Home / Socio-political / ہندوپاک میں یوم آزادی کی تقریب

ہندوپاک میں یوم آزادی کی تقریب

 

          14 اگست کو پاکستان میں اور  15اگست کو ہندستان میں یوم آزادی کی تقریب  کو مناتے ہوئے 63 سال ہوگئے ۔ مگر ا  ب تک ان دونوں ممالک میں رسمی تقریب   کی ادائیگی میں  کوئی فرق نہیں آیا ہے۔البتہ فرق قومیت  کے جذبے کی شدت میں آیا ہے۔ برصغیر کی غیر فطری تقسیم کے وقت بہت سے مفکرین کا یہ ماننا تھا کہ بہت جلد ان  دو ممالک کے درمیان  ایک فطری ہم آہنگی  پید اہوگی ۔مگر حالات  کا رخ اس سمت کو نہیں  ہو ا جس سمت سے یہ راستہ وا ہوتا تھا ۔ اس کے بر عکس کسی اور سمت میں ہوائیں چلنے لگیں اور دونوں ممالک کے مابین دوریاں  بڑھتی گئیں۔ آپس کی تلخیاں اور رنجشیں دشمنی میں بدلنی شروع ہوئیں۔ اس کے لیے عوا م نے کبھی کوئی پہل نہیں کی اورنہ ہی اس کو اچھا  سمجھا مگر نہ چاہتے ہوئےبھی فضا کو مکدر کرنے اور حالات کو ناسازگار بنانے میں کوئی ایسی طاقت ضرور تھی جس نے عوامی سطح پر نفرت کے جذبات کو فروغ دیا ۔ حالانکہ نفرت  اور عداوت کی اس طویل مدت کے بعد بھی  عوام میں آج بھی حسرت اور تمنا ہے کہ دونوں ملک  مل جائیں ۔ مگر ایسا نہیں ہو پا رہا ہے اس کی کیا وجوہات  ہوسکتی ہیں ، اس سلسلے میں یہی مناسب وقت ہے کہ دونوں ممالک کے عوام محاسبہ کریں کہ کیا ممکن ہے محبت کی فضا قائم کرنے میں کوئی مثبت پہل کی جائے۔  اس سوال کے جواب میں ہر گوشے سے ایک ہی آواز آئے گی کہ عوامی سطح  پر تو ممکن ہے مگر حکومتی سطح پر ناممکن ہے کیونکہ اسٹیبلشمنٹ کی  روزی روٹی اسی سےچلتی ہے۔ اور سیاسی لوگوں کی بقا اسی میں ہے کہ وہ اس دشمنیوں کا زندہ رکھیں ۔اسی لیے آج تک کی ریاستی پلیٹ فارم سے ایسی کوئی آواز نہیں اٹھائی گئی جس میں دونوں جانب کے عوام کے دھڑکتے ہوئے دلوں کی آواز شامل ہو۔ خیر یہ تو نہیں ہوا۔ اور ابھی شاید اس جانب بہت مضبوطی سے سوچا بھی نہیں گیاہے ۔ لیکن یہ کوئی بعید اور  ناممکنات میں سے نہیں ۔ آج نہیں تو کل کوئی آواز اس سمت میں اٹھے گی اور اس لیے پہل کرے گی کہ گذشتہ 63 سال میں صرف دیکھاوے کے لیے اور محض قیاسی خوف کے سبب جس قدر پیسے ضائع ہوئے ہیں ۔ اتنا اگر  دونوں ملکوں  پر خرچ گیا ہوتا تو  ہندو پاک میں کوئی غریب نہیں ہوتا اور ایشیا میں یہ دونوں ممالک سب سے زیادہ طاقتور ہوتے ۔مگر ایسا ہوا نہیں ۔ لیکن ایک دن ایسا ضرور ہوگا کیونکہ یہ وقت کا تقاضہ ہے۔

          قدرتی اعتبار سے ان دونوں ممالک کے پاس اتنا کچھ ہے اور جغرافیائی اعتبار سے بھی یہ ممالک اتنے مالا مال اور اسٹریٹیجک جگہ  پہ ہیں کہ ان کو کسی اور کی مدد کی ضرورت بھی نہیں ۔ لیکن  جغرافیائی اعتبار سے انھیں کئی مشکلوں کا بھی سامناہے ۔ لیکن ان کا مقابلہ کیا جاسکتا ہے ،شرط ہے کہ وہ آپس میٕں  ایک دوسرے کو خلوص سے سمجھیں۔13اور 14 اگست 1947 کی درمیانی رات کو 27ویں رمضان المبارک کے موقع پر اسلام کے نام پر حاصل کیا جانے والا یہ ملک بے پناہ قربانیوں کے بعد معرض وجود میں آیا تھا لیکن بدقسمتی سے وطن عزیز میں زیادہ عرصے فوجی حکومتوں کی شکل میں آمریت غالب رہی اور جب سیاستدانوں کو موقع ملا انہوں نے اپنے مفادات ،کوتاہ اندیشی اور کسی بھی سمت کا تعین نہ ہونے کے باعث ووٹ دینے والے عوام کو مایوس کیا۔اس لیے عوام کبھی منتخب حکومتوں سے خوش ہوئی اور نہ فوجی حکومتوں سے خوش رہی ۔ اور اب تو حال  یہ ہے کہ  لوگ  کسی سے بھی خوش نہیں ۔اس کی تازہ مثال یہ ہے کہ آج 63 ویں یوم آزادی کے موقع پر وطن عزیز گزشتہ برسوں کی نسبت زیادہ مشکلات میں گھرا ہوا ہے اور عوام جیسے مہنگائی اور غربت کی چکی میں پسے ہوئے ہیں۔معیشت کی حالت نہایت دگر گوں ہے اور رہی سہی کسر سیلاب کی تباہ کاری نے پوری کر دی ہے جس نے پورے ملک میں تباہی کی صورت حال پیدا کر دی ہے اور عوام کی ایک بڑی تعداد بے یارومددگار کھلے آسمانوں کے نیچے ہے۔ان حالات میں 2010 کا یوم آزادی نہایت سادگی اور اللہ کے حضور انفرادی اور اجتماعی گناہوں سے معافی کے ساتھ منایا جارہا ہے۔ پاکستان کی افواج نے تین روز پہلے ہی 14،اگست اور 6 ستمبر کی تقریبات نہ منانے کا فیصلہ کیا تھا تا ہم حکومت نے ہمیشہ کی طرح یوم آزادی شروع ہونے سے پہلے یہ اعلان کیا ہے کہ ”ملک میں سیلاب سے آنیوالے تباہی کے پیش نظر یوم آزادی پر ہونے والی تمام سرکاری تقریبات منسوخ کر دی گئی ہیں۔پاکستان کے تقریباً دس فی صد کے لگ بھگ شہری ملکی تاریخ کے ان بدترین سیلابوں کی مشکلات کا شکار ہیں لیکن جو لوگ متاثر نہیں ہیں وہ ان بھوکے پیاسے بےسر و سامان مصیبت زدہ لوگوں کی مدد کے لیے اس طرح سامنے نہیں آ رہے جس کی ان سے توقع کا جاتی تھی۔پانچ سال پہلے کشمیر اور سرحد کے بعض حصوں میں زلزلے آنے سے والی تباہی کے متاثرین کی تعداد تیس لاکھ تھی اس کے مقابلے میں حالیہ سیلاب متاثرین کی تعداد ڈیڑھ کروڑ سے بڑھ چکی ہے لیکن پانچ برس پہلے متاثرین کے لیےامداد اور ہمدردی کے جوجذبات پورے پاکستان میں دیکھنے کو ملے تھے اب ان کی ہلکی سے جھلک بھی نظر نہیں آ رہی۔پاکستان کے وزیرِِاعظم سید یوسف رضا گیلانی نے سینچر کو پاکستان کے یومِ آزادی کے موقع پر خطاب کرتے ہوئے کہا کہ سیلاب سے دو کروڑ افراد متاثر ہوئے ہیں، تیرہ سو چوراسی ہلاک اور سات لاکھ گھر تباہ ہوئے ہیں۔انہوں نے عوام سے اپیل کی ہے کہ وہ سیلاب سے متاثرہ افراد کی دوبارہ آباد کاری میں حکومت کا بھرپور ساتھ دیں۔وزیرِاعظم نے کہا کہ حکومت وسیع پیمانے پر آنے والی تباہی کا اکیلے مقابلہ نہیں کر سکتی اور اِس کے لیے عوام کو حکومت کا بھر پور ساتھ دینا ہو گا۔بات یقینی  ہے کہ اس سے پہلےکبھی بھی پاکستان نے ایسی سیلاب سے تباہی نہیں دیکھی تھی ۔ اس لیے حکومت  نے جو بھی فیصلے لیے ہیں وہ درست ہیں ۔

                   اسی طرح ہندستان میں بھی اب آزادی کی تقریب  کو لے کر عوامی سطح پر  بہت جوش وخروش نہیں دیکھا جاتا ۔ کیونکہ 15 اگست آتےہی ہر طرف پولیس اور فوج کی گشت بڑھ جاتی ہے اور سیکیورٹی کے نام  عوام کو پریشان ہونا پڑتا ہے ۔ ایک طرف عوام کی پریشانی ہے تو دوسری  جانب اس ایک  دن کی تقریب کے لیے ملک میں اتنے پیسے سیکیورٹی پر ضائع  ہوتے ہیں کہ اس ایک دن کے خرچ سے کئی بڑے شہر بسائے جاسکتے ہیں۔ کاش وہ دن بھی آئے کہ دونوں میں آزادی کی یہ تقریب  لوگ کسی خوف کے بغیر  اور کسی ملک سے در اندازی کے خطرے کے بغیر منائیں او ر کہیں کسی جگہ بھی بے خوف و خطر آ جاسکیں ۔ اگر آزادی کی تقریب  میں صرف  وہم کی بنیاد پر قوم کا اتنا بڑا سرمایہ خرچ  ہوتا ہے تو ایسے تقریب سے بہتر ہے کہ سادگی سے اس طرح کی تقریبات منانے کی کوئی اور ترکیب نکالیں۔

 

 

About admin

Check Also

یہ دن دورنہیں

امریکہ نے پاکستان کی سرزمین پر پہلاڈرون حملہ ۱۸جون ۲۰۰۴ء کوکیا۔ یہ حملے قصر سفیدکے …

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *