Home / Socio-political / کہاں ہیں انسانی حقوق کے علمبردار

کہاں ہیں انسانی حقوق کے علمبردار

کہاں ہیں انسانی حقوق کے علمبردار؟

سمیع اللہ ملک

اگرآپ دنیاکی موجودہ صورتحال پرنگاہ دوڑائیں توآپ کوصرف عالم اسلام کی زبوں حالی اوربے بسی کے ایسے مناظردیکھنے کوملیں گے کہ ہرذی شعوریہ سوچنے پرمجبورہوجاتاہے کہ آخر یہ ساری تباہی مسلمانوں کامقدرکیوں ہے؟بالخصوص مسلم ممالک میںان دنوں جواستعماریت اورصہیونیت کااہم نشانہ ہیں ان میں مصرکوخصوصی اہمیت حاصل ہے جہاں اخوان المسلمون کواپنے تئیں ’’ختم‘‘کرنے کیلئے طاغوتی طاقتیں سرگرم عمل ہیں۔تازہ ترین اقدام مصرکے معزول صدرمحمدمرسی کے ساتھیوں کوسزائے قیدسناکرکیاگیا۔قاہرہ سے موصولہ   اطلا ع کے مطابق قاہرہ کی ایک عدالت نے صدرمرسی اوران کی اسلام پسندتنظیم اخوان المسلمون سے وابستہ بارہ ساتھیوں کو جامعہ الازہر کے باہر احتجاج کرنے،تخریب کاری اور حملہ آورہونے کے الزامات پرسزاسنائی ہے جبکہ محمدمرسی کے حامی گروپ کاکہناہے کہ ’’ہم سزاکے خلاف اپیل کرسکتے ہیں‘‘۔عدالتی فیصلے کے مطابق ان نوجوانوں پرمظاہروں میں شرکت پرجامعہ الازہرکے صدردفترپرحملہ کرنے کاالزام ثابت ہوگیاہے۔

ادھرمعزول صدرمحمدمرسی نے ملکی فوج کے سربراہ جنرل عبدالفتاح السیسی پرغداری کاالزام عائدکرتے ہوئے خبردارکیاہے کہ فوجی بغاوت کوکالعدم قراردیتے ہوئے ان کی حکومت کا تختہ الٹنے والوں کے خلاف قانونی کاروائی نہیں کی جاتی توملک میں استحکام پیدانہیں ہوسکے گا۔عوام کے نام اپنے خط میں محمدمرسی نے کہا:’’میں آج بھی آئین کی روسے مصرکاصدر ہوں ۔میں اس عدالت کوتسلیم نہیں کرتا۔فوج نے جونئی عبوری حکومت تشکیل دی ہے اس کے خلاف جلدمقدمہ دائرکرنے والاہوں‘‘۔آئین کی روسے معزول صدرکادعویٰ صدفی صد درست ہے،آئین کی روسے وہی ملک کے صدرہیںجبکہ السیسی بغاوت اوراپنے حلف سے انحراف کے مرتکب ہوئے ہیں۔وہ مسلح قوت کے زروپراقتدارپرمسلط ہیںجبکہ عوام اخوان المسلمون کی قیادت میںمسلسل ان کے خلاف احتجاجی تحریک چلارہے ہیں چنانچہ طالع آزماالسیسی وہ سیاسی استحکام پیدانہیں کرسکاجس کے عذرپراس نے قوم کے متفقہ دستور کوپاؤں تلے روندڈالااوربندوقوں کارخ اپنی ہی قوم کے منتخب نمائندوں کی طرف موڑدیاتھاالبتہ وہ یہ ضرورکہہ سکتے ہیں کہ کہ انہوں نے امریکی امدادسے معاشی بحران کوکسی حد تک سنبھال لیاہے لیکن سوال یہ ہے کہ کس قیمت پر؟حقیقت یہ ہے کہ اس کی خاطر فوجی حکومت مشرقِ وسطیٰ میںامریکی حکمت عملی کے نفاذکیلئے اپنی خدمات پیش کرچکی ہے۔فوجی قبضے کے بعدسے اب تک ایمرجنسی نافذہے۔بنیادی حقوق معطل کئے جاچکے ہیںاورپرامن احتجاجی مظاہروں میںشریک عوام کوگولیوں کانشانہ بناکرہلاک کرنے کی کھلی چھٹی دے دی گئی ہے۔

اخوان کے دعوے کی مطابق ۳جولائی کی فوجی بغاوت کے بعدسے اب تک پانچ ہزاربے گناہ افرادکاخون بہایاجاچکاہے اورزخمیوں کی تعدادتوہزاروں میں ہے۔۲۰ہزارسے زائدمرد وزن کوپس دیوارزنداں دھکیل دیاگیاہے۔اس افسوسناک تشدد کے باوجودمسلح قوت سے قائم ہونے والی ناجائزحکومت کے خلاف مسلسل پرامن سیاسی اوراحتجاجی تحریک جاری ہے ۔سیاسی سرگرمیوں پرمکمل پابندی کے باوجودہرتین چارروزکے بعدملک کے طول وعرض میں بھرپورعوامی مظاہرے جاری ہیں۔دراصل مصرکے عوام نے یہ رازجان لیا ہے کہ پرامن سیاسی جدوجہدہی سے جبرکی قوتوں کوبالآخرپسپائی پرمجبورکیاجاسکتاہے۔مصرکی فوجی قیادت کوچاہئے کہ اپنے طرزِ عمل پرغورکرے۔مشرقِ وسطیٰ میں صدام حسین اور معمرقذافی کاانجام اس کیلئے باعث ِ عبرت ہوناچاہئے۔صدام حسین بھی کبھی اس غرورمیں مبتلاتھاکہ اسے سپرپاورامریکااوراس کے اتحادیوںکی حمائت حاصل ہے ،اس کاکوئی بال بھی بیکانہیں کرسکتالیکن جب امریکااس سے کام لے چکاتواس نے نہ صرف صدام بلکہ اس کی فوج کوبھی بالکل تباہ وبربادکردیا،جب امریکااس کے خلاف سازشوں کاجال بچھارہاتھا تودنیانے دیکھاکہ عراقی عوام اورعراقی فوج ایک دوسرے کے خلاف کھڑے تھے۔مصرمیں بھی عملاً فوج اورعوام ایک دوسرے کے مدمقابل آچکے ہیں۔یہ افسوسناک صورتحال ہے جس سے بچنے کابس ایک واحد طریقہ ہے کہ فوج اپنی غلطی تسلیم کرتے ہوئے اپنے منصب پرواپس لوٹ جائے اور عوام کے حقِ حکمرانی کوتسلیم کرتے ہوئے ا س کا چھیناہواحق اسے واپس لوٹادے۔

مصرمیںسیاسی مخالف تحریک پرماضی قریب کے منظرنامے کے حوالے سے نظرڈالیںتواتنے خونیں واقعات آنکھوں کے سامنے پھرجاتے ہیں کہ ہردردمنددل سے ایک ہوک اٹھتی ہے ۔مصری فوج نے قاہرہ کے رابعہ میدان ہی میں سینکڑوں بچیوں اورخواتین کوشہیدنہیں کیابلکہ اس قتل عام کے بعدملک کے طول وعرض میں آدھی رات کے بعدگھروں پردھاوا اور زدوکوب کاسلسلہ ابھی تک جاری ہے۔اس موقع پرگھروں میں توڑپھوڑ ،لوٹ ماراوردست درازی کے واقعات مستزادہیں۔بے گناہ شہریوں کے قتل،پرامن مظاہرین پر اندھادھند فائرنگ،کرفیواورجھوٹے مقدمات قائم کرنے سمیت مخالفین کوکچلنے کاہرہتھکنڈاآزمایاجارہاہے لیکن مصری قوم نے ایک بارپھرثابت کردیاکہ وہ آزمائش کی ہربھٹی سے کندن ہوکرنکلنے والی قوم ہے۔

۳جولائی کومنتخب صدرکاتختہ الٹنے سے لیکراب تک ساڑھے پانچ ہزارکے قریب افرادجامِ ِ شہادت نوش کرچکے ہیں۔ہزاروں زخمی اوربیس ہزار سے زائدمردوزن جیلوں میںاذیتوں کاشکارہیں۔ان کے خلاف سنگین نوعیت کے مقدمات گھڑے جارہے ہیں۔ملک میں ایمرجنسی نافذہے اورآئے دن شام کے بعدکرفیونافذکردیاجاتاہے ۔جلسوں جلوسوں اور مظاہروں پرسخت پابندی ہے۔ٹی وی چینل پرٹیلی کاسٹ ہونے والی ایک ویڈیومیںنائب وزیرداخلہ پولیس اورخصوصی فورس کے ذمہ داران سے خطاب کرتے ہوئے کہا : ’’اگر اب بھی مظاہرین سڑکوں پرنکل آئیں توان کے دل کانشانہ لیکر گولی چلادو،تم سے کوئی نہیں پوچھے گا‘‘۔لیکن سب کے باوجودگزشتہ تین ماہ کے دوران کوئی ایک دن بھی ایسا نہیں گزراکہ جس میں ملک کے طول وعرض میںبھرپورمظاہرے اوراحتجاج نہ ہورہاہو۔ہفتے میں کم ازکم دوبارمصری قومی اتحادکی طرف سے تمام شہروں میں بڑے بڑے مظاہروں کی اپیل پرفقیدالمثال مظاہرے بالفعل ایک تاریخ رقم کررہے ہیں۔

ممتازدانشوراورمحقق عبدالغفارعزیزلکھتے ہیں:’’۷/اکتوبرمصری تاریخ میں کم وبیش وہی حیثیت رکھتاہے جوپاکستان میں۶ستمبرکی ہے۔۱۹۷۳ء کی مصراسرائیل جنگ میں مصر نے صہیونی فوج کوحیرت انگیززک پہنچائی تھی ،اس سال یہ اہم دن ایسے حالات میں آیاکہ جنرل السیسی کی قیادت میں مصری فوج کے ہاتھ اپنے ہی ہزاروں شہریوں کے خون سے رنگے ہوئے تھے۔مصری قومی اتحاد نے اس دن ملک میں جمہوریت کی فتح اورفوجی انقلاب کے خلاف ملک گیر مظاہروں کادن قراردے دیا۔اپنے ہزاروں ہموطنوں کوخون چہارجانب دکھائی دینے کے باوجود لاکھوں عوام سڑکوں پرنکلے۔السیسی نے ایک بارپھراپنی درندگی کامظاہرہ کیااور۵۳مزیدشہریوں کوخون میں نہلادیا۔یہ امرطے ہے کہ اب یہ سلسلہ منطقی انجام تک پہنچ کرہی دم لے گا۔جب بندوق کے مقابلے میں نہتے لیکن پرعزم عوام مسلسل ڈٹے رہیں،اپنے بنیادی  حقوق اورعوام کامنتخب کردہ نمائندہ  نظام لانے کیلئے ہر طر ح کی  قربانیاں پیش کرتے رہیں تونتائج بھی واضح اوریقینی ہوجاتے ہیں‘‘۔

 ’’۱۷ستمبرکو ملک کے تعلیمی ادارے کھلناتھے،مظاہروں کے خوف نے چھٹیاں مزیدبڑھادیں اورقانون جاری کردیاکہ بوقت ضرورت کسی بھی تعلیم گاہ یاہاسٹل کے اندرسے بھی طلبہ کو گرفتارکیاجاسکتاہے، ان کااخراج کیاجاسکتاہے لیکن یہ سب تدابیر الٹی ہوگئیں۔قدرے تاخیرسے باقی تعلیمی ادارے اورمزیدایک ماہ کی تاخیرسے جامعہ الازہرکھلی تو یہ سب ادارے بھی فوجی انقلاب مخالف تحریک کاحصہ بن گئے۔قومی اتحادنے اس موقع پرایک نیاشعار نوجوانوں کے نام کردیا۔’’الشباب عمادالشورہ نوجوان انقلاب کابنیادی ستون ہیں‘‘۔نوجوانوں نے بھی پوری قوت سے جواب دیا:’’نہ پڑھنا،نہ پڑھانا،فقط صدرمرسی واپس لانا‘‘تادم ِ تحریرتعلیمی ادارے مسلسل سراپااحتجاج ہیں‘‘۔

’’اس دوران میںقاہرہ کی ایک عدالت نے اخوان کوکالعدم قراردینے اوران کے اثاثے ضبط کرنے کاانوکھاحکم جاری کردیا۔تاریخ دیکھیں تواس سے پہلے ۱۹۴۸ء میںنقراشی پاشا نے اخوان کوقومی سلامتی کیلئے خطرہ قراردیتے ہوئے اس پرپابندی لگادی تھی۔وجہ یہ تھی کہ فلسطین پریہودی قبضے کے خلاف اخوانی کارکنوں نے عزیمتوں اورشہادتوں کی ایک تاریخ رقم کی تھی۔اس پابندی کے بیس دن بعدوزیراعظم نقراشی ایک طالب علم کے ہاتھوں قتل ہوگیا۔طالب علم کواخوان کاکارکن بتایاگیا لیکن حسن البنّانے اس سے مکمل برأت کااعلان کرتے ہوئے تاریخی بیان جاری کیاکہ’’یہ اقدام کرنے والے اخوان ہیں نہ مسلمان‘‘۔۱۹۵۴ء میں جمال عبدالناصر کے فوجی انقلاب کے بعدبھی اخوان پرپابندی عائد کردی گئی ۔ بعدمیں آنے والے فرعونوں نے بھی اس پابندی کوبحال رکھالیکن اخوان کی دعوت کاسفرمعطرجھونکوں کی طرح جاری رہا،پھرسب فرعون چلے گئے،اخوان کے قائدین اورکارکنان بڑی تعداد میںرب کے حضورپیش ہوگئے۔اللہ کافیصلہ یقینا مظلوموں کے حق میں ہواہوگا،اس یقین کی ایک علامت یہ بھی ہے کہ اخوان کی تحریک ونظریہ دن دگنی رات چوگنی ترقی کرتا ہوا مضبوط سے مضبوط ہوتاچلاگیا۔حسنی مبارک کی ڈکٹیٹرشپ کے خاتمے کے بعددوسال میںپانچ عام انتخابات یاریفرنڈم ہوئے،سب میں عوام نے اخوان پربھرپوراعتماد کا اظہارکیا۔آج بھی تمام ترپابندیوںاورجبروتشددکے باوجودان کی عوامی تائیدمیںمسلسل اضافہ ہورہاہے۔خونی فوجی سربراہ بھی اخوان کی قوت کااعتراف کرتے ہوئے مذاکرات کرنے کیلئے خفیہ پیغامات بھیج رہاہے۔فوجی انقلاب کے عوض وزارتِ عظمیٰ تک کی پیشکش کی جاچکی ہے جواخوان نے یکسرمستردکردی ۔اخوان کوبیرونی دنیاسے ایک بڑی اخلاقی اورسیاسی کامیابی یہ ملی کہ برازیل کے صدرنے ۲۰۱۴ء میں اپنے ہاں ہونے والے فٹ بال ورلڈکپ کاافتتاح کرنے کی دعوت صدرمحمدمرسی کے نام بھیجی ۔انہوں نے اعلان کیا ’’برازیل آج بھی محمدمرسی ہی کو مصرکاحقیقی اورمنتخب سربراہ سمجھتاہے‘‘۔

 آخری اطلاع کے مطابق محمدمرسی کوقیدِ تنہائی میں رکھنے کیلئے خصوصی سیل میں منتقل کردیاگیاہے۔یہ فیصلہ مرسی خاندان کی ملاقات کی درخواست مستردکئے جانے کے بعدکیاگیاہے۔ مرسی خاندان کی جانب سے یہ درخواست اس انکشاف پرسامنے آئی تھی کہ صدرمرسی کوحراست میں لئے جانے کے اگلے روزبرطرف کردیاگیاتھا۔واضح رہے اس سے پہلے مصری حکام نے ۶۲سالہ معزول صدرمرسی کو۴نومبرکے بعدہائی بلڈپریشر اورشوگربڑھ جانے کے بعدہسپتال منتقل کیاتھا۔اس حالت میںمحمدمرسی کوقیدتنہائی کی اذیت سے دوچارکرنا انسانیت اوربنیادی حقوق کے علمبرداروں کے منہ پر طمانچہ کی حیثیت رکھتا ہے۔اس دوران میں مصرکے سابق شکست خوردہ صدارتی امیدوارعبدالمنعم ابوالفتوح نے کہاہے:’’مسلم افواج کی قیادت نے صدرمحمدمرسی کوبرطرف کرکے اخوان المسلمون کو’’زندگی کابوسہ‘‘دے دیاہے‘‘۔انہوں نے ’’العربیہ ‘‘کوانٹرویودیتے ہوئے ’’ڈاکٹرمحمدمرسی کی برطرفی اخوان المسلمون کیلئے ایک دھچکاہے کیونکہ سیاسی قوتیں تواس جماعت کوبیلٹ باکس کے ذریعے سے شکست سے دوچارکرناچاہتی تھیں جبکہ ملک کاحکمران عدی المنصورنہیںجنرل عبدالفتاح  السیسی ہے‘‘۔

About admin

Check Also

یہ دن دورنہیں

امریکہ نے پاکستان کی سرزمین پر پہلاڈرون حملہ ۱۸جون ۲۰۰۴ء کوکیا۔ یہ حملے قصر سفیدکے …

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *