دھن دولت زروجواہر موٹرکاریں محلات اور اراضی نام و نمود اثر ورسوخ․․․․․․․․․․انہیں دولت کہتے تو ہیں لیکن یہ دولت ہے نہیں۔ یہ سب دولت کی تعریف سمجھ لی گئی ہیں۔ نہیں نہیں یہ دولت ہرگز نہیں،یہ تو بس چند روزہ متاعِ فانی ہیں۔ چھوڑ جانا ہے انہیں، کوئی بھی تو ساتھ لے کر نہیں گیا،لے کر جا بھی نہیں سکتا۔ وہ تھی تو بھکارن ریل گاڑی میں گڑوی بجاکر چند سکوں کی طلب گار․․․․․․․․․اورکیا کہہ رہی تھی۔ واہ بہت زبردست اور اصل بات۔ میرا رب ہر جگہ متوجہ کرتا ہے۔ہم ہی اندھے، بہرے اورگونگے بنے ہوئے ہیں۔ وہ کہہ رہی تھی: اجڑ گیا وہ باغ جس کے لاکھ مالی تھے، سکندر جب گیا دنیا سے دونوں ہاتھ خالی تھے، اورکسی نے یہ بھی تو پتے کی بات کی ہے ناں: کفن میں جیب نہیں ہوتی۔ بس ایسا ہی ہے۔آپ ذرا مردوں کی بستی میں جائیں اور ضرور جایا کریں۔ دیکھیں نادار و زردار ساتھ ساتھ آسودہٴ خاک ہیں۔ تو بس یہ سب متاعِ قلیل دھوکا وفریب ہیں،کچھ اور بھی ہوسکتی ہیں، دولت نہیں۔
مجھ جیسے بے مایہ نے بھی پوچھ پوچھ کر بہت سے خزانے جمع کیے ہیں۔ یہ کیا ہے ،کیسے ہے، کیوں ہے؟ہر وقت کوے کی طرح کائیں کائیں، لیکن وہ سب اعلی ظرف وسیع القلب نہیں تھکے۔ہر درد کی دوا ،ہر زخم کا مرہم ،ہر الجھن کی سلجھن ،ہر سوال کا جواب، صرف جواب نہیں شافی جواب، ان کی گدڑی میں تھا۔ بس منہ سے نکلا اور سامنے لکھا ہوا آگیا۔ ہم سب سوال کرنے سے بہت گھبراتے ہیں۔ شاید اس لیے کہ کوئی جواب دینے والا نہیں یا شاید اس لیے کہ ہم اس خوف میں جی رہے ہیں کہ ہمیں جاہل نہ سمجھ لیا جائے۔جاہل تو وہ ہوتا ہے جو حق کو جانتے بوجھتے رد کردے، اپنی انا کا اسیر ۔ سوال توآدھا علم ہے،یہ فرمایا ہے جناب باب العلم نے۔ تو پھر کیا ہے دولت؟ تو میں نے سنا اور ثبت ہوگیا:
دولت کہتے ہیں اعتمادکو ،ضمیرکو روشن ضمیرکو، اگر تم پر کوئی اعتماد کرے تو سمجھ لو تم سب سے بڑے دولت مند ہو، اگر تمہارا اندر زندہ ہے تو سمجھ لو بہت دھنی ہو تم ، اگر نہیں تو بس قلاش بھکاری محروم راندہٴ درگاہِ عظیم ،دھتکارے ہوئے،بظاہر خوش اندر سے نراش۔ وہ بابے اقبال نے جو کہا ہے: چہرہ روشن اندروں چنگیز سے تاریک تر ۔اعتماد دولت تو ہے لیکن سب سے بڑی آزمائش و امتحان بھی۔ پلِ صراط پرکھڑا ہوا ہر وقت ہر پل ہر لمحہ،بہت رکھوالی کرنی چاہیے اس دولت کی۔ اعتماد کھوگیا تو سمجھو سب کچھ کھوبیٹھے، کچھ نہیں رہا۔ اعتمادکا قتل انسانیت کی موت ہے۔اعتماد کا پھیلاو زندگی کا پھیلاو ہی محبت کا پھیلاو ہے۔اور اس کائنات میں جو کچھ بھی ہے محبت ہی کا تو پھیلاو ہے۔رب محبت ہے۔پھر جب لوگ آپ پر اعتماد کریں تو آپ پر جان نچھاورکرتے ہیں، پھول برساتے ہیں، پتھرکھاتے ہیں، اپنے جسم پر لاٹھیوں کے وار اور سینوں پرگولیوں کے داغ سہتے ہیں، اپنا گرم لہو آپ پر نثارکرتے ہیں، رات رات بھرجاگتے اور خوش آمدید کہتے ہیں۔ چشمِ ما روشن دلِ ماشادکہتے ہیں ،پھولے نہیں سماتے۔روتے ہیں، گاتے ہیں، اپنے رب کے حضور گڑگڑاتے ہیں۔ کسی لالچ اور دھونس میں نہیں آتے۔بس آپ کے ساتھ جینے مرنے کی قسمیں کھاتے ہیں اور پھر اپنے عمل سے ثابت کر دکھاتے ہیں۔
آپ کے ساتھ زیادتی ہوجائے تو اپنی زندگی اجیرن کرلیتے ہیں۔ سینہ پیٹتے ہیں، ماتم کرتے ہوئے سڑکوں پر نکل آتے ہیں۔ اس لیے کہ آپ پر اعتماد کرتے ہیں، آپ کو اپنا مسیحا ہمدرد، غم خوار ، نجات دہندہ، اپنی امید اور سائبان سمجھتے ہیں اور رب کائنات نے آپ کو اگرکسی منصب پر فائزکردیا ہے تو آپ کی ذمہ داریاں اور بڑھ جاتی ہیں اور میرے سوہنے رب نے اگر آپ کو عدل وانصاف کی مسند عطا کردی ہے تو سمجھ لیجیے یہ رب کے خاص انعام میں سے ہے۔ ہر انعام شکر چاہتا ہے اور شکر یہ ہے کہ آپ عدل وانصاف کا علم بلند رکھیں۔ کسی تحریص ولالچ کو اپنے جوتے کی نوک پر رکھیں۔ کسی مفلوک الحال اور زردار میں کوئی فرق نہ رکھیں۔ آپ آقا ومولا سرکار دوعالم کی پیروی کرتے ہوئے آوازہ بلند کریں کہ اگر فاطمہ (ہم سب کے جان ومال آپ پر قربان ہوجائیں)بھی چوری کریں گی تو ان کے دست ِمبارک بھی قلم کردیے جائیں گے۔یہی ہے معیارِ عدل وانصاف۔
جناب چیف جسٹس!آپ نے خلقِ خدا کے سر پر ہاتھ رکھا، انہیں سہارا دیا، عدل وانصاف کا بول بالا کیا اور پھر آپ معتوب ہوگئے۔انصاف کا قتل کردیاگیا۔ آپ کو پابند ِ سلاسل رکھا گیا۔ آپ کے انکار نے نئی تاریخ رقم کردی لیکن مجھے کہنے دیجئے! آپ تو جانتے ہیں اورکون نہیں جانتا چشم فلک نے یہ نظارہ بھی دیکھا کہ دوسال تک خلقِ خدا سڑکوں پر رہی ، ماتم کرتی رہی مارکھاتی رہی ،ظلم جھیلتی رہی لیکن ایک قدم بھی پیچھے نہیں ہٹی۔ مردوزن نوجوان بچے اور بچیاں مذہبی اور لبرل، وکلاو مزدور اورکسان سب کا بس ایک ہی مطالبہ تھا: بحال کرو بحال کرو ہمارے مسیحا کو بحال کرو۔ اور پھرآپ نے دیکھا حق آیا اور باطل چلا گیا۔ اسے تو جانا ہی تھا۔ رب کا فرمان کون جھٹلا سکتا ہے!رب کا حکم ہی چلتا ہے۔آپ پوری شان و شوکت سے اپنی مسند پر تشریف فرما ہوگئے۔خوشیاں ہی خوشیاں مٹھائیاں ہی مٹھائیاں۔
جناب چیف جسٹس!مظلوم عوام نے اپنا عہد ایفا کردکھایا۔ ہر جبر سہہ کر، پتھرلاٹھی کھاکر، جاگ کر، کاروبار چھوڑکر اپنا چین وسکون آپ پرنچھاورکردیا۔ ایسا تو پوری تاریخ میں نہیں ہوا تھا جو ان مظلوموں نے کردکھایا۔ جناب چیف جسٹس!مبارک ہو آپ پھر سے آئے اورشان و شوکت سے آئے۔لیکن ٹھہرئے،ذرا سا رکئے!۔آپ ایک بہت بڑی آزمائش میں آگئے۔کس پل صراط پر آگئے آپ!یہ مظلومین کی روتی آنکھیں ،ستے ہوئے چہرے آپ کی جانب دیکھ رہے ہیں۔ میں تفصیل میں نہیں جانا چاہتا۔ آپ تو سب جانتے ہیں۔ کتنی امید کتنی آس سے آپ کو دیکھ رہے ہیں ہم سب۔ مظلومین نے اپنا وعدہ نبھادیا، اب آپ کی باری ہے اور ہم سب انصاف نہیں انصاف ہوتا ہوا دیکھنا چاہتے ہیں۔انصاف میں تاخیرتوانصاف کاقتل ہے۔ میرا مالک آپ کا مددگار رہی حامی وناصر رہے۔اور آپ کو سربلند و سرخرو فرمائے، آپ سے راضی ہوجائے اور آپ تو جانتے ہیں مخلوق راضی رہے تو رب راضی رہتا ہے۔
اسی لیے تو کہتے ہیں: زبانِ خلق کو نقارہ ٴخدا سمجھو۔ یہ ارشاد یاد رہے: جس شخص کو لوگوں کے بیچ قاضی بنایا گیا گویا اسے بغیر چھری کے ذبح کردیا گیا۔ جناب چیف جسٹس! آپ سے
زیادہ اسے اورکون سمجھ سکتا ہے۔اب توبرملااس ملک کاصدراوراس کانوآموزسیاستدان بیٹاہزاروں کے مجمع میں عدالتوں کایہ کہہ کرمذاق اڑارہے ہیں کہ ہم ججوں کافیصلہ نہیں مانتے بلکہ انہوں نے توآپ کے ادارے سے باقاعدہ معافی مانگنے کامطالبہ کیاہے۔ اس سے پہلے بھی ان کارویہ عدالتوں کے ساتھ قوم کے سامنے ہے۔کیااس پرکوئی سومونوٹس نہیںآ ئے گاکہ ملک کے سب سے بڑے عہدیدارنے ملک کے سب سے بڑے ادارے کوبے توقیرکردیاہے؟کچھ بھی تو نہیں رہے گا بس نام رہے گا اللہ کا۔
ملتی ہے غموں سے بھی بصیرت زخموں کا شمار یاد رکھنا عبرت کا مقام ہے یہ دنیا ویران دیار، یاد رکھنا