چوہدری غلام سرورگورنرپنجاب پر سوشل میڈیا میں تنقید کے جواب میںاوور سیزز پاکستانیز کنسورشیم کی ایگزیکٹو ڈائریکٹر ڈاکٹر زاہدہ ملک صاحبہ ڈاکٹر اسد اور کئی اور اوورسیزز پاکستانیوں کے پیغامات سوشل میڈیا فیس بک پر موصول ہوئے۔ انہوں نے اس بات کو اوورسیزز پاکستانیوں کے دل پر نشتر چلانے اور انکی حب الوطنی پر شک کرنے کو انتہائی غیر مناسب اقدام قرار دیا ۔ان کا کہنا تھا کہ چوہدری غلام سرور گورنر پنجاب کے بارے میں یہ ریمارکس دینا کہ وہ نریندر مودی جیسے ہیں سوچ کی پستی کی انتہااور اووسیزز پاکستانیوں کی توہین کے مترادف ہے۔ چوہدری غلام سرور کا ماضی سب کے سامنے ہے اور جس طرح انہوں نے حب الوطنی کے تقاضوں کو لبیک کہتے ہوئے غیر ملکی شہریت اور اعلی مناصب ترک کر کے وطن عزیز کی خدمت کیلئے قدم بڑھائے ۔یہ ان کی حب الوطنی اور عوامی درد شناسی کا آئینہ دار ہے۔
پاکستانی سیاست کے میدان میں دودھ کا دھلا کوئی بھی نہیں ۔اس حمام میں سب ہی ننگے ہیں۔ اگر اس طرح بات کی جائے تو سب کے کردار عیاں ہو کر سامنے آ جائیں گے۔ پاکستان میں اصولوں کی سیاست صرف بیانات تک ہوتی ہے۔ اصولوں کی حدودذاتیات تک محدود ہوتی اور اصول وضوابط مطلب برآوری یا پھر مخالفین کیلئے مشکلات کازینہ بنا ئے جاتے ہیں۔ بیانات بازی کو کردار کشی کی جس روایت کی بھینٹ چڑھایا جا رہا ہے اس سے کسی کی پگڑی سلامت نہیں۔ اس سے محب لوگوں کی دل شکنی ہوتی ہے اور وہ بددل ہو کر خدمت کے جذبے کو خیر آباد کہنے پر مجبور ہو تے ہیں ۔اس سے ان کا تو کوئی نقصان نہیں ہوتا لیکن پاکستانی معاشرے کے غریب اور استحصال زدہ عوام کو ایک اچھے راہنما سے محروم کرنے کی سازش کامیاب ہو جاتی ہے۔ جاگیردار سرمایہ دار اور مافیا کے نمائیندے جب دیکھتے ہیں کہ کوئی درد مندعوامی نمائیندگی کیلئے اگے بڑھنے کی کوشش کر رہا ہے تو وہ اس پر الزامات کی بوچھاڑ کر کے اس کی کردار کشی کی مہم چلاتے ہیں۔ اس سے عوام میں شکوک و شبہات کی فضا جنم لیتی اور اصل کردار گہنا کر آلودگی زدہ چہرہ سامنے لا یا جاتاہے۔ یہ موروثی سیاستدانوں کا طریقہ واردات ہے جس سے وہ کسی بھی عوامی درد سے آشنا کی راہ روکنے کے اسباب پیدا کر لیتے ہیں۔ اس سے اس شخص کی توجہ عوام سے ہٹ کر اپنے دفاع پر مبذول ہو جاتی ہے اور وہ اپنے مشن کو بھول کر اپنا آپ بچانے کی جدوجہد کرنے لگتا ہے۔
ڈاکٹر زاہدہ اور دیگر کا موقف تھا کہ مقامی پاکستانی سیاستدان اب اتنے آلودہ ہو چکے ہیں اور ان میں کرپشن اور بدعنوانی اقربا پروری اجارہ داری کے اتنے گھنائونے کردار سامنے آ چکے ہیں کہ وہ معاشرے کی خدمت کیلئے نااہل ہو چکے ہیں۔ ان سے اچھائی کی توقع اردو شاعری کے محبوب سے وفا کی طرف ناممکن سا امر ہے۔چھ دہایئوں پر مشتمل مقامی سیاستدانوں کے ادوارنے کون سی سیاسی سماجی معاشرتی روایات کی ترویج وتدوین کی ہے جنہیں ان کی معاشرے کے ساتھ اخلاص کی ضمانت قرار دیا جائے ۔ جھوٹ فریب اور وعدہ خلافیوں سے مزین وپر سیاسی ادوار کو معاشرتی ترقی کی بجائے اخلاقی ثقافتی قانونی آئینی بندھن ڈھیلا کرنے اسکی گرفت کو کمزور کرنے کا ذمہ دار قرار دینا مناسب ہوگا۔ مارشل لا کے ادوار آئین کی خلاف ورزی اور حدود سے تجاوز کے مجرم ہیں لیکن ان میں عوام پر جبر وستم اور استحصال واستبداد کے وہ حربے استعمال نہیں کیے گئے جو سیاسی اداور میں ہوتے رہے اور ہو رہے ہیں۔ عوا م کو ضروریات زندگی اور معاشرتی زندگی میں اس قدر تکالیف دہ صورتحال کا سامنا نہیں تھا۔ وہ عوامی نمائیندے نہ ہونے کے باوجود بھی عوام کیلئے فرعون وقارون نہیں بننے جتنا عوام کے اپنے ہاتھوں کے صنم انہیں زک پہنچارہے ہیں۔ بیانات کے میدان کے غازی کردار کی پستیوں میں ٹامک ٹوئیاں مارتے ہوئے خود کو بچانے کیلئے کنارے پر مدد کو آنے والے کو ہی ڈبونے کو اپنا بچائو قرار دے رہے ہیں۔ معاشرے میں ایک دوسرے کی ٹانگ کھینچنے کے طرزعمل نے ترقی کی راہ میں رکاوٹ ڈال رکھی ہے۔ اس سے معاشرتی ترقی کا پہیہ عوام کی بجائے خواص کی کامیابی کی ضمانت بن گیا۔اجارہ داریوں اور اقربا پروری سے میرٹ کی دھجیاں بکھیر دی گئیں ۔ نااہل کو اہل قرار دے کر مسند اور مسند کے حقدار کو زمانے کی ٹھوکروں پر چھوڑ دینا معاشرتی خدمت نہیں ۔
ملک میں تعلیم اور صحت وصنعت کا شدید فقدان ہے۔ یہ ایسے شعبہ جات ہیں جن کے معاشرتی اثرات کسی بھی معاشرے کی ترقی میں براہ راست کردار ادا کرتے ہیں۔ ملک میں تعلیم صحت اور صنعت کی ترقی کی راہ میں کون حائل ہے۔ ملک میں ترقی کے خواب کو تعبیر دینے میں سب سے اہم ترین عنصر اس وقت توانائی کے زرائع ہیں۔ ان پر نہ تو توجہ دی جارہی ہے نہ ہی ان کیلئے کوئی ہنگامی نوعیت کے اقدامات ہو رہے ہیں۔ جس ملک میں توانائی کاحصول ہی ممکن نہیں اس کیلئے دیگر ترقی کی بات خوابوں میں ملیں گے کے سوا کیا ہوگی۔ ڈیم کی بات کو سیاست کی نظر کر دیا گیا۔ دیگر کیلئے سرمایہ دستیاب نہیں۔ میں اب بھی یہ بات کہنے کیلئے تیار ہوں کہ آج کالا باغ ڈیم کے حصص فروخت کرکے اس کو نجی شعبے میں دینے کی بات کی جائے دیکھیں پھر سرمایہ کار کیسے اپنے خزانوں کے منہ کھولتے ہیں۔ انہیں اجارہ داریوں اور قبضہ اورعوام کو غلامی کی راہی خریدنے میں کوئی تامل نہیں ہوگا۔
یہ قوم شوکت عزیزوں اور معین قریشیوں کو تو سرآنکھوں پر بٹھا سکتی ہے لیکن جس کے دل میں ان کے لیے درد ہو اسے یہ ٹھوکروں پر رکھ لیتی ہے۔ یہاں سانپ تو پالے جاتے ہیں لیکن تریاق تیار کرنے والا محروم رکھا جاتا ہے۔ اس ملک وقوم کا المیہ یہی ہے کہ ہم نے اپنے آپ کو مفادات اور خواہشات کے اگے گروی رکھ چھوڑا یا بیچ دیا ہے۔ ہماری چھوٹی چھوٹی خواہشات اور ضروریات ملکی قومی مفادات اور اجتماعی ضروریات کو روند کر معاشرے میں گھٹن پیدا کرچکی ہیں۔ تھانہ کچہری لائسنس اور داخلے اور پروٹوکول جیسے ضمنی معاملات کیلئے ہم قومی مفادات کو بھی پس پشت ڈال رکھا ہے۔
ہمارے رویے اپنے حق میں بدترین نتائج کے حامل اور روایتی اور موروثی سیاستدانوں کے حق میں کامیاب تعین نتائج دے رہے ہیں۔ ہم اپنے ہاتھوں سے اپنے پائوں اور سرکاٹ کر سیاستدانوں کے محتاج بن چکے ہیں۔ ایک دفعہ کا آزمایہ دوسری دفعہ بھی کیسے منتخب اور کیوں منتخب ہوتا ہے۔ جس کے ہاتھوں ہم دودفعہ ڈسے جا چکے وہ تیسری دفعہ بھی ہمارے سر پر کیسے مسلط ہوا ۔ ہم نے خود اپنے آپ کو رہن کررکھا ہے ۔ ہم اپنے ہاتھوں اپنے لیے ترقی کے دروازے اور خوشی کے دریچے بند کررکھے ہیں۔ ہمیں ان موروثی سیاستدانوں پر اعتماد ہے تو پھر چوہدری سرور پر کیوں نہیں۔ حالانکہ ان کی پروفائل میں تو کشمیر ایشو اور اوورسیزز پاکستانیوں کے حقوق اور برطانیہ میں مسلم کمیونٹی کے حوالے سے کئی کارنامے درج ہیں۔ وہ سب کچھ چھوڑ کر پاکستان کی خدمت کا جذبہ لے کر آئے ہیں ۔ سیاسی مداریوں کی ڈگڈی سے سانپ نکلنے کے منتظر وقت اور سرمایہ کے ضیاع کے سوا کچھ نہیں چاہتے ۔میڈیا کو ایسے عناصر کی بجائے محب الوطن افراد کی کوریج کو ترجیح دینی چاہیے۔ ہر صاحب کردار بد کردار نہیں ہوتا اور ہر کردار صیح کردار نہیں ہوتا ۔ اب ہمیں آنکھیں کھول لینی چاہیںکہ تباہی کا گڑھا دور نہیں۔