مجھ جیسے کم علم اور بے عمل کے لیے تو یہ بہت مشکل ہے۔ یہ جو میں نے کم علم لکھا ہے اس میں بھی ایک عیارانہ عاجزی ہے۔ علم اور میں ایک دوسرے کی ضد ہیں۔ چلیں یہ فضول بحث چھوڑ دیتے ہیں۔ ہمارے بابے نے ایک دن کہا: بحث ہمیشہ کم علمی کی وجہ سے وجود میں آتی ہے۔ روشنی اور تاریکی کیا محتاجِ بحث ہیں؟ دن اور رات پرکیا بحث کریں،نیکی اوربدی پرکیا بات کریں۔ہمیشہ سے شیر چیرتا پھاڑتا آیا ہے تو اس پرکیا دانش وری کی جائی،غلامی کی نفسیات پر تو بحث کی جاسکتی ہے اور جوذہنی غلامی ہے اس پر․․․․․․․․․دور جدید کی ایجادات نے زندگی آسان کردی ہے اور انسانیت کے لیے مغرب کا عظیم تحفہ دور جدید کی ایجادات ہیں۔ یہی سنتا ہوں میں ہر جگہ ہر تقریب میں۔ کتنا مشکل تھا تاریکی کو روشن کرنا لیکن یہ جو بجلی ہے کتنا آسان کردیا اس نے جینا۔ کیا واقعی آسان کردیا ہے اس نے زندگی کو؟
مجھے اس کا جواب ملتا بھی ہے اور نہیں بھی۔ ادھورا جواب مطمئن نہیں کرتا۔ چلئے مان لیتے ہیں زندگی ایجادات کے دم سے آسان ہوگئی تو پھر اس پر کب بات کریں گے کہ انسان کو اس کی کیا قیمت ادا کرنا پڑی، اپنے کن اوصاف سے محروم ہونا پڑا؟ ایک دن میں نے ان سے سوال کیا: یہ آپ کو اندھیرے میں بھی ہر شے کیسے روشن نظر آجاتی ہے؟ تو مسکرا کر کہنے لگی: بلی سے ہی پوچھ لیتے یہ سوال کہ اسے تاریکی میں کیسے نظر آتا ہے۔میں نے ضد کی تو کہنے لگے یہ میں تمہیں سمجھا نہیں سکتا۔ تاریکی میں رہنا شروع کردو ،رب سے تعلق جوڑلو تو اندھیرا بھی روشن ہوجائے گا۔ رب نے بندے میں کائنات چھپائی ہوئی ہے، اسے دریافت کرلو دنیاوی محتاجی سے آزاد ہوجاوٴگے۔ اب آپ مجھ سے کہیں گے کیا بے پر کی اڑا رہے ہو۔ ٹھیک ہے آپ کی بات۔ ہر ایک کا تجربہ مختلف جو ہوتا ہے۔
ایک دن ایک نوجوان طالب علم نے ٹی وی پر بحث کے دوران جو اس بات پر ہورہی تھی کہ ایجادات نے زندگی آسان کردی ،زبردست بات کہہ دی کہ اگر بجلی نہ ہوتی تو انسان فطرت پر جینا سیکھتا، نظامِ زر نے ایجادات کے بدلے انسان کی فطری صلاحیتوں کو مارڈالا۔ میں نے حیرت سے اسے دیکھا وہ مسکرا رہا تھا۔ تب میں نے پوچھا یہ تم کیسے کہہ سکتے ہو؟ آپ نہیں سمجھیں گے۔ لیکن پھر بھی میں نے کہا۔ تب اس نے کہا انسان کے لیے اشیاکو مسخرکیا گیا ہے اور المیہ یہ ہوگیا کہ اشیانے انسان کو مسخر کرلیا،عجیب سی بات ہے ناں یہ۔ اس بحث کو چھوڑ دیتے ہیں۔ اس لیے کہ اگر اس پر بات کریں تو پسماندہ اور دقیانوسی کہلانے سے ہماری جان جاتی ہے۔ اس دھوکے میں پڑے رہیں تو اچھا ہے کہ زندگی آسان ہے۔
ایک دن میرے ساتھ ہسپتال میں جاتے ہوئے حکیم صاحب گاڑی میں خاموش بیٹھے ہوئے تھے۔ مجھے تشویش ہوئی تو ان کی طرف دیکھے بغیر ان کی خامشی کاسبب پوچھا۔انہوں نے بڑی سنجیدگی سے جواب دیاکہ میں کل رات سے کچھ سوچ رہا ہوں۔ کیا․․․․․․․․؟․میں نے پوچھا۔ بس ایک بات۔ میں آپ کی مدد کروں؟ نہیں شکریہ ،وہ پھرکہیں کھوگئے۔ مجھے الجھن ہونے لگی کہ گزشتہ رات سے کچھ الجھے اورپریشان دکھائی دے رہے تھے۔تو میں نے پھرکہا کیا سوچ رہیں ہیں،مجھے بھی تو معلوم ہو کچھ؟ اچھا یہ بتائیے ․․․․․․اللہ نے کائنات بنائی اور اس میں اتنی ساری مخلوقات بنائیں اور سب کی روزی روٹی کا بندوبست کیا،اب تک میں نے نہیں سنا کہ جانور پرندے کیڑے مکوڑے بے روزگار ہوگئے ہیں۔ بھوک سے خودکشی کررہے ہیں اور انسان اشرف ہے ان سب میں اور وہ بھوکا ہے، ننگا ہے، خودکشی کررہا ہے، مررہا ہے۔ اب اصل سوال یہ ہے کہ اللہ نے بندے کو ہی روزی رزق کے جنجال میں کیوں ڈالا؟ یہ کہہ کر وہ خاموش ہوگئے۔
اورکچھ؟ میں نے پوچھا۔ اب خود دیکھوکسی جانورکو دیکھا ہے کہ وہ کسی فیکٹری میں کام کے لیے جاتا ہو، بس اسٹاپ پرکھڑا ہوکہ آج دیر ہوگئی باس بہت ڈانٹے گا۔ یہ سارا روگ آخر انسان ہی کو کیوں لگا ہوا ہے؟ پرندے مسکراتے ہیں ،چہچہاتے ہیں خوش ہیں اور انسان․․․․․․․․․․ اس سوال کا جواب ہے میرے پاس میں نے کہا۔ وہ بہت خوش ہوئے اور بولے وہ کیا؟ دیکھئے یہ بھی میں نے اوائل عمری میں اپنے ایک بابا سے پوچھا تھا تو وہ مسکرائے تھے اور بتایا تھا مالک نے سب مخلوق کے کھانے کا انتظام کیا ہے۔ انسان کے لیے بھی آسمان سے پکا پکایا مرغ مسلم آتا تھا۔ تب انسان نے اپنی تگڈم لڑائی اورکہنے لگا میں تو خود بناکر کھانا چاہتا ہوں تو اللہ نے اس کی دعا قبول کرلی۔ اب یہ جوکچھ بھی آپ دیکھ رہیں ہیں، انسان کا خود کیا دھرا ہے۔ اللہ نے تو ظلم نہیں کیا،بندہ خود پر ہی ظلم کرتا ہے ،بس کربیٹھا۔
یہ جو یہودی ہیں، یہ تھے وہ جنہوں نے دعا مانگی تھی۔ اب پوری انسانیت ان کے جرائم ان کی سرکشی کی وجہ سے بھوک کا شکار ہے۔ یہ جو ملٹی نیشنل کمپنیاں ہیں یہ ہیں اصل مجرم انسانیت کی مجرم۔ جہاں پر پانی بھی بوتلوں میں بندکرکے بیچا جارہا ہو ،گمراہ کن پروپیگنڈا کرکرکے ،تو اس میں اب خالق سے کیا گلہ․․․․․․․․․حکیم صاحب میراجواب سن کر خاموش ہوگئے اورہاں اتنی دیرمیں ہم ہسپتال بھی پہنچ گئے۔کچھ دیررکے اورپھرگھرجانے کی اجازت لیکررخصت ہوگئے۔میں نے کافی روکاکہ ”امشب قیام کرلودعائیں دے گاغریب خانہ“لیکن نہیں مانے۔ تب شام کو ان کا فون آیا، صحیح کہا تھا بابے نے بالکل ٹھیک․․․․․․․․!ایسا ہی ہے۔ انسان انسان کا ویری ہے دشمن ہے۔ اللہ نے تو آسانیاں دی تھیں ہم نے خود پرظلم کیا۔ یہ جو میں روز جمہوریت کی ،آمریت کی ،سیکولرازم کی ،سوشلزم وغیرہ وغیرہ کی برکات سنتا ہوں تو مجھے بہت ہنسی آتی ہے۔ رب نے ایک نظام دیا، اسے اپنا لینا چاہیے تھا۔ ہم نے اپنی تگڈم لڑائی اورخود ایک نظام لے بیٹھے۔ اب تو اس کے کانٹے ہمیں بے حال کیے دیتے ہیں، ہمیں نڈھال کیے ہوئے ہیں۔ اب بھی ہم رب سے رجوع نہیں کرتے ،باربار انسان کے بنائے ہوئے نظام کی برکات گنواتے ہیں۔ نتیجہ بھی دیکھتے ہیں اور باز بھی نہیں آتے۔ اب کیا کہا جائے اس پر۔ بس ایک ہی حل ہے۔ بندہ خودکومکمل طور رب کے حوالے کردے،اپنا سب کچھ اس کے تابع کردے۔
لیکن کیسے ؟میں اپنی انا سے دست بردار کیسے ہوجاوٴں․․․․․․․․․؟یہ اناہی توہے جودن رات میرے وجود،میرے عہدے ،میرے اختیارات کوسب سے برترجانتے ہوئے مجھے اقتدارسے چمٹے رہنے کاسبق دے رہی ہے اورمیں کسی کواختیارمیں ہی نہیں لارہااوراب بھی بضدہوں کہ مجھے اورمیرے صدرکواستثنیٰ حاصل ہے۔مجھے اپنے پڑوسی بھارت کوہرحال میں دوست بناناہے چاہے اس کیلئے مجھے اپنے ملک کاسارے دریاوٴں کاپانی بھی کیوں نہ قربان کرناپڑجائے،اس کی ساری معیشت کابیڑہ غرق ہوتاہے تومجھے کیا؟ایک لاکھ سے زائدکشمیریوں نے اپنی آزادی کیلئے جانیں محض اس لئے قربان کردیں کہ وہ اپنے وجودکوپاکستان کاحصہ سمجھتے ہی تواس میں میر اکیا دوش ! مجھے ہرحال میں نیٹوکی سپلائی کھولنے کی فکرہے اسی لئے توانہوں نے بھی عدالت کے فیصلے کے باوجودمیری حمائت جاری رکھی ہوئی ہے۔ملکی خزانے کولوٹنے کامیرا اور میرے اہل وعیال کاپوراحق ہے کہ میں منتخب جمہوری سربراہ ہوںآ خرمجھ سے پہلے بھی توسب یہی کام کرتے آئے ہیں! میرے صدرکے سوئس اکاوٴنٹ میں چھ کروڑڈالرہیں توپھرکیوں سارے ملک کی اسمبلیوں نے انہیں صدراورمجھے وزیراعظم منتخب کیاتھا؟ہم جمہوریت کے بل بوتے پرہی تویہ سب کچھ اپنااستحقاق سمجھتے ہیں۔
یہ تو میں نہیں جانتاالبتہ آپ اپنے اندرکے بابے کوکچھ دیرکیلئے سلادیں اورحاضروموجودسے بھی استفادہ کریں۔ پون گھنٹہ یہی موضوع زیربحث رہا۔
خوشیاں منائیے دورِ جدید کی ایجادات پر۔ انسانوں پر مسلط انسانوں کے بنائے ہوئے نظام کی خوبیاں بیان کیجیے۔ دھوکے پردھوکا کھائیے اور بغلیں بجائیے۔ میری ایسی ہی گفتگو توآئندہ بھی جاری رہے گی۔ کچھ بھی تو نہیں رہا ہے اور نہ ہی کچھ رہے گا۔ سب ٹھاٹھ پڑا رہ جائے گا جب لاد چلے گا بنجارہ۔ دیکھئے کہیں بجلی تونہیں چلی گئی آپ کے ہاں؟۔ بس نام رہے گا میرے رب کا۔