقامی افغان فورسز ان طالبان کا مقابلہ کیسے کریں گی جو نیٹو کے ایک لاکھ ۳۰ہزار فوجیوں کی موجودگی کے باوجود اپنے حملے جاری رکھے ہوئے ہیں۔اخبار لکھتا ہے کہ یہ سوال بھی خاصا پریشان کن ہے کہ امریکی انخلا کے بعد افغانستان کی معیشت کا کیا ہوگا؟ افغان حکومت کا ۹۰فی صد بجٹ غیر ملکی امداد سے بنتا ہے جب کہ ملکی جی ڈی پی کا لگ بھگ[L:4 R:222]۹۷ بیرونی امداد اور غیر ملکی افواج کے اخراجات پر مشتمل ہے۔عالمی بینک پہلے ہی خبردار کرچکا ہے کہ اگر امداد دینے والے ممالک اور ادارے افغانستان کو دی جانے والی امداد میں تیزی سے کمی لائے تو افغان معیشت دیوالیہ ہوسکتی ہے۔ایک اور اہم خدشہ علاقائی ممالک کے کردار سے متعلق ہے جو امریکہ کے انخلا کے بعد افغانستان میں اس کی جگہ پر کرنے کے لیے سرگرم ہوسکتے ہیں۔ اخبار لکھتاہے کہ افغانستان کی صورتِ حال پڑوسی ممالک، خصوصا پاکستان اور ایران کو متاثر کرے گی اور وہاں کسی بھی قسم کی افرا تفری یا خانہ جنگی کی صورت میں یہ دونوں ممالک بھی عدم استحکام کا شکار ہوسکتے ہیں۔
کرسچن سائنس مانیٹرنے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ امریکی انخلا سے افغانستان میں جاری سماجی اصلاحات کا عمل بھی تعطل کا شکار ہوسکتا ہے۔ اخبار کے بقول طالبان کی اقتدار سے رخصتی کے بعد افغانستان کے عوام کو شہری آزادیاں میسر آئی ہیں اور خصوصا خواتین کا طرزِ زندگی بہتر ہوا ہے۔اس وقت۲۴لاکھ افغان بچیاں اسکولوں میں زیرِ تعلیم ہیں۔ خواتین کو روزگار، سفر اور صحت کی مناسب سہولتیں ملی ہیں جب کہ وہ سیاست میں بھی سرگرم ہیں۔ لیکن اخبار لکھتا ہے کہ امریکہ کی رخصتی کے بعد افغان معاشرہ دوبارہ پرانی ڈگر پر لوٹ سکتا ہے جہاں خواتین کو بنیادی آزادیاں اور حقوق حاصل نہیں تھے۔
حال ہی میں بیجنگ میںشنگھائی تعاون تنظیم کے سالانہ سربراہی اجلاس میں ، جس میں چین ، روس اور چار وسطی ایشیائی ریاستیں شریک تھیں، افغانستان کا مستقبل ان کے ایجنڈے میں سرفہرست تھا۔شنگھائی تعاون تنظیم کے دو روز اجلاس سے قبل چین کے صدر ہو جن تا ؤنے کہاتھا کہ ان کا خیال ہے کہ افغانستان میں غیر ملکی فوجی سرگرمیوں کے اختتام کے بعد اس علاقائی تنظیم کا اس ملک میں ایک اہم کردار ہوگا۔چین کے میڈیا کے ذریعے منظر عام پر آنے والے اپنے انٹرویو میں صدر ہو نے کہا کہ اس چھ رکنی تنظیم کو علاقائی امن اور استحکام کے لیے زیادہ قریبی تعاون سے کام کرنا چاہئے لیکن چین کے راہنما نے اپنے انٹرویو میں یہ واضح نہیں کیا کہ یہ تنظیم افغانستان میں کس طرح کوئی بڑا کردار ادا کرسکتی ہے لیکن شنید یہ ہے کہ تنظیم نے افغانستان میںامریکاکے مستقل اڈوںپراپنی گہری تشویش کااظہارکرتے ہوئے افغانستان کوہرقسم کی غیرملکی مداخلت سے پاک رکھنے کے عزم کااظہارکرتے ہوئے امریکااوراس کے تمام اتحادیوںکوایک واضح پیغام دیاہے۔
لیکن دیکھنایہ ہے کہ کیاافغانستان کے معاملے پرسب سے زیادہ قربانیاںدینے والاملک پاکستان امریکی انخلاء کے بعدکے حالات کے بارے میں اپنا ہوم ورک مکمل کرچکاہے ؟ سلالہ چوکی پرہمارے فوجیوں کو نیٹو افواج نے ایک سوچی سمجھی سکیم کے تحت شہیدکرکے پاکستان کویہ واضح پیغام دیاکہ افغانستان میںامریکااورنیٹوکی شکست کوٹھنڈے پیٹوں برداشت نہیںکیاجائے گااورجس طرح امریکانے ویتنام سے نکلتے ہوئے پڑوسی ممالک کونشانہ بناتے ہوئے اپنی بدترین شکست کابدلہ لیاتھاوہ یہاںبھی ایساہی عمل دہراسکتے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ سلالہ کے معاملے پر پاکستان نے نیٹوسپلائی کی بحالی کوامریکی معافی سے مشروط کیاتھااورامریکاکسی حدتک اس پرتیاربھی ہوگیاتھالیکن ہمارے حکمرانوںکی غلط پالیسیوں نے یہ روزِبدبھی دکھایاکہ ہم نے امریکاکی دھونس کے سامنے نہ صرف گھٹنے ٹیک دیئے بلکہ ڈرون حملوںمیںایک مرتبہ پھر تیزی آگئی ہے اوراس کے ساتھ ساتھ اب آئے دن افغانستان سے پاکستانی سرحدی علاقوںمیںمسلح حملوںمیںاضافہ ہوگیاہے جس میںہمارے سیکورٹی اداروںکے افرادشہیدکئے جارہے ہیںلیکن ایوان اقتدار میں اب بھی ملکی دولت کوبے دریغ لوٹنے والے اس بات کی سازشیںکررہے ہیںکہ صدر زرداری صاحب کوکرپشن کے مقدمے میںبچانے کیلئے ملک کی اعلیٰ عدلیہ کے احکام پرعمل درآمدکوکس طرح روکاجائے اور آئندہ انتخابات میںکامیابی حاصل کرنے کیلئے امریکاکی مزیدبھرپورخوشنودی حاصل کرنے کیلئے کیاعملی اقدامات کئے جائیں۔ نجانے آغاشورش کاشمیری مرحوم کیوںیادآرہے ہیں۔
سوچتا ہوں کہ اسی قوم کے وارث ہم ہیں
جس نے اولادِ پیمبرؓ کا تماشا دیکھا
جس نے سادات کے خیموں کی طنابیں توڑیں
جس نے لختِ دلِ حیدر کو تڑپتا دیکھا
برسرِ عام سکینہ کی نقابیں الٹیں
لشکرِحیدرِ کرار کو لٹتا دیکھا
امِ کلثوم کے چہرے پہ طمانچے مارے
شام میں زینب وصغریٰکا تماشا دیکھا
شہِ کونین کی بیٹی کا جگر چاک کیا
سِبطِ پیغمبرِ اسلامؓ کا لاشہ دیکھا
اے مری قوم!ترے حسنِ کمالات کی خیر
تونے جوکچھ بھی دکھایا وہی نقشہ دیکھا
یہ سبھی کیوں ہے؟ یہ کیا ہے؟ مجھے کچھ سوچنے دے
کوئی تیرا بھی خدا ہے؟ مجھے کچھ سوچنے دے !