Home / Socio-political / کھیل سے سیاست تک

کھیل سے سیاست تک

 

ہندو پاک رشتے- کھیل سے سیاست تک

 

          ہندو پاک کے امن پسند حضرات نے ابھی ’امن کی آشا‘ شروع ہی کی تھی کہ اس پر امریکہ کی نظر لگ گئی اور امریکی وزیر دفاع رابرٹ گیٹس کے دورہٴ ہند و پاک نے تو گویا آگ میں گھی کا کام کیا۔یہ عجیب اتفاق ہے کہ جب جب امریکہ کا کوئی سرکاری عہدیدار ہندوستان اور پاکستان کے دورے پر آتا ہے تو وہ کوئی نہ کوئی ایسا شگوفہ ضرور چھوڑ کر جاتا ہے جس کی وجہ سے ہندو پاک کے درمیان تو تو میں میں ایک بار پھر شروع ہو جاتی ہے۔ ایسا ہی کچھ اس بار بھی ہوا۔ رابرٹ گیٹس نے ہندوستانی رہنماؤں کو خوش کرنے کے لیے یہ کہہ دیا کہ اگر پاکستان 26/11 جیسا کوئی واقعہ ایک بار پھر دہراتا ہے تو ہندوستان کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو جائے گا اور وہ پاکستان پر جوابی حملہ کرنے کے لیے مجبور ہو جائے گا۔ پاکستان کو ایسا لگا کہ امریکہ ہندوستان کو اس بات کے لیے اکسا رہا ہے کہ وہ پاکستان پر حملہ کردے، لہٰذا انھوں نے رابرٹ گیٹس کے اس بیان کا سخت نوٹس لیا اور جب رابرٹ گیٹس پاکستان پہنچے تو انھیں بار بار یہ صفائی دینی پڑی کہ ان کے قول کو میڈیا نے غلط طریقے سے نقل کیا ہے اور ان کے کہنے کا مقصد یہ ہرگز نہیں تھا کہ ہندوستان پاکستان پر کوئی حملہ کرے۔ لیکن پاکستان کہاں پیچھے ہٹنے والا تھا، پاکستانی وزیر اعظم نے رابرٹ گیٹس کے سامنے ہی دو ٹوک الفاظ میں کہہ دیا کہ اگر وہ اپنے شہریوں کی حفاظت کی کوئی گارنٹی نہیں دے سکتے تو بھلا ہندوستان کو یہ کیسے یقین دلا سکتے ہیں کہ اس پر 26/11 جیسا کوئی دوسرا حملہ نہیں ہوگا۔

          لیکن یہ بات سمجھ میں نہیں آتی کہ رابرٹ گیٹس کو آخر یہ کہنے کی ضرورت ہی کیوں پیش آئی۔ دراصل گذشتہ چند دنوں سے ہندوستان اور پاکستان جس تیزی کے ساتھ ایک دوسرے کی جانب دوستی کی راہ پر گامزن تھے اور سماجی اور سیاسی سطح پر جس طرح دونوں ممالک کے افراد کی آمد و رفت کا سلسلہ شروع ہوگیا تھا، یہ بات امریکہ کو پسند نہیں آئی اور اسے ایسا محسوس ہوا کہ اگر ہندوستان اور پاکستان کے درمیان تلخی کم ہوتی ہے تو بھلا اس کے جنگی اسلحے کیسے فروخت ہوں گے۔ لہٰذا اس نے کوئی وقت ضائع کیے بغیر ایک ایسا شگوفہ چھوڑ دیا کہ اب دونوں ملک اس بات کو لے کر پریشان ہیں کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ ان کے درمیان ایک نئی جنگ کی صورت حال پیدا ہو جائے۔

          اس کی شروعات آئی پی ایل میں پاکستان کے کرکٹ کھلاڑیوں کی نیلامی نہ ہونے سے ہوئی۔آئی پی ایل کے ذمہ داروں نے جو حرکت کی ہے وہ بھی افسوسناک ہے کیونکہ اس سے نی صرف پہلی دفعہ کھیل کو سیاست سے جوڑ دیا گیا بلکہ پاکستانی کھلاڑیوں کی ان دیکھی کر کرے کرکٹ کی تاریخ کو شرمدہ کیا گیا ہے ۔لیکن  یہ بات  بھی سچ ہے کہ ہندوستانی حکومت کا آئی پی ایل جیسے کھیلوں سے کوئی لینا دینا نہیں ہے، جس کی وضاحت وزارتِ امورِ خارجہ نے کر بھی دی ہے لیکن آئی پی ایل کے ذمہ داران کو یہ سوچنا چاہیے تھا کہ ان کا اس قسم کا فیصلہ ہندو پاک کے موجودہ نرم ہوتے رشتوں پر بجلی بن کر گرے گا۔ اور ہوا بھی یہی۔ پاکستان نے پہلے تو اپنے ممبران پارلیمنٹ کو ہندوستان کا دورہ کرنے سے منع کردیا، اس کے بعد اس نے اپنے سابق چیف الیکشن کمشنر کو ہندوستانی الیکشن کمیشن کی ڈائمنڈ جوبلی تقریب میں شریک ہونے سے روک دیا۔ ماضی میں ہمیشہ ایسا دیکھا گیا ہے کہ ہندو پاک کے درمیان جب جب کشیدگی پیدا ہوئی ہے، کرکٹ کھلاڑیوں نے اپنے کھیل کے ذریعے اس کشیدگی کو دور کرنے کی کوشش کی ہے۔ لیکن اب یہی کھیل کشیدگی کو دور کرنے کی بجائے مزید کشیدگی پیدا کرنے کا ذریعہ بن رہا ہے۔ دونوں ممالک کی حکومتوں کو اس پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔

          دوسری اہم بات جسے حکومت ہندو پاک کو سمجھنے کی ضرورت ہے وہ یہ کہ امریکہ پر بالکل انحصار نہ کیا جائے۔ ہندوستانی نقطہ نظر سے اگر دیکھا جائے تو ممبئی دہشت گردانہ حملوں کا مبینہ ماسٹر مائنڈ سی آئی اے کا ایجنٹ تھا جو لشکر طیبہ جیسی ہند مخالف دہشت گرد تنظیم میں شامل تھا اور جسے ممبئی حملوں کی سازش کا پہلے سے سارا علم تھا جو ظاہر ہے کہ اس نے امریکہ کو پہلے ہی بتا دیا تھا۔ امریکہ اگر ہندوستان کا ہمدرد ہوتا تو یہ تمام جانکاریاں ہندوستان کو فراہم کرکے اس حملے کو روکنے میں اور بے گناہوں کا قتل عام ہونے سے بچا سکتا تھا، لیکن اس نے ہندوستان کو صرف اتنا بتایا تھا کہ بعض پاکستانی دہشت گرد تنظیمیں سمندری راستے سے ہندوستان پر حملہ کرنے کا منصوبہ بنا رہی ہیں۔ اس نے ہندوستان کو اس کی مزید کوئی تفصیل فراہم نہیں کی اور بالآخر سیکڑوں لوگوں کا خون ممبئی میں دہشت گردوں نے بہایا۔ اب امریکہ ہیڈلی کو تو گرفتار کر چکا ہے لیکن اس نے ہندوستان کے تفتیشی اہل کاروں کو اس سے پوچھ گچھ کرنے کی اجازت دینے سے صاف منع کر دیا ہے۔ اسے ہم آخر کیا کہیں گے؟ یہی نہ کہ امریکہ کو ہندوستان سے کوئی ہمدردی نہیں ہے بلکہ وہ ہندوستان کو صرف اور صرف اپنے جنگی اسلحوں کا ایک بڑا خریدار تصور کرتا ہے، اس سے زیادہ کچھ بھی نہیں۔

          دوسری جانب پاکستان کو بھی چاہیے کہ وہ امریکہ کی ایسی کسی بھی بات میں نہ آئے جس سے اس کے سب سے بڑے پڑوسی ہندوستان کے ساتھ تعلقات مزید خراب ہوں۔ لیکن ساتھ ہی ہندوستان کا اعتماد حاصل کرنے کے لیے پاکستان کو یہ گارنٹی تو ضرور دینی ہوگی کہ اس کی سرزمین پر ایسی کوئی بھی دہشت گرد تنظیم پنپنے نہ پائے جو ہندوستان یا پاکستان کے بے گناہ افراد کے خون کی پیاسی ہو۔ طالبان جیسی شدت پسند تنظیم کا اگر آج کوئی وجود ہے تو وہ امریکہ اور پاکستان کی دوستی کا ہی نتیجہ ہے جسے دونوں نے مل کر ماضی میں خوب پروان چڑھایا اور ان جنگجوؤں کا استعمال ماضی میں افغانستان میں بر سر پیکار روسی افواج کے خلاف کیا، لیکن سرد جنگ کے خاتمہ کے بعد امریکہ نے بڑی چالاکی سے ان جنگجوؤں سے کنارہ کشی اختیار کرلی جو بعد میں خود پاکستان کے لیے دردِ سر بن گئے اور آج وہ خود پاکستانی شہریوں کے خون سے ہولی کھیلنے میں لگے ہوئے ہیں۔ امریکہ کا تو کچھ نہیں بگڑا لیکن پاکستان آج تباہی کے دہانے پر ضرور کھڑا ہے۔ ہم دعا کرتے ہیں کہ پاکستانی حکومت کی ان شدت پسندوں کے خلاف چلائی جارہی فوجی مہم کامیاب ہو تاکہ ہندوستان، پاکستان اور افغانستان کے عوام امن و چین کی زندگی گزار سکیں، لیکن اس کے لیے ضروری ہے کہ امریکہ سے جتنی زیادہ دوری اختیار کی جاسکتی ہے وہ کی جائے۔ اسی میں اس خطے کے عوام کا امن و سکون پوشیدہ ہے۔ ورنہ امریکہ اپنے ہتھیار سپلائی کرتا رہے گا اور ہم یوں ہی ایک دوسرے کا خون بہاتے رہیں گے۔

###

 

About admin

Check Also

یہ دن دورنہیں

امریکہ نے پاکستان کی سرزمین پر پہلاڈرون حملہ ۱۸جون ۲۰۰۴ء کوکیا۔ یہ حملے قصر سفیدکے …

One comment

  1. you are absolutely right sir, America from the very beginning has tried his level best to increase animosity between India and Pakistan for its own profit. America’s most profitable business from the World Wars only is to supply weaponry to the warring states. And to make more and more profit it needs to keep more and more states engaged in warship and as we can see India and Pakistan are quite complementing to America’s aim . That’s why India and Pakistan must put in a genuine effort in restoring peace among them and understanding the hideous plans of America.

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *