کچھ تو ہے جس کی پردہ داری ہے
سمیع اللہ ملک
لندن
وزیراعظم یوسف رضا گیلانی نے ایک مرتبہ پھر زوردیکراس بات کی تردید کی ہے کہ ان کی حکومت کا زوال قریب ہے۔انہوں نے ۴/اکتوبرکوخصوصی طورپراپنی رہائش گاہ پر بلائے گئے صحافیوں کے ایک اجتماع میں اس خیال کو قطعی رد کردیا کہ آئندہ سپریم کورٹ میں این آراو کے مقدمے میں۳۱/اکتوبرکی طلبی پران کی حکومت کوکوئی خطرہ لاحق ہے۔وزیراعظم نے اس بات کا انکشاف بھی کیا کہ ان کی کئی ایسی ملاقاتیں صدرآصف زرداری اورآرمی چیف جنرل کیانی کے ساتھ ہوچکی ہیں جن کی تصاویر،فوٹیج یا اطلاع میڈیا کو بھی فراہم نہیں کی گئیںمگر وزیراعظم صحافیوں کو یہ بات بتانے سے بھی قاصر رہے کہ آخرانہوں نے این آراورکی سپریم کورٹ میں سماعت کے فوری بعدصدرزرداری اورجنرل کیانی سے ملاقات کی کیوں ضرورت محسوس کی۔ اس ملاقات کی فوٹیج ،تصاویراورنایاب پریس ریلیز ملکی اورغیرملکی میڈیا کوزورشورکے ساتھ جاری کرکے ایک بار پھرپاک افواج کوملکی سیاست میں ایک مسلمہ کردار سامنے کیوںآگیا ہے!ساری قوم جمہوریت کانعرہ الاپنے والی موجودہ حکومت کے اس عمل پر ششدر ہے ! صحافیوں سے اپنی اس ملاقات میں نہوں نے نیویارک ٹائمزمیں شائع ہونے والی اس رپورٹ سے بھی انکار کیاکہ بہت جلد ان کی حکومت اقتدارسے باہر ہوسکتی ہے مگر انہوں نے ان خبروں کی بھی واضح تردید پیش نہیں کی کہ دراصل ان کی حکومت پرخاموش دباو ¿ ہے کہ وہ فوری طور پر اپنی موجودہ حکومت کے بدعنوان افرادکوفی الفورفارغ کریں اور جہازی سائز کی کابینہ کوفوری طورپر کم کرکے ان کی تعدادنصف کریں‘تمام نااہل لوگوں کوفارغ کریں‘اوراس کے ساتھ ہی حکومت میں شامل کرپٹ افراد کی اوپر سے لیکر نیچے تک صفائی کریں۔سب سے بڑھ کر سپریم کورٹ سے موجودہ محاذآرائی کاتاثر فی الفور ختم کریں۔یہ کہے بغیرکہ ان کی حکومت کا مستقبل ان تمام باتوں پرفوری عملدرآمد سے منسلک ہے ‘وزیراعظم نے کل پہلی بارواشگاف الفاظ میں کہا کہ قومی مفادمیں انہیں کچھ مشکل فیصلے کرنے ہونگے لیکن وزیراعظم اپنے ان الفاظ کی تشریح کرنے سے بھی قاصر رہے۔انتہائی معتبر اورباخبر ذرائع کہتے ہیں کہ یوسف رضا گیلانی کوجوفیصلے کرنے ہیں ‘وہ مشکل نہیں بلکہ انتہائی آسان ہیںمگرشائد وزیراعظم کےلئے مشکل ہوکہ وہ اورصدر آصف زرداری مل کر یہ فیصلہ کرلیں کہ ایوانِ صدر میں بیٹھے سابقہ بیوروکریٹ سلمان فاروقی کواب فوری برخواست کردیا جائے کیونکہ ان کی این آراوکے ذریعے بریت ‘انتظامی ‘سیاسی امورمیںروزانہ کی مداخلت اوردراندازی حکومت کےلئے بے پناہ مسائل پیداکررہی ہے۔ اسی لئے وزیراعظم کےلئے یہ بھی مشکل ہوگاکہ وہ صدرزرداری کو قائل کرلیںکہ وزیرقانون بابراعوان کی رخصتی سے اعلیٰ عدلیہ کے ساتھ اچھے تعلقات کی ابتداءہوگی اورساتھ ہی سابقہ اٹارنی جنرل لطیف کھوسہ کوپیغام بھیجاجائے کہ وہ اب حکومت اورپارٹی میں عمل دخل کی بجائے اپنی وکالت پرتوجہ دیں۔وزیراعظم اگر کہتے ہیں کہ ان کو مشکل فیصلے کرنے ہونگے تووہ جانتے ہونگے کہ یہ کتنامشکل ہوگا کہ اپنے اوراپنے خاندان کے قریبی دوست اورنجکاری کے وزیرسینیٹروقاراحمدخان سے کہیں کہ وہ اپناوزارتی عہدہ چھوڑدیں اوریہی درخواست انہیں پانی اوربجلی کے وزیر راجہ پرویزاشرف سے کرناہوگی جنہوں نے ایک طرف عوام کو لوڈشیڈنگ ختم کرنے کی گولی متعددبارکھلائی لیکن ان کی وزارت کی کارکردگی ہمیشہ حکومت کی جگ ہنسائی کا سبب بنی اوردوسری طرف پوری قوم کومہنگے رینٹل پاورکے بوجھ تلے دبادیا ہے اورملک کوشدید معاشی مشکلات میں مبتلا کردیا گیاہے جبکہ ان رینٹل پاورزمیں ہونے والی بدعنوانی کے بارے میں تمام تفصیلات ابتداءہی میں ساری قوم کے سامنے آگئی تھیں اوریہ بھی واضح ہوگیا تھا کہ رینٹل پاورز کے معاہدوں کے پیچھے ملکی دولت کو لوٹنے کامذموم منصوبہ تھالیکن ساری قوم کے اعتراضات کے باوجوداس پرذاتی فوائدحاصل کرنے کےلئے عملدرآمدکیاگیا۔شائد وزیراعظم کےلئے یہ بھی مشکل ہوکہ وہ ان کے پاس موجودوزارتِ تجارت میں سنگین کرپشن و بدعنوانی کی رپورٹیں اپنے قریبی سیاسی ساتھی مخدوم امین فہیم کے سامنے رکھ کران سے استعفیٰ طلب کرکے ان کو رخصت کریں۔ وزیراعظم جب یہ کہتے ہیں کہ مشکل فیصلے ہیں تو وہ یہ بھی جانتے ہونگے کہ ان کےلئے یہ کس قدر مشکل ہوگاکہ وہ صدرآصف زرداری سے کم ازکم یہ تو ضرورپوچھیں کہ اٹھارویں ترمیم کی منطوری کے بعدوزیراعظم کے اختیارات میں اضافے کا نعرہ لگانے والے آصف علی زرداری نے ۶۱ستمبر۰۱۰۲ءکی تاریک رات کوانتہائی خاموشی کے ساتھ نیب کے چیئرمین کے تمام اختیارات وزیرقانون بابراعوان کومنتقل کرنے کا آرڈیننس جاری کرنے کےلئے انہوں نے کیوں ان سے بھی مشورہ کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کی اورکسی کوکانوں کان خبر تک نہ ہوئی حتیٰ کہ پارلیمنٹ میں حزب اختلاف کے لیڈر چوہدری نثاربشمول تمام حزب اختلاف ممبران نے پارلیمنٹ سے اورحکومتی جماعت کے انتہائی اہم لیڈرسینیٹررضاربانی کوسینیٹ سے احتجاجاً واک آو ¿ٹ کرنا پڑا۔ وزیراعظم یوسف رضاگیلانی کےلئے شائد یہ بھی مشکل ہوگا کہ وہ صدرآصف علی زرداری کے ذاتی دوستوں سے کہیںکہ وہ پی آئی اے‘ سول ایوی ایشن اتھارٹی اوراین آئی ٹی کی سربراہی چھوڑدیں اورآگے بڑھ کر ای او بی آئی سے لیکر پاکستان سٹیل ملزکوایمانداراورپیشہ ورانتظامیہ اوربورڈ آف ڈائریکٹرکا بندوبست کریں۔سیاست میں تلخی کو زائل کرنے اورملک میں یکجہتی کی بہترفضاءقائم کرنے کےلئے وزیراعظم یوسف رضاگیلانی اورصدرآصف زرداری کو ایک اورمشکل فیصلہ کرنے کو کہا گیا ہے اورجس کےلئے وزیراعظم کوآصف زرداری کومنانابھی ہ
وگا کہ وہ جلدازجلدگورنرپنجاب سلمان تاثیر کوان کے عہدے سے رخصت کیا جائے ۔یہ وہ فیصلہ ہے جس سے پنجاب میں سب سے بڑی سیاسی حکمراںجماعت مسلم لیگ نوازگروپ کی حکومتی جماعت کے ساتھ بہت سے شکایات دورہوجائیں گی اورمستقبل میں بہتر مفاہمت کے آثارپیداہو سکیں گے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ انتہائی مشکل فیصلے ہونگے مگروزیراعظم نے خودکہا ہے کہ ملکی مفاداب مشکل فیصلوں کاتقاضہ کررہا ہے ۔وزیراعظم کیاواقعی مشکل فیصلوں کےلئے تیارہوگئے ہیں ‘جن میں سے چندکاذکرمیں نے سطورِ بالامیںکیاہے۔ قارئین!آپ خودسمجھ سکتے ہیں کہ یہ تمام فیصلے ہرگزمشکل نہیں بلکہ یہ تو نہائت آسان فیصلے ہیں۔اس سے موجودہ حکومت کودوام بھی مل سکتا ہے اورحکومت پر بدترین اورسنگین کرپشن وبدعنوانی کاتاثر بھی زائل ہوسکتا ہے ‘اگر سارے فیصلے فوری نہیں کئے جاتے توکم ازکم اس کی کوشش کی جاسکتی ہے ۔اسی لئے وزیراعظم نے کہا ہے کہ وہ مشکل فیصلے کریں گے ۔کریں گے یا نہیں کریں گے ‘یہ تو وقت بتائے گا۔اگر نہیں کریں گے تو اس کا کیا انجام ہوگا ‘یہ شائدوزیراعظم کے علم میں ہوگا۔ آج کل حکومت ملک میں جمہوریت کابہت ڈھنڈورہ پیٹ رہی ہے جب کہ حالت یہ ہے کہ پارلیمنٹ کی کاروائی کوبراہ راست دکھانے کی اجازت صرف قومی ٹیلیویژن کے پاس ہے اورقوم کو صرف وہی دکھایا جارہا ہے جس کی حکومت کی طرف سے اجازت ملتی ہے بلکہ یہاں تک پارلیمنٹ میںحزب اختلاف کے لیڈرچوہدری نثارکی تقاریرکوبھی بلیک آو ¿ٹ کرنے میں بھی کوئی حرج محسوس نہیں کیا جاتا۔برطانیہ کودنیابھر میں جمہوریت کی ماں سمجھاجاتا ہے اوریہ ہم سب جانتے ہیں کہ برطانیہ میں ایک خصوصی ٹیلیویژن چینل ہفتہ بھر پارلیمنٹ میں ہونے والی ساری کاروائی کومن و عن دکھاتاہے جس کو نہ صرف برطانیہ میں بلکہ دنیا بھر میں ناظرین ہروقت دیکھ رہے ہوتے ہیں اوربعض اوقات ملک کے وزیراعظم ڈیوڈ کیمرون اورحزب اختلاف کے لیڈر ایڈملی بینڈکی نوک جھونک کے دوران شدیدترین تنقیدکوبھی ناظرین براہِ راست دیکھ رہے ہوتے ہیں ۔اس چینل سے برطانوی ووٹر کو یہ بھی پتہ چلتا رہتا ہے کہ جس امیدوارکواس نے اپنے ووٹ سے پارلیمنٹ میں بھیجا ہے اس کی کارکردگی کیسی ہے!یہ ہے جمہوریت کاکمال لیکن ہمارے حکمراں دن رات جمہوریت کانعرہ لگاکرساری قوم کودلیری کے ساتھ دھوکہ دینے میں مصروف ہیں۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ ہمارے وزیراعظم یوسف رضا گیلانی جمہوری دورملکی مفادمیں کب اورکیا مشکل فیصلے لیتے ہیں۔دیکھنے کےلئے منتظر ہے نگاہ! مرزا غالب سے سے معذرت کے ساتھ بدحواسی بے سبب نہیں شا ہ جی کچھ تو ہے جس کی پردہ داری ہے