گنج بخش فیض عالم مظہر نور خد ا
انعام الحق
یکم جولائی2010ءکو لاہورمےں ایک بار پھر خون کی ہولی کھےلی گئی۔اس دفعہ دہشت گردوں کا نشانہ دےنی تبلیغ کے لئے ہندوستان سے آنے والے اولین بزرگوں میں سے ایک حضرت علی ہجویری المعروف داتا گنج بخش کا مزاربنا۔بقول انتظامےہ کے سےکےورٹی سخت تھی مگرزخمی اور عینی شاہدین اس بات پر حیرانگی کا اظہارکررہے تھے کہ حملہ آور اتنی سخت سیکورٹی کے باوجود دربار کے اندر داخل ہونے میں کیسے کامیاب ہوگئے۔دربارکے اندرآنے والے ہر شخص کی چیکنگ ہوتی ہے اور تین تین مرتبہ تلاشی کے بعد اسے دربار میں داخل ہونے کی اجازت ملتی اےسی صورت حال میں حملہ آور کیسے اندر داخل ہوئے اور ان کوپکڑا کےوں نہےں گےا۔سی سی پی اولاہور کے مطابق ایک خود کش حملہ آور بھاگتا ہوا دربار میں داخل ہوا جس کوروکنے کی کوشش کی گئی اور لوگ اس کے پیچھے بھاگے۔ چندہی لمحوں کے بعددوسرا خودکش حملہ آور اسی گیٹ سے داخل ہو کر احاطے میں گیا جہاں اس نے اپنے آپ کو دھماکے سے اڑا لیا۔پہلے خودکش حملہ آور کوروکا بھی گیالیکن وہ بھاگتا ہوا داخل ہوا۔اس کو روکنے کے لئے رضاکارجوتلاشی لے رہے تھے وہ بھی اس کے پیچھے بھاگے جس کے بعد خودکش حملہ آور نے خود کو دھماکے سے اڑادیا۔مگر سوال ےہ ہے کہ کےسے ممکن ہے کہ اےک شخص تلاشی لےنے والوں کی لگی قطار مےں سے انتہائی رش کے باوجود بھاگ کر اندر آجائے اور کسی بھی پوائنٹ جہاں تلاشی ہورہی تھی وہ چےک نہ کےا گےا ہو۔کےا پنجاب حکومت ےہ بھول گئی تھی کہ اس سے پہلے بھی لاہور کے دو اہم ترےن مقامات پر عبادتگاہوں کو نشانہ بناےا گےا تھا۔پھر کےا داتا دربار کے باہر پولےس ےا اےلےٹ فورس موجود نہےں تھی؟اُن سب کی نظروں سے بچ کر دو خود کش حملہ آور بےگ اُٹھائے اندر کےسے آگئے اور تلاشی کے بغےر اندر داخل ہوئے اور سےکےورٹی اہلکار اُن کے پےچھے بھاگتے رہے مگر سےکےورٹی اہلکاروں سے دو پکڑے نہ گئے۔پنجاب حکومت جانتی تھی کہ جمعرات کے دن داتا دربار مےں کئی عقےدت مند آتے ہےں اور انتہائی رش ہوتا ہے پھر بھی قابل ذکر سےکےورٹی فراہم نہےں کی گئی۔کافی عرصہ سے شروع خود کش حملوں کی لہراب تک پاکستان کے لئے دردسربنی ہوئی ہے۔مگر ہمارے حکمران اجلاس بلانے کے علاوہ کوئی مناسب حل نکالنے ےا نئی اور جدےد ٹےکنالوجی ملک مےں لانا نہےں چاہتے۔خےرےہ پاکستان میں کسی بھی مزارپر کیا جانے والا سب سے جان لیوا حملہ تھااس سے پہلے طالبان بری امام کے مزار پر خودکش حملہ کرچکے ہیں جس میں تقریباً20افراد ہلاک ہوئے تھے۔اس کے علاوہ بھی طالبان کئی مزاروں پرحملوں کی ذمہ داری قبول کرچکے ہیں۔جن میں پشاور کے قریب واقع رحمن باباکا مزار،نوشہرہ میں واقع بہادرباباکا مزار،خیبرایجنسی میں امیرحمزہ خان شنواری کا مزار،حاجی صاحب تورنگزئی،سیدبابا اورملنگ بابا کے مزارشامل ہیں۔سوال یہ ہے کہ طالبان مزاروں اور درگاہوں پرحملہ کیوں کررہے ہیں؟طالبان تحریک اور القاعدہ اپنی سفاکی اور شدت پسندی کے لحاظ سے اسلام کے ابتدائی دور میں پیدا ہونے والے ”خوارج“ کے گروہ سے مماثلت رکھتی ہے۔خوارج کے نظر میں جوشخص بھی ان کے عقائد سے اختلاف رکھتا تھاوہ قابل گردن زنی ہوتاتھا۔اس گروہ کی وجہ سے عالم اسلام کو شدیدنقصان پہنچا۔ان کی شورش حضرت علی،بنوامیہ اور بنوعباس کے دورتک جاری رہی۔عباسی خلافت تک ان کا اثر رہا اور حکومت کے خلاف ان کی چھوٹی موٹی جنگیں جاری رہیں۔طالبان کامزاروں اور درگاہوں پر حملہ کرنے کی وجہ ان کے عقائد بھی ہیں۔بعض مبصرین کے نزدیک ان حملوں کے پیچھے ملک میں فرقہ وارانہ فسادات کروانے کی گہری سازش ہے۔دراصل طالبان کی اکثریت دیوبندی مکتبہ فقر پر یقین رکھتی ہے۔اس فرقہ کے علماءاور پیروحنفی عقیدہ کے ہیں لیکن دیوبندی کے نام سے جانے جاتے ہیں۔یہ دوسرے حنفی مکتبہ فقر کے مقابلے میں نہ صرف زیادہ توحید پرست ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں بلکہ اللہ جل شانہ کے سواکسی دوسرے سے مددمانگنے کے سخت خلاف ہیں۔ مقلدہیں لیکن بدعت سے بچتے ہیں۔صحابہ کرامؓاور امہات مومنین کی شان میں گستاخی کرنے والوں کازیادہ شدت سے محاسبہ کرتے ہیں۔دیوبندی اور بریلوی دونوں امام ابوحنیفہ کے پیروکارہیں لیکن ان کے آپس میں بھی اختلافات ہیں۔تاہم دیوبندی علماءطالبان کے پاکستان میں خودکش حملوں کی حمایت نہیں کرتے۔دارالعلوم دیوبند نے حال ہی میں دہشت گردی اور خودکش حملوں کے خلاف فتویٰ دیا ہے۔طالبان مزاروں پرلوگوں کی حاضری کوشرک کی ایک وجہ قراردیتے ہیںشاےد اسی وجہ سے مزارات ان کے نشانے پر ہیں۔اپنے سخت گیرعقائد کی وجہ سے طالبان کا پنجاب کی انتہاءپسندتنظیموں سپاہ صحابہ،جیش محمد اور لشکر جھنگوی سے اتحادہوچکا ہے۔جس کی وجہ سے اب پنجاب بھی خودکش حملوں کی زد میں ہے۔طالبان کی کاروائیوں کا پس منظر جو بھی ہویہ بات یقینی ہے کہ ان کوپاکستان کے دشمن ممالک کی خفیہ مدد حاصل ہے جوان کی مالی مددکررہے ہیں۔اس میں ہندوستان کی خفیہ ایجنسیوں کے نام بھی لیا جاتا ہے۔عالم اسلام کے نظریاتی مسائل ،تضادات،القاعدہ اور طالبان کا پس منظراوران کے سکول آف تھاٹ کو سمجھنے کے لئے کچھ عرصہ قبل شائع ہونے والی کتاب”تہذیبی نرگسیت“سے کافی مدد ملتی ہے۔جس کے مصنف پروفیسرمبارک حیدر ہیں۔القاعدہ کے قیام میں مصرکے دومشہورمذہبی دانشوراور سکالرز ”حسن البنائ“ اور”سیدقطب“ کی تحریروں کابہت عمل دخل ہے۔اکثرجہادی تنظیمیں خاص طور پر القاعدہ انہی کی تحریروں سے راہنمائی لیتی ہیں۔داتا دربار پر حملہ ملک میں فرقہ وارانہ کشیدگی کا سبب بن سکتا ہے۔اس سے پہلے احمدیوں کی عبادتگاہوں پر حملے ہوئے اور شیعہ مس] ]>