لفظ بھی بچوں کی طرح ہوتے ہیں،معصوم اور بھولے بھالے بچوں کی طرح ،بہت محبت کرنے والے، لاڈو پیار کرنے والے، ناز و ادا والے، تنگ کرنے والے، روٹھ جانے والے اور پھر بہت مشکل سے ماننے والے یا ہمیشہ کے لیے منہ موڑ لینے والے۔ کبھی تو معصوم بچوں کی طرح آپ کی گود میں بیٹھ جائیں گے پھر آپ ان کے بالوں سے کھیلیں، ان کے گال تھپتھپائیں تو وہ کلکاریاں مارتے ہیں، انہیں چومیں چاٹیں بہت خوش ہوتے ہیں وہ۔ آپ ان سے کسی کام کا کہیں تو وہ آمادہ ہوجاتے ہیں۔ محبت فاتح عالم جو ہے۔ کبھی تنگ کرنے پر آجائیں تو ان کا رنگ انوکھا ہوجاتا ہے۔ آپ ان کے پیچھے دوڑ دوڑ کر تھک جاتے ہیں لیکن وہ ہاتھ نہیں آتے کہیں دم سادھے چھپ کر بیٹھ جاتے ہیں اور آپ انہیں تلاش کرتے رہتے ہیں۔ آپ ہلکان ہوں تو ہوجائیں وہ آپ کو تنگ کرنے پر اترے ہوتے ہیں اور جب آپ کی ہمت جواب دے جاتی ہے تو وہ دیکھو میں آگیا کہہ کر آپ کے سامنے کھڑے مسکرانے لگتے ہیں۔
بچوں کی طرح لفظوں کے بھی بہت ناز نخرے اٹھانے پڑتے ہیں اور اگر اللہ نہ کرے وہ روٹھ جائیں اور آپ انہیں منانے کی کوشش بھی نہ کریں تب تو قیامت آجاتی ہے۔ ایک دم سناٹا ،تنہائی اداسی، بے کلی آپ میں رچ بس جاتی ہے، آپ خود سے بھی روٹھ جاتے ہیں۔ ہاں ایسا ہی ہوتا ہے۔ آپ کا تو میں نہیں جانتا، میرے ساتھ تو ایسا ہی ہے۔ میں کئی ہفتوں سے اسی حالت میں ہوں۔ کچھ سجھائی نہیں دیتا ،بے معنی لگتی ہے زندگی ،دوبھر ہوگیا ہے جینا․․․․․․․․․لیکن پھر وہی جبر کہ بڑا مشکل ہے جینا ،جئے جاتے ہیں پھر بھی۔ وہ رات بھی عجیب سی تھی۔ بے کلی کم ہونے کانام نہیں لیتی تھی اوربالآخرصبح ہوئی توایمبولنس کوبلاناپڑگیااوراب کئی ہفتوں سے ہسپتال کے چکرلگ رہے ہیں۔تھوڑی دیرکیلئے ای میل دیکھنے کی کوشش کرتاہوں توان گنت، ہزاروں دعاگومحبتوں کے پھول سجائے میرااس طرح استقبال کرتے ہیں کہ اپنے کریم ورحیم رب کے کرم ورحم کی بارش میں مکمل طورپربھیگ جاتاہوں اور خودمیں دوبارہ اتنی قوت محسوس کرتاہوں کہ اپنے اردگردکی بھی خبرلے سکوں۔
وطنِ عزیزکی طرف نگاہ اٹھتی ہے تودل میں ایک کسک سی پیداہوجاتی ہے کہ آخرہم کہاں جارہے ہیں؟پھرسوچتاہوں کوئی بھی ہو․․․․․․․جب طاقت ہو اس کے پاس ،،ہتھیاربند جتھہ ہو ،حکم بجا لانے والے خدام ہوں، راگ رنگ کی محفلیں ہوں، جام ہوں، عشوہ طرازی ہو، دل لبھانے کا سامان ہو، واہ جی واہ جی کرنے والے خوشامدی اور بغل بچے ہوں․․․․․․․․․․․․․تو اس کے دیدے شرم وحیا سے عاری ہوجاتے ہیں۔ شرم وحیا کا اس سے کیا لینا دینا!چڑھتا سورج اور اس کے پوجنے والے بے شرم پجاری جن میں عزت ِنفس نام کو بھی نہیں ہوتی۔ بس چلتے پھرتے روبوٹ.․․․․․․․․تب طاقت کا نشہ سر چڑھ کر بولتا ہے۔سپریم کورٹ جن افرادکوملکی دولت لوٹنے کامجرم ٹھہراتی ہے،انہی کوبلاکرمرکزمیں وزارت عطاکردی جاتی ہے کہ کرلوجوکچھ کرناہے ہم تودھڑلے سے ایسے ہی بے شرمی کامظاہرہ کرتے رہیں گے۔
لیکن مجھے آج ان کے برعکس کرداروں کاذکرکرناہے کہ جن کاذکرآنکھوں کی ٹھنڈک ،دلوں کاسکون اوراطمینان وفرحت بخش ہے۔ہاں کوئی بھی ہو، کہیں بھی ہو، انکار سننا تو اس کی لغت میں ہی نہیں ہوتا۔ انکارکیا ہوتا ہے وہ جانتا ہی نہیں ہے۔ لیکن ہوتا یہی آیا ہے، ہوتا یہی رہے گا۔ منکر پیدا ہوتے رہتے ہیں۔ نہیں مانتے کا نعرہ ٴمستانہ گونجتا رہتا ہے، تازیانے برستے رہتے ہیں، کھال کھنچتی رہتی ہے، خون بہتا رہتا ہے لیکن عجیب سی بات ہے ،جتنی زیادہ شدت سے نہیں مانتے کی آواز کو دبانے کی کوشش کی جاتی ہے ،ہر جتن ہر حربہ اپنایا جاتاہے، وہ آواز اسی شدت سے گونجنے لگتی ہے چاروں طرف۔ نہیں مانتے کا رقص ․․․․․․․رقص ہی نہیں رقصِ بسمل، نہیں مانتے نہیں مانتے کا نغمہ اور گھومتا ہوا رقاص۔
کیا بات ہے جی ،کھولتے ہوئے تیل کے اندر ڈالا جاتا ہے، تپتے صحرا میں لٹاکر، سینے پر پہاڑ جیسی سلیں رکھی جاتی ہیں ،برفانی تودوں میں کودجاتے ہیں لیکن نعرہٴ مستانہ بلند ہوتا رہتا ہے۔ رقص تھمتا ہی نہیں اور یہ توحیدکارقص، جنوں تھمے گا بھی نہیں۔ زمین کی گردش کوکون روک سکا ہے !بجا فرمایاآپ نے ،بندوں کو توغلام بنایا جاسکتا ہے، ان پر رزق روزی کے دروازے بندکیے جاسکتے ہیں،یہ دوسری بات ہے کہ ہم نادان صرف روپے پیسے کو ہی رزق سمجھ بیٹھے ہیں۔ بندوں کو پابہ زنجیرکیا جاسکتا ہے، قید خانوں میں ٹھونس سکتے ہیں آپ، عقوبت خانوں میں اذیت کا پہاڑ ان پر توڑ سکتے ہیں۔ پنجروں میں بند کرسکتے ہیں، معذور کرسکتے ہیں ،بے دست وپا کرسکتے ہیں، ان کے سامنے ان کے پیاروں راج دلاروں کی توہین کرسکتے ہیں، انہیں گالیاں دے سکتے ہیں،جی جی سب کچھ کرسکتے ہیں۔
صدیوں سے انسان یہ دیکھتا آیا ہے،انکارکرنے والوں کو بھوکے کتوں اور شیروں کے آگے ڈال دیا جاتا تھا۔ اس جگہ جہاں چاروں طرف خلق خدا کا ہجوم ہوتا اور ایک جابر تخت پر براجمان ہوکر یہ سب کچھ دیکھتا اور قہقہے لگاتا اورخلق خدا کو یہ پیغام دیتا کہ انکار مت کرنا،کیا تو پھر یہ دیکھو یہ ہوگا تمہارے ساتھ بھی۔ ہر فرعونِ وقت اپنی تفریح طبع کے لیے یہ اسٹیج سجاتا ہے ،سجاتا رہے گا۔ ایسا اسٹیج جہاں سب کردار اصل ہوتے ہیں، فلم کی طرح اداکار نہیں۔ لال رنگ نہیں، اصل بہتا ہوا تازہ خون، زندہ سلامت انسان کا، رونا چیخنا بھنبھوڑنا کاٹنا سب کچھ اصل․․․․․․․بالکل اصل۔ ہوتا رہا ہے اور ہوتا رہے گا، فرعونیت تو ایک رویے کا نام ہے، ایک بیماری کا نام ہے۔ ایک برادری ہے فرعونوں کی، فرعونوں کی ہی کیا․․․․․․․ہامان کی، شداد کی، قارون کی، ابولہب کی، ابوجہل کی۔ یہ برادری کا نام ہے جس میں کسی بھی وقت کسی بھی مذہب وملت کے لوگ ہوسکتے ہیں۔ بس بچتا وہ ہے جس پر رب کی نظرِکرم ہو۔
سب کچھ قید کیا جاسکتا ہے، سب کچھ لیکن ایک عجیب سی بات ہے، اسے قید نہیں کیا جاسکتا،بالکل بھی نہیں، مشکل کیا ممکن ہی نہیں ہے۔ عجلت نہ دکھائیں، خوشبوکو قید نہیں کرسکتے آپ! اور پھرخوشبو بھی توکوئی ایک رنگ ایک مقام نہیں رکھتی ناں، بدلتے رہتے ہیں اس کے رنگ، خوشبو کے رنگ ہزار․․․․․․․بات کی خوشبو ،جذبات کی خوشبو، ایثار و وفا کی خوشبو․․․․․․․بس اب آپ چلتے رہئے اور ان تمام خوشبووٴں کی رانی ہے عقائد کی خوشبو، دین کی خوشبو، نظریات کی خوشبو۔ یہ خوشبو قید نہیں کی جاسکتی۔ جب بھی دبائیں ابھرتی ہے۔ وہ کیا یاد آگیا: ”جتنے بھی تو کرلے ستم، ہنس ہنس کے سہیں گے ہم“۔ جتنا خون بہتاہے اتنی ہی خوشبوپھیلتی ہے۔ پھر ایک وقت ایسا بھی آتاہے جب درد خود ہی مداوا بن جاتاہے درد کا۔ دیکھئے پھر مجھے یاد آگیا:” رنگ باتیں کریں اور باتوں سے خوشبو آئے، درد پھولوں کی طرح مہکے اگر تو آئے“۔
یہ سب کچھ میں آپ سے اس لیے کہہ رہا ہوں کہ چند دن پہلے ہی ایک خبر آئی ہے۔ آپ نے دیکھی،پڑھی یاسنی ہوگی۔اگرنہیں ،تویہ بتانے کی سعادت شائدمیرے حصے میں آرہی ہے لیکن نہیں ،یہ تواس کاکمال ہے جس نے ہم جیسے بے خبروں کوبتایاہے۔ (نیویارک ۔آن لائن) امریکی آرمی کے ایک اسپیشلسٹ میٹری ہولڈ بروکس گوانتاناموبے کے عقویت خانے میں کلمہٴ شہادت پڑھ کر حلقہ بگوشِ اسلام ہوگئے۔ نوجوان فوجی افسر ہولڈ بروکس نے جن کی ڈیوٹی صرف چھ ماہ تک کیوبا کے عقوبت خانے میں مسلمان قیدیوں کی نگرانی اور بعض اوقات انہیں ایک جگہ سے دوسری جگہ لیجاتے وقت رہنمائی کرنا تھی ،مسلمان قیدیوں کے اخلاق اور عبادات سے متاثر ہوکر اسلام قبول کرلیا۔ ہولڈبروکس نے ایک مختصر سی ای میل میں تسلیم کیا کہ مراکشی اور دیگر مسلمان قیدیوں کے حسنِ اخلاق اور تلاوت ِقرآن پاک جو وہ عقوبت خانے کی سخت ترین جالیوں کے عقب میں کرتے تھے ،کی مانیٹرنگ کرتے ہوئے وہ بے حد متاثرہوئے تھے۔ اورکیا بات باقی رہ گئی جناب۔
دیکھئے! چراغ کو تو پھونک مار کر بجھایا جاسکتا ہے، نور کوکون بجھا سکتا ہے!جی جناب نور کو تو پھونک مارکر نہیں بجھایا جاسکتا۔ اسلام نور ہے، قرآن حکیم نور ہے، روشنی ہی روشنی، صراط مستقیم کھرا سودا․․․․․․․․اسی قرآن کونافذکرنے کیلئے توپاکستان جیسی معجزاتی ریاست عطاہوئی تھی جس نے یہ سکھایاکہ اس ملک کیلئے جان قربان کردیناسب سے بڑااعزازہے اورماں باپ، بیوی بچے اورپوری قوم کے علاوہ رملائکہ بھی استقبال کیلئے جمع ہوجاتے ہیں کہ بندے نے اپنے رب سے وفاداری کاجوحلف اٹھایاتھااس میں یہ کامیاب ہوگیا۔۱۳۵نوجوان پچھلے کئی دنوں سے برف کے پہاڑوں میں دفن ہوگئے ہیں اوریہ کوئی پہلی مرتبہ نہیں ہوا کہ اب تک آٹھ ہزارسے زائد نوجوان ان سردترین وادیوں کارزق بن گئے ہیں کہ انہوں نے یہ حلف اٹھایاتھاکہ اس ملک کی سرحدوں کی ہرحالت میں حفاظت کریں گے۔بابااقبال کیاخوب فرماگئے!
وفاداری بشرط استواری اصل ایماں ہے مرے بت خانے میں کعبے میں گاڑوبرہمن کو
․آپ سن لیجیے پاکستان بھی نور ہے ،آپ نے سنا بھی ہے اور باربار سنا ہے، میرے رب نے اعلان کردیا ہے ،اس کا فرمان ہے: شہدازندہٴ جاوید ہیں۔ اپنے رب سے رزق پاتے ہیں اور قادرِمطلق نے خبردارکیا ہے کہ کبھی مردہ گمان بھی مت کرنا اور اب آپ ذرا دل تھام کر سنئے: جب بدترین تشددکے بعد بھی وہ قیدی اورایسے جاں گسل حالات میں وطن کی حفاظت کرنے والے نوجوان مسکرا رہے ہوں تو وہ کون سی طاقت ہوتی ہے جس سے ان کے پائے استقلال میں ذرہ بھر بھی جنبش نہیں ہوتی ،کیا ایسا تونہیں کہ کوئی شہید اسے تحسین کی نظر سے سے دیکھ رہا ہو․․․․․․․بدری شہیدیاامیدان احدکے شہداء۔ مجھے اجازت دیجیے مالک آپ سب کا نگہبان رہے۔ کچھ بھی تو نہیں رہے گا۔ بس نام رہے گا اللہ کا۔