Home / Socio-political / کیا ہند و پاک اچھے پڑوسی نہیں بن سکتے؟

کیا ہند و پاک اچھے پڑوسی نہیں بن سکتے؟

 

کیا ہند و پاک اچھے پڑوسی نہیں بن سکتے؟ 

            ہند وپاک کے درمیان رشتوں میں جو کڑواہٹ ہے اس کا اگر غور سے جائزہ لیا جائے تو اندازہ ہوتا ہے کہ دونوں جانب کے شہریوں کی بڑی تعداد وہ ہے جو اچھے رشتوں کے خواہاں ہیں لیکن چند اہل سیاست اور قیادت کے ایسے ہیں جو اپنے مفاد کے لیے میڈیا کا غلط استعمال کر کے جھوٹی افوہیں پھیلا کر عوام کو مشتعل کرنے کی کوشش میں مصروف ہیں ۔حالانکہ پاکستان میں ایسے صحافی بھی موجودہیں جو اس طرح کی کوششو ں کی مذمت کرتے ہیں ، لیکن ان کی آوازیں حکومت کی زیر سرپرستی چل رہی میڈیا کی آوازسے بلند نہیں ہوپاتی۔یہی المیہ ہے جس کے سبب دونوں ملکوں کے رشتوں کی بحالی کے لیے اب تک کوئی عوامی تحریک نہیں چل سکی ہے۔میں پاکستانی پریس کا مطالعہ پورے احتیاط کے ساتھ کرتا رہا ہوں اور بعض میڈیا چینلوں اور ان کے تجزیہ کاروں کے ذریعے گڑھی جانے والی کہانیوں کا ہمیشہ جواب دینا چاہتا ہوں۔ میں ان من گڑھت کہانیوں کا تجزیہ کرکے بعض حقائق اور اعداد و شمار پیش کرنا چاہتا ہوں تاکہ غلط فہمیاں دور ہوں اور پاکستان میں ہندوستانی نظریہ کو ٹھیک ڈھنگ سے سمجھا جاسکے۔

            ان میں سے ایک من گڑھت کہانی جسے اکثر لکھا جاتا ہے وہ یہ کہ ہندوستان اندرونی اور بیرونی دونوں سطحوں پر پاکستان کو گھیرنا چاہتا ہے، اور اسی لیے وہ کمپوزٹ ڈائیلاگ سے بچ رہا ہے جسے ممبئی کے 26/11 دہشت گردانہ حملے کے بعد روک دیا گیا تھا۔ بہت سے تجزیہ کاروں نے لکھا ہے کہ شرم الشیخ میں مذاکرات کو شروع کرنے کے بارے میں وزرائے اعظم گیلانی اور منموہن سنگھ کے درمیان ہونے والے اتفاق کے باوجود اس پر سخت گیر ہندوستانی میڈیا اور بی جے پی کے دباؤ کی وجہ سے اب تک عمل نہیں ہوسکا ہے۔

            ڈاکٹر منموہن سنگھ یا اٹل بہاری واجپئی کی قیادت میں پاکستان کے ساتھ امن کی بحالی سے متعلق ہندوستانی حکومت کے موقف پر کبھی بھی شک نہیں کیا جاسکتا۔ سابق وزیر اعظم واجپئی نے 1999 میں جب امن کے عمل کو شروع کرنے کے مقصد سے اپنے پاکستانی ہم منصب نواز شریف سے ملاقات کرنے کے لیے لاہور کا سفر کیا تھا، اس وقت پاکستانی فوج کرگل کی بلندیوں پر قبضہ کرنے کے لیے اپنے فوجیوں کو پہلے ہی وہاں روانہ کر چکی تھی اور دراندازی کا سلسلہ شروع کر دیا تھا۔ نواز شریف حکومتی سربراہ کے طور پر اس فوجی آپریشن سے واقف تھے یا نہیں؟ اب اس کی کوئی اہمیت باقی نہیں رہ گئی ہے۔ لیکن اس حقیقت کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتاکہ انھیں آپریشن کی مکمل تفصیل بتائے بغیر کم از کم اس کے وسیع پس منظر کے بارے میں ضرور بریف کیا گیا ہوگا، اور ان کے پاس فوج کو متاثر کرنے کی کوئی طاقت موجود نہیں تھی، اس بات کو پوری طرح واضح کرتی ہے کہ سیاسی قیادت اپنی مضبوط انتخابی کامیابیوں کے باوجود ہندوستان کے ساتھ امن کو برقرار رکھنے کے اپنے وعدوں کو پورا نہیں کر پائے گی۔

            ممبئی کے دہشت گردانہ حملے کی شروعات سے ہی اس بات میں کوئی شک نہیں تھا کہ حملہ آور پاکستان سے آئے تھے اور وہ اس کے شہری ہیں اور اس پوری کارروائی کو لشکر طیبہ نے انجام دیا تھا۔ ایک لمبے وقت تک پاکستانی لیڈروں اور میڈیا کے ذریعے ان حقائق سے انکار نے ایک بار پھر پاکستانی حکومت اور اس کی مسلح افواج کی غیر سنجیدگی کو ثابت کردیا۔ پاکستانی فوج اور اس کی دہشت گردی ماہر انٹیلی جنس ایجنسی کو اس حادثہ کی خبر تھی یا نہیں، اس پر زیادہ بحث کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ سابق صدر اور آرمی چیف مشرف نے سی این این کے ساتھ 9 نومبر کو اپنے تازہ انٹرویو میں یہ قبول کیا تھا کہ آئی ایس آئی کا ہر دہشت گرد گروپ پر اثر و رسوخ ہے اور وہ ان تنظیموں کو متاثر بھی کرتی رہی ہے۔ یہ کوئی بڑا انکشاف نہیں ہے کیوں کہ اس بات کے کافی دستاویزی ثبوت موجود ہیں کہ ان تمام دہشت گرد تنظیموں کی تشکیل اسی ایجنسی نے کی ہے۔ اس عمل میں فوج کا بھی اتنا ہی رول رہا ہے جتنا کہ سیاسی قیادت کا کیوں کہ وہ ہندوستان سے 1971 میں مشرقی پاکستان میں ہوئی فوجی شکست کا بدلہ لینا چاہتے ہیں۔

ممبئی حملہ کو ایک سال پورا ہونے والا ہے اور اس کے قصورواروں کو قانون کے کٹگھرے تک لانے کے لیے پاکستانی حکومت نے اب تک کوئی سنجیدہ قدم نہیں اٹھا یا ہے۔ حالانکہ پاکستان کو کافی ثبوت دیے جاچکے ہیں لیکن پاکستانی لیڈران ہمیشہ سے یہ کہتے ہوئے انکار کرتے رہے ہیں کہ یہ ثبوت ناکافی ہیں۔ ماضی میں پاکستان کے ذریعے اس قسم کے دیگر معاملات میں جو کچھ کیا گیا اب بھی اسی کو دہرایا جارہا ہے، ان تمام پرانے معاملوں میں بھی ملزمین پاکستان میں چھپے ہوئے تھے اور ہندوستان کی جانب سے ثبوت دینے کے باوجود ان کے خلاف کوئی کارروائی شروع نہیں کی گئی۔ پاکستان ہمیشہ انکار ہی کرتا رہا ہے اور وہاں کی میڈیا اسے بار بار دہراتی رہی ہے تاکہ وہاں کے لوگ اس پر یقین کرلیں۔ یہاں یہ بات درست لگتی ہے کہ جب ایک جھوٹ کو ہزار بار دہرایا جائے تو وہ سچ بن جاتی ہے۔

            میرے خیال سے ایک دوسرا اہم موضوع ہے پاکستان میں کس سے بات کی جائے کیو ں کہ طاقت کے مختلف مراکز ایک دوسرے کے خلاف کام کر رہے ہیں اور ایک دوسرے کو کم تر دکھانے کی کوشش میں لگے ہوئے ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ صدر زرداری کو الگ تھلگ کردیا گیا ہے۔ پی پی پی کے بااثر لیڈر، وزیر اعظم گیلانی کھلے عام صدر زرداری کے فیصلوں کو ماننے سے انکار کر رہے ہیں اور ایسا محسوس ہوتا ہے کہ وہ پی ایم ایل (این) کے شریف برادران اور آرمی چیف جنرل کیانی کی ہی طرح اپنے پنجابی ہونے کا رعب و دبدبہ قائم کرنے میں لگے ہوئے ہیں۔ پاکستان میں جمہوری حکومتوں کو کبھی بھی استقامت حاصل نہیں ہوئی ہے کیوں کہ باہم حریف سیاسی لیڈروں کی آپسی لڑائی کی وجہ سے فوج کو حکومت پر قابض ہونے کا موقع بار بار ملا ہے۔ کسی بھی ملک کے ذریعے سنجیدہ مذاکرات کے عمل کو شروع کرنے کے لیے یہ نہایت ضروری ہے کہ پہلے یہ واضح کیا جائے کہ آخر طاقت کا اصلی مرکز کون ہے اور وہ اپنے ذریعے کیے گئے وعدوں کو کس حد تک پورا کرسکتا ہے۔

            وزیر اعظم گیلانی، وزیر خارجہ قریشی، وزیر داخلہ ملک اور فوج کے ترجمان بار بار یہ الزام لگا رہے ہیں کہ ہندوستان طالبان شر پسندوں کی حمایت کر رہا ہے۔ اتنے بڑے اور سرکردہ لیڈروں کی جانب سے اس قسم کے بے بنیاد الزامات مذاق او رہنسی کے علاوہ کچھ بھی نہیں ہیں۔ اگر حکومت کی یہ اعلیٰ قیادت ہی عوام کی ہمدردی حاصل کرنے کے لیے اس قسم کے بیہودہ الزامات لگائے گی اور موجودہ مسائل سے منہ چرائے گی تو پھر ہندوستان یا بین الاقوامی برادری انھیں کیسے ڈائیلاگ اور امن کے پارٹنرس کے طور پر قبول کرسکتی ہے۔ پاکستانی میڈیا میں ہوش مندی پر مبنی کئی غور کرنے والی آوازیں بھی ہیں جو بار بار کے ان بے بنیاد الزامات پر سوالیہ نشان بھی کھڑے کرتی رہی ہیں لیکن ان کی آوازوں کو ’سرکاری بریف‘ کے قلم کاروں کی بھیڑ میں دبا دیا جاتا ہے۔

            میں پور ے وثوق کے ساتھ ہر ہندوستانی، مسلم اور ہندو دونوں کی جانب سے یہ کہہ سکتا ہوں کہ ان میں سے کوئی بھی پاکستان کا کچھ برا ہوتے ہوئے نہیں دیکھنا چاہتا کیوں کہ اس کے استحکام میں ہی ان کا مفاد پوشیدہ ہے۔ ، وہ پاکستان کی دہشت گردی مخالف جنگ میں اس کے ساتھ ہمدردی رکھتے ہیں اور ملک کے مختلف حصوں میں روزانہ ہونے والے دہشت گردانہ حملوں کی سخت الفاظ میں مذمت کرتے ہیں۔ پاکستان کے عوام ایک طویل عرصے سے انہی باتوں پر یقین کرتے آئے ہیں جو وہاں کی سیاسی اور فوجی قیادت نے کہا ہے یا کیا ہے، لیکن اب وہ تمام معاملے کو اپنے ہاتھ میں لینا چاہتے ہیں اور یہ فیصلہ کرنا چاہتے ہیں کہ ان کے لیے کیا صحیح اور درست ہے۔ ہم، ہندوستانی اور پاکستانی، بغیر کسی شک و شبہ کے ایک ہی لوگ ہیں اور ہم ایک دوسرے کے ساتھ اچھے پڑوسی کے طور پر زندگی گزار سکتے ہیں، بشرطیکہ ہم اس بات کو لے کر سنجیدہ ہوں کہ ہم ایک دوسرے سے کیا کہہ رہے ہیں اور کیا کر رہے ہیں۔ پاکستان کے عوام جب تک اپنی فوج اور سیاسی قیادت کو اس بات کی اجازت دیتے رہیں گے کہ وہ ہندوستان میں خون خرابہ کرنے کے لیے دہشت گرد تنظیموں کی حمایت اور پشت پناہی کرتے رہیں، تب تک وہ اس بات کی امید نہیں کرسکتے کہ نئی دہلی پاکستان کے ساتھ بیٹھ کر ’کمپوزٹ ڈائیلاگ‘ کے عمل کو شروع کرے گا۔

About admin

Check Also

یہ دن دورنہیں

امریکہ نے پاکستان کی سرزمین پر پہلاڈرون حملہ ۱۸جون ۲۰۰۴ء کوکیا۔ یہ حملے قصر سفیدکے …

One comment

  1. Your article genuinely diagnoses the remedy “why the mass of India and Pakistan hates each other?” In this connection, you have aptly raised a big question on the role of present media particularly, Medias running under government. This is just b’az of the baseless propaganda of Pak media, the space for “Composite Dialogue” is still far from the reach though India is always ready for dialogue.
    I agree with your view that the composite dialogue is the only solution to the ongoing multi-faced issues between both countries including promotion of terrorism.
    Now the position of Pak is no longer a hidden phenomenon. It is very obvious across the glob. Mumbai attack and Kargil war are just a few examples.
    You are true in your conclusion that who is accountable and to whom we should approach for the solution of the present Indo-Pak crises in Pakistan. No one looks serious. It’s not a good sign for the fate of Pakistan.

    Imteyaz Waheed
    Research Scholar (JNU)New Delhi
    imteazjnu@aol.com

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *