Dr.Khwaja Ekram
ہند وپا ک مذاکرات کا جب بھی نام آتا ہے تو ساتھ یہ بھی بات ذہن میں آتی ہے کہ ہندو پاک کے درمیان مذاکرات محض سیاسی عمل ہے اور اس سے زیادہ کچھ نہیں ۔ کیونکہ مذاکرات کے ان پچاس برسوں میں اب تک کوئی انقلابی تبدیلی نہیں آئی ہے ۔جبکہ مذاکرات کی اعداد و شمار اتنے ہیں کہ اگر خلوص سے ٹیبل پر بیٹھا گیا ہوتا تو کئی مسائل حل ہوچکے ہوتے ۔ لیکن المیہ یہ ہے کہ یہ مذاکرات ہمیشہ کسی نہ کسی سیاسی بیان یا سیاسی مفاد کا شکار ہوجاتا ہے ۔ ابھی دو روز ہوئے قبل مذاکرات بھی سیاسی مفادات کی نذر ہوتے ہوتے بچ گیا ۔ بات یہ ہےکہ ابھی پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں انتخابی مہم چل رہی ہے اور پہلی دفعہ ایسا ہوا ہے کہ کشمیر کے الیکشن میں پاکستان کی دو سیاسی پارٹیان آمنے سامنے ہیں اور بیان بازی کی حد یہ ہے کہ دونوں نے زبان درازی کی تمام حدیں عبور کر لی ہیں ۔ میاں نواز شریف نے موجودہ حکمراں پارٹی پر ملک کی سالمیت کے حوالے سے کئی الزامات عائد کیے ۔ ان میں سے اہم یہ تھا کہ موجودہ حکمراں پارٹی پی پی نے ملک کے لیے کچھ نہیں کیا تو کشمیر کے لیے کیا کرے گی ۔ اس کے علاوہ انھوں نے پی پی کو ملک کے مفاد میں کام کرنے کے بجائے پارٹٰ کے مفاد میں کام کرنے کا الزام عائد کیا ۔ بات اتنی بڑھی کہ صدر مملکت آصف زرداری کو بھی بیان دینا پڑا ۔ لیکن یہ باتیں اس طور پر سنی اور سنائی جارہی تھیں کہ یہ دو سیاسی پارٹیوں کی زبانی جنگ ہے لیکن مذاکرات کے سے قبل وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کا بیان اس سے ہٹ کر تھا ، انھوں نے ایک تیر سے دو کا شکار کرنا چاہا تھا، اسی لیے انھوں نے اپنے بیان میں یہ کہا کہ پی پی کی تشکیل ہی اس لیے ہوئی تھی کہ کشمیر نظریہ کو آگے بڑھایا جائے ۔اور جس طرح پی پی کے قائد اور بانی ذوالفقار علی بھٹو نے کہا تھا کہ ہم کشمیر کی جنگ ہزار برس تک لڑیں گے ، اور آض بھی ہمارا یہ موقف قائم ہے ۔سوال یہ ہے کہ گیلانی صاحب کا یہ بیان اگر میاں نواز شریف کے بیان کا جواب تھا تب بھی یہ قابل قبول نہیں ہے کیونکہ اس طرح کے بیانات سے دونوں ملکوں کے اندر کشیدگی میں مزید اضافہ ہوگا اور مذاکرات کو بھی جمود کی طرف لے جانے کا عمل ہوگا۔ایک طرف دنوں ملکوں کے وزرا ء مذاکرات کے ایجنڈے کو طے کرنے کی کوشش میں لگے ہوئے تھے اور دوسری جانب اس طرح کا بیان اگر وزیر اعظم پاکستان کی جانب سے آئے تو یہ افسوسناک ہے کیونکہ جب ذوالفقار علی بھٹو مر حوم نے یہ بات کہی تھی اس وقت کا سیاسی منظر نامہ اور علامی منظر نامہ کچھ اور تھا لیکن ابھی کا عالمی اور سیاسی منظر نامہ الگ ہے اس لیے کسی مسئلے کے حل کو گزرے ہوئے زمانے کی عینک سے دیکھنا کسی طرح بھی مناسب نہیں ہے ۔اسی لیے ہندستان کی جانب سے اس بیان کو مسترد کیاگیا اور یہ کہا گیا کہ اس معاملے میں وزیر اعظم کو غور و فکر کے بعد ہی کوئی بیان دینا چاہیئے تھا کیونکہ خود انھوں نے کئی بار جب اپنے ہم منصب ہندستانی وزیر اعظم سے بات چیت کی ہے تو انھوں نے بھی کشمیر کے مسئلے کو مذاکرات کے ذریعے حل کرنے کی بات کی لیکن ان کا اس طرح کا اچانک بیان چونکانے والا تھا اور یہ محسوس کیا گی ا کہ مذاکرات کو سبوتاژ کرنے کی بھی کوشش ہے ۔
دونوں ملکو ں کو یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ اب کشمیر کا معاملہ عسکری طاقت سے حل نہیں ہو سکتا ۔ اب وہ وقت نہیں ہے کہ طاقت کے بل پر اس کو حل کیا جائے کوینکہ دونوں ملکوں کے پاس بڑی فوجی طاقت موجود ہے اور دونوں جوہری طاقت کے حامل ہیں اور ہندستان چونکہ پاکستان سے بڑا ملک ہے اس لیے اس کے پاس نسبتا زیادہ عسکری طاقت موجود ہے ۔ اس لیے اب صرف یہی راستہ بچ جاتا ہے کہ دونوں ملکوں کے مفادات کو سامنے رکھ کر سنجیدگی اور خلوص سے اس معاملے پر غور و فکر کیا جائے اور کوئی تصفیہ طلب نتیجہ نکالا جائے ۔ ایسا بھی نہیں ہے کہ اس مسئلے کا کوئی حل موجود نہیں ہے ۔ بس آگھے بڑھنے اور خلوص کے ساتھ آگے بڑھنے کی ضرورت ہے ۔ اور جس طرح اتنی پیچیدگیوں اور رکاوٹوں کو توڑتے ہوئے مذاکرات کا عمل آگے بڑھ رہاہے ۔اس سے تو یہی امید کی جاتی ہے کہ بات بنے گی ۔ لیکن افسوس یہ بھی ہے کہ اس عمل کو سبوتاژ کرنے میں ہمیشہ پاکستان کی جانب سے ہی کوشش ہوئی ہے ۔ کبھی یہ کوشش کسی سیاسی پارٹی نے کی ہے تو کبھی کسی حکمراں نے کی اور ان سب کا مقصد صرف اپنے سیاسی کیرئر کو بچانے کی تھی ۔ کسی نے بھی ملک کے مفادات کو سامنے رکھ کر مذاکرات کو سنجیدگی سے نہیں لیا ، اور موجودہ حکومت کی بھی مدت کار ختم ہونے والی ہے یہ بھی جلد ہی الیکشن میں عوام کا سامنا کرنے والے ہیں اس لیے دیکھنا یہ بھی ہے کہ موجودہ حکومت کس طرح اس عمل کوآگے بڑھاتی ہے۔
مقام شکر یہ ہےکہ ان تمام مایوس کن پس منظر کے بعد بھی موجودہ مذاکرات بہت حد تک کامیاب رہے ہیں ۔ کیونکہ اس بار کئی عملی اقدامات پر زور دیا گیا ہے ۔خاص کر پاکستان اور بھارت نے دونوں ممالک کے درمیان خارجہ سیکرٹری کی سطح پر ہونے والے دو روزہ مذاکرات میں عوامی روابط بڑھانے کے لیے ویزا قوانین میں نرمی کا فیصلہ کیا۔پاکستان کے خارجہ سیکریٹری سلمان بشیر نے اپنی بھارتی ہم منصب نروپما راؤ کے ہمراہ مشترکہ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ دونوں ممالک کے درمیان بات چیت بڑے ہی خوشگوار ماحول میں ہوئی اور کسی بھی مسئلے پر دونوں میں تلخی نہیں ہوئی۔اور نروپما راؤ نے صحافیوں سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ دونوں ممالک کو اپنے تعلقات میں پیچیدگی کے حوالے سے محتاط رہنا ہوگا اور باہمی اعتماد کی بحالی کےلیے دونوں ممالک کو کافی کوششیں کرنے کی ضرورت ہے۔انہوں نے کہا، ’ہتھیاروں کے سائے اور اس سے پیدا ہونے والے تشدد نے حالیہ برسوں میں ہمارے لوگوں پر بے پناہ ظلم ڈھائے ہیں اور اب اس کو ختم ہونا چاہیئے۔‘
اس کے علاوہ مشترکہ اعلامیے کے مطابق لائن آف کنٹرول کے آر پار اعتماد سازی کے اقدامات پر ورکنگ گروپ کا اجلاس جولائی میں بلانے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ پاکستان اور بھارت کے خارجہ سیکریٹریز کے دو روزہ مذاکرات کے بعد دفترخارجہ نے مشترکہ اعلامیہ جاری کیا ہے جس کے مطابق پاک، بھارت خارجہ سیکریٹریز نے دو روزہ مذاکرات کے تین ادوار میں اعتماد سازی کے اقدامات ، امن وسلامتی ،مسئلہ کشمیر اور دوستانہ وفود کے تبادلوں کے فروغ پربات کی۔دونوں ممالک نے باہمی مفاہمت کے فروغ کے لیے مذاکرات کا عمل تعمیری اور بامقصد اندازمیں جاری رکھنے کا عزم ظاہر کیا۔ اعلامیے کے مطابق پاکستان اور بھارت نے ایٹمی اور روایتی ہتھیاروں کے حوالے سے باہمی اعتماد سازی کے حوالے سے ماہرین کا الگ سے اجلاس بلانے کا فیصلہ کیا ہے جس میں موجودہ انتظامات کو بہتر بنانے اور دونوں ممالک کیلئے قابل قبول مزید اضافی اقدامات کرنے کا جائزہ لیا جائیگا۔ اعلامیے کے مطابق اس اقدام کا مقصد باہمی اعتماد اور امن و سلامتی کا فروغ ہے۔ماہرین کی سطح کے اجلاس کی تاریخیں سفارتی ذرائع سے طے کی جائیں گی۔ مشترکا اعلامیے کے مطابق دونوں ممالک نے تسلیم کیا ہے کہ دہشت گردی امن اور سلامتی کیلئے خطرہ ہے اور اس کی تمام صورتوں کو ختم کرنے کیلئے مضبوط تعاون کی ضرورت پر اتفاق کیا گیا۔ دونوں ممالک نے مسئلہ کشمیر پربامقصد بات چیت جاری رکھنے پر اتفاق کیا ہے جومسئلے کے پرامن حل کی تلاش کے لیے اختلافی امور پر قابو پانے اور اتفاق رائے بڑھانے کے اصول کے تحت ہوں گے۔ اعلامیے کے مطابق لائن آف کنٹرول کے آر پار اعتماد کی بحالی کے اقدامات پر ورکنگ گروپ کا اجلاس بلانے پر بھی اتفاق کیا گیا جو موجودہ باہمی تجارت میں بہتری سمیت سفری انتظامات کے اقدامات تجویز کریگا،ورکنگ گروپ کا اجلاس جولائی میں ہوگا۔ دونوں ممالک نے دوستانہ وفود کے تبادلوں کو فروغ دینے کی ضرورت پر اتفاق کیا اور ایک دوسرے کیخلاف پراپیگنڈا روکنے سے متعلق امور پر بھی تبادلہ خیال کیا۔ انسانی ایشوزکو ترجیحاً اور حساسیت کے ساتھ حل کرنے پر اتفاق کیا گیا ہے۔ اعلامیے کے مطابق پاک، بھارت خارجہ سیکریٹریز دوبارہ نئی دلی میں ملاقات کریں گے،جس میں وزرائے خارجہ کی جولائی میں نئی دہلی میں ہونیوالی ملاقات کی تیاری کی جائے گی۔
ان تمام پیش رفت کو دیکھتے ہوئے یہ امید کی جاسکتی ہے کہ آنے والے دور کے مذاکرات بھی مفید اور اہم ثابت ہوں گے اور دونوں ملکوں کے درمیان کشدیگی پیدا کرنے والے چھوٹے چھوٹے اور معمولی عناصر کو دور کر کے باہمی تفہیم کی کوشش ہوگی اور دونوں ملکوں کے درمیان حالات بہتر ہوں گے اور کشیدگی دور ہوسکتی ہے ۔ اگر ایسا ہوا تو جنوبی ایشیا میں یہ دونوں ممالک ایک نئی قوت کے ساتھ سامنے آسکتے ہیں اور کئی طرح کی عالمی سازشوں سے محفوظ رہ سکتے ہیں ۔