Home / Socio-political / کوئی حرج نہیں

کوئی حرج نہیں

                           

کوئی حرج نہیں
                    عباس ملک

ہمارے ملک کے لجنڈمفکراعتزاز احسن نے ارشاد فرمایا کہ مملکت خداداد پاکستان کے آئین میں ترمیم کرکے غیر مسلم کو وزیر اعظم یا صدر بنانے میں کوئی حرج نہیں۔ اس سے پہلے ان دانشور اعلیٰ کی بصیرت ایک ایسے درخشاں ستارے کی چوکھٹ پر سجدہ ریز ہو ئی جس کو ابھی اپنی زندگی کے بارے میں شاید اتنا شعور نہ ہو کہ وہ اپنی زندگی کا ساتھی بھی چن پائے۔ ابھی تو وہ خود اپنی پہچان بھی ماں اور نانا کے حوالے سے کرانے کی کوشش میں ہیں۔ بلاول نے ارشاد فرمایا اور درباری مفکرنے فورا تائید کیلئے بیان جاری کرنا وفاداری کے تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے میں دیر کو کسی دوسرے کے بازی لے جانے سے پہلے عملی جامہ پہنانے کو ضروری جانا ۔ماضی کے دریچوں میں گھسنا ضروری نہیں کہ یاد ماضی بہت تلخ ہے ۔حیرت یہ ہے کہ نظریہ پاکستان سے انتہائی متضاد بیان پر بلاول کے بچگانہ بیان پر مفکر اعظم کی تائید کو درباری مفکر کی روزی روٹی سے تشبیہ دی جائے یا اسے کسی نئی سازش کا شاخسانہ قرار دیا جائے ۔ نظریہ پاکستان پر ضرب لگاتے شاید مفکر اعظم کی سوچ پر ذاتیات اور  مفادات کی سیاہ پٹی نے احاطہ کیا ہوا تھا۔ وہ شخصی وفاداری اور پارٹی لیڈر کی تائید میں ملک ملت اور قومیت کو بھی بھول گئے۔ بیگانے جھوٹ نہیں کہتے کہ ہم مفاد کیلئے اپنا آپ دین اور اپنا خون تک بیچ دینے میں عار محسوس نہیں کرتے۔مملکت خداداد کی المناکی ہے کہ اسے ایسے دانشور نصیب ہوئے جو دانش بکھیرنے کیلئے ایمان اور اپنے ضمیر سے کو سلا کر آتے ہیں۔ ان کے مفادات و انکی خواہشات جاگ رہی ہوتی ہیں۔ اپنے مفادات کے در پر یہ دین وملت کی قربانی پیش کرنے میں ذرا عار محسوس نہیں کرتے ۔

میرے ایک باس برگیڈئیر رٹیائرڈ طارق ایک دفعہ اپنے دوست صفدر تسنیم مرحوم (جو کہ گرڈ سٹیشن بنانے کی کمپنی آسک کے اونر تھے )کے ساتھ بیٹھے لوڈ شیڈنگ ایشو پر بات کر رہے تھے ۔ میں نے کہا اس کا حل کالا باغ ڈیم ہے اور سیاستدان اسے سیاسی نعرے کے طور پر استعمال کر کے ووٹ حاصل کرکے قوم کو بربادی کی طرف دھکیل رہے ہیں۔ برگیڈئیر طارق نے حیرت سے میری طرف دیکھا اور کہا کہ تمھیں کیسے معلو م ہے ۔ تم صحافیوں کو کیا الہام ہو جاتا ہے یاکشف ہو تے ہیں۔ میں نے ہنس کر کہا محترم جب ملک وقوم کا درد ہو تو خود بخود کشف اور الہام ہونے لگتے ہیں ۔اگر اس ملک کو لوٹنے والوں کو شیطان خصوصی خیالات سے نوازتا ہے تو کیا جس کے نام پر یہ ملک بنا اس نے اس کی محافظت کا بندوبست نہیں کیا ہوگا ۔ اس کے بعد انہوں نے خود ہی بتایا کہ واپڈا کے چیئرمین شمس الملک جنرل ذوالفقار صفدر تسنیم ولی خان اور میں ایک میٹنگ میں بیٹھے تھے۔ شمس الملک اور ہم سب نے ہر طرح سے ولی خان کو یقین دلایا کہ کالاباغ ڈیم سے خیبر پختونخواہ کو کوئی نقصان نہیں بلکہ فائدہ ہوگا۔ انہوں نے بالاآخر یہ جواب دیا کہ مجھے پتہ ہے لیکن مجبوری ہے۔انہوںنے شمس الملک سے مخاطب ہو کر کہا کہ تم مجھے کالا باغ ڈیم کا متبادل نعرہ دے دو اور کالاباغ ڈیم بنا لو ۔ اس بات کو صفدر تسنیم مرحوم نے مجھے کہا دیکھو بیٹے یہ بہت کانفیڈنشل معاملہ ہے تو اسے مت لکھنا مبادا کہ تمھیں کوئی نقصان اٹھانا پڑے ۔ اس پر انہوں نے اپنے ایک ٹی وی پروگرام میں لائیو بات چیت کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا کہ کس طرح اس وقت خفیہ ایجنسی کے ایک دوست کے بروقت فون سے وہ بچ گئے ۔ ورنہ وہ بھی شاید مسنگ پرسنز کی فہرست میں شامل ہو تے۔ بات وطن عزیز کے مفاد کی ہو تو یہ جان تو آنی جانی ہے دھرتی ماں کا مان سلامت رہنا چاہیے۔ میں نے اس کو پھر بھی صحافتی اصولوں کو نظرانداز کر کے آف دی ریکارڈ رکھنے کی بجائے آن دی ریکارڈ لکھا ۔آج اسفند یار ولی کے اس بیان پر یہ واقعہ دوبارہ ضبط تحریر میں لانے کا مقصد یہی ہے کہ ان سیاستدانوں کے مفاداتی چہرے سے پردہ اٹھایا جائے۔ میرا مقصد کبھی بھی کسی کی دل آزاری یا اس کی توہین اور کردار کشی نہیں ہوتا ۔ہمیشہ سے کوشش رہی ہے کہ ملک وملت کے حوالے سے کسی بھی شخصیت کے افکار کے تصادم کو قومی اور ملی مفادات کے تناظر میں پیش کرکے مفادات اور شخصیات کو ملک قوم وملت پر حاوی نہ ہونے دیا جائے۔

بلاول بھٹو زرداری معاشرتی روایات سے انحراف کرتے ہوئے اپنے آپ کو ننھیال کی ذات سے منسوب کرکے سیاسی مفادات کا حصول چاہتے ہیں۔ انہیں اپنی ذات کی پہچان خود سے بنانے کی کوشش کرنی چاہیے۔ ماں اور نانا کے نام کی چھتری کو استعمال کرکے وہ سیاسی گدی پر اگر بیٹھ گئے ہیں تو یہ بھی انہوں نے کارکنوں اور لیڈر حضرات کا حق مارا ہے ۔جنہوں نے ان کے نانااور ماں کی رفاقت میں سیاست کے میدان کارزار میں اپنی جوانی اور توانائی صرف کی ان کا حق مار کر وہ اس گدی پر ناحق قابض ہوئے ہیں۔ انہیں ابھی سیاست کے رموز سیکھنے چاہیے تھے اور پھر انہیں قوم کی نمائیندگی کا منصب سنبھالنا چاہیے تھا۔ ان کے نانا نے ارشاد فرمایا تھاتھک جاتا ہوں تو تھوڑی پی لیتا ہوں ۔ ان کی والدہ محترمہ نے ترنگ میں آ کر فرمایا کہ اذان بج رہی ہے۔ اس وراثت کے امین سے توقع رکھی جا سکتی ہے کہ وہ ایسا مطالبہ کرنے میں آزاد ہیں۔ وہ افکار کی آزادی کا حق آئین پاکستان کی رو سے رکھتے ہیں لیکن اسلام اورنظریہ پاکستان کے خلاف افکار کی ترویج اور ان کے پھیلائو میں آزاد نہیں ہیں۔ انہیں ملک اور قوم سے متضاد خیالات کے پھیلائو اور ان کی ترویج کا کوئی ہرگز حق حاصل نہیں۔ ایک اسلامی معاشرے میں اختیارات کی باگ ڈور کیسے ایک غیر مسلم کے حوالے کی جاسکتی ہے۔ انہیں اپنی ذات بدلنے کا اختیار ہو سکتا ہے لیکن نظریہ پاکستان اور پاکستانی مفادات کے خلاف کوئی نظریہ ٹھونسنے کا ہرگز بھی حق نہیں۔

ارباب اختیار کو بھی دیکھنا چاہیے کہ اگر کوئی بھی سیاسی شخصیت دانستہ یا نا دانستہ ایسے افکار کی ترویج وپھیلائو کا سبب بن رہی ہے تو اسے روکنا ضروری ہے۔ اس کیلئے عدلیہ اور آرمی دفاع پاکستان اور نظریہ پاکستان کے محافظین کا کردار ادا کرنے میں ہراول سالار ہیں۔ میڈیا کو بھی چاہیے کہ ایسے سیاسی لیڈر جو بہک چکا ہو اس کو وقت اور اس کی خبروں کو بڑھا چڑھا کر پیش کرنے سے گریز کرے ۔بحیثیت پاکستانی قومیت پاکستانیوں کو دیکھنا چاہیے کہ وہ کسی ایسے شخص کو اگے لانے کا سبب تو نہیں بن رہے جو نہ صرف نظریہ پاکستان اور اسلامی شعار وتہذیب سے نا آشنا ہے ۔سیاسی مفادات کی خاطر سیاسی جماعت سے وابستگی کے ساتھ اپنی قومی اور دینی ذمہ داریوں کو بھولنے کے سبب شاید ہمارے معاشرے میں نفسا نفسی کا دوردورہ ہے۔ہمیں یہ دیکھنا ہے کہ کہیں ہم ایسے افراد کے ہاتھوں یرغمال تو نہیں بن چکے جو اپنے مفاد کیلئے ملی اور قومی مفادات سے اغراض برتنے کے مجرم ہیں۔ یہ اپنے مفاد کیلئے عوام کو استعمال کرکے انہیں صرف زبانی کلامی بیانات پر ہی ٹرخا رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ملک میں آج ہر طرف بد امنی بیروزگاری اشیاء ضررویہ کی کمیابی مہنگائی اخلاقیات ہر چیز کا جنازہ تیار ہے۔ ہم پھر بھی انہی سیاسی گھرانوں کے آسیر ہیں جن کے اجداد نے اس معاشرے کو تاریکیوں میں دھکیلنے کا سنگ بنیاد رکھا اور نسل در نسل محرومیوں کی تعمیر کرتے رہے۔ آج ارب پتی کروڑ پتی راہنمائوں کے سڑک چھاپ مقلد جانے جمہوریت کو کس معانی میں سمجھتے ہیں۔ جانے ہم کیوں ہر چیز میں کوئی حرج محسوس نہیں کرتے جبکہ ہمارا دین ودنیا کا حرج اسی میں پنہاں ہو رہا ہے ۔

About admin

Check Also

یہ دن دورنہیں

امریکہ نے پاکستان کی سرزمین پر پہلاڈرون حملہ ۱۸جون ۲۰۰۴ء کوکیا۔ یہ حملے قصر سفیدکے …

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *