Home / Socio-political / کیا پاکستان غیر مستحکم ہوگیاہے؟

کیا پاکستان غیر مستحکم ہوگیاہے؟

پاکستان میں جس طرح تیزی سے حالات بدل رہے ہیں اور ہر روز کوئی نہ کوئی  نیا موڑ آجا رہا ہے اس سے پاکستانی سیاست بھی پریشان ہے اور پاکستانی عوام جس کشمکش کا شکار ہے اس کا بیان  لفظوں میں نہیں کیا جاسکتا کیونکہ متاثرہ علاقوں سے جو لوگ ہجرت  کررہے ہیں ، ان کے حالات زار دیکھنےاور محسوس کرنے سے تعلق رکھتا ہے ۔شدید گرمی اور کسی بھی وقت افواج پاکستان کی گولہ باری یا طالبان کی جانب سے حملے کے خوف میں بے سروسامانی کے عالم میں ان لوگوں کا پرسان حال کوئی نہیں ہے ۔ یہ بس اپنی حکومت سے شاکی اور خدا پر بھروسہ رکھ کر کسی محفوظ مقام کی تلاش میں نکل پڑے ہیں ۔لیکن بڑا سوال یہ ہے کہ آخر یہ جائیں کہاں؟ کیا پاکستان میں کوئی محفوظ مقام ہے ؟ جی ہاں یہ سوال بھی اپنے آپ میں ایسا سوال ہے جس کا جواب  حکومت وقت کے پاس بھی نہیں ہے ۔ایک طرف صوفی محمد کی تحریک نفاذ عدل سے لوگوں کو کچھ امیدیں بندھی تھیں لیکن اب ان کی جانب بھی کوئی یاس بھری نگاہوں سے نہیں دیکھتا کیونکہ نظا م عدل کے قیام کے بعد بھی طالبان غیر مسلح نہیں ہوسکے ۔غیر مسلح تو دور کی بات ہے ان کے مطالبے بھی دن بہ دن بڑھتے جا رہے ہیں۔ ایک وقت نظام عدل پر صدر کے دستخط نہ ہونے کی بات کر کے  صوفی محمد نے اپنی ذمہ دار یوں سے سبکدوشی کا اعلان کر دیا تھا اور اب قاضیوں کی تقرری کے مسئلے پراختلافات کی بات کر کے حکومت اور عوام دونوں کو کٹگھرے میں کھڑا کردیا ہے ۔ اکثر بیانات سے یہ بھی اندازہ ہوتا ہے کہ بعض معاملات میں صوبائی اور قومی حکومتوں میں بھی اس سلسلے میں ایک رائے نہیں ۔یسے میں عوام بیچارے کہاں جائیں اور پناہ کی کون سی راہ ڈھونڈ نکالیں ۔سب سے بڑا سوال آج ان علاقوں کے باشندوں کےیہی ہیں ۔

        لیکن اس سے بھی بڑا سوال ایک اور بھی ہے جوپاکستان کے استحکام اور مستقبل کے حوالےسے ہے ،وہ یہ ہے کہ امریکہ ان حالات کا فائدہ  اٹھانا چاہتا ہے اسی لیے کبھی صدر اوبامہ کچھ کہتے ہیں تو کبھی امریکی وزیر خارجہ ہیلری کلنٹن پاکستان کو نصیحت دینے سے گریز نہیں کرتیں ۔اور یہ کہتی ہیں کہ پاکستانی قیادت ملک کو طالبان سے بچانے کےلیے متحد ہوجائے ۔ طالبان القاعدہ کے شدت پسندوں کے ساتھ مل کر پاکستانی حکومت کی عمل داری ناکام بنانے چاہتے ہیں اس موقع پر ضرورت ہے کہ پاکستانی قیادت ملک کو طالبان سے بچانے کےلیے متحدہ ہوجائے ۔ ہیلری کلنٹن کا کہنا تھا کہ ایٹمی اثاثوں کے انتہا پسندوں کے ہاتھ جانے سے متعلق امریکی خدشات اب بھی موجود ہیں تاہم امریکا پاکستانی حکومت اور فوج کے اقدامات سے مطمہن ہیں اور اس ضمن میں اپنی کوششیں بھی جاری رکھے گا ۔ جی ہاں اب پاکستانی قیادت کو بھی امریکہ سے درس لینے کی ضرورت آن پڑی ہے ۔ میر ے خیال سے اس سے بڑی شرمناک بات اور کیا ہوگی کہ اب امریکہ کا ہاتھ پاکستانی قیادت کے دامن تک پہنچ چکا ہے ۔اسی لیے صدراوبامہ بھی یہ بیان دیتے ہیں کہ “امریکہ کے صدر براک اوباما نے پاکستان کی صورتحال پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہاہے کہ ہم پاکستان کی خود مختاری کا مکمل احترام کرتے ہیں تاہم پاکستان میں سویلین حکومت کمزور ہے اور امریکہ کو اسلام آباد کی مدد کرنی چاہیئے “اب یہ مدد کیا ہوگی آپ بھی اندازہ لگا سکتے ہیں ۔ ظاہراس مدد کے سہارے اب وہ سیاسی لیڈران کو بھی حکومت چلانے کی ترکیبیں بتائی جائیں گی۔اسی لیے جس وقت پاکستانی فوج بونیراور طالبانی ٹھکانوں پر حملہ کررہی تھی ٹھیک اسی وقت امریکہ پاکستان کو امریکہ کی جانب سے ۴۰ کروڑ ڈالر کی فوری امداد پر غور کر رہا تھا۔ یہ وقت اورانداز تشویش کا باعث اس لیے ہے کہ کہیں امداد کے بہانے خون کا عطیہ تو نہیں مانگا جا رہا ہے ۔اس کے علاوہ تشویش یہ بھی ہے کہ امریکہ کے صدر براک اوباما نے کہا ہے کہ القاعدہ اور طالبان امریکی سیکیورٹی کےلئے واحد براہ راست خطرہ ہیں۔امریکی ریاست مسوری کے شہر آرنلڈ میں ایک تقریب سے خطاب میں انھوں نے کہا کہ پاکستان اور افغانستان میں بھی یہی انتہا پسند امریکہ کیلئے مسئلہ ہیں۔ صدر اوباما نے کہا کہ بحیثیت امریکی کمانڈر ان چیف، وہ اسامہ بن لادن یا اس کے ساتھیوں کو کہیں بھی محفوظ پناہ گاہ قائم نہیں کرنے دیں گے۔ادھر  امریکی انتظامیہ پاک فوج کو  تربیت اور  جدید آلات کی فراہمی کے لئے براہ راست امداد پر غور کر رہی ہے۔امریکی دفاعی پالیسی کی  انڈر سیکریٹری میشیل فلورنے کہا ہے کہ پینٹاگون  پہلی بار  انسداد دہشت گردی کے لئے  پاکستانی فوج کو براہ راست تربیت اور جدید آلات فراہم کرنے کی منصوبہ بندی کر رہا ہے۔بات یہ سمجھنے کی ہے کہ اس سے پہلے بھی امریکہ کی پاکستانی فوج کو تربیت دے چکی ہے اورپاکستان کی خفیہ ایجنسیاں  پہلے سے رابطے میں ہیں ,پاکستانی فوجیں بھی کئی مہمات ایک ساتھ مل کر طے کر چکی ہیں ۔اب کس طرح کی فوجی تربیت ہوگی ؟ اور کس طرح کی حکمت عملی بنے گی یہ تو وقت ہی بتائے گا لیکن ابھی حو جو کچھ ہو رہا ہے وہ بھی میرا خیال ہے اسی حکمت عملی کا حصہ ہے۔

About admin

Check Also

یہ دن دورنہیں

امریکہ نے پاکستان کی سرزمین پر پہلاڈرون حملہ ۱۸جون ۲۰۰۴ء کوکیا۔ یہ حملے قصر سفیدکے …

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *