ریفرنس نمبر ـ: My Ref: AAK/PM/MMNS/001/2
وزیر اعظم سیکریٹریٹ ریفرنس نمبر : F.2(392)PS/PM/99 Dated 05-03-99
نیشنل اکائونٹبیلٹی بیورو ریفرنس نمبر :19(14) NAB/A&P Dated 01-08-12
عنوان : : خدمات کے اعتراف میں ایوارڈ اور انعام
میں عامر احسن خان نے ۱۹۹۷ میں قومی احتساب بیورو(NAB ) کہ ساتھ شون گروپ سے ۳۵ ملین ڈالر کی ریکوری کیلئے کام کیا ۔ تادم تحریر ہذا اس خدمت کے عوض منظور و اعلان کردہ قومی ایوارڈ تمغہ امتیاز اور ریکور شدہ رقم کا 10%حاصل کرنے کیلئے دربدر ملتج ہوں۔آپ جناب کے مددکرنے کے وعدہ کو یاداشت میں تازہ کرنے کیلئے بدھ 26 نومبر 1997آپ موٹر وے کا افتتاح کر رہے تھے آپریٹر (طاہر)نے میری کال آپ کیلئے ملائی ۔ بدھ 26نومبر 1997 21:50 hrs بحیثیت وزیر اعظم پاکستان آپ نے ٹیلی فون پر احتساب بیورو کے خلاف شکایات سننے کے بعد میری کرپشن کے خلاف جرآت سے کھڑے ہونے کی خدمات کو سرہاتے اور تسلیم کرتے ہوئے 10%انعامی رقم کے ساتھ تمغہ امتیاز کا وعدہ فرمایا ۔ آپ نے ذاتی طور پر میری درخواست برائے انعام چیئرمین نیب کو مارک کر کے بھیجی تھی جس میں آپ سے زیر التوا تمغہ امیتاز ایوارڈ اور اس کی انعامی رقم کے اجراء کے بارے میں درخواست کی تھی۔ جو کہ آج تک اس طرح ہی زیر التواء چلی آ رہی ہے۔
نیب کیلئے شون گروپ سے تین بلین کی ریکوری میں چیئرمین احتساب بیورو کیلئے اطلاعات اور قابل اعتبار شہادت بن کراہم کردار ادا کیا۔ شون گروپ کی کرپشن بے نقاب کرنے کے بعد میں نے بیشمار خطوط متعلقہ حکام کو لکھے ۔ ذاتی طور پر احتساب بیورو کے متعلقہ آفیسرز کو ملا۔جن میں حسن وسیم افضال ،شاہد حسین راجہ ، طلعت گھمن ، عامر عزیز لفٹنٹ کرنل افتخار رسول ،کوثر اقبال ملک اور خاور حسین کے ساتھ چیئرمین سیف الرحمٰان ،لیفٹنٹ جنرل محمد امجد ، لفٹینٹ جنرل خالد مقبول ،لفٹنٹ جنرل منیر حفیظ لفٹنٹ جنرل رٹیائرڈ شاہد عزیز ، نوید احسن ،جسٹس رٹیائرڈ دیدار حسین شاہ اور ڈپٹی چیئرمین جناب جاوید ضیاء قاضی شامل ہیں۔ مشرف دور آمریت میں شون گروپ نے ذاتی تعلقات اور رابطوں سے میرا تمغہ امتیاز اور انعام کی رقم کو ریلیز ہونے سے روک دیا ۔ چیئرمین نیب نوید احسان نے میرا کیس مارک کیا لیکن ڈی جی ایف سی آئی ڈبلیو نیب کوثر اقبال ملک ( نیب سے واپس محکمہ نیشنل بینک پاکستان میں بھیجا گیا) نے مالی فوائد نہ پہنچانے پر اختیارا ت کے بل بوتے تاخیر ی حربوں کے ساتھ آٹھ سال سے روکے رکھا ۔ نیب ہیڈ کواٹر اسلام آباد میں ڈی جی ایف سی آئی ڈبلیو کوثر اقبال ملک کے ساتھ 11مارچ 2010کو 11 بجے سے 1300بجے تک میٹنگ میں مجھے ڈرا یا دھمکا کرتمغہ اور انعامی رقم 30کروڑ سے دستبردار کرنے کی پوری کوشش کی ۔سیکورٹی گارڈز کمرے میں بلا کرڈرایا دھمکایا جسمانی تشدد کا نشانہ بنایا ۔ گالیاں دیتے دھمکاتے ہوئے سیکورٹی گارڈز کو کہا کہ مجھے اسلام آباد آئیر پورٹ پردستیاب اگلی فلائٹ پر بٹھا کر آئیں۔ آخری انتباہ کے طور پر کہا کہ مجھے مسنگ پرسنز میں شامل کراکے میرے خاندان کو نشانہ عبرت بنا دے گا۔ میری درخواست اور اپیلوں کو مسلسل نظر انداز کیا گیا تاکہ میں آپ کے خلاف بیان بازی کروں ۔ تاہم میرے لیے ممکن نہ تھا کہ ایک غمگسار بندہ پرور کے خلاف حزیان بازی کرتا۔جس بنا پر میں آج آپ کے دوبارہ اپنے آفس واپسی تک محروم ہوں ۔کوثر اقبال ملک شون گروپ کرپٹ اشرافیہ بینک ڈیفالٹرز اور این آر او سے مستفید ہونے والوں کا نیب دفتر میں ٹائوٹ تھا ۔ شون گروپ کا 25اکتوبر 2005کوبینک قرضوں سے ڈیفالٹر ہونے پر تصفیہ کا معائدہ ہے ۔ شون گروپ نے میڈیا پر معاشی بے ضابطگیوں اور کرپشن کو قبول کیا انہیں معاف کیا اور پوری ریکوری نہیں کرائی گئی ۔ تحقیق سے نیب کی راہداریوں میں 8سالوں میں ہونے والی مصلحتوں کو بے نقاب کیا جاسکتاہے ۔ استحصال و استبداد کے ساتھ اختیارات میں تجاوز کرکے ا نصاف میں تاخیر سے مجھے محروم رکھنامیرے دعویٰ کے حق میں ثبوت ہے ۔ تمغہ وانعام کیلئے چیئرمین نیب ایڈمرل فصیح بخاری کے نام کالز فیکس ای میلز خطوط کے بعد برگیڈئیر رٹیائرڈ مصدق عباسی ڈی جی اے &پی کی سربراہی میں 1اگست2012کو کمیٹی قائم کی گئی ۔ سرکاری مکتوب ریفرنس نمبر بتاریخ 1اگست 2012 19(14)NAB/A&P مجھے موصول ہوا جس میں مندرجہ حکم کے تحت 16اگست 2012کو کمیٹی کے سامنے پیش ہوکر تین گھنٹے بریفنگ دی ۔جس میں صاحب صدر دو مستقل وکیل اور ڈپٹی ڈائریکٹر اے &پی شامل تھے ۔چیئرمین اور کمیٹی ممبران نے ایک ہفتہ کے اندر رسپانس کا وعدہ کیا جو تحریر ہذا تک منتظر انجام دہی ہے۔ ہر بار مجھے نوید سنائی گئی کہ میرا کیس ترجیحی بنیادوں پردیکھاجائے گا۔
میں شون گروپ میں منیجر مینٹنس ایران کے طور پر کام کرتا تھا جب شون گروپ انتظامیہ کی جانب سے مجھے 64کروڑ کے بوگس بل پر سائن
کرنے کیلئے دبائو ڈالا گیا ۔میں نے چیئرمین نیب سیف الرحمٰان بعد میں جوائنٹ سیکریٹری حسن وسیم افضل سے رابطہ کر کے تمام جعل سازی کو بے نقاب کیا ۔ اس وقت حکومت کی پالیسی اور احتساب آرڈینس 1999پیراگراف 33A کے مدنظر مجھے بازیافتہ رقم کا 10%ادا کیا جانا تھا جس کا میں آج عرصہ 14سال سے منتظر ہوں ۔ اس تناظر میں میرا قومی خدمت کیلئے ذات کو خطرات میں ڈالنا امتیازی کام اور اس پر انعام حق بنتا ہے ۔ یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ ہمارے ادارے اپنے قیام کے خصوصی مقاصد کوکسی تیسرے فریق کی مداخلت کے بغیر بروقت و ذمہ داری سے سرانجام دینے میں کتنے کوتاہ ہیں ۔اس کے علاوہ میں نے اس کیس کے دوران جن مشکلات اور نا انصافیوں کا نیب کے حکام کی جانب سے سامنا کیا ان کی عکاسی میرے فیس بک پیج اور اس میں شامل مختلف اخبارات ایکسپریس ٹریبون ،دی نیوز ، جنگ ، جیو نیوز ، ڈان نیوز ، وقت کے اداریے خبریں شامل ہیں۔
انصاف کیلئے دربدر صدا لگانے کیلئے کوئی دقیقہ فروگذشت نہ رہنے دینے کے بعد آپ کے در پر دوبارہ سوالی بن کر آیا ہوں ۔آپ کو ہمیشہ غریب پرور اور عوام کے مسائل کیلئے ہمدرد سامع پایا ہے۔ یہی وہ ذریعہ ہے جو بلاشبہ مجھے انصاف دلانے کیلئے آپ کی دہلیز پر لایا ہے جو مجھے انصاف دلانے اور اپنے جاب ری سٹور کرانے کا ذریعہ آخر نظرآتا ہے ۔آپ میری امیدکا مینارہ آخر ہیں ۔آخری اور انتہائی امید کے ساتھ آپ اور آپ کے اہل واعیال کیلئے دعاگو ۔
عامر احسن خان ( 1-A 1/2 4th East Streat فیز 1ڈی ایچ اے کراچی)
اس میں مزید کچھ اضافے کی ضرورت محسوس نہ کرتے ہوئے وزیراعظم پاکستان کی خدمت میں پیش ہے ۔