Home / Socio-political / ہندستان پاکستان کے لیے پسندیدہ ملک

ہندستان پاکستان کے لیے پسندیدہ ملک

ڈاکٹر خواجہ اکرام

برسوں بعد پاکستان کی جانب سے مثبت قدم اٹھا یا گیا  اور ہندستان کو پاکستان کے لیے  پسندید ہ ملک کی فہرست میں شمال کیاگیا ۔جبکہ ہندستان نے پاکستان کوتجارت کے لیے  پسندیدہ ملک کا درجہ سال قبل ہی دے دیا تھا اور اب  کافی غور فکر کے بعد پاکستان نے ہندستان کو یہ درجہ دیا ہے ۔درا صل اس  سلسلے میں پاکستان کی کچھ سیاسی جماعتوں اور مذہبی اور شدت پسندوں کو اس پر اعتراض تھا کہ ہندستان کو اگر یہ درجہ دے دیا گیا تو پاکستان کی پالیسیوں کے منافی ہوگا اور کشمیر کاز کو نقصان پہنچے گا ۔اسی وجہ سے کسی حکومت نے یہ فیصلہ لینے کا جوکھم نہیں اٹھایا ، کیونکہ انھیں معلوم تھا کہ اس طرح کے فیصلے سے خود پاکستان کے اندر احتجاج پیدا ہوگا اور شدت پسندوں کی جانب سے سخت تنقید کا سامنا کرنا پڑے گا اسی لیے اکثر حکومتوں نے اس معاملے کو سرد  خانے میں رکھ دیا تھا ۔ آج بھی یہی حالات ہیں ، اعتراض کرنے والے آج بھی موجود ہیں اور شدت پسندوں کی جانب سے اعتراضات آج بھی ہورہے ہیں ۔ خاص طور حافظ سعید نے اس سلسلے میں حکومت کے اس فیصلے کی سخت  مخالفت کی ہے اور حکومت پر الزام لگایا ہے کہ اس سے کشمیر کاز کو سخت نقصان پہنچے گا۔ علاوہ ازیں اور کئی حلقوں کی جانب سے بھی اعتراضات ہوئے ہیں ۔ لیکن حکومت نے آج کے دور کے حالات کو دیکھتے ہوئے یہ فیصلہ لیا جو واقعی قابل مبارک باد ہے کیونکہ اس طرح کے اقدامات سے دونوں ملکوں کو فائدہ ہوگا اور آپسی روابط بھی بڑھیں گے ۔ میں نے کچھ دنوں پہلے ہی ایک ٕ مضمون میں اس خیال کا اظہار کیا تھا کہ اقتصادی روابط ہی دونوں ملکوں کو آپس میں جور سکتے ہیں ، سو پاکستان نے اس سمت میں ایک قدم آگے بڑھا کر ایک نہایت ہی مثبت پیغام دیا ہے ۔ یقینا اس کے بعد دنوں ممالک کی دوریاں سمٹتی جائیں گی اور خوشگوار ماحول پید اہوگا ۔ اقتصادی  تصوارت نے  موجودہ عہد کی  تصویر ہی  بدل کر رکھ دی ہے۔تمام حوالوں کے لیے اقتصادی   عنصر ہی اہم ہے۔اسی لیے جس کا اقتصاد سب سے مضبوط ہوگا دنیا میں اس کے اثرات سب سے زیادہ مرتب ہوں گے ۔ اسی لیے موجودہ عہد میں کئی ممالک اقتصادی ترقی کے لیے ایک دوسرے سے قریب آرہے ہیں ۔اقتصاد کی اس ہوڑ میں  خطے کے اعتبار سے بھی  کئی ممالک  اپنے روابط استوار کر رہے ہیں ۔ اگر ہند وپاک کے مابین اختلافات کم ہوجائیں  تو دنوں ملکوں میں یونہی اقتصادی خوشحالی آسکتی ہے ۔کیونکہ سرحد کی حفاظت کے نام پر دونوں ملکوں میں جو خطیر سرمایہ ضائع ہورہا ہے وہ ملک کی فلاح و بہبود میں استعمال ہوسکتا ہے۔ایک قدم اور آگے بڑھ کر دونوں ملکوں کے درمیان اقتصادی روابط بحال ہوجائیں تو خوشحالی دروازے کھل سکتے ہیں کیونکہ کئی مصنوعات ایسی ہیں جو پاکستان  میں اور کئی مصنوعات ایسی ہیں جو ہندستان میں ہیں اور دونوں کو اس کی ضرورت ہے ۔دوسرے ممالک سے درآمدات اور بر آمدات کے بجائے اگر یہ ہند و پاک سے ہونے لگے تو اس کی قیمت بھی کم آئے گی اور آسانی سے دستیاب بھی ہوجائیں گی ۔ مگر اب تک دشمنی کے نام پر اقتصاد کے یہ دروازے دونوں جانب سے بند ہیں ۔اگر یہ دروزے کھل جائیں تو دونوں ملکوں کا اعتماد بحال ہوگا اور عوام بھی خوشحال ہوگی۔اور جنوبی ایشیا میں یہ نئی طاقت بن کر ابھر سکتے ہیں ۔اور ان کے اثر ورسوخ کا عالم بھی کچھ اور ہوگا۔لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ ایسے روابط بحال نہ ہوں اس کے لیے کئی طاقتیں بھی کام کر رہی ہیں۔ ان سے بھی ہشیار اور کنارہ کش ہونا پڑے گا تبھی یہ ممکن ہے۔اس ضرورت کو سمجھتے ہوئے پاکستان نے یہ قدم اٹھایا ۔ اس اقدام کے لیے میں پاکستان کو مبارک باد دیتا ہوں اور یہ عرےضہ بھی پیش کرنا چاہتا ہوں کہ اب اس کے بعد کے اقدام بھی جلد ہی کیے جائیں تاکہ دونوں طرف کے باسیوںکو کچھ تو سکون مل سکے۔حالانکہ پاکستان نے ہندستان کو موسٹ فیورڈ نیشن کا درجہ دینے میں سولہ برس لگادئے ۔

ہندستان نے پاکستان کے فیصلے کا خیر مقدم کرتے ہوئے کہا کہ اس سے دونوں ملک اور بھی نزدیک آئیں گے اور امریکہ کا کہنا ہے کہ پاکستان کی جانب سے ہندستان  کو پسندیدہ ملک قرار دینااہم پیشرفت ہے،واشنگٹن میں پریس بریفنگ کے دوران امریکی محکمہ خارجہ کی ترجمان وکٹوریہ نولینڈ کا کہناتھاکہ پاکستان کے اس اقدام سے دونوں ممالک میں معاشی مواقع پیدا ہوں گے،ترجمان کا کہناتھاکہ یہ پیش رفت جنوب اور وسطی ایشیائی ممالک کے معاشی ترقی کے لیے ایک مثال ہے۔ ان کا کہناتھاکہ ہم دونوں ممالک کے درمیان تجارتی تعلقات کو بحال دیکھنا چاہتے ہیں۔اس سے ہر شخص خوشحال ہوگا۔وکٹوریہ نولینڈ کا کہناتھاکہ دونوں ملکوں نے تعلقات بحال کرنے کے لیے اہم قدم اٹھایا ہے، جس کی ہم تعریف کرتے ہیں۔ ہندستان  نے پاکستان کو ایم ایف این کا درجہ انیس سو چھیانوے میں دیا تھا لیکن پاکستانی اسٹیبلشمنٹ دو بڑے معاملات یعنی کشمیر اور مقامی صعنتوں کے تحفظ کو وجوہات بنا کر اس سے گریزاں رہی ہے۔رپورٹ کے مطابق اس کے باوجود تقریباً دو ہزار اشیاء کی ایک ایسی حکومتی منظور شدہ ’پازیٹو’ فہرست موجود ہے جس میں شامل اشیاء کو باضابطہ طور پر ہندستان  سے درآمد کیا جا سکتا تھا۔ اس فہرست میں انیس سو چھیانوے میں محض چند سو اشیاء شامل تھیں۔اعدادوشمار کے مطابق گزشتہ برس پاکستان نے ہندستان  کو دو سو ستاون ملین جبکہ ہندستان  نے پاکستان کو ایک ہزار پانچ سو ساٹھ ملین ڈالر کی اشیاء بھیجیں۔سوال یہ ہے کہ اس کا کوئی فائدہ ہوگا یا یہ محض ایک بین الاقوامی ضرورت تھی جو پاکستان نے پوری کر دی ہے؟عالمی سطح پر پاکستان چونکہ ڈبلیو ٹی او کا رکن ہے لہذا اس معاہدے کے تحت ممالک اس بات کے پابند ہیں کہ ان کے درمیان تجارت کو سہل بنایا جائے اور ٹیکس اور ڈیوٹیاں نہ صرف کم کی جائیں بلکہ تمام ممالک کے لیے برابر رکھی جائیں۔ تاہم اکثر ممالک ایم ایف این کا درجہ دینے کے باوجود اپنی مقامی صعنتوں کو بچانے کی خاطر ٹیکسوں میں تو کمی کر دیتے ہیں لیکن ایسے ’نان ٹیرف بیرئر‘ کھڑے کر دیتے ہیں کہ تاجروں کو پھر بھی مشکلات کا سامنا رہتا ہے۔ایسا محسوس ہوتا ہے کہ تقریباً سولہ سال تک ہندستان  کو یہ درجہ دینے سے انکار سے پاکستان نے دیکھ لیا ہے کہ اسے سفارتی میدان میں کوئی خاص فائدہ نہیں ہوا۔ نہ تو کشمیر حل ہو سکا اور نہ دہشتگردی پر کوئی قابو پایا جا سکا لہذا بہتر یہ ہے کہ اب اقتصادی فائدہ اٹھایا جائے لیکن اس حکومتی فیصلے پر مذہبی جماعتوں اور انتہا پسند شدید ناراض ہو سکتے ہیں۔اس وقت پاکستان اور ہندستان  کی باہمی تجارت کا حجم تقریباً پونے تین ارب ڈالر ہے اور دونوں ممالک نے گزشتہ ماہ ہی اسے آئندہ تین برس میں چھ ارب ڈالر تک پہنچانے کی کوشش کرنے پر اتفاق کیا ہے۔انہوں نے بتایا کہ ہندستان  کو تجارت کے انتہائی پسندیدہ ملک قرار دینے کے حوالے سے کابینہ کے کچھ اراکین نے اپنے تحفظات کا اظہار کیا جس میں مسئلہِ کشمیر، دفاع اور سٹرٹیجک تعلقات شامل ہیں۔

پاکستان کی موجودہ حکومت کو اس کاعلم ہے کہ اس فیصلے سے پاکستان میں  موجود چند شدت پسند ہناگمہ کر سکتے ہیں اور دہشت گردانہ کاروائی کا شکار بنا سکتے ہیں ساتھ ہی فوج میں بھی اس حوالے سے تحفظات موجود ہیں ۔ اسی لیے اس نزاکت کو سمجھتے ہوئے پاکستان کی وزارت خارجہ نے ہندستان  کو پسندیدہ ملک کی حیثیت دینے کے معاملے پر عسکری قیادت کو بریفنگ دیتے ہوئے بتایا کہ اس اقدام سے پاکستان کے مفادات پر کوئی اثرپڑے گااور نہ ہی کشمیرکاز کوئی نقصان پہنچے گا۔ذرائع کے مطابق عسکری قیادت نے ہندستان  کو پسندیدہ ملک قراردینے کے معاملے پر اپنے بعض تحفظات کا اظہار کیا تاہم اجلاس کے دوران عسکری قیادت کو یقین دلایاگیا ہندستان  سے تعلقات کیلئے قومی مفاد پر کوئی سمجھوتہ نہیں کیا جائیگا اور کشمیر پر دیرینہ موقف برقراررہے گا ۔ذرائع کے مطابق وزارت خارجہ کے حکام نے بتایا کہ پاکستان کشمیریوں کی تحریک آزادی کی اخلاقی وسفارتی حمایت جاری رکھے گا اور تمام عالمی فورمز پر موثر سفارتکاری کے ذریعے دباؤ ڈالا جائیگا کہ وہ مقبوضہ کشمیر میں مظالم کا سلسلہ بند اور کشمیریوں کو حق خود ارادیت دے ۔ ذرائع کے مطابق وزارت خارجہ کے حکام نے یہ بھی یقین دلایا کہ ہندستان  کو پسندیدہ ملک قراردینے کے معاملے پر کشمیری قیادت سمیت مذہبی جماعتوں کے تمام ترتحفظات دور کئے جائیں گے اور اس سلسلے میں ہرکسی کی رائے کو اہمیت دی جائے گی ۔پاکستانی وزارت خارجہ کے حکام نےیہ بھی کہا کہ  ممبئی حملوں کے بعد ہندستان  کیساتھ بحال ہونیوالے بات چیت کے عمل میں اب تک ہونیوالی پیشرفت سے شرکاء کو آگاہ کیا اور مذاکراتی عمل کے اب تک کے نتائج پر اطمینان کا اظہار کیا گیا ۔ ترجمان دفترخارجہ تہمینہ جنجوعہ نے اجلاس کے حوالے سے میڈیا کو بتایا کہ وزیرخارجہ حناربانی کھر ملک کی خارجہ پالیسی پر متعلقہ فریقین سے مشاورت کرتی رہی ہیں اور اس میں پاک ہندستان  تعلقات بھی زیرغورآتے ہیں ۔ وزیراعظم کے مشیربرائے ٹیکسٹائل مرزااختیار بیگ نے دعویٰ کیا ہے کہ ہندستان  کو پسندیدہ ملک کی حیثیت دینے کے فیصلے کو بزنس کمیونٹی اور تمام تاجرتنظیموں کی مکمل حمایت حاصل ہے ۔ یہ بالک درست ہے  کہ اس فیصلے سے دونوں جانب کی  تاجر کمیونٹی کو خوشی ہوئی اور عوام کو بھی خوشی ہوئی کیونکہ پاکستان کی عوام بھی ہندستان کی بہت سی مصنوعات کو پسند کرتی ہے اور اسے حاصل کرنے  کے لیے اپنے احباب سے رابطہ قائم کرتے ہیں ، ہندستان میں  بھی پاکستان کی بہت سی  مصنوعات کو پسند کیا جاتا ہے اور  یہاں کے لوگوں کا بھی حال یہی ہے کہ جب کوئی پاکستان سے ہندستان آتا ہے تو وہاں کی مصنوعات لانے کی گزارش کی جاتی ہے ۔ اس پسندیدگی کا حال یہ ہے کہ ہندستان اور پاکستا ن کی مصنوعات کو دبئی کے راستے دنوں جگہ پہنچایا جا تارہا ہے۔اب اس فیصلے سے کم از کم اب یہ تیڑھے میڑھے راستے نہیں اپنائیں جائیں گے بلکہ براہ راست مصنوعات کے ساتھ ساتھ روابط بھی بہتر ہوں گے اور دونوں ملک قریب بھی آئیں گے۔

About admin

Check Also

یہ دن دورنہیں

امریکہ نے پاکستان کی سرزمین پر پہلاڈرون حملہ ۱۸جون ۲۰۰۴ء کوکیا۔ یہ حملے قصر سفیدکے …

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *