Home / Socio-political / ہمارے حکمرانوں کے اعصاب پر اسرائیل ہے سوار

ہمارے حکمرانوں کے اعصاب پر اسرائیل ہے سوار

ہمارے حکمرانوں کے اعصاب پر اسرائیل ہے سوار

                                                                   ابرار احمد اجراوی، جے این یو، نئی دہلی

مختلف ممالک و اقوام کے مابین تعلقات اور قربت کوئی قابل اعتراض بات نہیں۔ بقائے باہم کے اصول کی پیروی کرکے اور خوش گواربرادارانہ فضامیں ہی کوئی ملک ہمہ جہت ترقی کی لیلائے مقصود کو پاسکتا ہے۔ لیکن اگر دو ممالک کے مابین یہ تعلقات دوسرے فریق ملک کے ساتھ سیاسی رقابت اور اس ملک کے مخصوص طبقے کے ساتھ مذہبی یا ثقافتی بغض و عناد کی بنیاد پراستوار ہوں ، تو کسی بھی طرح اس کی حمایت یا ستائش نہیں کی جاسکتی، بلکہ دو حلیف ممالک کے درمیان اس قسم کی رقابت آمیز سیاسی دوستی کو چینج اور چیلنج کرنا ضروری ہوجاتا ہے۔ کسی ملک کے لیے دوسرے ملک کے داخلی امور میں مداخلت اس ملک کے حق خود ارادیت اور اس کی خود مختاری کو چیلنج کرنے کے مترادف ہے جس سے اقوام متحدہ کے منشور میں بھی سختی سے منع کیا گیا ہے۔چین کا ہندستانی سر زمین پر در اندازی کا موجودہ عمل، یا سرحد پار سے ہندستانی افواج کے خلاف پاکستان کی غیر منصفانہ جنگی کارروائی دونوں غیر ملکی مداخلت کے زمرے میں آتے ہیں۔

کسی ملک کے اندرونی معاملات میں مداخلت کبھی راست طور پر ہوتی ہے اور کبھی بالواسطہ۔ جن ممالک کی سرحدیں با ہم ملی ہوئی ہیں، وہاں تو راست مداخلت کی مثالیں ہر وقت سامنے آتی رہتی ہیں، مگر جن ممالک کی سرحدوں کا کوئی نقطۂ اتصال نہیں ہوتا، ایسی صورت میں کسی ملک کے مقننہ اور انتظامیہ میں مداخلت اور اپنے اثر و رسوخ کو راہ دینے کی دوسری شکلیں ہیں۔ ظاہر سی بات ہے کہ اسرائیل کی سرحدیں ہم سے نہیں ملتیں ، اس لیے اس کی طرف سے ہندستان کے ساتھ کوئی سرحدی مداخلت، سیاسی تنازع اور کسی قدر طاقت کے توازن کی وجہ سے فوج کشی کا امکان تو نا پید ہے، لیکن ہندستانی پالیسی اور یہاں کی انتظامیہ پر اثر انداز ہونے کے لیے اتنی دوری تو کیا، سات سمندر پار کی دوری بھی عبور کی جاسکتی ہے۔ اسرائیل کبھی خفیہ تو کبھی علانیہ ہندستانی معاملات میں دخل درمعقولات کے عالمی جرم کا ارتکاب کرتا رہا ہے اور ہم ہیں کہ اس ذلت کے ٹوکرے کو بخوشی اپنے سر پر اٹھاتے پھرتے رہے ہیں، ہندستان نے عالمی ایٹمی ایجنسی میں ایران جیسے دیرینہ دوست اور تہذیبی وثقافتی اعتبار سے کافی حد تک قریب ملک کے خلاف ووٹ دیا، اس نے، اقتصادی اعتبار سے ایران کی کمر توڑنے کے لیے دوسری عالمی طاقتوں کے دباؤ میں آکر ، ایرانی گیس ڈیل پر مبنی امور کو مسترد کردیا، فلسطینیوں کے حوالے سے،ہندستان نے ہمت مردانہ اور جرأت رندانہ کا مظاہرہ کرتے ہوئے کبھی بھی اپنے دوستانہ موقف کا اظہار نہیں کیا،تو یہ سب کچھ اس لیے کہ ہمارے ملک کے حکمرانوں کے اعصاب پر اسرائیل نام کا بھوت اس طرح سوار ہے کہ ہم اپنے دوستوں اور پڑوسیوں کے تعلق سے بھی کوئی حتمی فیصلہ کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہیں۔  اگر ذرائع پر یقین کریں تو ملک کی اکثریت کی مخالفت کے باوجود جمہوریت کے مندر ہندستانی پارلیمنٹ میںامریکہ کے ساتھ جو نیو کلیائی معاہدہ ہواتھا، اس سے بھی اسرائیلی مداخلت کی بو آتی ہے۔اسرائیلی وزرائے اعظم نے ہندستان کو دوسرے ملک کے معاملات میں مداخلت کے لیے بھی آلۂ کار کے طور پر استعمال کیا ہے۔ خود اسرائیل کے پہلے وزیر اعظم بن کوریان نے عرب اسرائیل جنگ کے بعد پیرس میں منعقدہ کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا:’’بھارت پاکستان کا ہمسایہ ہے جس کی ہندو آبادی پاکستان کے مسلمانوں کی ازلی دشمن ہے ۔۔۔بھارت کے ہندو کی اس مسلم دشمنی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ہمیں بھارت کو استعمال کرکے پاکستان کے خلاف کام کرنا چاہیے۔‘‘(بحوالہ جیوش کرانیکل ۱۹؍ اگست ۱۹۶۷ء)

آحر ہمارے حکمراں کیوں اسرائیل کی اس قدر ناز برداری اور اس کی جی حضوری پر مجبور ہیں؟ اور وہ کیوں اسرائیل کی دوستی میں اپنے اندرونی معاملات میں بھی کوئی فیصلہ کن موقف اختیار کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہیں، اس حقیقت سے کما حقہ واقفیت حاصل کرنے کے لیے ہمیں ہند-اسرائیل تعلقات کی تاریخ پر ایک نظر ڈالنی ہوگی۔ ہندستان کے اسرئیل کے ساتھ سرسری تعلقات کو قریبی رشتوں میں بدلنے میں راجیو گاندھی کا کلیدی رول رہا ہے۔ ان کے عہد حکومت میں اسرائیل اور ہندستان کے ما بین تعلقات کا جو بیج ڈالا گیا تھا، اس کو قومی جمہوری محاذ(این ڈی اے) کے زمانے میں اتنی غذا پہنچائی گئی کہ وہ بہت جلد ایک تناور درخت کی شکل اختیار کرگیا ۔ بی جے پی کے کئی کابینی وزرا اور سرکردہ رہ نماؤوں نے اسرائیل کے تابڑتوڑ دورے کیے اور تعلقات کے محل کو مضبوط کرنے میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کیا گیا۔ اس کے بعدکانگریس کی قیادت میں یوپی اے سرکار نے بھی ان تعلقات کی آبرو بچائے رکھی ہے ۔ اس وقت بھی کانگریس کی اعلی قیادت میں بہت سے اسرائیل نواز رہنماموجود ہیں۔ ان کی اسرائیل نوازی میں غلو کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ جب ایٹمی ایجنسی میں ہمارے وزیر اعظم نے ایران کے خلاف ووٹ دیا ، جس پر ہندستان کے بیش ترحقیقت پسند حلقوں نے ناراضگی ظاہر کی تھی، تو اس پر تبصرہ کرتے ہوئے پارلیمانی امور کے موجودہ وزیر مملکت راجیو شکلا نے اسرائیل نواز اور عالم اسلام مخالف بیان ٹائمز آف انڈیا میں دیا تھا، جس میں انھوں نے بڑی ڈھٹائی کے ساتھ کہا تھا کہ ہندستان کو ایران یا عالم اسلام سے کوئی فائدہ نہیں ہے۔ آغاز جنوری۲۰۱۲ء میں کانگریسی وزیر خارجہ ایس ایم کرشنا اپنے پہلے اسرائیلی دورے پر گئے تھے، (۲۰۰۰ء میں بی جے پی کے اس وقت کے وزیر خارجہ جسونت سنگھ کے بعد کسی ہندستانی وزیر خارجہ کااپنی نوعیت کا یہ پہلا دورہ بھی تھا)وہاں انھوں نے اسرائیل کے ساتھ دفاعی تعلقات کو مزید وسعت دیتے ہوئے ۱۰؍بلین ڈالر تک پہنچا دیا تھا۔ جس پر ماہرین اور تجزیہ کاروں نے اسرائیل اور ہندستان کے درمیان روز افزوں تعلقات اور نزدیکی پر اپنے خدشات کا اظہار بھی کیا تھا اور اس کو ہندستان جیسے کثیر قومی ملک کے لیے نیک شگون سے تعبیر نہیں کیا تھا۔ اس دورے کی سب سے خاص بات یہ تھی کہ جہاں دفاع، داخلی سلامتی اور سیاسی شراکت کے کئی اہم معاملات پر مبنی معاہدوں پر دست خط ہوئے، وہیں اسرائیل نے ایک اور کامیابی یہ حاصل کی کہ ہندستان کے آئی ٹی ہب مشہور صنعتی شہر بنگلور میں اسرائیلی سفارت خانہ قائم کرنے کی اجازت بھی حاصل کرلی۔ اس دورے میں دونوں ممالک ایک دوسرے کے کتنے قریب آگئے اوراندرونی و ملکی سیکورٹی کے معاملات میں شراکت پر کتنے دور رس اور نتیجہ خیز معاہدے ہوئے کہ اسرائیل کے پروجیکٹ انڈیا پروگرام کے ڈائریکٹر مارک سلومان نے خبر ساؤتھ ایشیا کے نمائندے سے بات کرتے ہوئے یہ کہا:’’دونوں ممالک کو انتہا پسند عناصر سے مستقل خطرہ درپیش ہے اور جب دونوں ممالک کے مابین تعلقات کا آغاز ہوا تھا تو دفاع اور ملکی سلامتی کے معاملات ان کے تعلقات کی اہم بنیاد ثابت ہوئے تھے۔‘‘

اگر مارک سلومان کی باتوں پر یقین کرلیا جائے اور یقین نہ کرنے کی کوئی معقول وجہ بھی نہیں، تو یہ بہت دور رس اثرات کا حامل بیان ہے۔ ملکی سلامتی کے معاملات میں کسی ملک کے ساتھ شراکت کا مطلب اس کے سوا اور کیا ہوسکتا ہے کہ اس شریک کارملک کو اپنے ملک میں مداخلت اور دخل در معقولات کی کھلی چھوٹ دے دی جائے۔ یوں بھی اسرائیل اور یہودیوں کی سرشت اور ان کے طرز حکومت سے ہر باشعور شخص واقف ہے کہ یہ قوم اتنی مکار ،دسیسہ کار، فریبی اور مطلب پرست ہے کہ دوسرے اقوام و ممالک کو باہم دست و گریباں کرکے اپنے مفادات کی روٹی سینکنا چاہتی ہے۔یہ لوگ تاجر،صنعت کار، دانش ور اور سائنس داں کے روپ میں بھی ہر جگہ پہنچ کر اپنے منصوبوں کو پایۂ تکمیل تک پہنچاتے ہیں۔ نازیوں نے جرمنی میں یہودیوں کو بلا وجہ تہ تیغ نہیں کیا تھا۔اسرائیل کی خفیہ تنظیم موساد کا تو مفوضہ کام ہی یہ ہے کہ وہ دوسرے ممالک کی خفیہ انجنسیوں سے اتحاد کرکے اپنے مخالفین کو کیفر کردار تک پہنچائے۔ کثرت میں وحدت کے تصور پر یقین رکھنے والے ہندستان میں بھی اسرائیل نام کی نا آشنائے انسانیت نا جائزریاست کے مخالفین کی کمی نہیں ہے۔ کیا معلوم کہ اسرائیل اپنی مختلف رفاہی تنظیموں کے توسط سے وطن عزیز ہندستان کے اندرونی معاملات میں مداخلت کے عمل کو بروئے کار لانے میںمصروف عمل ہو۔ اور اس کا انکشاف بھی کئی بار ہوچکا ہے۔ لکھنؤ کے مشہور شیعہ عالم دین مولانا سید کلب جواد نے بھی اپنے جمعہ کے خطبے میں اس امر کا انکشاف کیا تھا کہ لکھنئو میں فری میسن(Free Mason) نام کی ایک یہودی سوسائٹی کام کر رہی ہے،جس کے ارکان اسلام اور مسلمانوں کے خلاف مہم چلا رہے ہیں۔

اسرائیل نے ڈھکے چھپے طور پر ، اپنے کارندے اور مخصوص ذہنیت کے حامل افراد کی آڑ میں،ہماری انتظامیہ میں بھی اپنی گرفت مضبوط کرلی ہے۔ ہندستان میں کئی دہشت گردانہ حملوں اور فرقہ وارانہ فسادات میں اسرائیل کا چہرہ بے نقاب ہوچکا ہے ۔گجرات کے بد نازمانہ مسلم کش فساد  میں بھی اسرائیل سے اسپانسر شدہ طریقوں سے کام لینے کا کئی بار انکشاف کیا جاچکا ہے ۔ یہودی دہشت گردانہ حملہ کراکے ایک مخصوص فرقے کے خلاف دشمنی اور نفرت کی آگ کو ہوا دے رہے ہیں۔ریاست راجستھان میں گزشتہ مہینوں میں جتنے فسادات ہوئے ، ان میں بھی اسرائیل کا ہاتھ ہونے کا شبہ ہے۔ ۳۰؍ اپریل ۲۰۱۳ء کو قومی تنظیم میں شائع ایک خبر کے مطابق حال ہی میں سانگیرمیں بھڑکنے والے والے فسادات میں ایک مسلمان کی فیکٹری کو نذر آتش کرنے کے لیے جس مادہ کااستعمال کیا گیا تھا، وہ عام طور پر اسرائیل استعمال کرتا ہے۔خبر کے مطابق جب بھی اسرائیل کا کوئی وفد یہاں آیا ہے، یا ہندستان کا کوئی اعلی سطحی وفد اسرائیل کا دورہ کرکے لوٹا ہے، بڑے پیمانے پر فسادات رونما ہوئے ہیں۔ چناں چہ جنوری ۲۰۱۲ء میں اسرائیل سے ایک وفد کے لوٹنے کے بعد صرف ۱۲؍ ماہ کے اندر ۳۰؍ فسادات ہوئے۔ ۸؍ مارچ ۲۰۱۲ء کو اسرائیلی سفیر کے جے پور آنے کے فورا بعد صرف ۱۳؍ دنوں میں سات فسادات ہوئے۔ دوسرے ممالک میں فسادات کی آگ بھڑکانا یہود بے بہبود کا پرانا آزمائشی طریقہ ہے۔ جس کا اعتراف خود یہودیوں نے اس ۲۴؍نکاتی تجویز میں کیا ہے، جو ۱۸۹۶ء میں سوئزر لینڈ کے شہر بال میں خفیہ طریقے سے منظور کی گئی تھی،ساتویں تجویز میں یہ درج ہے:’’ہمیں پولس کے ذریعے یورپ میں اور یورپ کی وساطت سے دوسرے بر اعظموں میں بھی فسادات، انتشار اور جنگ و جدل کی آگ بھڑکانی ہے، اس سے ہمیں دوہرا فائدہ ہوگا۔‘‘(وثائق یہودیت، ص:۱۳۱، مترجم یحیی خان) یہودیوں کو اپنی اس خوئے بد پر کوئی شرمندگی بھی نہیں ہے، چناں چہ تجویز ۹؍ میں یہ اعتراف کرتے ہیں:’’ ہم تسلیم کرتے ہیں کہ آج ہر طرف جو دہشت گردی اور بربریت پھیلی ہوئی ہے اس کا سر چشمہ ہم ہی ہیں۔‘‘(ایضا، ص:۱۳۶)سال بھر پہلے اسرائیلی سفارت کار کی گاڑی پر حملے میں ہندستانی صحافی احمد کاظمی کی گرفتاری کو بھی اسی تناظر میں دیکھا جانا چاہیے کہ ایک مخصوص ذہنیت کے حامل افراد کے اشارے پر انھیں دہشت گردی کے الزام میں حراست میں رکھا گیا۔ حالاں کہ واقعات و شواہد اس طرف اشارہ کر رہے تھے کہ اس حملے میں جو مادہ (اسٹیکر بم) استعمال کیا گیا تھا، وہ برطانیہ کا ایجاد کردہ ہے اور اس کا استعمال اسرائیل کی خفیہ تنظیم موساد، حزب اللہ کے رہ نماؤوں کو راستے سے ہٹانے کے لیے کرتی ہے۔کیا یہ گرفتاری ہندستان کے اندرونی معاملات میں مداخلت کے مرادف نہیں؟ یہ سب کچھ اسرائیل کی خفیہ تنظیم موساد کی نگرانی میں ہورہا ہے، جس کے کارندے ہندستان کے گوشے گوشے میں موجود ہیں اور دہشت گردی کے خلاف ہندستانی سیکورٹی کو تربیت دے رہے ہیں۔ (اسلام ٹائمز، انٹرویو، اصغر انصاری)

ہمیں اپنے ملک کی سالمیت و اتحاد کو پارہ پارہ کرنے کے حوالے سے اسرائیل کے خفیہ عزائم کی تہ میں جاکرمستحلم لائحہ عمل طے کرنا ہوگا، اگر پڑوسی ملک پاکستان افضل گرو کی پھانسی کے معاملے پر پارلیمنٹ میں مذمتی قررا داد پاس کردے تو ہم اس پر چراغ پا ہوجاتے ہیں، لیکن ہم اسرائیل کی اپنے حساس اندرونی معاملات میں مداخلت اور ملک کے گوشۂ و کنار میں اس کی دندناہٹ کو شہد کے گھونٹ کی طرح حلق سے نیچے اتار لیتے ہیں۔ہمارے ملک میں اسرائیلی مداخلت کی بنیادی وجہ ہماری غلامانہ دہنیت ہے۔ ہم آزادی کے ۶۷؍ سال بعد بھی عالمی طاقتوں کے دست نگر بنے ہوئے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ ہم اپنے اندرونی معاملات کے کامیاب تصفیے میں بھی دوسری طاقتوں کی طرف دست احتیاج دراز کرنے میں کوئی شرم وعار محسوس نہیں کرتے۔ ہماری قوت فکر و عمل فنا ہوچکی ہے، اسی لیے عالمی سطح پر ہمارا کوئی سیاسی وزن نہیں رہ گیا ہے۔ یہ سب کچھ ہمارے باہمی اختلاف،سیاسی پارٹیوں کی رسہ کشی، طبقاتی کش مکش اور رنگ و نسل کی بنیاد پر بنائی گئی خلیجوں کی دین ہے، ہم خودی اور عزت نفس کے جوہر سے محروم ہوگئے ہیں۔ اگر ہماری خودی بیدار ہوجائے تو اسرائیل تو کجا، عالمی طاقتوں کو بھی ہمارے اندرونی معاملات میں مداخلت اور ہماری زمین پر شر انگیزی کا یارا نہ ہو۔ ہمیں مارٹن لوتھر کے ان الفاظ کی صداقت پر ایمان لانا چاہیے، جو انھوں نے آج سے ۵۰۰؍ سال قبل یہودیوں کی سرشت سے مجبور ہوکر کہے تھے اور جو یورپ میں صدیوں گونجتے رہے تھے کہ:’’میں ہر خدا ترس عیسائی سے اپیل کرتا ہوں کہ وہ انھیں(یہودیوں کو) ہانک کر اپنے وطن سے باہر نکال دے تاکہ ہماری ارض مقدس ان کے وجود سے پاک ہوجائے۔‘‘

ABRAR AHMAD

ROOM NO. 21, LOHIT HOSTEL

JNU NEW DELHI 110067

MOB:9910509702

EMAIL:abrarahmadijravi@gmail.com

About admin

Check Also

یہ دن دورنہیں

امریکہ نے پاکستان کی سرزمین پر پہلاڈرون حملہ ۱۸جون ۲۰۰۴ء کوکیا۔ یہ حملے قصر سفیدکے …

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *