Home / Socio-political / گناہ بے لذت

گناہ بے لذت

فاسق کمانڈوپرویزمشرف کے دورِ حکومت کے اندھیرے دورکرنے میں پچھلے چارسالوں سے جمہوریت کے چراغ بری طرح ناکام دکھائی دے رہے ہیں بلکہ یوں محسوس ہوتاہے کہ ان ظلمتوں کی بدروحیں ابھی تک پاکستان کاتعاقب کررہی ہیں۔ ایک مسئلہ ابھی ختم نہیں ہوتاکہ دوسرے مسائل منہ کھولے نگلنے کوتیاردکھائی دیتے ہیں۔قوم ایک عجیب ہیجان میں مبتلا ہے اورملک کی ترقی اب الٹے پاوٴں بگٹٹ بھاگ رہی ہے ۔قوم مہنگائی اورکرپشن کے مسائل میں اس قدرالجھ چکی ہے کہ اب وہ انتخابات کی بجائے کسی انقلاب کی منتظر ہے اوردوسری طرف جب سے قوم کی امنگوں کی ترجمانی کرتے ہوئے پاکستان کے عسکری اداروں نے کسی بھی وجہ سے ملکی سلامتی اورخودمختاری کے سوال پر امریکا کے سامنے گردن جھکانے کی پالیسی کوترک کرتے ہوئے انکار کی جرأت کی ہے ، امریکیوں اوراس کے ایجنٹوں نے سازشوں کا ایک طوفانِ کھڑاکررکھاہے اوران کی مسلسل کوشش ہے کہ عسکری اداروں کودوبارہ سر جھکانے پرمجبورکرکے خطے میں اپنی پالیسیوں پر عمل درآمدکیلئے آمادہ کیاجائے۔

شروع دن سے گاجراورچھڑی کے مسلسل استعمال کو امریکانے اپنے مفادات کے تحفظ اوردباوٴکیلئے بے دریغ استعمال کیا ۔ ”ڈومور“ کے مطالبے اورڈرون حملوں نے ملکی سلامتی کے پرخچے اڑانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی لیکن خصوصاًجب سے این آراوکے تحت درآمد حکومت پیپلزپارٹی کاترنگاایوان اقتدارپر لہرانا شروع ہواہے امریکی سازشوں میں یک گونہ تیزی کی کیفیت پیداہوگئی ہے اورشب و روز اندراورباہرسے کوششیں ہورہی ہیں کہ کسی نہ کسی طور پرمطلوبہ اہداف میں کامیابی حاصل کی جائے یاپھر عسکری اداروں کواتنامشتعل کردیا جائے کہ سیاسی حکومت کادھڑن تختہ کرکے وہ دوبارہ اقتدارپرقبضہ کرلیں جس کے بعدامریکا ساری دنیامیں پاکستانی افواج کے خلاف اپنے ہولناک پروگرام پر عملدرآمد کرسکے لیکن واقفانِ حال جانتے ہیں کہ اس مرتبہ افواج پاکستان یہ گناہ بے لذت اپنے سرپرلینے کیلئے قطعی طورپر آمادہ نہیں۔آئی ایس آئی کے سربراہ ۱۸مارچ ۲۰۱۲ء کواپنے عہدے سے ریٹائر ہورہے ہیں اور اس امرکاامکان بھی زیادہ ہے کہ اب آئندہ آنے والاآئی ایس آئی کاسربراہ بھی اپنے پیشروکی پالیسی پرعمل کرتے ہوئے کسی بھی ایسے دھوکے میں مبتلانہ ہوگا۔

یہی وجہ ہے کہ امریکا کھمبانوچنے کی پالیسی اختیار کرتے ہوئے ایک بارپھراسامہ کے خلاف کاروائی کامعاملہ اٹھاکرفوج پرالزام تراشی کی راہیں تلاش کر رہاہے۔دراصل امریکی یہ جان چکے ہیں کہ سلالہ چوکی پرحملہ ان کی شدیدغلطی تھی جس کے جواب میں پاکستان کے عسکری اداروں کے سخت موٴقف نے ان کوناک کی لکیریں نکالنے پرمجبورکردیاہے۔یہی وجہ ہے کہ پچھلے دنوں نیویارک ٹائمزنے انکشاف کیاہے کہ پاکستانی مطالبے پروائٹ ہاوٴس اور پینٹاگون عنقریب سرکاری طورپرمعافی مانگنے پرغورکررہے ہیں تاکہ پاکستان کونیٹوسپلائی دوبارہ بحال کرنے پر آمادہ کیاجاسکے لیکن پاکستانی عوام کی طرف سے بڑھتے ہوئے دباوٴ کے پیش نظر عسکری اداروں کیلئے بھی ایسا فیصلہ کرناازحدمشکل ہوگا۔یہی وجہ ہے کہ عسکری ادارے امریکاکے کسی مطالبے پرکوئی کان نہیں دھررہے لہنداقصرسفیداورپینٹاگون اب اسامہ کی موجودگی کا”کسی نہ کسی کوتوپتہ ہوگا“کاپتہ پھینک رہے ہیں۔

دراصل یہ وہی الفاظ ہیں جوہمارے وزیراعظم نے قومی اسمبلی میں کھڑے ہو کرکہے تھے ۔پاکستانی وزیراعظم اور امریکی وزیردفاع کی موٴقف میں یکسانیت بعض لوگوں کیلئے حیرت ناک اوربعض کیلئے شرمناک ثابت ہوئی ہے۔اب اچانک امریکاکے پیٹ میں پاکستانی ڈاکٹرشکیل آفریدی کی رہائی کے مروڑاٹھنے شروع ہوگئے ہیں اور ایک اطلاع کے مطابق اپنے اس ایجنٹ کا ڈاکٹر فائی کے تبادلے پرآمادہ دکھائی دیتا ہے مگرسوال یہ ہے کہ کہاں اپنی قوم کے مفادات سے غداری کامرتکب سکہ بندایجنٹ اورکہاں بین الاقوامی طور پر جائز آزادی کی پرامن جدوجہد کرنے والاایک سپاہی۔ یہی سبب ہے کہ عسکری ادارے اس پرقطعی آمادہ نہیں مگرحکومت کے کل پرزے جن میں وزارتِ داخلہ کے چندذمہ داران بھی شامل ہیں،امریکاسے گٹھ جوڑ کرتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں اوران کی شدید خواہش ہے کہ یہ ملبہ کسی نہ کسی طورپرفوج پرڈال دیا جائے یاکسی شخصیت کواس میں پھنسادیاجائے لیکن ابھی تک وہ اپنی اس مکروہ کوشش میں کامیاب نہیں ہو سکے

باخبرحلقوں کاکہناہے کہ وزیراعظم کی میموسکینڈل کے حوالے سے جنرل کیانی اورآئی ایس آئی کے سربراہ جنرل پاشاکے بارے میں زہرافشانی کے خلاف وضاحت کے باوجود کشیدگی نہ صرف قائم ہے بلکہ وقت کے ساتھ اس کی سنجیدگی میں دن بدن اضافہ ہوتاچلاجارہاہے ۔وزیراعظم کی اس وضاحت کے بعدملکی سیاسی تجزیہ نگاروں کا خیال تھاکہ حالیہ جنرل کیانی اورجنرل پاشاکی وزیراعظم کی ملاقات کے بعدخاصی حدتک برف پگھل چکی ہے اورصورتحال میں کافی بہتری آگئی ہے لیکن واقفانِ حال کااب بھی اصرارہے کہ طوفان کی شدت ابھی باقی ہے کہ یہ قومی سطح پرایک خواہش توہوسکتی ہے لیکن یہ بالکل سچ نہیں کیونکہ حکومت مفاہمت کی بجائے مزاحمت اور معاملے کوطول دینے پرتلی ہوئی ہے جبکہ عسکری قیادت ملکی مفادات کے تحفظ سے دستبردار ہونے کو تیار نہیں۔

حکومتی ذرائع کادعویٰ ہے کہ وزیراعظم کی مفاہمتی پالیسی کے بعدبرف مکمل طورپرپگھل چکی ہے تاہم وہ ابھی تک وزیراعظم اورعسکری قیادت کے مابین ہونے والی گفتگوبتانے سے گریزکررہے ہیں جب کہ پیپلزپارٹی راولپنڈی کے ایک ذمہ دارنے انکشاف کیاہے یہ ایک ناکام ملاقات تھی اور معاملات ابھی تک وہی اٹکے ہوئے ہیں اورمحض وزیراعطم ہاوٴس کے مکیں ملاقات کواستعمال کررہے ہیں تاکہ قوم کے سامنے وزیراعظم کوایک اچھا سیاستدان ثابت کرتے ہوئے یہ تاثرقائم کیاجاسکے کہ آرمی چیف کے ساتھ ایک ڈیل کے نتیجے میں وزیر اعظم کامیاب قرارپائے ہیں جبکہ دوسری طرف عسکری حلقوں نے کسی بھی ڈیل یاتعلقات میں بہتری سے انکارکیاہے کہ اس ملاقات میں صرف افغانستان کی موجودہ بدلتی صورتحال پر بات ہوئی ہے اوراس بات سے بھی آگاہ کیاگیاہے کہ نیٹوسپلائی پرفوج کی طرف سے کوئی ردعمل نہیں ہوگااورخالصتاً پارلیمنٹ کوہی فیصلہ کرناہوگا۔

حکومت اورعسکری اداروں کے مابین معاملات کی خبررکھنے والے ذرائع کادعویٰ ہے کہ حکومتی ذمہ داروں کاڈیل کی افواہیں پھیلانے کا مقصددراصل مزیدوقت حاصل کرناہے کیونکہ ان کی خواہش ہے کہ تمام معاملات کوڈی جی آئی ایسی آئی کی ریٹائرمنٹ تک طول دیاجائے جب کہ دوسری طرف یہ خواہش کارفرماہے کہ اس دورکے معاملات کواسی دورمیں سمیٹ لیاجائے اورآئندہ کیلئے کچھ باقی نہ رہے۔ذرائع کے مطابق حکومت کی معاملات کو لٹکانے کی خواہش اس کیلئے مشکلات بھی پیداکرسکتی ہے کیونکہ قوم سمجھتی ہے کہ دونوں جرنیل حکومت کے ساتھ تحمل کی پالیسی پرعمل پیراہیں جبکہ حکومت کارویہ توہین آمیزہے۔جوتحمل ان دونوں جرنیلوں کے سبب دکھائی دیتاہے وہ شائدان کے ساتھ ہی رخصت بھی ہو سکتا ہے۔موجودہ حالات میں حکومت کی جانب سے تاخیراوردیگرحلقوں کی جانب سے جلدفیصلے کی خواہش کے تناظرمیں خیال کیاجاتاہے کہ ۲۰فروری کے بعدمعاملات میں تیزی بھی آسکتی ہے اور زیر التوا امورحتمی رخ اختیارکرتے دکھائی دے سکتے ہیں اور اگر ان معاملات کوبروقت نہ سمیٹاگیا توشدید نقصان بھی ہوسکتاہے۔

دوسری جانب حکومتی ذرائع کادعویٰ ہے کہ میمو سکینڈل کاجوبھی فیصلہ ہوصدرپاکستان کے اشارے پرسب کوجاناپڑے گا۔اس حوالے سے حکومت نے کچھ ترپ کے پتے ابھی سنبھال رکھے ہیں جواپنے خلاف فیصلہ آنے کی صورت میں استعمال کئے جائیں گے۔ذرائع کے مطابق انہی ترپ کے پتوں کے سبب بعض طاقتورعناصرکی جانب سے سیکرٹری دفاع کوہٹانے پرکوئی ردعمل نہیں آسکااوراس معاملے کوٹھنڈاکرنے کی کوششیں جاری ہیں جبکہ غیر جانبدار مگر آگاہی رکھنے والے ایک اہم ذمہ دارکادعویٰ ہے کہ ایوان صدر میں کردار کشی کے حوالے سے کچھ مواد کی تیاری جاری ہے مگریہ معاملہ اب اتناخفیہ بھی نہیں کہ اسے اچانک استعمال کیاجاسکے یااس کے ذریعے آئندہ کوئی سیاسی جنگ جیتی جاسکے کیونکہ کرادر کشی کی ان ساری چالوں میں حقائق کاعنصربہت کم ہے البتہ میموسکینڈل میں سی آئی اے کی بڑھتی ہوئی مداخلت ضرورکسی حادثے کوجنم دے سکتی ہے۔انتہائی باخبرذریعے کادعویٰ ہے کہ منصوراعجازکے پاکستان نہ آنے کے فیصلے کاتعلق بھی سی آئی اے سے ہے اور حکومت اس سے پہلے ہی واقف تھی۔

بتایا جاتاہے کہ صدرکے دبئی کے دورے اوربیگم فرح حسین حقانی کے دورہٴ امریکااوربرطانیہ میں سی آئی اے سے باقاعدہ مددمانگی گئی جس کے جواب میں فوری طورپرسی آئی اے کے اعلیٰ عہدیداروں نے منصوراعجاز کوپہلے زیورچ اور بعدمیں دبئی میں دہمکی دیتے ہوئے میموسکینڈل سے لاتعلق ہونے کوکہا اور اس فیصلے کے بعدسی آئی اے کی جانب سے فوری طور پرنواز لیگ کے ساتھ پیغام رسانی میں نوازلیگ اور ان کے تمام دوستوں کوبتادیاہے کہ امریکامیمو سکینڈل میں اپناپوراوزن پاک فوج کے خلاف استعمال کرے گا۔ان دہمکیوں کے حوالے سے نہ صرف حکومت بلکہ امریکی سی آئی اے کے رابطے میں رہنے والے بعض میڈیاکے کرداربھی آگاہ تھے لیکن حکومتی ایجنڈے کوتقویت دینے کیلئے انہوں نے میمواسکینڈل کے بارے میں یہ کہناشروع کردیاکہ اب میموکے معاملے پرمک مکاوٴ ہوگیاہے اور نواز شریف انہی پیغامات کے سبب فوج کے ساتھ تعلقات کے حوالے سے منصوراعجازکے پیغامات کو نظر اندازکرنے پر سنجیدگی سے غورکررہے ہیں اوراعلیٰ سطح پر نواز لیگ کے حامی اس بات پرپریشان ہیں کہ ملکی سلامتی کے ذمہ داروں سے نوازلیگ کی ایک اور بدعہدی ان کے مستقبل پرکیااثرات مرتب کرے گی تاہم اس سلسلے میں ان سے رابطہ کرکے دعوے اور معاہدے کی پاسداری کیلئے قائل کیا جا رہا ہے۔

ابھی حال ہی میں اسلام آبادمیں امریکی سفیر کیمرون منٹربھی اپنی حکومت سے مشاورت کرنے کے بعدواپس ایک نئے محاذپربڑے سرگرم دکھائی دے رہے ہیں۔پارلیمنٹ میں بااثرگروپس اوران کی قیادتوں کوطویل ملاقاتوں میں سہانی پیشکشں کے خواب دکھانے میں مصروف ہیں اوران کی یہ ساری تگ ودونیٹوکی رسدکی بحالی اورنوازشریف کو میمو سکینڈل کی تحقیقات کے مطالبے سے دستبرداری سے مشروط ہے ۔ادھرنوازلیگ کے اہم ذرائع کا کہنا ہے کہ امریکیوں سے روابط میں اضافے کے بعد زردادی نے بھی اپنی سیاسی چالوں کو بروئے کار لاتے ہوئے مولانافضل الرحمان کے توسط سے نواز شریف کویقین دہانی کروائی ہے کہ ان کی خواہش پر قبل از وقت انتخابات کروائے جاسکتے ہیں لیکن شرط یہ ہے کہ وہ میمو کی رٹ پرزیادہ زورنہ دیں اوراپنے دوستوں سے علیحدگی اختیارکرلیں جبکہ مولانافضل الرحمان بھی ایوان صدرکوبیل آوٴٹ کروانے کی خاطرقبل ازوقت انتخابات کاجلدہی ایک منصوبہ قوم کو پیش کرتے دکھائی دے رہے ہیں جس کی مارکیٹنگ خود وزیراعظم کررہے ہیں کیونکہ صورتحال یہ ہے کہ حکومت کی باقی ماندہ مدت کیلئے سیاسی شہادت کی ذمہ داری نہ تو عدلیہ اورنہ عسکری ادارے اس گناہ بے لذت میں شریک ہونے کوتیارہیں ۔ یہ بصد مجبوری حکومت کواٹھانی ہے اوراس کے ساتھ ساتھ میمو سکینڈل جیسا غداری کامقدمہ اوررسوائے زمانہ این آراوبھی بھگتناہوگا۔

مگرسوال یہ ہے کیاامریکی اس حکومت کوآئندہ کیلئے تحفظ فراہم کرسکیں گے؟جواب فی الحال تومکمل نفی میں دکھائی دیتاہے!

About admin

Check Also

یہ دن دورنہیں

امریکہ نے پاکستان کی سرزمین پر پہلاڈرون حملہ ۱۸جون ۲۰۰۴ء کوکیا۔ یہ حملے قصر سفیدکے …

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *